جذباتیت کی بجائے دانش و حکمت کی ضرورت
ہمیں اپنے اِس مکار دشمن سے خبردار رہنا ہوگا۔
ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے کے فوراً بعد امریکی صدر جارج بش نے ہمارے اُس وقت کے خود ساختہ حکمران کمانڈو پرویز مشرف کویہ کہہ کر للکارا تھا کہ ''آج تمہیں یہ ثابت کرنا ہوگا کہ تم ہمارے دوست ہو یا دشمن۔ جس کے جواب میں''سب سے پہلے پاکستان'' کے متاثرکن جذباتی نعرے کے تخلیق کار نے بظاہر پاکستان بچانے کی فکر میں اپنا سب کچھ امریکا کے آگے رکھ دیا تھا۔
اپنی زمین، اپنے شہر، اپنے ہوائی اڈے اور اپنی بندرگاہیں سبھی کچھ''اسٹریٹجک پارٹنر شپ'' کے نام پر قوم سے پوچھے بغیر امریکی ا فواج کے حوالے کردی گئی تھیں۔امریکا کئی سال تک ہمارے زمینی اور فضائی راستے استعمال کرتا رہا۔ افغانستان میں اس کی اپنی اور نیٹو افواج کو رسد اورکمک ہماری سڑکوں کے ذریعے پہنچتی رہی۔
ہم امریکا اور پرویز مشرف کے مابین ایک خفیہ معاہدے کے تحت افغانستان اورطالبان سے متعلق تمام کی تمام معلومات فراہم کرنے کے پابند بنادیے گئے تھے۔ اِن ساری خدمات، اطاعت گزاری اور حکم برداری کے جواب میں ہمیں کیا ملا۔ دہشتگردی کی جنگ کی آگ میں ہم بلاوجہ اور زبردستی جھونک دیے گئے۔ ہمارا سارا امن و سکون تباہ و برباد ہوگیا۔ ہمارے شہر اور دیہات بم دھماکوں کی نذر ہونے لگے۔
آئے دن خود کش حملہ آور ہمارے معصوم شہریوں اور فوجیوں کو موت کی نیند سلاتے رہے۔ معاشی واقتصادی صورتحال ابتر ہوتی رہی، ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاری ختم ہوکر رہ گئی۔دنیاہمیں ایک خطرناک ملک قرار دیتی رہی۔کہنے کو یہ دہشتگردی کے خلاف عالمی جنگ تھی لیکن دنیا کے کسی ملک اور قوم نے اِس جنگ میں معمولی سا بھی نقصان نہیں اُٹھایا۔ وہ آرام و سکون سے راتوں کو سوتے رہے اور ہمارے بچے بوڑھے اور جوان بے موت مرتے رہے۔
ہم اِس بیگانی لڑائی کو بلاوجہ اپنی لڑائی سمجھ کر لڑتے رہے، بدلے میں نقصانات کے ازالے کے لیے ''کولیشن سپورٹ فنڈ'' کے نام پرچند ڈالرز ہماری جھولی میں ڈال کر وہ ہماری عزت نفس اورغیرت کو للکارتے رہے۔ یہ امداد اگرچہ ہمارے نقصانات کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی تھی لیکن پھر بھی ہم نے اِسے ازراہ محبت قبول کیا۔ اِسی مالی سپورٹ کو لے کر ڈونلڈ ٹرمپ ہمیں ایک بار پھر طعنے دے رہا ہے۔نفرت اور حقارت بھرے جملوں سے وہ ہماری تذلیل و تحقیر کررہا ہے۔
امریکی صدر کی باتوں کو کسی دیوانے یا مجذوب شخص کی بڑ سمجھ کر نظر اندازنہیں کیا جاسکتا۔ غرور و تکبر اور رعونت کے عالم میں اُس نے ایک غیرت مند قوم کی تضحیک و توہین کی ہے۔اب وقت آگیا ہے کہ اُسے سوچ سمجھ کر مناسب انداز میں جرأت مندانہ جواب دیا جائے۔ ہمیں اُسے اب بتانا ہوگا کہ اُس نے کس قوم کو للکارا ہے۔ بہت ہوچکا تمہاری حکم برداری کرتے کرتے۔ ڈومور کا حکم سنتے سنتے ہم اب تھک چکے ہیں۔اب ہم سے تمھاری تابعداری اور غلامی نہیں ہوتی۔ تم سے جو ہوسکے کرکے دیکھ لو۔ہم تمہاری غلط فہمی بہت جلد دور کردینگے۔ہم کوئی عراق، یمن، لیبیااور شام نہیں ہیںجو تمھارے ہرظلم اور ستم کوبرداشت کرلینگے۔یہ قوم تم سے برسوں کی زیادتیوں کاحساب چکانے کے لیے بہت دنوں سے بے چین ہے۔
