پاکستان میں ڈی ٹی ایچ کی آمد

کیبل آپریٹرز کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ اگر ڈی ٹی ایچ سروس فراہم کی گئی تو ان کا کاروبار ٹھپ ہو جائے گا


August 29, 2017
کیبل آپریٹرز بھی ڈی ٹی ایچ سروس ہی استعمال کرتے ہوئے کیبل کا کاروبار چلا رہے ہیں۔ فوٹو : فائل

کچھ عرصہ قبل پیمرا( پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی) نے کیبل آپریٹرز کی ہڑتال اور پھر عدالتی رکاوٹوں کے بعد سپریم کورٹ سے اجازت ملنے کے بعد پاکستان کے پہلے تھری ڈی ٹی ایچ( 3 DTH )لائسنس فروخت کر دئیے جو پاکستانی میڈیا میں انقلابی ثابت ہو سکتے ہیں تاہم وطن عزیز میں بیشتر پاکستانی لاعلم ہیں کہ آخر یہ ڈی ٹی ایچ کیا ہے، کس طرح کام کرتی ہے، عوام کو اس سے کیا فائدہ ہو گا، نقصانات کیا ہیں اور کیبل آپریٹر لائسنس کی نیلامی کے خلاف کیوں ہیں؟

ڈی ٹی ایچ دراصل انگریزی الفاظ ''Direct to Home'' کا مخفف ہے۔ نام سے عیاں ہے کہ اس سروس کے ذریعے ٹی وی چینلوں کے سگنل کسی کیبل آپریٹر اور تار کے ذریعے نہیں بلکہ کمپنی سے سیٹلائٹ کے ذریعے براہ راست صارف کے گھر تک پہنچتے ہیں۔

ڈی ٹی ایچ کی ٹیکنالوجی نئی اور زبردست ہے جس کے ذریعے ہائی کوالٹی ریزولوشن کی ٹرانسمیشن دیکھنے کو ملتی ہے ۔ آواز کا معیار بھی بہت اچھا ہوتا ہے۔ کیبل سروس کے ذریعے سو کے قریب چینل فراہم کے جاتے ہیں ۔لیکن ڈی ٹی ایچ استعمال کرتے ہوئے سات سوکے قریب چینل سکین ہو سکتے ہیں۔ اس سروس کے ذریعے چینل کمپنی سے سیٹلائٹ کے ذریعے براہ راست صارف کے گھر تک پہنچتے ہیں۔

یہی وجہ ہے، پروگراموں میں اشتہاروں کی وہ بھرمار نہیں ہوتی جوکیبل آپریٹرز کی سروس میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ کیبل آپریٹرز کی جانب سے فراہم کی جانے والی سروس ہاف ڈوپلیکس کہلاتی ہے لیکن ڈی ٹی ایچ کی سروس فل ڈوپلیکس ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نہ صرف ٹی وی چینلوں کی ٹرانسمیشن دیکھ سکتے ہیں بلکہ اسی کے ذریعے اپنا پیغام بھی کمپنی کو بھیج کر کسی خاص چینل، کسی فلم حتیٰ کہ فون نمبر وغیرہ کا مطالبہ بھی کر سکتے ہیں۔ اگر آپ کوئی چینل پیچھے کر کے دیکھنا چاہتے ہیں یا ریکارڈ کرنا چاہتے ہیں تو یہ سہولت بھی میسر کی جاتی ہے۔اس کے علاوہ بھی ڈی ٹی ایچ کی سروس مختلف سہولیات کرتی ہے۔

ڈی ٹی ایچ کی ٹیکنالوجی وائرلیس ہے اور تاروں کے بغیر کام کرتی ہے۔ اس لیے اسے کہیں بھی رکھا جا سکتا ہے۔ یوں کیبل آپریٹرز سے گلیوں اور گھروں تک آنے والے تاروں کے جال سے جان چھوٹنا ممکن ہے۔سروس کے ذریعے سگنل سیٹلائٹ سے موصول ہوتے ہیں۔لہذا کسی تار کی خرابی کا ڈر رہتا ہے اور نہ ہی موسم کی خرابی کے باعث کیبل بند ہو جانے کا اندیشہ ۔حتی کہ بتی جانے پر بھی ٹی وی دیکھا جا سکتا ہے۔

