بدتمیز کون اور کیوں
اُس کے بدتمیز ہونے اور آپ کے مہذب ہونے کی وجہ بالکل ایک ہے اور وہ یہ کہ آپ نے کسی ماحول میں پرورش پائی۔
LONDON:
''دے رہا ہوں، کیا گاڑی نکل رہی ہے،'' یہ جملہ تھا ایک متوسط طبقے کے ہوٹل کے بیرے کا، جب گاہک نے آرڈر دینے کے بیس منٹ بعد کھانے کا پوچھا۔ گاہک بے چارہ اِس بن بلائی، بےعزتی پر دنگ رہ گیا۔ اُس نے آرڈر کے مطابق پیسے ٹیبل پر رکھے اور بغیر کھائے وہاں سے چلا گیا۔ ہوٹل کے مالک اور بیرے نے مل کر بعد میں خوب قہقہےلگائے کہ ایسے مزید بے وقوف پیدا ہوجائیں تو بزنس خوب چلے گا۔ کچھ لوگ زیرِ لب مسکرادیئے تو کچھ نے اخلاقی مفلسی کے اِس جرم کو بھی پاکستان کے کھاتے میں ڈال کر تسلی پائی۔
مگر ایک عبداللہ جسے ہر ایسے واقعے پر سوچنے کی بیماری تھی اُس کے ذہن پر یہ واقعہ بھی چپک گیا۔ کچھ لوگوں کے دل و دماغ میں سوال نہیں اُٹھتے، اُن کی سوچ کی زمین بنجر ہوچکی ہوتی ہے۔ ظلم اور جہالت سفیدے کی وہ بوری ہے جو زرخیز سے زرخیز زمین کو بھی بنجر بنادیتی ہیں، تو کچھ لوگوں کی حساسیت اور گداز دل اِس زمین کو وہ کھاد پہنچاتا ہے کہ سوالوں کی فصل پر فصل پکتی چلی جاتی ہے۔
عبداللہ کا بھی یہی حال تھا۔ وہ سوچنے لگا کہ کسی کام کو اُس کے منصب کے مطابق احسن طریقے سے انجام دینے کو تمیز کہتے ہیں، مثلاً اگر ہم کہیں کہ فلاں شخص کو کھانے یا بات کرنے تک کی تمیز نہیں تو اِس کا مطلب ہوگا کہ وہ شخص مذکورہ کام کرنے کے طریقے اور منصب و مراتب سے واقف نہیں، ایسے لوگوں کو تھوڑی سی تربیت اور علم سے سکھایا جاسکتا ہے۔
مگر افسوس تو اِس بات کا ہے کہ عموماً بدتمیز وہ شخص ہوتا ہے جسے کام کا صحیح طریقہ معلوم ہوتا ہے لیکن وہ اپنے غصے، اپنی انا، ہٹ دھرمی یا جذبہ انتقام سے مغلوب ہوکر اُس کے بالکل برعکس عمل کرتا ہے۔ ایسا کرنے میں وہ سامنے والے کا دل دکھاتا ہے جوکہ خود بڑا گناہ ہے۔ اپنی نیکیاں اُس کے نام کرتا ہے جو سراسر بے وقوفی ہے اور دنیا کا بھی نقصان کرتا ہے کہ بدتمیز آدمی سے کوئی شخص تعلق رکھنا یا لین دین نہیں چاہتا۔ یہاں تک تو ہم سب کو پتہ ہے مگر نجانے کس نحوست نے گھیر رکھا ہے کہ ہمارا علم ہمارے عمل میں نہیں بدلتا۔ کیا فائدہ ایسے علم کا جس کی جھلک اعمال میں نہ آجائے۔
بدتمیزی کا ایک پہلو اور بھی ہے جس پر سوچنا چاہیئے، وہ یہ کہ آپ بدتمیز آدمی کی بدتمیزی کا جواب کیسے دیں گے؟ اگر آپ نے بھی جواب میں بدتمیزی کی تو اُس میں اور آپ میں فرق کیا بچا؟
ذرا غور کریں اُس کے بدتمیز ہونے اور آپ کے مہذب ہونے کی وجہ بالکل ایک ہے اور وہ یہ کہ آپ نے کسی ماحول میں پرورش پائی۔ ہر اُس لمحہ جب آپ کے پاس کوئی بڑا، استاد یا تربیت کرنے والا موجود تھا اُس کو میسر نہیں تھا۔ ہر وہ جملہ یا نقطہ جو آپ پڑھ پائے اسے نصیب نہ ہوا۔ ہر وہ سہولت، دولت، اثر و رسوخ، علم، قابلیت، حافظہ، توفیق، نیکی صحیح راستہ اور درست انتخاب جو آپ کی زندگی میں ہوتا چلاگیا اُسے نہیں ملا۔ گنتے جائیں کتنی نعمتیں گنیں گے گزشتہ زندگی میں؟