جس طرح کل سوویت یونین افغانستان میںجارحانہ کارروائیوں کے بعد اپنی وحدت وسالمیت برقرار نہیں رکھ پایا تھا، ایسا لگتا ہے اب تم بھی ہمارے ہاتھوں اِسی طرح شکست وریخت اور ذلت ورسوائی سے دوچار ہوگئے۔ تم اگر ہماری قرباینوں کے معترف نہیں ہو توکیا ہوا لیکن ساری دنیا یہ اچھی طرح جانتی ہے کہ ہم نے دہشتگردی کی اِس عالمی جنگ میں سب سے بڑھ کر قربانیاں دی ہیں۔ہم اگرتمھاری مدد نہ کرتے تو کیامجال تھی تم افغانستان میں یوں قدم بھی رکھ پاتے۔
یہ تو ہمارے اُس ڈکٹیٹر کی یکطرفہ پالیسیوں کا شاخسانہ ہے کہ تم آج ہم سے اِس طرح مخاطب ہورہے ہو۔اُس وقت ہمارے یہاں اگر کوئی جمہوری حکومت ہوتی تو وہ قطعاً تمہارے آگے اِس طرح بلا چوں و چرا سرینڈر نہیں ہوجاتی۔وہ ایک باعزت قوم کے ترجمان کے طور پر تم سے معاملات طے کرتی۔ تم سے دوستی یادشمنی نبھانے کا فیصلہ فرد واحد کی بجائے ساری قوم اور پارلیمنٹ کرتی۔پھر تمہیں یہ کہنے کی جرأت نہیں ہوتی کہ پاکستانی تو پیسوں کے عوض اپنی ماں بھی فروخت کردیتے ہیں۔
جس طرح گزشتہ برس یمن کی جنگ میں حصہ لینے سے انکار کرکے ہم نے اپنے سب سے قریبی دوست کویہ بتا دیاتھا کہ اب ہم کسی دوسرے کی لڑائی میں استعمال نہیں ہونگے۔ یہ ہماری آزادی اور خودمختاری کامعاملہ ہے۔ ہم کسی کے زرخرید غلام یاکرائے کے مجاہدنہیں ہیںکہ جو چاہے ہمیں ہراول دستے کے طور پر استعمال کرتا رہے۔ وہ خود تو محفوظ و آباد رہیں اورہم اپنے بچوں کا مستقبل تباہ کرتے رہیں۔
آج ہمارے یہاں کسی ڈکٹیٹر یا فرد واحد کی حکومت نہیں ہے۔اب جو بھی فیصلہ کرنا ہے سب نے مل کر کرنا ہے۔وہ زمانے لدچکے جب رچرڈ آرمٹیج کے ایک اشارے پر پرویز مشرف نے تمہارے سات کے سات مطالبے تسلیم کرلیے اور تمہیں ہر طرح کی مدد کا یقین دلا دیا تھا اب ایسا نہیں ہوگا۔ اب ہماری طرف سے تمہیں کوئی بھی یقین دہانی نہیں کرائی جائے گی۔ ہم نے اپنی یہاں سے دہشتگردوں کا بڑی حد تک ازخود خاتمہ کردیا ہے۔ تم افغانستان میں اپنے اِس مشن میں بری طرح ناکام ہوچکے ہو اوراب اپنی انھی ناکامیوں کاملبہ ہمارے سر پر تھوپنا چاہتے ہو۔دنیا کی ایک سپر طاقت ہونے کے باوجود تم ایک چھوٹے سے ملک میں دہشتگردی سے نہیں نمٹ سکے۔افغانستان میں داخل ہوئے تمہیں پندرہ سال بیت چکے ہیں۔تم ابھی تک وہاں امن قائم نہیں کرسکے۔
امریکی صدر کی تازہ دھمکی اور اشتعال انگیزی دراصل ہماری اس راہداری کے خلاف ہے جس کے خوف نے امریکی حکمرانوں کا جینا حرام کر رکھا ہے۔ پاک چائنا کوریڈورہی اُس کی اصل وجہ ہے۔ یہ دہشتگردی تو بس ایک بہانہ ہے۔ وہ خود دراصل افغانستان میں دہشتگردی کا خاتمہ نہیں چاہتا۔ افغانستان سے اگر دہشتگردی کا مکمل خاتمہ ہوگیا تو پھر اُس کے وہاں رہنے کا جواز ہی ختم ہوجائے گا۔وہ اِس خطے میں رہ کر اپنے مکروہ اور مذموم عزائم کی تکمیل چاہتا ہے۔
