آمروں کے پیدا کردہ مسائل آخری حصہ
ضیاء خود بھی سازشیوں کے ہاتھوں مارے گئے۔
چنانچہ جب امریکی حکومت بھٹو کو غیر مستحکم کرنے کے لیے موقع کی تلاش میں تھی، 1977 کے عام انتخابات کے بعد حزب اختلاف کی نو سیاسی جماعتوں نے مل کر پاکستان قومی اتحاد (پی این اے) بنا لیا اور ان کے خلاف تحریک شروع کردی۔ اپوزیشن نے دعویٰ کیا کہ 36 حلقوں میں بدعنوانی کی گئی، جہاں نئے سرے سے انتخاب کرنے کی ضرورت ہے۔
بھٹو کو اپوزیشن کو اپنے خلاف ملک گیر تحریک شروع کرنے کا موقع دینے کے بجائے از سر نو انتخابات پر رضامند ہوجانا چاہیے تھا۔ دائیں بازو کی جماعتوں نے جمہوری حقوق کی جدوجہد کو نظام مصطفیٰ کے نفاذ کی تحریک میں بدل دیا۔میڈیا کو ہدایت کی گئی کہ اپوزیشن لیڈرز کچھ بھی کہتے رہیں، آپ کو یہ رپورٹ کرنا ہے کہ وہ نظام مصطفیٰ کے نفاذ اور قیمتوں کو 1970 کی سطح پر لانے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ ضیاء نے رفیق باجوہ کو پی این اے کا سیکریٹری جنرل بنادیا، جسے اس تحریک کو ہائی جیک کرنے میں مدد دینا تھی۔
بھٹو نے اس تحریک کو کچلنے کی کوشش کی، یہ ان کی ایک سنگین غلطی تھی۔ نوجوان رپورٹرز کی حیثیت سے اس سیاسی منظرنامے کو کور کرنے والے ہم میں سے بعض صحافیوں کو اپریل 1977 میں محسوس ہونے لگا تھا کہ افسران اصل میں بھٹو کی مدد نہیں کررہے بلکہ ان کے خلاف کیس تیار کر رہے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ ایک نوجوان افسر نے جو کراچی کے بعض علاقوں میں احتجاج کو کچلنے کا انچارج تھا، مجھے بتایا کہ وہ اپنے اعلیٰ افسر کی پالیسیوں سے پریشان ہے، جیسے ہی احتجاج کرنے والوں کو گرفتار کیا جاتا ہے، وہ ان کو چھوڑنے کا حکم دے دیتا ہے۔
میں نے کراچی میں ایک دلچسپ واقعہ دیکھا۔ پولیس نے احتجاج کرنے والوں کو سندھ اسمبلی میں داخل ہونے سے روک دیا تھا۔ ایک سکیورٹی دستہ وہاں موجود تھا، مگر اس نے بھٹو کی بدنام فیڈرل سیکیورٹی فورس (ایف ایس ایف) کو کہا کہ برنس روڈ کی ایک گلی میں جلوس پر براہ راست فائر کیا جائے۔ اس فائرنگ سے احتجاج کرنے والے دو نوجوان مارے گئے۔ کراچی پریس کلب میں دیگر صحافیوں کے ساتھ معلومات کا تبادلہ کرتے ہوئے ہم نے محسوس کیا کہ سکیورٹی ادارے عوام کے خلاف ایف ایس ایف کو استعمال کرکے بھٹو کے خلاف دانستہ نفرت کو ہوا دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔
تختہ الٹے جانے کے بعد مفتی محمود اور پروفیسر غفور نے ہمیں بتایا کہ بعض متنازع نشستوں پر دوبارہ انتخاب کرانے کے لیے بھٹو اور پی این اے کے درمیان سمجھوتہ تقریباً طے پا چکا تھا، مگر ان کے ساتھیوں نے جو سکیورٹی ادارے کے قریب تھے انھیں کہا کہ سمجھوتے پر دستخط نہ کیے جائیں، کیونکہ بھٹو بہت جلد ہٹائے جانے والے ہیں۔ وہ سب سے یہی چاہتے تھے کہ سمجھوتے پر دستخط کرنے میں ایک دو دن کی تاخیر کردی جائے۔