والدین، دوست احباب، ماحول، بجائے اِس کے کہ آپ اُن تمام چیزوں کا شُکر ادا کریں اُس بدتمیز شخص کے حال پر رحم کھائیں اور اُسے دعا دیں، لیکن جواب میں اگر آپ نے ویسی ہی بدتمیزی کی تو پھر آپ نے کوئی فرق باقی نہ رکھا۔
خدا کے لئے کیا مشکل تھا کہ وہ آپ کے حالات اُس کے حالات سے بدل دیتا یا اب بھی آپ کو دی جانے والی تمام نعمتیں اُسے دے دے۔ اگر ہر شخص ہی کانٹے بچھائے گا تو چلنے کی جگہ کہاں بچے گی؟ مزید یہ کہ ہمیں پتہ بھی نہیں ہوتا کہ سامنے والا کن حالات سے گزر رہا ہے، تھوڑا بہت تو لحاظ کرنا ہی چاہیئے۔ ابھی حال ہی میں ایک شخص ملا جو پہلے کسی دکان پر اور پھر کسی شاپنگ مال میں رات کو گارڈ کی ڈیوٹی انجام دیتا ہے، کہنے لگا 19 سال ہوگئے رات کو نہیں سویا۔ اب بتائیں کتنی نعمتوں کو تو ہم گنتے ہی نہیں ہیں؟
مولانا رومؒ کہتے تھے کہ زندگی بھر چراغ لے کر دو آدمی ڈھونڈے مگر نہ ملے، ایک وہ جس نے ظلم کیا ہو اور اللہ کی پکڑ سے بچ گیا ہو دوسرا وہ جس نے اللہ کی راہ میں خرچ کیا ہو اور فقیر ہوگیا ہو۔
آپ کی یہ تمام تر تمیز، آداب، شائستگی بھی اُسی کی دی ہوئی ہے، اُس کا شکر یہی ہے کہ لوگوں کی بدتمیزی برداشت کی جائے، اِس سے حلم میں اضافہ ہوگا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے
''دے رہا ہوں، کیا گاڑی نکل رہی ہے،'' یہ جملہ تھا ایک متوسط طبقے کے ہوٹل کے بیرے کا، جب گاہک نے آرڈر دینے کے بیس منٹ بعد کھانے کا پوچھا۔ گاہک بے چارہ اِس بن بلائی، بےعزتی پر دنگ رہ گیا۔ اُس نے آرڈر کے مطابق پیسے ٹیبل پر رکھے اور بغیر کھائے وہاں سے چلا گیا۔ ہوٹل کے مالک اور بیرے نے مل کر بعد میں خوب قہقہےلگائے کہ ایسے مزید بے وقوف پیدا ہوجائیں تو بزنس خوب چلے گا۔ کچھ لوگ زیرِ لب مسکرادیئے تو کچھ نے اخلاقی مفلسی کے اِس جرم کو بھی پاکستان کے کھاتے میں ڈال کر تسلی پائی۔
مگر ایک عبداللہ جسے ہر ایسے واقعے پر سوچنے کی بیماری تھی اُس کے ذہن پر یہ واقعہ بھی چپک گیا۔ کچھ لوگوں کے دل و دماغ میں سوال نہیں اُٹھتے، اُن کی سوچ کی زمین بنجر ہوچکی ہوتی ہے۔ ظلم اور جہالت سفیدے کی وہ بوری ہے جو زرخیز سے زرخیز زمین کو بھی بنجر بنادیتی ہیں، تو کچھ لوگوں کی حساسیت اور گداز دل اِس زمین کو وہ کھاد پہنچاتا ہے کہ سوالوں کی فصل پر فصل پکتی چلی جاتی ہے۔
عبداللہ کا بھی یہی حال تھا۔ وہ سوچنے لگا کہ کسی کام کو اُس کے منصب کے مطابق احسن طریقے سے انجام دینے کو تمیز کہتے ہیں، مثلاً اگر ہم کہیں کہ فلاں شخص کو کھانے یا بات کرنے تک کی تمیز نہیں تو اِس کا مطلب ہوگا کہ وہ شخص مذکورہ کام کرنے کے طریقے اور منصب و مراتب سے واقف نہیں، ایسے لوگوں کو تھوڑی سی تربیت اور علم سے سکھایا جاسکتا ہے۔