ہمارا ''سی پیک'' اُسے پہلے دن سے کھٹک رہا ہے۔ وہ اُسے مکمل ہونے سے روکنے کے لیے تمام ممکنہ وسائل اور ذرایع استعمال کررہا ہے۔ اُس کی تمام خفیہ ایجنسیاں اِسی کام پرلگی ہوئی ہیں۔وہ اِس مقصد کے لیے کچھ بھی کرسکتاہے۔ یہ اُسکی زندگی اور موت کامعاملہ ہے۔ وہ ہمارے نیوکلیئر پروگرام سے پہلے ہی خوفزدہ اور پریشان تھااب ہمارا ''سی پیک'' اُس کے اعصاب پر سوار ہوچکا ہے۔
ہمیں اپنے اِس مکار دشمن سے خبردار رہنا ہوگا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی باتوں کی گہرائیوں اور اُس کے پیچھے چھپے ناپاک ارادوں کوسمجھنا ہوگا۔ دھمکی آمیز جملوں کاجواب دھمکیوں سے نہیں بلکہ دانش اور ہشیاری سے دینا ہوگا۔یہ وقت بیان بازی کے ذریعے اپنی ریٹنگ بڑھانے اور سیاست چمکانے کا نہیں ہے۔دھمکیاں اور بڑھکیں تو صدام حسین اور کرنل قذافی نے بھی بہت ماری تھیں۔ اُن کا اُس نے کیسا حشر کر کے رکھ دیا۔یہ بات ہمیں ہر وقت مدنظر رکھنا ہوگی۔ امریکا کو اُس کی سازشوں اور ریشہ دوانیوں کے جواب کے لیے ساری قوم کو متحد اور منظم ہونا ہوگا۔
سول اور ملٹری قیادت کو تمام اختلافات بھلا کراور ایک میز پر بیٹھ کر امریکی منصوبوں سے نبرد آزما ہونے کے لیے نہایت سنجیدگی سے سوچ بچار اور غوروفکر کرنا ہوگا۔یہ ہماری آزادی اورخود مختاری کا ہی نہیں بلکہ بقا وسالمیت کامعاملہ بھی ہے۔ہمیں اب اپنی پالیسیوں پر بھی نظرثانی کرنا ہوگی اور ایک ایسی حکمت عملی وضع کرنا ہوگی کہ دشمن کبھی ہماری طرف اِس طرح آنکھ اُٹھاکر بات کرنے کی جرأت نہ کرسکے۔
اپنی زمین، اپنے شہر، اپنے ہوائی اڈے اور اپنی بندرگاہیں سبھی کچھ''اسٹریٹجک پارٹنر شپ'' کے نام پر قوم سے پوچھے بغیر امریکی ا فواج کے حوالے کردی گئی تھیں۔امریکا کئی سال تک ہمارے زمینی اور فضائی راستے استعمال کرتا رہا۔ افغانستان میں اس کی اپنی اور نیٹو افواج کو رسد اورکمک ہماری سڑکوں کے ذریعے پہنچتی رہی۔
ہم امریکا اور پرویز مشرف کے مابین ایک خفیہ معاہدے کے تحت افغانستان اورطالبان سے متعلق تمام کی تمام معلومات فراہم کرنے کے پابند بنادیے گئے تھے۔ اِن ساری خدمات، اطاعت گزاری اور حکم برداری کے جواب میں ہمیں کیا ملا۔ دہشتگردی کی جنگ کی آگ میں ہم بلاوجہ اور زبردستی جھونک دیے گئے۔ ہمارا سارا امن و سکون تباہ و برباد ہوگیا۔ ہمارے شہر اور دیہات بم دھماکوں کی نذر ہونے لگے۔
آئے دن خود کش حملہ آور ہمارے معصوم شہریوں اور فوجیوں کو موت کی نیند سلاتے رہے۔ معاشی واقتصادی صورتحال ابتر ہوتی رہی، ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاری ختم ہوکر رہ گئی۔دنیاہمیں ایک خطرناک ملک قرار دیتی رہی۔کہنے کو یہ دہشتگردی کے خلاف عالمی جنگ تھی لیکن دنیا کے کسی ملک اور قوم نے اِس جنگ میں معمولی سا بھی نقصان نہیں اُٹھایا۔ وہ آرام و سکون سے راتوں کو سوتے رہے اور ہمارے بچے بوڑھے اور جوان بے موت مرتے رہے۔