بھٹو سکیورٹی اداروں کی مدد سے برسر اقتدار آئے تھے، جس نے ایک نرم بغاوت کے ذریعے یحییٰ کو ہٹانے کے بعد اکثریتی لیڈر کی حیثیت سے انھیں اقتدار سنبھالنے کو کہا تھا۔ یہ بات عام طور سے فراموش کردی جاتی ہے کہ بھٹو کو صرف پنجاب میں اکثریت حاصل تھی اور انھیں پورے پاکستان پر حکومت کرنے کے لیے منتخب نہیں کیا گیا تھا۔ وہ مشرقی پاکستان سے جہاں عوامی لیگ کو اکثریت ملی تھی، نجات حاصل کرکے ہی اقتدار سنبھال سکتے تھے۔ بلوچستان اور این ڈبلیو ایف پی میں اکثریت نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت العلمائے پاکستان (جے یو آئی) کے پاس تھی۔ سندھ میں حکومت بنانے کے لیے بھی انھیں چند نشستوں کی کمی کا سامنا تھا۔ اسلام آباد کی حکومت ایک طشتری میں رکھ کر پیش کیے جانے کے بعد انھوں نے سندھ میں بھی حکومت بنانے کے لیے صوبائی اسمبلی کے دو ارکان کو اپنے ساتھ ملانے کے لیے جوڑ توڑ کیا۔
بھٹو، 1970 میں پنجاب میں لیڈر بن کر ابھرے، انھیں زیادہ تر بائیں بازو کے چین نواز کارکنوں کی حمایت حاصل تھی۔ کراچی کے نشتر پارک میں ان کے جلسے کا اہم نعرہ ''ایشیا سرخ ہے'' تھا، مگر 1977 آتے آتے اسی مقام پر دائیں بازو کے اسلامی نعرے گونجنے لگے۔ بھٹو اپنی حکمرانی کے پانچ سال بعد بائیں بازو سے دور ہوگئے، جو ابتدا میں ان کی حمایت کی بنیاد تھی، اور زمین داروں اور بیوروکریسی پر زیادہ انحصار شروع کردیا۔ جب ضیاء نے ان کا تختہ الٹا تو وہ پہلے ہی اپنے اہم ترین حماتیوں سے الگ ہوچکے تھے۔
ضیاء خود بھی سازشیوں کے ہاتھوں مارے گئے۔ اپنی ہلاکت سے کافی پہلے اس بات کے واضح اشارے دکھائی دے رہے تھے کہ اسٹیبلشمنٹ ایک جیسی سوچ نہیں رکھتی تھی اور یہ کہ امریکا، افغانستان میں اسلام پسند حکومت کے قیام کے لیے ان کی خواہش سے خوش نہیں تھا۔ اگر ایران میں مذہبی قیادت اقتدار پر قبضہ نہ کرتی اور 1979 میں افغانستان میں انقلاب ثور نہ آتا تو وہ 11 سال تک حکومت نہیں کرسکتے تھے۔
ضیاء کی مارشل لاء حکومت نے قانونی نظام کو اسلامی بنایا، نظام مصطفیٰ کے ذریعے اسلامی تعزیری قوانین نافذ کیے جن کی رو سے کوڑے مارنے اور بایاں ہاتھ کاٹنے کی سزاؤں کی گنجائش پیدا کی گئی۔ دسمبر 1978 میں ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کی سطح پر قائم کیے جانے والے شریعت بنچ کسی بھی ایسے قانون پر نظر ثانی کرسکتے تھے، جسے وہ غیر اسلامی سمجھیں۔ تمام سرکاری دفاتر میں اوقات کار کے دوران نماز کی ادائیگی کو لازمی قرار دیا گیا۔ 1988 میں شریعت آرڈیننس نافذ کیا گیا۔ 1979 کے حدود آرڈیننس کے تحت خواتین کے لیے انصاف حاصل کرنا انتہائی مشکل ہوگیا۔
کسی ایسی عورت کو جسے زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ہو، ناجائز تعلقات کے جرم میں سزا دی جاسکتی تھی، جب کہ قصاص اور دیت کے قوانین نے غیرت کے نام پر قتل کے ملزموں کا بچ جانا آسان بنادیا۔ ضیاء نے صحافتی آزادیوں کے بارے میں سخت رویہ اختیار کیا اور چند اخبارات بند کردیے گئے۔ آٹھویں ترمیم بھی لائی گئی، جس کے تحت آمر کو آرٹیکل 58-2(B) کے تحت پارلیمنٹ کو توڑنے کا اختیار دے دیا گیا۔ مذہبی تعصب شامل کرنے کے لیے اسکولوں کے نصاب میں بھی تبدیلی کی گئی اور جامعات میں طلبا یونینوں پر پابندی لگا دی گئی۔ قانون شہادت آرڈر 1984 کے تحت، جس نے شہادت ایکٹ 1872 کی جگہ لی، ایک مرد کے مقابلے میں دو عورتوں کی گواہی کو لازمی قرار دیا گیا۔ ضیاء نے توہین کے قانون کے دائرے کو بھی وسیع کیا، آئین کے آرٹیکل 295 میںذیلی شقوں کا اضافہ کیا گیا۔
