علمائے کرام کی مساعی اور پاکستان
پاکستان انھی علمائے کرام کی کاوشوں کا ثمر ہے جو قائد اعظم کی بے مثل قیادت میں معرض وجود میں آیا
''قرآن مسلمانوں کا ہمہ گیر ضابطہ حیات ہے۔ مذہبی، سماجی، شہری، فوجی، کاروباری، عدالتی، تعزیری اور قانونی ضابطہ حیات، جو مذہبی تقاریب سے لے کر جسمانی صحت تک تمام افراد سے لے کر فرد واحد کے حقوق تک اور اخلاقیات سے لے کر ارتکاب جرم تک، اس دنیا میں جزا و سزا سے لے کر اگلے جہان کی جزا و سزا تک ہر معاملے کی حد بندی کرتا ہے۔''
بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناحؒ کے ایک پیغام کا یہ اقتباس ہم سب کو فکر و عمل کی دعوت دیتا ہے۔ بانی پاکستان نے یہ پیغام 1945 میں برصغیر کے مسلمانوں کو عید کے مبارک موقع پر دیا تھا۔ برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ 1935-36 میں غیر منقسم ہندوستان میں جو الیکشن ہوا تھا، مسلم لیگ کو اس میں شکست ہوگئی تھی اور کانگریس نے کامیاب ہوکر حکومت بنائی تھی، لیکن بعد میں جب کانگریس کی حکومت اپنے انجام سے دوچار ہوکر ختم ہوگئی تو مسلم لیگ نے اس تاریخی دن کو یوم نجات کے طور پر منایا تھا۔
مسلم لیگ کی شکست کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ تب اس نے تقسیم ہند کی بات تو کی تھی لیکن ''پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہ'' کا نعرہ نہیں لگایا تھا۔ یہ اس نعرے کی برکت تھی کہ برصغیر کے مسلمانوں میں بے مثال یکجہتی اور اتحاد قائم ہوگیا جس کے نتیجے میں 1945-46 کے انتخابات میں مسلم لیگ بھاری اکثریت سے غلبہ حاصل کرکے کامیاب ہوگئی اور ان انتخابات کے دو سال کے مختصر سے عرصے میں پاکستان معرض وجود میں آگیا۔
بابائے قوم کا مندرجہ بالا اقتباس اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ ان کی دلی خواہش تھی کہ یہ مملکت خداداد ایک اسلامی ریاست کی صورت میں ابھرے اور پھلے پھولے اور قرآن کی شکل میں جو ہمہ گیر ضابطہ حیات ہمیں اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا ہے وہ اس میں نافذ ہو۔ بانی پاکستان سے جب پاکستان کے حکومتی نظام کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے جالندھر کی آل انڈیا مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی طرف سے منعقدہ تقریب میں اسلامی نظام حیات کے حوالے سے صدارتی خطبہ دیتے ہوئے قطعی واضح اعلان کیا۔
ہمارا اور ہمارے قائدین کا عمومی رویہ یہ ہے کہ ہم بات بات میں قائداعظم کا حوالہ دیتے ہیں اور ان کے اقوال زریں کو اکثر و بیشتر Qoute بھی کرتے رہتے ہیں۔ قائداعظم نے یہ فرمایا، قائد اعظم نے وہ فرمایا، کہتے کہتے ہماری زبان نہیں تھکتی لیکن اپنی عملی زندگی میں نہ تو ہمارے قائدین کو اور نہ ہی ہمیں بحیثیت پاکستانی شہری کے قائداعظم کے عمل سے دور پرے کا بھی کوئی واسطہ نہیں۔ ڈوب مرنے کا مقام تو یہ ہے کہ جن کرنسی نوٹوں پر بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی تصویر چھپی ہوئی ہوتی ہے ہم ان کرنسی نوٹوں کو ناجائز کاروبار، رشوت، بدعنوانی اور سود خوری کے لیے استعمال کرنے کے علاوہ دیگر حرام کمائی میں بھی استعمال کرتے ہیں۔
اس سے بڑھ کر بابائے قوم کی توہین بھلا اور کیا ہوسکتی ہے۔ بابائے قوم قومی خزانے کو ریاست اور عوام کی امانت تصور کرتے تھے اور کیا مجال جو ایک پھوٹی کوڑی بھی اپنے ذاتی تصرف میں لاتے۔ مگر ہمارے حکمرانوں اور بیشتر سیاسی رہنماؤں کا کردار اس کے بالکل برعکس ہے اور وہ عوام کے پیسے کو مال غنیمت سمجھ کر ناصرف بے دریغ استعمال کرتے ہیں بلکہ بے دھڑک صادق اور امین ہونے کے دعوے بھی کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ من حیث القوم ہماری حالت یہ ہے کہ بقول شاعر:
زندگی ایسی کہ جس کا کوئی حاصل بھی نہیں
چل رہے ہیں رات دن اور کوئی منزل بھی نہیں
ہمارے اس منافقانہ رویے کی وجہ سے آج ہماری جگ ہنسائی ہو رہی ہے اور ہم ہیں کہ اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتے۔ دنیا کی جو قومیں ہمارے بعد آزاد ہوئی تھیں وہ تیزی کے ساتھ شاہراہ ترقی پر گامزن ہیں اور اقوام عالم میں ان کا ایک نام اور مقام ہے۔ دور جانے کی ضرورت نہیں ہمارے سب سے مخلص دوست اور شریک کار چین کی مثال ہمارے سامنے ہے جو آج ہمارا ہاتھ تھام کر ہمیں بھی ترقی کے راستے پر آگے بڑھتا ہوا دیکھنا چاہتا ہے۔ ہمارے سب سے بڑے دشمن اور پڑوسی بھارت کی مثال بھی ہمارے سامنے ہے۔ مگر ہم روز و شب ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں ہی مصروف ہیں اور اپنے ذاتی مفادات کے حصول کی خاطر اپنے اجتماعی قومی مفادات کو پس پشت ڈالنے میں لگے ہوئے ہیں۔
بڑے دکھ کا مقام ہے کہ پاکستان کو معرض وجود میں آئے ہوئے 70 سال بیت چکے ہیں لیکن اپنا جغرافیہ بدل جانے کے باوجود ہم نے اپنی تاریخ سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا اور ہم ابھی تک سیاسی مفادات کا کھیل کھیلنے سے باز نہیں آ رہے جس کی وجہ سے ہم نے اپنی قومی اور مملکتی سلامتی اور بقا کو داؤ پر لگا رکھا ہے۔
قیام پاکستان کو سات دہائیاں گزر چکی ہیں اور ہم ابھی تک ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں۔ 70 سال کے اس طویل عرصے میں ہم نے طرح طرح کے نظاموں کے تجربات کیے لیکن کامیابی نصیب نہیں ہوئی۔ یہ اس کا نتیجہ ہے کہ ہم مضطرب اور پریشان ہیں۔ یہ ہمارے اس جرم کی سزا ہے کہ ہم مسلسل اسلام کے آفاقی اور فطری ضابطہ حیات کا تجربہ کرنے سے دیدہ و دانستہ انحراف کر رہے ہیں۔
ہم نے لارڈ میکالے کے نظریے کی تقلید میں ایسا تعلیمی نظام اختیار کیا کہ جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ''ہماری تعلیم کا مقصد ایسے نوجوان تیار کرنا ہے جو رنگ و نسل کے اعتبار سے تو ہندوستانی ہوں مگر ذہن و دماغ کے اعتبار سے انگلستانی ہوں۔'' اﷲ کی رحمت ہو ہمارے ان اہل حق پر جنھوں نے برصغیر کے مسلمانوں کو فلاح کا راستہ دکھایا اور اس مقصد کے حصول کے لیے اترپردیش کے ضلع سہارنپور کے مشہور قصبے دیوبند میں ایک دینی مدرسے کی بنیاد رکھی جس کے قیام کا مقصد ان الفاظ میں بیان کیا گیا: ''ہماری تعلیم کا مقصد ایسے نوجوان تیار کرنا ہے جو رنگ و نسل کے اعتبار سے تو ہندوستانی ہوں مگر ذہن و دماغ کے لحاظ سے اسلامی ہوں۔''
یہ تھا لارڈ میکالے کے نظریہ تعلیم کا منہ توڑ اور دانت کھٹے کردینے والا جواب۔ چنانچہ اس ادارے کے سب سے پہلے فارغ التحصیل طالب علم حضرت شیخ الہند نے انگریزوں کے خلاف علم بغاوت بلند کیا اور باقاعدہ تحریک کا آغاز کیا۔ اس کے بعد حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ اور ان کے متوسلین نے قائداعظم محمد علی جناحؒ کی پرزور حمایت کی جس کے بعد 1946 کے ریفرنڈم میں مسلم لیگ مسلمانوں کی نمایندہ جماعت بن کر ابھری۔ مولانا ظفر احمد عثمانیؒ، مولانا شبیر احمد عثمانیؒ اور مولانا مفتی محمد شفیعؒ کی انتھک محنت کے نتیجے میں 14 اگست 1947 کو پاکستان کا خواب شرمندہ تعبیر ہوپایا۔ پاکستان انھی علمائے کرام کی کاوشوں کا ثمر ہے جو قائد اعظم کی بے مثل قیادت میں معرض وجود میں آیا چنانچہ پرچم کشائی کے موقع پر قائداعظم نے ناصرف کھڑے ہوکر ان علمائے کرام کا استقبال کیا بلکہ ان کی مبارکباد کے جواب میں اپنی زبان مبارک سے یہ کلمات بھی ادا کیے:
''حقیقی مبارکباد کے مستحق تو آپ لوگ ہیں۔ اگر آپ کی مساعی نہ ہوتی تو پاکستان کبھی معرض وجود میں نہ آتا۔''
بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناحؒ کے ایک پیغام کا یہ اقتباس ہم سب کو فکر و عمل کی دعوت دیتا ہے۔ بانی پاکستان نے یہ پیغام 1945 میں برصغیر کے مسلمانوں کو عید کے مبارک موقع پر دیا تھا۔ برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ 1935-36 میں غیر منقسم ہندوستان میں جو الیکشن ہوا تھا، مسلم لیگ کو اس میں شکست ہوگئی تھی اور کانگریس نے کامیاب ہوکر حکومت بنائی تھی، لیکن بعد میں جب کانگریس کی حکومت اپنے انجام سے دوچار ہوکر ختم ہوگئی تو مسلم لیگ نے اس تاریخی دن کو یوم نجات کے طور پر منایا تھا۔
مسلم لیگ کی شکست کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ تب اس نے تقسیم ہند کی بات تو کی تھی لیکن ''پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہ'' کا نعرہ نہیں لگایا تھا۔ یہ اس نعرے کی برکت تھی کہ برصغیر کے مسلمانوں میں بے مثال یکجہتی اور اتحاد قائم ہوگیا جس کے نتیجے میں 1945-46 کے انتخابات میں مسلم لیگ بھاری اکثریت سے غلبہ حاصل کرکے کامیاب ہوگئی اور ان انتخابات کے دو سال کے مختصر سے عرصے میں پاکستان معرض وجود میں آگیا۔
بابائے قوم کا مندرجہ بالا اقتباس اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ ان کی دلی خواہش تھی کہ یہ مملکت خداداد ایک اسلامی ریاست کی صورت میں ابھرے اور پھلے پھولے اور قرآن کی شکل میں جو ہمہ گیر ضابطہ حیات ہمیں اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا ہے وہ اس میں نافذ ہو۔ بانی پاکستان سے جب پاکستان کے حکومتی نظام کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے جالندھر کی آل انڈیا مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی طرف سے منعقدہ تقریب میں اسلامی نظام حیات کے حوالے سے صدارتی خطبہ دیتے ہوئے قطعی واضح اعلان کیا۔
ہمارا اور ہمارے قائدین کا عمومی رویہ یہ ہے کہ ہم بات بات میں قائداعظم کا حوالہ دیتے ہیں اور ان کے اقوال زریں کو اکثر و بیشتر Qoute بھی کرتے رہتے ہیں۔ قائداعظم نے یہ فرمایا، قائد اعظم نے وہ فرمایا، کہتے کہتے ہماری زبان نہیں تھکتی لیکن اپنی عملی زندگی میں نہ تو ہمارے قائدین کو اور نہ ہی ہمیں بحیثیت پاکستانی شہری کے قائداعظم کے عمل سے دور پرے کا بھی کوئی واسطہ نہیں۔ ڈوب مرنے کا مقام تو یہ ہے کہ جن کرنسی نوٹوں پر بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی تصویر چھپی ہوئی ہوتی ہے ہم ان کرنسی نوٹوں کو ناجائز کاروبار، رشوت، بدعنوانی اور سود خوری کے لیے استعمال کرنے کے علاوہ دیگر حرام کمائی میں بھی استعمال کرتے ہیں۔
اس سے بڑھ کر بابائے قوم کی توہین بھلا اور کیا ہوسکتی ہے۔ بابائے قوم قومی خزانے کو ریاست اور عوام کی امانت تصور کرتے تھے اور کیا مجال جو ایک پھوٹی کوڑی بھی اپنے ذاتی تصرف میں لاتے۔ مگر ہمارے حکمرانوں اور بیشتر سیاسی رہنماؤں کا کردار اس کے بالکل برعکس ہے اور وہ عوام کے پیسے کو مال غنیمت سمجھ کر ناصرف بے دریغ استعمال کرتے ہیں بلکہ بے دھڑک صادق اور امین ہونے کے دعوے بھی کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ من حیث القوم ہماری حالت یہ ہے کہ بقول شاعر:
زندگی ایسی کہ جس کا کوئی حاصل بھی نہیں
چل رہے ہیں رات دن اور کوئی منزل بھی نہیں