ہم اِس بیگانی لڑائی کو بلاوجہ اپنی لڑائی سمجھ کر لڑتے رہے، بدلے میں نقصانات کے ازالے کے لیے ''کولیشن سپورٹ فنڈ'' کے نام پرچند ڈالرز ہماری جھولی میں ڈال کر وہ ہماری عزت نفس اورغیرت کو للکارتے رہے۔ یہ امداد اگرچہ ہمارے نقصانات کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی تھی لیکن پھر بھی ہم نے اِسے ازراہ محبت قبول کیا۔ اِسی مالی سپورٹ کو لے کر ڈونلڈ ٹرمپ ہمیں ایک بار پھر طعنے دے رہا ہے۔نفرت اور حقارت بھرے جملوں سے وہ ہماری تذلیل و تحقیر کررہا ہے۔
امریکی صدر کی باتوں کو کسی دیوانے یا مجذوب شخص کی بڑ سمجھ کر نظر اندازنہیں کیا جاسکتا۔ غرور و تکبر اور رعونت کے عالم میں اُس نے ایک غیرت مند قوم کی تضحیک و توہین کی ہے۔اب وقت آگیا ہے کہ اُسے سوچ سمجھ کر مناسب انداز میں جرأت مندانہ جواب دیا جائے۔ ہمیں اُسے اب بتانا ہوگا کہ اُس نے کس قوم کو للکارا ہے۔ بہت ہوچکا تمہاری حکم برداری کرتے کرتے۔ ڈومور کا حکم سنتے سنتے ہم اب تھک چکے ہیں۔اب ہم سے تمھاری تابعداری اور غلامی نہیں ہوتی۔ تم سے جو ہوسکے کرکے دیکھ لو۔ہم تمہاری غلط فہمی بہت جلد دور کردینگے۔ہم کوئی عراق، یمن، لیبیااور شام نہیں ہیںجو تمھارے ہرظلم اور ستم کوبرداشت کرلینگے۔یہ قوم تم سے برسوں کی زیادتیوں کاحساب چکانے کے لیے بہت دنوں سے بے چین ہے۔
جس طرح کل سوویت یونین افغانستان میںجارحانہ کارروائیوں کے بعد اپنی وحدت وسالمیت برقرار نہیں رکھ پایا تھا، ایسا لگتا ہے اب تم بھی ہمارے ہاتھوں اِسی طرح شکست وریخت اور ذلت ورسوائی سے دوچار ہوگئے۔ تم اگر ہماری قرباینوں کے معترف نہیں ہو توکیا ہوا لیکن ساری دنیا یہ اچھی طرح جانتی ہے کہ ہم نے دہشتگردی کی اِس عالمی جنگ میں سب سے بڑھ کر قربانیاں دی ہیں۔ہم اگرتمھاری مدد نہ کرتے تو کیامجال تھی تم افغانستان میں یوں قدم بھی رکھ پاتے۔
یہ تو ہمارے اُس ڈکٹیٹر کی یکطرفہ پالیسیوں کا شاخسانہ ہے کہ تم آج ہم سے اِس طرح مخاطب ہورہے ہو۔اُس وقت ہمارے یہاں اگر کوئی جمہوری حکومت ہوتی تو وہ قطعاً تمہارے آگے اِس طرح بلا چوں و چرا سرینڈر نہیں ہوجاتی۔وہ ایک باعزت قوم کے ترجمان کے طور پر تم سے معاملات طے کرتی۔ تم سے دوستی یادشمنی نبھانے کا فیصلہ فرد واحد کی بجائے ساری قوم اور پارلیمنٹ کرتی۔پھر تمہیں یہ کہنے کی جرأت نہیں ہوتی کہ پاکستانی تو پیسوں کے عوض اپنی ماں بھی فروخت کردیتے ہیں۔
جس طرح گزشتہ برس یمن کی جنگ میں حصہ لینے سے انکار کرکے ہم نے اپنے سب سے قریبی دوست کویہ بتا دیاتھا کہ اب ہم کسی دوسرے کی لڑائی میں استعمال نہیں ہونگے۔ یہ ہماری آزادی اور خودمختاری کامعاملہ ہے۔ ہم کسی کے زرخرید غلام یاکرائے کے مجاہدنہیں ہیںکہ جو چاہے ہمیں ہراول دستے کے طور پر استعمال کرتا رہے۔ وہ خود تو محفوظ و آباد رہیں اورہم اپنے بچوں کا مستقبل تباہ کرتے رہیں۔