مگر افسوس تو اِس بات کا ہے کہ عموماً بدتمیز وہ شخص ہوتا ہے جسے کام کا صحیح طریقہ معلوم ہوتا ہے لیکن وہ اپنے غصے، اپنی انا، ہٹ دھرمی یا جذبہ انتقام سے مغلوب ہوکر اُس کے بالکل برعکس عمل کرتا ہے۔ ایسا کرنے میں وہ سامنے والے کا دل دکھاتا ہے جوکہ خود بڑا گناہ ہے۔ اپنی نیکیاں اُس کے نام کرتا ہے جو سراسر بے وقوفی ہے اور دنیا کا بھی نقصان کرتا ہے کہ بدتمیز آدمی سے کوئی شخص تعلق رکھنا یا لین دین نہیں چاہتا۔ یہاں تک تو ہم سب کو پتہ ہے مگر نجانے کس نحوست نے گھیر رکھا ہے کہ ہمارا علم ہمارے عمل میں نہیں بدلتا۔ کیا فائدہ ایسے علم کا جس کی جھلک اعمال میں نہ آجائے۔
بدتمیزی کا ایک پہلو اور بھی ہے جس پر سوچنا چاہیئے، وہ یہ کہ آپ بدتمیز آدمی کی بدتمیزی کا جواب کیسے دیں گے؟ اگر آپ نے بھی جواب میں بدتمیزی کی تو اُس میں اور آپ میں فرق کیا بچا؟
ذرا غور کریں اُس کے بدتمیز ہونے اور آپ کے مہذب ہونے کی وجہ بالکل ایک ہے اور وہ یہ کہ آپ نے کسی ماحول میں پرورش پائی۔ ہر اُس لمحہ جب آپ کے پاس کوئی بڑا، استاد یا تربیت کرنے والا موجود تھا اُس کو میسر نہیں تھا۔ ہر وہ جملہ یا نقطہ جو آپ پڑھ پائے اسے نصیب نہ ہوا۔ ہر وہ سہولت، دولت، اثر و رسوخ، علم، قابلیت، حافظہ، توفیق، نیکی صحیح راستہ اور درست انتخاب جو آپ کی زندگی میں ہوتا چلاگیا اُسے نہیں ملا۔ گنتے جائیں کتنی نعمتیں گنیں گے گزشتہ زندگی میں؟
والدین، دوست احباب، ماحول، بجائے اِس کے کہ آپ اُن تمام چیزوں کا شُکر ادا کریں اُس بدتمیز شخص کے حال پر رحم کھائیں اور اُسے دعا دیں، لیکن جواب میں اگر آپ نے ویسی ہی بدتمیزی کی تو پھر آپ نے کوئی فرق باقی نہ رکھا۔
خدا کے لئے کیا مشکل تھا کہ وہ آپ کے حالات اُس کے حالات سے بدل دیتا یا اب بھی آپ کو دی جانے والی تمام نعمتیں اُسے دے دے۔ اگر ہر شخص ہی کانٹے بچھائے گا تو چلنے کی جگہ کہاں بچے گی؟ مزید یہ کہ ہمیں پتہ بھی نہیں ہوتا کہ سامنے والا کن حالات سے گزر رہا ہے، تھوڑا بہت تو لحاظ کرنا ہی چاہیئے۔ ابھی حال ہی میں ایک شخص ملا جو پہلے کسی دکان پر اور پھر کسی شاپنگ مال میں رات کو گارڈ کی ڈیوٹی انجام دیتا ہے، کہنے لگا 19 سال ہوگئے رات کو نہیں سویا۔ اب بتائیں کتنی نعمتوں کو تو ہم گنتے ہی نہیں ہیں؟
مولانا رومؒ کہتے تھے کہ زندگی بھر چراغ لے کر دو آدمی ڈھونڈے مگر نہ ملے، ایک وہ جس نے ظلم کیا ہو اور اللہ کی پکڑ سے بچ گیا ہو دوسرا وہ جس نے اللہ کی راہ میں خرچ کیا ہو اور فقیر ہوگیا ہو۔
آپ کی یہ تمام تر تمیز، آداب، شائستگی بھی اُسی کی دی ہوئی ہے، اُس کا شکر یہی ہے کہ لوگوں کی بدتمیزی برداشت کی جائے، اِس سے حلم میں اضافہ ہوگا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے
اگر آپ بھی ہمارے لیے بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریراپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک و ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کیساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنکس بھی