سابق والیان ریاست کی نشانی
تصویر دیکھی تو اس میں وزیر موصوف اپنے حلقہ انتخاب میں تعمیر ہونے والی ایک پختہ سڑک کا معائنہ فرما رہے تھے۔
میرعطا حسین تالپور، بھٹو دور میں، غلام مصطفیٰ جتوئی کی سندھ کابینہ میں وزیر ہوا کرتے تھے۔ کہتے ہیں ان کا تعلق سابق ریاست خیرپور کے شاہی خاندان سے تھا اور انھیں شہنشاہ ایران، رضا شاہ پہلوی کی سفارش پر کابینہ میں لیا گیا تھا۔
اس میں کہاں تک حقیقت تھی یہ تو خدا جانتا ہے، لیکن بات چیت اور حرکات و سکنات سے لگتا تھا کہ زیادہ پڑھے لکھے نہیں تھے اور انھیں اخبارات میں اپنی تصاویر چھپوانے کا بہت شوق تھا جس کے لیے وہ بچوں جیسی حرکتیں کرنے سے بھی نہیں چوکتے تھے۔ یوں بھی وہ پرنٹ میڈیا کا دور تھا، آج کل کے الیکٹرانک میڈیا کے دور میں ہوتے تو پتہ نہیں کیا کرتے۔ ان کی ایسی ہی ایک بچکانہ حرکت کو ہمارے ایک معروف فوٹوگرافر ظفر احمد نے اپنے کیمرے کی آنکھ سے دیکھا تھا، دوسروں کو اس لیے نہیں دکھایا کہ اخبار بھی انھی کی پارٹی کا ترجمان تھا۔
سندھ اسمبلی کا اجلاس جاری تھا اور اس روز وزیر اعلیٰ، جن کے پاس وزارت خزانہ کا قلمدان بھی تھا، روایتی بریف کیس ہاتھ میں لیے بجٹ پیش کرنے آرہے تھے۔ ظفر نے جوں ہی اسمبلی بلڈنگ کی سیڑھیوں پر چڑھتے ہوئے جتوئی صاحب کی تصویر بنانے کے لیے پوزیشن لی، وزیر موصوف نے، جو ابھی کار سے اترے ہی تھے، پہلے تو '' رکو، رکو '' کی آواز لگائی اور پھر بھاگ کر جتوئی صاحب کے پاس پہنچنے کی کوشش کی تاکہ وہ بھی تصویر میں آ سکیں۔
ان کو ایسا کرتے دیکھ کر ظفر کو شرارت سوجھی اور اس نے فوراً پوزیشن بدل کر دوسرے رخ سے تصویر بنا لی۔ میر صاحب نے تصویر میں آنے کے لیے جست لگائی تھی اور پاؤں پھسلنے کی وجہ سے گرتے گرتے بچے تھے لیکن تصویر میں نہ آسکے۔ ظفر کو مسکراتا دیکھ کر سمجھ گئے کہ اس نے جان بوجھ کر ان کی تصویر نہیں بنائی سو لعنت دکھا کر بولے ایک منٹ ٹھہر نہیں سکتے تھے۔ ظفر قد میں چھوٹے مگر سیاسی اور اسپورٹس فوٹوگرافروں میں بلند قامت شمار ہوتے ہیں،کراچی میں ان کے ہم عصروں میں داؤد سبحانی، زاہد حسین، فیروز احمد،الطاف رانا، حسام سنگرامی، ابراہیم ویانی، رقیب پونا والا، مجیب الرحمان وغیرہ کے نام لیے جاسکتے ہیں۔ ظفر احمد آجکل سخت علیل ہیں۔
اسی ظفر سے دوسری بار بھی تصویر ہی کے حوالے سے واسطہ پڑا۔ ہمارے دوست غلام حسین میمن، جو کچھ عرصہ پہلے تک کمشنر میرپور خاص ڈویژن تھے اور آج کل سیکریٹری فشریز کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں، محکمہ اطلاعات حکومت سندھ میں انفارمیشن افسر ہوا کرتے تھے اور بطور پی آر او میر عطا حسین تالپور کے ساتھ وابستہ تھے، ایک رات اس وقت ہمارے دفتر پہنچے جب فرنٹ اور بیک پیجز پر مشتمل آخری کاپی تیارکی جا رہی تھی۔ ایک تصویر دیکر کہنے لگے اگر یہ صبح کے اخبار میں نہ چھپی تو سمجھو میری نوکری گئی۔