17 اگست 1988 کو طیارے کے حادثے میں ضیاء کی موت سے ملکی تاریخ کا ایک باب تو ختم ہوگیا،مگر ان کی سوچ مدرسوں، جہادیوں، کلاشنکوف کلچر اور پاکستان کے عمومی تنزل کی شکل میں اپنے اثرات پیچھے چھوڑ گئی۔
بھٹو کو اپوزیشن کو اپنے خلاف ملک گیر تحریک شروع کرنے کا موقع دینے کے بجائے از سر نو انتخابات پر رضامند ہوجانا چاہیے تھا۔ دائیں بازو کی جماعتوں نے جمہوری حقوق کی جدوجہد کو نظام مصطفیٰ کے نفاذ کی تحریک میں بدل دیا۔میڈیا کو ہدایت کی گئی کہ اپوزیشن لیڈرز کچھ بھی کہتے رہیں، آپ کو یہ رپورٹ کرنا ہے کہ وہ نظام مصطفیٰ کے نفاذ اور قیمتوں کو 1970 کی سطح پر لانے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ ضیاء نے رفیق باجوہ کو پی این اے کا سیکریٹری جنرل بنادیا، جسے اس تحریک کو ہائی جیک کرنے میں مدد دینا تھی۔
بھٹو نے اس تحریک کو کچلنے کی کوشش کی، یہ ان کی ایک سنگین غلطی تھی۔ نوجوان رپورٹرز کی حیثیت سے اس سیاسی منظرنامے کو کور کرنے والے ہم میں سے بعض صحافیوں کو اپریل 1977 میں محسوس ہونے لگا تھا کہ افسران اصل میں بھٹو کی مدد نہیں کررہے بلکہ ان کے خلاف کیس تیار کر رہے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ ایک نوجوان افسر نے جو کراچی کے بعض علاقوں میں احتجاج کو کچلنے کا انچارج تھا، مجھے بتایا کہ وہ اپنے اعلیٰ افسر کی پالیسیوں سے پریشان ہے، جیسے ہی احتجاج کرنے والوں کو گرفتار کیا جاتا ہے، وہ ان کو چھوڑنے کا حکم دے دیتا ہے۔
میں نے کراچی میں ایک دلچسپ واقعہ دیکھا۔ پولیس نے احتجاج کرنے والوں کو سندھ اسمبلی میں داخل ہونے سے روک دیا تھا۔ ایک سکیورٹی دستہ وہاں موجود تھا، مگر اس نے بھٹو کی بدنام فیڈرل سیکیورٹی فورس (ایف ایس ایف) کو کہا کہ برنس روڈ کی ایک گلی میں جلوس پر براہ راست فائر کیا جائے۔ اس فائرنگ سے احتجاج کرنے والے دو نوجوان مارے گئے۔ کراچی پریس کلب میں دیگر صحافیوں کے ساتھ معلومات کا تبادلہ کرتے ہوئے ہم نے محسوس کیا کہ سکیورٹی ادارے عوام کے خلاف ایف ایس ایف کو استعمال کرکے بھٹو کے خلاف دانستہ نفرت کو ہوا دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔
تختہ الٹے جانے کے بعد مفتی محمود اور پروفیسر غفور نے ہمیں بتایا کہ بعض متنازع نشستوں پر دوبارہ انتخاب کرانے کے لیے بھٹو اور پی این اے کے درمیان سمجھوتہ تقریباً طے پا چکا تھا، مگر ان کے ساتھیوں نے جو سکیورٹی ادارے کے قریب تھے انھیں کہا کہ سمجھوتے پر دستخط نہ کیے جائیں، کیونکہ بھٹو بہت جلد ہٹائے جانے والے ہیں۔ وہ سب سے یہی چاہتے تھے کہ سمجھوتے پر دستخط کرنے میں ایک دو دن کی تاخیر کردی جائے۔
بھٹو سکیورٹی اداروں کی مدد سے برسر اقتدار آئے تھے، جس نے ایک نرم بغاوت کے ذریعے یحییٰ کو ہٹانے کے بعد اکثریتی لیڈر کی حیثیت سے انھیں اقتدار سنبھالنے کو کہا تھا۔ یہ بات عام طور سے فراموش کردی جاتی ہے کہ بھٹو کو صرف پنجاب میں اکثریت حاصل تھی اور انھیں پورے پاکستان پر حکومت کرنے کے لیے منتخب نہیں کیا گیا تھا۔ وہ مشرقی پاکستان سے جہاں عوامی لیگ کو اکثریت ملی تھی، نجات حاصل کرکے ہی اقتدار سنبھال سکتے تھے۔ بلوچستان اور این ڈبلیو ایف پی میں اکثریت نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت العلمائے پاکستان (جے یو آئی) کے پاس تھی۔ سندھ میں حکومت بنانے کے لیے بھی انھیں چند نشستوں کی کمی کا سامنا تھا۔ اسلام آباد کی حکومت ایک طشتری میں رکھ کر پیش کیے جانے کے بعد انھوں نے سندھ میں بھی حکومت بنانے کے لیے صوبائی اسمبلی کے دو ارکان کو اپنے ساتھ ملانے کے لیے جوڑ توڑ کیا۔
بھٹو، 1970 میں پنجاب میں لیڈر بن کر ابھرے، انھیں زیادہ تر بائیں بازو کے چین نواز کارکنوں کی حمایت حاصل تھی۔ کراچی کے نشتر پارک میں ان کے جلسے کا اہم نعرہ ''ایشیا سرخ ہے'' تھا، مگر 1977 آتے آتے اسی مقام پر دائیں بازو کے اسلامی نعرے گونجنے لگے۔ بھٹو اپنی حکمرانی کے پانچ سال بعد بائیں بازو سے دور ہوگئے، جو ابتدا میں ان کی حمایت کی بنیاد تھی، اور زمین داروں اور بیوروکریسی پر زیادہ انحصار شروع کردیا۔ جب ضیاء نے ان کا تختہ الٹا تو وہ پہلے ہی اپنے اہم ترین حماتیوں سے الگ ہوچکے تھے۔
ضیاء خود بھی سازشیوں کے ہاتھوں مارے گئے۔ اپنی ہلاکت سے کافی پہلے اس بات کے واضح اشارے دکھائی دے رہے تھے کہ اسٹیبلشمنٹ ایک جیسی سوچ نہیں رکھتی تھی اور یہ کہ امریکا، افغانستان میں اسلام پسند حکومت کے قیام کے لیے ان کی خواہش سے خوش نہیں تھا۔ اگر ایران میں مذہبی قیادت اقتدار پر قبضہ نہ کرتی اور 1979 میں افغانستان میں انقلاب ثور نہ آتا تو وہ 11 سال تک حکومت نہیں کرسکتے تھے۔
ضیاء کی مارشل لاء حکومت نے قانونی نظام کو اسلامی بنایا، نظام مصطفیٰ کے ذریعے اسلامی تعزیری قوانین نافذ کیے جن کی رو سے کوڑے مارنے اور بایاں ہاتھ کاٹنے کی سزاؤں کی گنجائش پیدا کی گئی۔ دسمبر 1978 میں ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کی سطح پر قائم کیے جانے والے شریعت بنچ کسی بھی ایسے قانون پر نظر ثانی کرسکتے تھے، جسے وہ غیر اسلامی سمجھیں۔ تمام سرکاری دفاتر میں اوقات کار کے دوران نماز کی ادائیگی کو لازمی قرار دیا گیا۔ 1988 میں شریعت آرڈیننس نافذ کیا گیا۔ 1979 کے حدود آرڈیننس کے تحت خواتین کے لیے انصاف حاصل کرنا انتہائی مشکل ہوگیا۔
کسی ایسی عورت کو جسے زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ہو، ناجائز تعلقات کے جرم میں سزا دی جاسکتی تھی، جب کہ قصاص اور دیت کے قوانین نے غیرت کے نام پر قتل کے ملزموں کا بچ جانا آسان بنادیا۔ ضیاء نے صحافتی آزادیوں کے بارے میں سخت رویہ اختیار کیا اور چند اخبارات بند کردیے گئے۔ آٹھویں ترمیم بھی لائی گئی، جس کے تحت آمر کو آرٹیکل 58-2(B) کے تحت پارلیمنٹ کو توڑنے کا اختیار دے دیا گیا۔ مذہبی تعصب شامل کرنے کے لیے اسکولوں کے نصاب میں بھی تبدیلی کی گئی اور جامعات میں طلبا یونینوں پر پابندی لگا دی گئی۔ قانون شہادت آرڈر 1984 کے تحت، جس نے شہادت ایکٹ 1872 کی جگہ لی، ایک مرد کے مقابلے میں دو عورتوں کی گواہی کو لازمی قرار دیا گیا۔ ضیاء نے توہین کے قانون کے دائرے کو بھی وسیع کیا، آئین کے آرٹیکل 295 میںذیلی شقوں کا اضافہ کیا گیا۔
17 اگست 1988 کو طیارے کے حادثے میں ضیاء کی موت سے ملکی تاریخ کا ایک باب تو ختم ہوگیا،مگر ان کی سوچ مدرسوں، جہادیوں، کلاشنکوف کلچر اور پاکستان کے عمومی تنزل کی شکل میں اپنے اثرات پیچھے چھوڑ گئی۔