ہمارے اس منافقانہ رویے کی وجہ سے آج ہماری جگ ہنسائی ہو رہی ہے اور ہم ہیں کہ اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتے۔ دنیا کی جو قومیں ہمارے بعد آزاد ہوئی تھیں وہ تیزی کے ساتھ شاہراہ ترقی پر گامزن ہیں اور اقوام عالم میں ان کا ایک نام اور مقام ہے۔ دور جانے کی ضرورت نہیں ہمارے سب سے مخلص دوست اور شریک کار چین کی مثال ہمارے سامنے ہے جو آج ہمارا ہاتھ تھام کر ہمیں بھی ترقی کے راستے پر آگے بڑھتا ہوا دیکھنا چاہتا ہے۔ ہمارے سب سے بڑے دشمن اور پڑوسی بھارت کی مثال بھی ہمارے سامنے ہے۔ مگر ہم روز و شب ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں ہی مصروف ہیں اور اپنے ذاتی مفادات کے حصول کی خاطر اپنے اجتماعی قومی مفادات کو پس پشت ڈالنے میں لگے ہوئے ہیں۔
بڑے دکھ کا مقام ہے کہ پاکستان کو معرض وجود میں آئے ہوئے 70 سال بیت چکے ہیں لیکن اپنا جغرافیہ بدل جانے کے باوجود ہم نے اپنی تاریخ سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا اور ہم ابھی تک سیاسی مفادات کا کھیل کھیلنے سے باز نہیں آ رہے جس کی وجہ سے ہم نے اپنی قومی اور مملکتی سلامتی اور بقا کو داؤ پر لگا رکھا ہے۔
قیام پاکستان کو سات دہائیاں گزر چکی ہیں اور ہم ابھی تک ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں۔ 70 سال کے اس طویل عرصے میں ہم نے طرح طرح کے نظاموں کے تجربات کیے لیکن کامیابی نصیب نہیں ہوئی۔ یہ اس کا نتیجہ ہے کہ ہم مضطرب اور پریشان ہیں۔ یہ ہمارے اس جرم کی سزا ہے کہ ہم مسلسل اسلام کے آفاقی اور فطری ضابطہ حیات کا تجربہ کرنے سے دیدہ و دانستہ انحراف کر رہے ہیں۔
ہم نے لارڈ میکالے کے نظریے کی تقلید میں ایسا تعلیمی نظام اختیار کیا کہ جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ''ہماری تعلیم کا مقصد ایسے نوجوان تیار کرنا ہے جو رنگ و نسل کے اعتبار سے تو ہندوستانی ہوں مگر ذہن و دماغ کے اعتبار سے انگلستانی ہوں۔'' اﷲ کی رحمت ہو ہمارے ان اہل حق پر جنھوں نے برصغیر کے مسلمانوں کو فلاح کا راستہ دکھایا اور اس مقصد کے حصول کے لیے اترپردیش کے ضلع سہارنپور کے مشہور قصبے دیوبند میں ایک دینی مدرسے کی بنیاد رکھی جس کے قیام کا مقصد ان الفاظ میں بیان کیا گیا: ''ہماری تعلیم کا مقصد ایسے نوجوان تیار کرنا ہے جو رنگ و نسل کے اعتبار سے تو ہندوستانی ہوں مگر ذہن و دماغ کے لحاظ سے اسلامی ہوں۔''
یہ تھا لارڈ میکالے کے نظریہ تعلیم کا منہ توڑ اور دانت کھٹے کردینے والا جواب۔ چنانچہ اس ادارے کے سب سے پہلے فارغ التحصیل طالب علم حضرت شیخ الہند نے انگریزوں کے خلاف علم بغاوت بلند کیا اور باقاعدہ تحریک کا آغاز کیا۔ اس کے بعد حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ اور ان کے متوسلین نے قائداعظم محمد علی جناحؒ کی پرزور حمایت کی جس کے بعد 1946 کے ریفرنڈم میں مسلم لیگ مسلمانوں کی نمایندہ جماعت بن کر ابھری۔ مولانا ظفر احمد عثمانیؒ، مولانا شبیر احمد عثمانیؒ اور مولانا مفتی محمد شفیعؒ کی انتھک محنت کے نتیجے میں 14 اگست 1947 کو پاکستان کا خواب شرمندہ تعبیر ہوپایا۔ پاکستان انھی علمائے کرام کی کاوشوں کا ثمر ہے جو قائد اعظم کی بے مثل قیادت میں معرض وجود میں آیا چنانچہ پرچم کشائی کے موقع پر قائداعظم نے ناصرف کھڑے ہوکر ان علمائے کرام کا استقبال کیا بلکہ ان کی مبارکباد کے جواب میں اپنی زبان مبارک سے یہ کلمات بھی ادا کیے:
''حقیقی مبارکباد کے مستحق تو آپ لوگ ہیں۔ اگر آپ کی مساعی نہ ہوتی تو پاکستان کبھی معرض وجود میں نہ آتا۔''