تصویر دیکھی تو اس میں وزیر موصوف اپنے حلقہ انتخاب میں تعمیر ہونے والی ایک پختہ سڑک کا معائنہ فرما رہے تھے۔ ظاہر ہے وہ تصویر بیرونی صفحات پر تو چھپ نہیں سکتی تھی لہذا اپنے دوست کی نوکری بچانے کے لیے ہمیں اضلاع کی خبروں والے صفحات کی کاپی پریس سے واپس منگواکر ان کی لائی ہوئی تصویر ایڈجسٹ کرنی پڑی، جب کہ اس کاپی کی پلیٹ بھی بن چکی تھی۔ غلام حسین نے بتایا کہ میر صاحب کو تصویریں بنوانے اور اخبارات میں چھپوانے کا کریز تھا، اپنی ہر نئی تصویر دیتے وقت پی آر او کو یہ تنبیہ کرنا نہیں بھولتے تھے کہ اگر یہ تصویر صبح کے اخبارات میں نہ چھپی تو مجھے اپنی شکل نہ دکھانا۔
تیسری بار مجھے اس وقت ذاتی طور پر میر عطا حسین تالپور سے ملنے کا اتفاق ہوا جب میں جی این مغل کے ہمراہ سندھ سیکریٹریٹ میں ان کے دفتر گیا۔ مغل ہمارے اخبار میں بطور رپورٹر کام کرتے تھے اور ہم دونوں پریس کلب میں لنچ کرکے دفتر واپس جا رہے تھے کہ سیکریٹریٹ کے پاس پہنچ کر مغل کو یاد آیا کہ اس نے میر صاحب سے آج ملنے کا وقت لے رکھا تھا، کہنے لگا بس پانچ منٹ لگیں گے، ملکر ساتھ دفتر چلتے ہیں۔ اس کے بہت اصرار پر میں انکار نہ کرسکا اور اس کے ساتھ چلا گیا۔
پی اے کو شاید یاد نہ رہا کہ وزیر موصوف سیکریٹری کے ساتھ میٹنگ میں مصروف ہیں سو اس نے ہمیں بھی جانے دیا۔ مشہور بیوروکریٹ ایس ایم وسیم ان دنوں اس محکمے کے سیکریٹری تھے جس کا قلمدان میر صاحب کے پاس تھا۔ کمرے میں داخل ہوتے وقت ہم نے انھیں وسیم صاحب سے یہ دریافت کرتے سنا کہ ان کے کام کا کیا ہوا۔ ہم سے مل کر اور بیٹھنے کا کہہ کر وہ پھر سیکریٹری صاحب کی طرف متوجہ ہوئے جن کا جواب بالکل واضح تھا کہ وہ کام نہیں ہو سکتا کیونکہ اس سے دوسروں کی حق تلفی ہوگی۔ میر صاحب مجھے اس وقت کسی بچے کی طرح بالکل معصوم لگے جب وسیم صاحب کا دو ٹوک جواب سن کر وہ ہم سے مخاطب ہوکر بولے یار، سیکریٹری صاحب کو سمجھائیں، اگر یہ مجھے چھوٹا سا فیور بھی نہیں دے سکتے تو میرے وزیر ہونے کا کیا فائدہ۔
جی میں آیا انھیں کہوں وزیرکیا بیچتا ہے، آپ تو شاہی خاندان کے فرد ہیں، ان کی منت سماجت کرنے کے بجائے براہ راست شہنشاہ ایران سے بات کریں، وہ بھٹو صاحب سے کہیں گے تو کام ہوجائے گا، پھر یہ سوچ کر خاموش رہا کہ کہیں شہنشاہ والا چینل استعمال کرکے وہ ہماری ہی چھٹی نہ کروادیں کہ اخبار تو بہرحال بھٹو ہی کا تھا۔ میں نے کئی لوگوں کو اس بات پر حیرت ظاہر کرتے دیکھا تھا کہ آخر ان جیسے لوگوں کو وزارتیں دینے میں کون سی حکمت کار فرما تھی کہ صرف گدو بندر ہی نہیں پورا صوبہ ان کے دائرہ اختیار میں آتا تھا۔
اس زمانے میں لائٹ ہاؤس پر واقع سبحان اللہ ہوٹل فٹ پاتھ چھاپ دانشوروں کی بیٹھک ہوا کرتا تھا۔ چار آنے کپ والی چائے اس ہوٹل کی وجہ شہرت تھی جو کانچ کے چھوٹے گلاس میں پینے کو ملتی تھی۔ اس ہوٹل کی دوسری خاص بات یہ تھی کہ یہ رات دن کھلا رہتا تھا۔ وہاں بھی میں نے ایک بار میر صاحب کو موضوع بحث بنا پایا۔ ایک صاحب با قاعدہ تقریر جھاڑ رہے تھے، ان کا کہنا تھا کہ ایک وزیر صاحب پر ہی کیا موقوف ہے، خیرپور کے شاہی خاندان نے ان سے بھی بہت اعلیٰ قسم کے نمونے پیدا کیے ہیں۔ ریاست کے ایک والی، جیونی بائی نامی مغنیہ پر دل وجان سے فریفتہ تھے جس کی رنگت تو سیاہ تھی مگر آواز کا ایسا جادو جگاتی تھی کہ کیا کہنے۔
ان والی ریاست کی توند کچھ زیادہ ہی نکلی ہوئی تھی جو انھیں سیدھا ہوکر بیٹھنے نہیں دیتی تھی اور وہ زیادہ تر لیٹے رہتے تھے، جب کچھ سننے کے موڈ میں ہوتے اور جیونی بائی کو طلب کرتے تو وہ بھری محفل میں ان کی توند پر بیٹھ کر نغمہ سرا ہوتی۔ ایک اور والی ریاست خیرپور کے لیے کہتے ہیں کہ انھیں شاعری سے عشق تھا، سانگی تخلص کرتے تھے اور ہر وقت شعر موزوں کرتے پائے جاتے تھے، ریاستی امور ان کی شاعری میں مخل ہوتے تو بہت ناگوار گزرتا۔
بہت کوشش کے باوجود جب سرکاری کاموں اور شاعری کے شوق میں توازن قائم نہ رکھ سکے تو شاہ برطانیہ کی تقلید میں تاج و تخت کو لات مارکر خاک نشینی اختیار کرلی، اب کوئی چیز ان کے شوق شاعری میں مخل نہیں ہوتی تھی اورہر وقت بیٹھے شعر موزوں کرتے رہتے تھے۔ کہتے ہیں شعر بھی بہت خوبصورت کہتے تھے جو آج بھی سندھ میں زبان زد خاص و عام ہیں۔ اس لحاظ سے ہمارے ممدوح میر عطا حسین تالپور گویا اپنے اجداد کا جدید ترین ماڈل تھے، انھیں اگر دل بہلانے کو جیونی بائی جیسی کوئی بے مثال مغنیہ میسر نہیں تھی اور شاعری سے شغف بھی نہ تھا تو کیا ہوا، تصویریں بنوانے اور چھپوانے سے تو انھیں کوئی نہیں روک سکتا تھا۔ بقول غالب
گو ہاتھ میں جنبش نہیں،آنکھوں میں تو دم ہے
رہنے دو ابھی ساغر و مینا مرے آگے
اس میں کہاں تک حقیقت تھی یہ تو خدا جانتا ہے، لیکن بات چیت اور حرکات و سکنات سے لگتا تھا کہ زیادہ پڑھے لکھے نہیں تھے اور انھیں اخبارات میں اپنی تصاویر چھپوانے کا بہت شوق تھا جس کے لیے وہ بچوں جیسی حرکتیں کرنے سے بھی نہیں چوکتے تھے۔ یوں بھی وہ پرنٹ میڈیا کا دور تھا، آج کل کے الیکٹرانک میڈیا کے دور میں ہوتے تو پتہ نہیں کیا کرتے۔ ان کی ایسی ہی ایک بچکانہ حرکت کو ہمارے ایک معروف فوٹوگرافر ظفر احمد نے اپنے کیمرے کی آنکھ سے دیکھا تھا، دوسروں کو اس لیے نہیں دکھایا کہ اخبار بھی انھی کی پارٹی کا ترجمان تھا۔
سندھ اسمبلی کا اجلاس جاری تھا اور اس روز وزیر اعلیٰ، جن کے پاس وزارت خزانہ کا قلمدان بھی تھا، روایتی بریف کیس ہاتھ میں لیے بجٹ پیش کرنے آرہے تھے۔ ظفر نے جوں ہی اسمبلی بلڈنگ کی سیڑھیوں پر چڑھتے ہوئے جتوئی صاحب کی تصویر بنانے کے لیے پوزیشن لی، وزیر موصوف نے، جو ابھی کار سے اترے ہی تھے، پہلے تو '' رکو، رکو '' کی آواز لگائی اور پھر بھاگ کر جتوئی صاحب کے پاس پہنچنے کی کوشش کی تاکہ وہ بھی تصویر میں آ سکیں۔
ان کو ایسا کرتے دیکھ کر ظفر کو شرارت سوجھی اور اس نے فوراً پوزیشن بدل کر دوسرے رخ سے تصویر بنا لی۔ میر صاحب نے تصویر میں آنے کے لیے جست لگائی تھی اور پاؤں پھسلنے کی وجہ سے گرتے گرتے بچے تھے لیکن تصویر میں نہ آسکے۔ ظفر کو مسکراتا دیکھ کر سمجھ گئے کہ اس نے جان بوجھ کر ان کی تصویر نہیں بنائی سو لعنت دکھا کر بولے ایک منٹ ٹھہر نہیں سکتے تھے۔ ظفر قد میں چھوٹے مگر سیاسی اور اسپورٹس فوٹوگرافروں میں بلند قامت شمار ہوتے ہیں،کراچی میں ان کے ہم عصروں میں داؤد سبحانی، زاہد حسین، فیروز احمد،الطاف رانا، حسام سنگرامی، ابراہیم ویانی، رقیب پونا والا، مجیب الرحمان وغیرہ کے نام لیے جاسکتے ہیں۔ ظفر احمد آجکل سخت علیل ہیں۔
اسی ظفر سے دوسری بار بھی تصویر ہی کے حوالے سے واسطہ پڑا۔ ہمارے دوست غلام حسین میمن، جو کچھ عرصہ پہلے تک کمشنر میرپور خاص ڈویژن تھے اور آج کل سیکریٹری فشریز کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں، محکمہ اطلاعات حکومت سندھ میں انفارمیشن افسر ہوا کرتے تھے اور بطور پی آر او میر عطا حسین تالپور کے ساتھ وابستہ تھے، ایک رات اس وقت ہمارے دفتر پہنچے جب فرنٹ اور بیک پیجز پر مشتمل آخری کاپی تیارکی جا رہی تھی۔ ایک تصویر دیکر کہنے لگے اگر یہ صبح کے اخبار میں نہ چھپی تو سمجھو میری نوکری گئی۔
تصویر دیکھی تو اس میں وزیر موصوف اپنے حلقہ انتخاب میں تعمیر ہونے والی ایک پختہ سڑک کا معائنہ فرما رہے تھے۔ ظاہر ہے وہ تصویر بیرونی صفحات پر تو چھپ نہیں سکتی تھی لہذا اپنے دوست کی نوکری بچانے کے لیے ہمیں اضلاع کی خبروں والے صفحات کی کاپی پریس سے واپس منگواکر ان کی لائی ہوئی تصویر ایڈجسٹ کرنی پڑی، جب کہ اس کاپی کی پلیٹ بھی بن چکی تھی۔ غلام حسین نے بتایا کہ میر صاحب کو تصویریں بنوانے اور اخبارات میں چھپوانے کا کریز تھا، اپنی ہر نئی تصویر دیتے وقت پی آر او کو یہ تنبیہ کرنا نہیں بھولتے تھے کہ اگر یہ تصویر صبح کے اخبارات میں نہ چھپی تو مجھے اپنی شکل نہ دکھانا۔
تیسری بار مجھے اس وقت ذاتی طور پر میر عطا حسین تالپور سے ملنے کا اتفاق ہوا جب میں جی این مغل کے ہمراہ سندھ سیکریٹریٹ میں ان کے دفتر گیا۔ مغل ہمارے اخبار میں بطور رپورٹر کام کرتے تھے اور ہم دونوں پریس کلب میں لنچ کرکے دفتر واپس جا رہے تھے کہ سیکریٹریٹ کے پاس پہنچ کر مغل کو یاد آیا کہ اس نے میر صاحب سے آج ملنے کا وقت لے رکھا تھا، کہنے لگا بس پانچ منٹ لگیں گے، ملکر ساتھ دفتر چلتے ہیں۔ اس کے بہت اصرار پر میں انکار نہ کرسکا اور اس کے ساتھ چلا گیا۔
پی اے کو شاید یاد نہ رہا کہ وزیر موصوف سیکریٹری کے ساتھ میٹنگ میں مصروف ہیں سو اس نے ہمیں بھی جانے دیا۔ مشہور بیوروکریٹ ایس ایم وسیم ان دنوں اس محکمے کے سیکریٹری تھے جس کا قلمدان میر صاحب کے پاس تھا۔ کمرے میں داخل ہوتے وقت ہم نے انھیں وسیم صاحب سے یہ دریافت کرتے سنا کہ ان کے کام کا کیا ہوا۔ ہم سے مل کر اور بیٹھنے کا کہہ کر وہ پھر سیکریٹری صاحب کی طرف متوجہ ہوئے جن کا جواب بالکل واضح تھا کہ وہ کام نہیں ہو سکتا کیونکہ اس سے دوسروں کی حق تلفی ہوگی۔ میر صاحب مجھے اس وقت کسی بچے کی طرح بالکل معصوم لگے جب وسیم صاحب کا دو ٹوک جواب سن کر وہ ہم سے مخاطب ہوکر بولے یار، سیکریٹری صاحب کو سمجھائیں، اگر یہ مجھے چھوٹا سا فیور بھی نہیں دے سکتے تو میرے وزیر ہونے کا کیا فائدہ۔
جی میں آیا انھیں کہوں وزیرکیا بیچتا ہے، آپ تو شاہی خاندان کے فرد ہیں، ان کی منت سماجت کرنے کے بجائے براہ راست شہنشاہ ایران سے بات کریں، وہ بھٹو صاحب سے کہیں گے تو کام ہوجائے گا، پھر یہ سوچ کر خاموش رہا کہ کہیں شہنشاہ والا چینل استعمال کرکے وہ ہماری ہی چھٹی نہ کروادیں کہ اخبار تو بہرحال بھٹو ہی کا تھا۔ میں نے کئی لوگوں کو اس بات پر حیرت ظاہر کرتے دیکھا تھا کہ آخر ان جیسے لوگوں کو وزارتیں دینے میں کون سی حکمت کار فرما تھی کہ صرف گدو بندر ہی نہیں پورا صوبہ ان کے دائرہ اختیار میں آتا تھا۔
اس زمانے میں لائٹ ہاؤس پر واقع سبحان اللہ ہوٹل فٹ پاتھ چھاپ دانشوروں کی بیٹھک ہوا کرتا تھا۔ چار آنے کپ والی چائے اس ہوٹل کی وجہ شہرت تھی جو کانچ کے چھوٹے گلاس میں پینے کو ملتی تھی۔ اس ہوٹل کی دوسری خاص بات یہ تھی کہ یہ رات دن کھلا رہتا تھا۔ وہاں بھی میں نے ایک بار میر صاحب کو موضوع بحث بنا پایا۔ ایک صاحب با قاعدہ تقریر جھاڑ رہے تھے، ان کا کہنا تھا کہ ایک وزیر صاحب پر ہی کیا موقوف ہے، خیرپور کے شاہی خاندان نے ان سے بھی بہت اعلیٰ قسم کے نمونے پیدا کیے ہیں۔ ریاست کے ایک والی، جیونی بائی نامی مغنیہ پر دل وجان سے فریفتہ تھے جس کی رنگت تو سیاہ تھی مگر آواز کا ایسا جادو جگاتی تھی کہ کیا کہنے۔
ان والی ریاست کی توند کچھ زیادہ ہی نکلی ہوئی تھی جو انھیں سیدھا ہوکر بیٹھنے نہیں دیتی تھی اور وہ زیادہ تر لیٹے رہتے تھے، جب کچھ سننے کے موڈ میں ہوتے اور جیونی بائی کو طلب کرتے تو وہ بھری محفل میں ان کی توند پر بیٹھ کر نغمہ سرا ہوتی۔ ایک اور والی ریاست خیرپور کے لیے کہتے ہیں کہ انھیں شاعری سے عشق تھا، سانگی تخلص کرتے تھے اور ہر وقت شعر موزوں کرتے پائے جاتے تھے، ریاستی امور ان کی شاعری میں مخل ہوتے تو بہت ناگوار گزرتا۔
بہت کوشش کے باوجود جب سرکاری کاموں اور شاعری کے شوق میں توازن قائم نہ رکھ سکے تو شاہ برطانیہ کی تقلید میں تاج و تخت کو لات مارکر خاک نشینی اختیار کرلی، اب کوئی چیز ان کے شوق شاعری میں مخل نہیں ہوتی تھی اورہر وقت بیٹھے شعر موزوں کرتے رہتے تھے۔ کہتے ہیں شعر بھی بہت خوبصورت کہتے تھے جو آج بھی سندھ میں زبان زد خاص و عام ہیں۔ اس لحاظ سے ہمارے ممدوح میر عطا حسین تالپور گویا اپنے اجداد کا جدید ترین ماڈل تھے، انھیں اگر دل بہلانے کو جیونی بائی جیسی کوئی بے مثال مغنیہ میسر نہیں تھی اور شاعری سے شغف بھی نہ تھا تو کیا ہوا، تصویریں بنوانے اور چھپوانے سے تو انھیں کوئی نہیں روک سکتا تھا۔ بقول غالب
گو ہاتھ میں جنبش نہیں،آنکھوں میں تو دم ہے
رہنے دو ابھی ساغر و مینا مرے آگے