ڈی ٹی ایچ نئی اور بہترین ٹیکنالوجی ہے لیکن پاکستان میں ہر شخص اسے استعمال کرنے کے لیے تیار نہیں ۔یہ سروس استعمال کرنے کی خاطر اچھی کوالٹی کا ایل ای ڈی ٹی وی ہونا ضروری ہے ۔اگر بھرپور لطف اٹھانا ہو تو ٹی وی سکرین کا سائز بھی بڑا ہونا ضروری ہے۔ ایک ڈی ٹی ایچ باکس کے ساتھ صرف ایک ہی ٹی وی لگ سکتا ہے۔ اگر ایک سے زائد ٹی وی ایک باکس کے ساتھ لگا بھی دئیے جائیں تو دونوں پر ایک وقت میں ایک ہی چینل آئے گا۔ مطلب یہ کہ ایک ہی گھر میں موجود مختلف ٹی وی سیٹس کے لیے الگ الگ ڈی ٹی ایچ باکس لینا پڑیں گے اور ان کی ماہانہ فیس بھی ادا کرنا ہو گی۔

پاکستان میں اس وقت بہت سے لوگ ڈی ٹی ایچ استعمال کر رہے ہیں۔ کیبل آپریٹرز بھی ڈی ٹی ایچ سروس ہی استعمال کرتے ہوئے کیبل کا کاروبار چلا رہے ہیں۔ وہ مختلف ڈی ٹی ایچ سروسز کے ذریعے چینلوں کی ٹرانسمیشن لیتے اور پھر تاروں کے ذریعے صارفین تک پہنچاتے ہیں۔ مگر کیبل آپریٹرز کے زیر استعمال بیشتر چینل بھارت کے یا غیرملکی ہیں۔گویااس کاروبار سے حاصل ہونے والا منافع ملکی خزانے میں جانے کے بجائے غیر ملکوں کو جا رہا ہے۔ لیکن نیلامی کے بعد لائسنس کی باقاعدہ فروخت سے منافع بھی پاکستان کو ہی ملے گا اور صارف کو بھی سہولت ہو گی۔

عام صارف کے لیے ڈی ٹی ایچ سروس کا نقصان یہ ہے کہ ایک ہی گھر میں رہنے والے افراد اگر ایک سے زائد ٹی وی استعمال کرتے ہیں تو انہیں ہر ٹی وی کی خاطر الگ ڈی ٹی ایچ باکس خریدنا پڑے گا۔ کیبل آپریٹرز ماہانہ دو سو سے تین سو روپے میں یہ سروس فراہم کر رہے ہیں ۔جبکہ ڈی ٹی ایچ کے لیے ماہانہ ایک ہزار سے پندرہ سو روپے دینا ہوں گے۔ نیز ڈیجیٹل باکس حاصل کرتے ہوئے بھی چار سے پانچ ہزار روپے الگ ادا کرنا پڑیں گے۔

کیبل آپریٹرز کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ اگر ڈی ٹی ایچ سروس فراہم کی گئی تو ان کا کاروبار ٹھپ ہو جائے گا اور انہیں ناقابل تلافی نقصان برداشت کرنا پڑے گا۔کئی لوگ اچھی سروس کو ہی ترجیح دیں گے۔ یہی وجہ ہے ، کیبل آپریٹرز کے احتجاج اور ہڑتالوں کے باعث یہ نیلامی کئی برس سے زیر التوا تھی۔ تاہم بالآخر سپریم کورٹ کی اجازت کے بعد پیمرا نے تین لائسنس چار ارب روپے میں فروخت کر دئیے جو امید کی گئی رقم سے کہیں زیادہ ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں