پاک امریکا تعلقات ہوش کے ناخن لیے جائیں
امریکا کی افغان پالیسی کے بعد ہم نے کیا کرنا ہے کوئی علم نہیں۔
KARACHI:
پاک امریکا تعلقات کی پوری صورتحال کو دیکھ کر فلم ''مسٹر انڈیا'' کا وہ سین یاد آتا ہے جس میں اداکارہ سری دیوی چینی رقاصہ کا روپ دھار کر ولن کے سامنے بظاہر چینی زبان میں گانا گاتی ہے، گانے کا ایک مصرع ہے: ''اسی تُسی لسی پیتی'' وہ ایسے لمبے سر میں گاتی ہے کہ ولن بھی داد دیے بغیر نہیں رہتا۔ یہی حال پاکستان کا ہے کہ جب وہ 70 سال بعد امریکی کیمپ سے نکل رہا ہے تو ایک ایسی دنیا میں اپنا کردار متعین کر رہا ہے جو ابھی تشکیل بھی نہیں پائی۔
ویسے تو ہم مبارکباد کے مستحق ہیں کہ ہم امریکا کے اُس چنگل سے نکل رہے ہیں جس سے جان چھڑانے کا محض تصور ہی کیا جا سکتا ہے، ایران کے مطالبات ماننے ہیں یا امریکی ایماء پر اُس سے بھی دوری رکھنی ہے، اس کا بھی کوئی علم نہیں۔ امریکا کی افغان پالیسی کے بعد ہم نے کیا کرنا ہے کوئی علم نہیں۔ 2018ء میں 12ارب ڈالر ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کو واپس کرنے ہیں، یہ رقم کہاں سے آنی ہے، کوئی علم نہیں۔ اگر کل افغانستان بھی اپنی فوجیں ڈیورنڈ لائن پر لے آتا ہے تو اُسے کیسے روکنا ہے، کوئی علم نہیں اور سب سے اہم یہ کہ اگر پاکستان کے ایٹمی میزائل پروگرام کے حوالے سے مستقبل میں پابندیاں لگ جاتی ہیں توکیا کرنا ہے، کوئی علم نہیں!
افسوس تو اس بات کا ہے کہ ہم آج تک دنیا کو اپنا نقصان بھی نہیں گنوا سکے۔ 70ہزار اُن شہداء کو نہیں گنوا سکے جنھیں اس جنگ میں جھونک دیا گیا جو اُن کی تھی ہی نہیں اور گزشتہ چند سالوں سے دوسرے ملکوں کے ساتھ ذاتی تعلقات بنائے گئے جس کا کہیں آڈٹ کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔
موجودہ حکومت کے گزشتہ چار سال کا احتساب کوئی کرنے کو تیار نہیں جس میں ایک پرائم منسٹر نے وزارت خارجہ کو اپنے ساتھ جوڑے رکھا اور اب جب امریکا نے پاکستان کو دھمکیاں دی ہیں تو اس کے جواب میں اگر کہیں سے آواز نہیں آئی تو وہ ہے پارلیمنٹ جسے سانپ سونگھ گیا ہے اور جب ملک کو اکٹھا ہونے کی ضرورت ہے تو تمام سیاسی جماعتیں اندرونی سیاست اور جوڑ توڑ میں لگی ہوئی ہیں۔
دشمن ہمارے سر پر سوار ہو رہا ہے حالانکہ ہمیں امریکا کو یہ پیغام دینے کی ضرورت ہے کہ یہ کوئی ''پالیسی'' نہیں کیونکہ پالیسی دھمکیوں پر مشتمل نہیں ہوتی ہے۔امریکا میں گزشتہ تین حکومتیں بش، اوباما اور اب ٹرمپ انتظامیہ افغانستان کے مسئلے کو ایک ہی طریقے سے حل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔اس لحاظ سے یہ کوئی نئی پالیسی نہیں ہے۔سول قیادت کے فوری جواب نہ آنے کی صورت میں آرمی چیف نے جو کہا وہ وقت کا تقاضا ہے۔ پاکستان کو امریکی امداد کی ضرورت نہیں، امریکا پاکستان کی دہشتگردی کے خلاف قربانیوں کو تسلیم کرے۔بقول شاعر
زمیں پہ خون کے گلشن سجائے جاتے ہیں
شفق میں رنگِ شہادت کھلائے جاتے ہیں
ہمیں علم ہی نہیں کہ بطور قوم ہماری منزل کیا ہے؟ ہمارا ایجنڈا کیا ہونا چاہیے؟میں نے رواں سال کے 15مارچ کو ''امریکی دھمکیاں اور غیر سنجیدہ خارجہ پالیسی!'' پر کالم میں اس بات کا ذکر کیا تھا کہ آنے والے وقت میں پاکستان کہاں کھڑا ہو گا اور ایسی صورتحال میں پاکستان کو کیا کرنا چاہیے۔
کالم سے اقتباس کے مطابق ''پاکستان کویہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی خودداری پر کبھی سمجھوتا نہ کرے، امریکی دھمکیاں ایک طرف ہمارا اپنا قبلہ درست ہونا چاہیے اور اس حوالے سے سوچنا چاہیے کہ آخر امریکا کو ایسی دھمکیوں کی ضرورت پیش کیوں آئی؟ حکمرانوں کو امریکا میں بھارتی لابی، افغان لابی، اور بعض پاکستانی شخصیات کی لابی جو مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہیں کی کوششوں کو ناکام بنانے کے لیے سفارتی محاذ پر زیادہ مستعدی اور سرگرمی کا ثبوت دینا چاہیے تا کہ دنیا کو علم ہو کہ پاکستانی حکمران اور عوام بیرونی ہتھکنڈوں سے نمٹنے کے لیے ایک ہی پیج پر ہیں۔''
میں آج بھی یہی کہوں گا کہ اگر امریکا جو اس دنیا کی حقیقت ہے اور اگلے 25 سال تک دنیا پر حکمرانی بغیر کسی روک ٹوک کر سکتا ہے تو اُس سے ہم منہ موڑ کر پیچھے کس طرح ہٹ سکتے ہیں اور روس و چین پر کس طرح اعتبار کر سکتے ہیں، کیونکہ 71ء کی جنگ میں چین کے ہوتے ہوئے بھارت نے مشرقی پاکستان کو ہم سے جدا کر دیا تھا، حالانکہ اُس وقت پاکستان نے امریکا اور چین کی دوستی میں پل کا کردار ادا کیا تھا۔
اس حوالے سے چینی وزیراعظم چو این لائی نے اعتراف کرتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر سے کہا تھا کہ پاکستان نے امریکا کے لیے چین تک رسائی کا پل بننے کا کردار ادا کیا ہے لیکن چین نے اس احسان کو بھلا دیا اور امریکا نے پاکستان کے90 ہزار قیدیوں کو بھارت سے چھڑانے میں اہم کردار ادا کیا تھا، پھر کارگل کی جنگ میں ہمارے اُس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف امریکا گئے پھر اس کے بعد جنگ میں ایک نیا موڑ آیا اور جنگ ختم ہوگئی اور پھر ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ہمارے ہزاروں طالب علم وہاں زیر تعلیم ہیں، اور لاکھوں پاکستانی وہاں مقیم ہیں۔
تعلقات خراب ہونے کی صورت میں اُن کا مستقبل داؤ پر لگ جائے گا۔ اور رہی بات امریکی دھمکیوں کی تو یہ واضح رہے کہ امریکی مصنف گراہم گرین نےTheUgly Americans نامی ایک ناول لکھا تھا جس پر بعد ازاں فلم بھی بنائی گئی جس میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی تھی کہ دنیا کے بارے میں امریکا کی پالیسیوں کی اس کے تمام عوام بھی حمایت نہیں کرتے کیونکہ یہ پالیسیاں ان کی خواہشات کی ترجمان نہیں ہوتیں۔