آج ہمارے یہاں کسی ڈکٹیٹر یا فرد واحد کی حکومت نہیں ہے۔اب جو بھی فیصلہ کرنا ہے سب نے مل کر کرنا ہے۔وہ زمانے لدچکے جب رچرڈ آرمٹیج کے ایک اشارے پر پرویز مشرف نے تمہارے سات کے سات مطالبے تسلیم کرلیے اور تمہیں ہر طرح کی مدد کا یقین دلا دیا تھا اب ایسا نہیں ہوگا۔ اب ہماری طرف سے تمہیں کوئی بھی یقین دہانی نہیں کرائی جائے گی۔ ہم نے اپنی یہاں سے دہشتگردوں کا بڑی حد تک ازخود خاتمہ کردیا ہے۔ تم افغانستان میں اپنے اِس مشن میں بری طرح ناکام ہوچکے ہو اوراب اپنی انھی ناکامیوں کاملبہ ہمارے سر پر تھوپنا چاہتے ہو۔دنیا کی ایک سپر طاقت ہونے کے باوجود تم ایک چھوٹے سے ملک میں دہشتگردی سے نہیں نمٹ سکے۔افغانستان میں داخل ہوئے تمہیں پندرہ سال بیت چکے ہیں۔تم ابھی تک وہاں امن قائم نہیں کرسکے۔
امریکی صدر کی تازہ دھمکی اور اشتعال انگیزی دراصل ہماری اس راہداری کے خلاف ہے جس کے خوف نے امریکی حکمرانوں کا جینا حرام کر رکھا ہے۔ پاک چائنا کوریڈورہی اُس کی اصل وجہ ہے۔ یہ دہشتگردی تو بس ایک بہانہ ہے۔ وہ خود دراصل افغانستان میں دہشتگردی کا خاتمہ نہیں چاہتا۔ افغانستان سے اگر دہشتگردی کا مکمل خاتمہ ہوگیا تو پھر اُس کے وہاں رہنے کا جواز ہی ختم ہوجائے گا۔وہ اِس خطے میں رہ کر اپنے مکروہ اور مذموم عزائم کی تکمیل چاہتا ہے۔
ہمارا ''سی پیک'' اُسے پہلے دن سے کھٹک رہا ہے۔ وہ اُسے مکمل ہونے سے روکنے کے لیے تمام ممکنہ وسائل اور ذرایع استعمال کررہا ہے۔ اُس کی تمام خفیہ ایجنسیاں اِسی کام پرلگی ہوئی ہیں۔وہ اِس مقصد کے لیے کچھ بھی کرسکتاہے۔ یہ اُسکی زندگی اور موت کامعاملہ ہے۔ وہ ہمارے نیوکلیئر پروگرام سے پہلے ہی خوفزدہ اور پریشان تھااب ہمارا ''سی پیک'' اُس کے اعصاب پر سوار ہوچکا ہے۔
ہمیں اپنے اِس مکار دشمن سے خبردار رہنا ہوگا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی باتوں کی گہرائیوں اور اُس کے پیچھے چھپے ناپاک ارادوں کوسمجھنا ہوگا۔ دھمکی آمیز جملوں کاجواب دھمکیوں سے نہیں بلکہ دانش اور ہشیاری سے دینا ہوگا۔یہ وقت بیان بازی کے ذریعے اپنی ریٹنگ بڑھانے اور سیاست چمکانے کا نہیں ہے۔دھمکیاں اور بڑھکیں تو صدام حسین اور کرنل قذافی نے بھی بہت ماری تھیں۔ اُن کا اُس نے کیسا حشر کر کے رکھ دیا۔یہ بات ہمیں ہر وقت مدنظر رکھنا ہوگی۔ امریکا کو اُس کی سازشوں اور ریشہ دوانیوں کے جواب کے لیے ساری قوم کو متحد اور منظم ہونا ہوگا۔
سول اور ملٹری قیادت کو تمام اختلافات بھلا کراور ایک میز پر بیٹھ کر امریکی منصوبوں سے نبرد آزما ہونے کے لیے نہایت سنجیدگی سے سوچ بچار اور غوروفکر کرنا ہوگا۔یہ ہماری آزادی اورخود مختاری کا ہی نہیں بلکہ بقا وسالمیت کامعاملہ بھی ہے۔ہمیں اب اپنی پالیسیوں پر بھی نظرثانی کرنا ہوگی اور ایک ایسی حکمت عملی وضع کرنا ہوگی کہ دشمن کبھی ہماری طرف اِس طرح آنکھ اُٹھاکر بات کرنے کی جرأت نہ کرسکے۔