آج امریکا پاکستان کو کم و بیش ایک ارب ڈالر سالانہ امداد دے رہا ہے، جس کے رک جانے سے دنیا میں کوئی ملک بھی ایسا نہیں ہے جو یہ حامی بھر لے کہ پاکستان کو اتنی ہی امداد دے سکتا ہے، چین پاکستان سے محض کاروبار کی بات کرتا ہے، اور یہ ہم کیسے بھول جاتے ہیں کہ آج بھی تمام ترقی یافتہ ممالک امریکا کے ساتھ ہیں، دنیا کی بڑی طاقتیں خصوصاََ برطانیہ، جرمنی، پورا یورپ اور اس جیسے کئی ممالک اور چین کو بھی یہ منظور نہیں ہوگا کہ پاکستان امریکا تعلقات خراب ہوں کیونکہ وہ پہلے ہی شمالی کوریا کی تکلیفیں جھیل رہا ہے۔
شمالی کوریا کے ہر اقدام کو چین سے منسوب کر دیا جا تا ہے۔ اب کہا جا تا ہے کہ سی پیک بھی امریکی ناراضی کی وجہ ہو سکتی ہے، چلیں مان لیا کہ سی پیک ہی بنیادی ایشو ہے اور اسی سے امریکا کو تکلیف ہو رہی ہو لیکن ہمیں اپنا آپ تو کلیئر ہو نا چاہیے۔ کہ ہم کرنا کیا چاہتے ہیں اور اگر امریکا کے چنگل سے باہر ہی نکلنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے ہماری تیاری کیا ہے؟
اگر کوئی تیاری نہیں ہے تو سول اور ملٹری قیادت سر جوڑ کر بیٹھے اور امریکی طرز پر تھنک ٹینک بنائے جو اگلے 20 سال کی منصوبہ بندی کرکے گول سیٹ کرے اور فوری طور پر امریکا میں وفد بھیجے جائیں تاکہ پاکستان کی قربانیوں کے حوالے سے ٹرمپ انتظامیہ کا اعتماد بحال کیا جائے، اگر بھارت اس حوالے سے زیادہ ایکٹو ہے تو ہمیں شرم کرنی چاہیے کہ وہ جس پر حملہ کرنا چاہ رہا ہے اُس نے واقعتاً لسی پی ہوئی ہے...!
پاک امریکا تعلقات کی پوری صورتحال کو دیکھ کر فلم ''مسٹر انڈیا'' کا وہ سین یاد آتا ہے جس میں اداکارہ سری دیوی چینی رقاصہ کا روپ دھار کر ولن کے سامنے بظاہر چینی زبان میں گانا گاتی ہے، گانے کا ایک مصرع ہے: ''اسی تُسی لسی پیتی'' وہ ایسے لمبے سر میں گاتی ہے کہ ولن بھی داد دیے بغیر نہیں رہتا۔ یہی حال پاکستان کا ہے کہ جب وہ 70 سال بعد امریکی کیمپ سے نکل رہا ہے تو ایک ایسی دنیا میں اپنا کردار متعین کر رہا ہے جو ابھی تشکیل بھی نہیں پائی۔
ویسے تو ہم مبارکباد کے مستحق ہیں کہ ہم امریکا کے اُس چنگل سے نکل رہے ہیں جس سے جان چھڑانے کا محض تصور ہی کیا جا سکتا ہے، ایران کے مطالبات ماننے ہیں یا امریکی ایماء پر اُس سے بھی دوری رکھنی ہے، اس کا بھی کوئی علم نہیں۔ امریکا کی افغان پالیسی کے بعد ہم نے کیا کرنا ہے کوئی علم نہیں۔ 2018ء میں 12ارب ڈالر ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کو واپس کرنے ہیں، یہ رقم کہاں سے آنی ہے، کوئی علم نہیں۔ اگر کل افغانستان بھی اپنی فوجیں ڈیورنڈ لائن پر لے آتا ہے تو اُسے کیسے روکنا ہے، کوئی علم نہیں اور سب سے اہم یہ کہ اگر پاکستان کے ایٹمی میزائل پروگرام کے حوالے سے مستقبل میں پابندیاں لگ جاتی ہیں توکیا کرنا ہے، کوئی علم نہیں!
افسوس تو اس بات کا ہے کہ ہم آج تک دنیا کو اپنا نقصان بھی نہیں گنوا سکے۔ 70ہزار اُن شہداء کو نہیں گنوا سکے جنھیں اس جنگ میں جھونک دیا گیا جو اُن کی تھی ہی نہیں اور گزشتہ چند سالوں سے دوسرے ملکوں کے ساتھ ذاتی تعلقات بنائے گئے جس کا کہیں آڈٹ کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔
موجودہ حکومت کے گزشتہ چار سال کا احتساب کوئی کرنے کو تیار نہیں جس میں ایک پرائم منسٹر نے وزارت خارجہ کو اپنے ساتھ جوڑے رکھا اور اب جب امریکا نے پاکستان کو دھمکیاں دی ہیں تو اس کے جواب میں اگر کہیں سے آواز نہیں آئی تو وہ ہے پارلیمنٹ جسے سانپ سونگھ گیا ہے اور جب ملک کو اکٹھا ہونے کی ضرورت ہے تو تمام سیاسی جماعتیں اندرونی سیاست اور جوڑ توڑ میں لگی ہوئی ہیں۔
دشمن ہمارے سر پر سوار ہو رہا ہے حالانکہ ہمیں امریکا کو یہ پیغام دینے کی ضرورت ہے کہ یہ کوئی ''پالیسی'' نہیں کیونکہ پالیسی دھمکیوں پر مشتمل نہیں ہوتی ہے۔امریکا میں گزشتہ تین حکومتیں بش، اوباما اور اب ٹرمپ انتظامیہ افغانستان کے مسئلے کو ایک ہی طریقے سے حل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔اس لحاظ سے یہ کوئی نئی پالیسی نہیں ہے۔سول قیادت کے فوری جواب نہ آنے کی صورت میں آرمی چیف نے جو کہا وہ وقت کا تقاضا ہے۔ پاکستان کو امریکی امداد کی ضرورت نہیں، امریکا پاکستان کی دہشتگردی کے خلاف قربانیوں کو تسلیم کرے۔بقول شاعر
زمیں پہ خون کے گلشن سجائے جاتے ہیں
شفق میں رنگِ شہادت کھلائے جاتے ہیں
ہمیں علم ہی نہیں کہ بطور قوم ہماری منزل کیا ہے؟ ہمارا ایجنڈا کیا ہونا چاہیے؟میں نے رواں سال کے 15مارچ کو ''امریکی دھمکیاں اور غیر سنجیدہ خارجہ پالیسی!'' پر کالم میں اس بات کا ذکر کیا تھا کہ آنے والے وقت میں پاکستان کہاں کھڑا ہو گا اور ایسی صورتحال میں پاکستان کو کیا کرنا چاہیے۔
کالم سے اقتباس کے مطابق ''پاکستان کویہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی خودداری پر کبھی سمجھوتا نہ کرے، امریکی دھمکیاں ایک طرف ہمارا اپنا قبلہ درست ہونا چاہیے اور اس حوالے سے سوچنا چاہیے کہ آخر امریکا کو ایسی دھمکیوں کی ضرورت پیش کیوں آئی؟ حکمرانوں کو امریکا میں بھارتی لابی، افغان لابی، اور بعض پاکستانی شخصیات کی لابی جو مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہیں کی کوششوں کو ناکام بنانے کے لیے سفارتی محاذ پر زیادہ مستعدی اور سرگرمی کا ثبوت دینا چاہیے تا کہ دنیا کو علم ہو کہ پاکستانی حکمران اور عوام بیرونی ہتھکنڈوں سے نمٹنے کے لیے ایک ہی پیج پر ہیں۔''
میں آج بھی یہی کہوں گا کہ اگر امریکا جو اس دنیا کی حقیقت ہے اور اگلے 25 سال تک دنیا پر حکمرانی بغیر کسی روک ٹوک کر سکتا ہے تو اُس سے ہم منہ موڑ کر پیچھے کس طرح ہٹ سکتے ہیں اور روس و چین پر کس طرح اعتبار کر سکتے ہیں، کیونکہ 71ء کی جنگ میں چین کے ہوتے ہوئے بھارت نے مشرقی پاکستان کو ہم سے جدا کر دیا تھا، حالانکہ اُس وقت پاکستان نے امریکا اور چین کی دوستی میں پل کا کردار ادا کیا تھا۔
اس حوالے سے چینی وزیراعظم چو این لائی نے اعتراف کرتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر سے کہا تھا کہ پاکستان نے امریکا کے لیے چین تک رسائی کا پل بننے کا کردار ادا کیا ہے لیکن چین نے اس احسان کو بھلا دیا اور امریکا نے پاکستان کے90 ہزار قیدیوں کو بھارت سے چھڑانے میں اہم کردار ادا کیا تھا، پھر کارگل کی جنگ میں ہمارے اُس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف امریکا گئے پھر اس کے بعد جنگ میں ایک نیا موڑ آیا اور جنگ ختم ہوگئی اور پھر ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ہمارے ہزاروں طالب علم وہاں زیر تعلیم ہیں، اور لاکھوں پاکستانی وہاں مقیم ہیں۔
تعلقات خراب ہونے کی صورت میں اُن کا مستقبل داؤ پر لگ جائے گا۔ اور رہی بات امریکی دھمکیوں کی تو یہ واضح رہے کہ امریکی مصنف گراہم گرین نےTheUgly Americans نامی ایک ناول لکھا تھا جس پر بعد ازاں فلم بھی بنائی گئی جس میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی تھی کہ دنیا کے بارے میں امریکا کی پالیسیوں کی اس کے تمام عوام بھی حمایت نہیں کرتے کیونکہ یہ پالیسیاں ان کی خواہشات کی ترجمان نہیں ہوتیں۔
آج امریکا پاکستان کو کم و بیش ایک ارب ڈالر سالانہ امداد دے رہا ہے، جس کے رک جانے سے دنیا میں کوئی ملک بھی ایسا نہیں ہے جو یہ حامی بھر لے کہ پاکستان کو اتنی ہی امداد دے سکتا ہے، چین پاکستان سے محض کاروبار کی بات کرتا ہے، اور یہ ہم کیسے بھول جاتے ہیں کہ آج بھی تمام ترقی یافتہ ممالک امریکا کے ساتھ ہیں، دنیا کی بڑی طاقتیں خصوصاََ برطانیہ، جرمنی، پورا یورپ اور اس جیسے کئی ممالک اور چین کو بھی یہ منظور نہیں ہوگا کہ پاکستان امریکا تعلقات خراب ہوں کیونکہ وہ پہلے ہی شمالی کوریا کی تکلیفیں جھیل رہا ہے۔
شمالی کوریا کے ہر اقدام کو چین سے منسوب کر دیا جا تا ہے۔ اب کہا جا تا ہے کہ سی پیک بھی امریکی ناراضی کی وجہ ہو سکتی ہے، چلیں مان لیا کہ سی پیک ہی بنیادی ایشو ہے اور اسی سے امریکا کو تکلیف ہو رہی ہو لیکن ہمیں اپنا آپ تو کلیئر ہو نا چاہیے۔ کہ ہم کرنا کیا چاہتے ہیں اور اگر امریکا کے چنگل سے باہر ہی نکلنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے ہماری تیاری کیا ہے؟
اگر کوئی تیاری نہیں ہے تو سول اور ملٹری قیادت سر جوڑ کر بیٹھے اور امریکی طرز پر تھنک ٹینک بنائے جو اگلے 20 سال کی منصوبہ بندی کرکے گول سیٹ کرے اور فوری طور پر امریکا میں وفد بھیجے جائیں تاکہ پاکستان کی قربانیوں کے حوالے سے ٹرمپ انتظامیہ کا اعتماد بحال کیا جائے، اگر بھارت اس حوالے سے زیادہ ایکٹو ہے تو ہمیں شرم کرنی چاہیے کہ وہ جس پر حملہ کرنا چاہ رہا ہے اُس نے واقعتاً لسی پی ہوئی ہے...!