افغان جنگ پالیسی ناکام ہوجائے گی

امریکہ کی حالیہ افغان جنگ پالیسی بھی ناکام ہوجائیگی کیونکہ افغانستان کے جو زمینی حقائق پاکستان جانتا ہے وہ امریکہ نہیں


افسوس یہ کہ امریکہ کے ساتھ کاندھے سے کاندھا ملا کر چلنے کے باوجود آج سترہ (17) سال بعد بھی پاکستان کو ہی دہشت گرد کہا جارہا ہے۔ فوٹو: فائل

امریکی صدر ٹرومین نے چودہ اگست 1947ء کو گورنر جزل پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کو پاکستان بننے کی مبارک باد دیتے ہوئے کہا تھا کہ،
'امریکی عوام آپ کے ملک کے ساتھ دل کا رشتہ قائم کرنے کی خواہشمند ہے۔ پاکستانی عوام کی ترقی اور خوشحالی امریکہ کے لیے باعثِ مسرت ہوگی۔'

سات جولائی 1948ء کو امریکہ کی یومِ آزادی کے موقع پر بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے امریکی صدر کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ،
'قانون کی بالادستی، انصاف کی فراہمی، امن کا قیام اور غریب عوام کی طرزِ زندگی کو بہتر کرنا دونوں ملکوں کی مشترکہ خواہش ہے، جو کہ اِس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ دونوں ملک باہمی دلچسپی کے معاملات میں مضبوط اور طویل مدتی دوستی قائم کرسکیں گے۔'

قائداعظم محمد علی جناح کے اِس پیغام سے یہ بات واضح ہے کہ آپ برابری کی سطح پر امریکہ کے ساتھ طویل مدتی تعلقات قائم کرنے کے خواہش مند تھے۔ بانی پاکستان کے بعد ایوب خان نے امریکہ کے ساتھ جمہوریت، استحکام، سیکیورٹی اور معاشی ترقی کے شعبوں میں تعلقات کو برابری کی سطح پر قائم رکھا لیکن ایوب خان کے بعد ہمارے حکمران پاکستان کی اہمیت کو سمجھ ہی نہیں سکے، اور دوسری جانب امریکی تھنک ٹینک نے پاکستان سے وہ کام لیے جو امریکہ تن تنہا کبھی بھی نہیں کرسکتا تھا۔ اِس کی زندہ مثال افغانستان میں روس کی شکست ہے۔

آپ امریکہ کی پاکستان میں دلچسپی اور پاکستان میں امریکہ کی اہمیت کا اندازہ صرف اِس بات سے لگالیں کہ امریکہ نے دنیا کا سب سے بڑا سفارتخانہ پاکستان میں بنایا ہوا ہے۔ اِس کے علاوہ امریکہ پاکستان میں تجارت، ہیومن ڈیویلپمنٹ، بیماریوں کی روک تھام، معاشی خوشحالی، انرجی کرائسز پر کنٹرول، زراعت کے شعبوں میں ترقی، قانون کی بالادستی قائم کرنے، تعلیم کے نظام کو بہتر کرنے، دفاعی معاونت اور سب سے بڑھ کر دہشت گردی کے خاتمے کے لیے تعاون کا دعویدار بھی ہے۔

امریکی اعداد و شمار کے مطابق 2001ء سے 2017ء تک امریکہ پاکستان کو سیکیورٹی کی فراہمی کیلئے 629 ارب روپے امداد دے چکا ہے۔ 2016ء میں پاکستان ملٹری پروفیشنل ٹریننگ کی مد میں سب سے زیادہ امریکی گرانٹ لینے والا ملک تھا۔ 2009ء میں امریکہ نے پاکستان کے معاشی مقاصد کو پورا کرنے کے لئے 524 ارب روپے دینے کا وعدہ کیا، 2011ء سے 2017ء تک تین کروڑ تیس لاکھ پاکستانی یو ایس ایڈ سے فائدہ اُٹھاچکے ہیں۔ دسمبر 2016ء میں امریکی حکومت نے شمالی وزیرستان میں خرم تانگی ڈیم بنانے کے لئے 8.5 ارب روپے کا معاہدہ کیا، جس سے اٹھارہ (18) میگاواٹ بجلی پیدا ہوگی جو کہ ایک لاکھ پاکستانیوں کو بجلی کی سہولت مہیا کرے گا۔ اِس کے علاوہ یہ پروجیکٹ 16 ہزار ایکڑ زمین کو پانی کی سہولت مہیا کرے گا۔

2016ء میں خیبر پختونخواہ حکومت نے امریکی حکومت کے تعاون سے 7.5 ارب روپوں سے گومل زم اریگیشن پراجیکٹ مکمل کیا ہے جو ٹانک اور ڈیرہ اسماعیل خان میں 1 لاکھ 91 ہزار ایکڑ زمین کو سیراب کرے گا اور تیس ہزار خاندانوں کے لیے کاروبار، تجارت اور نوکریوں کا ذریعہ بنے گا۔ پاکستانی طلباء کی تربیت اور تعلیم کو فروغ دینے کے لیے امریکی عوام نے ''فل برائیٹ فیوچر پروگرام'' کے نام سے ایک پراجیکٹ شروع کر رکھا ہے اور آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ امریکی عوام کی پاکستان میں یہ سرمایہ کاری پوری دنیا میں کسی بھی ایک ملک میں طلباء پر امریکی سرمایہ کاری کی نسبت سب سے زیادہ ہے۔

امریکن ایکسچینجز اور انگلش لینگویج پروگرام کے تحت 22 ہزار پاکستانی امریکی زبان کی پروموشن کے لیے کام کر رہے ہیں۔ اِس کے علاوہ امریکی حکام پوری دنیا میں بیسیوں مرتبہ اِس بات کا اعتراف کرچکے ہیں کہ اُنہیں پاکستانی شہری فیڈرل کورٹ جج عابد ریاض قریشی اور ناسا میں پاکستانی شہری حبہ رحمانی پر فخر ہے۔

اِن تمام حقائق کو جاننے کے بعد سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان امریکہ سے لی گئی امداد کی کیا قیمت ادا کر رہا ہے؟ امریکہ کی پاکستان کو دی گئی امداد کے باعث پاکستان دہشت گردی کے محاذ پر آج تک اسی (80) ہزار سے زیادہ شہریوں کو کھو چکا ہے اور نو (9) ہزار سے زیادہ فوجی جوان شہادت کا درجہ حاصل کرچکے ہیں۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق دہشت گردی کی جنگ نے پاکستان کو 118 ارب ڈالر کا نقصان پہنچایا ہے، اتنا نقصان تو پاکستان کو بھارت کے ساتھ چار جنگوں میں نہیں ہوا جتنا امریکہ کے اتحادی ہونے کے باعث دہشتگردی کی جنگ میں ہوا ہے۔

انسانی جانوں کے زیاں کے علاوہ دہشتگردی کا ٹیگ لگنے سے جو نقصان غیر ملکی سرمایہ پاکستان سے نکل کر دبئی اور بھارت منتقل کرنے سے ہوا ہے، یہ وہ نقصان ہے جو ہم آج تک پورا نہیں کر پا رہے ہیں۔ یہاں اِس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ جو لوگ دہشت گردی کی جنگ کو امریکہ کی جنگ کی بجائے پاکستان کی جنگ قرار دے رہے ہیں انہیں اِس حقیقت سے آنکھیں نہیں چرانی چاہیئے کہ جب 2001ء میں نائن الیون کے بعد امریکہ نے پاکستان کو افغانستان میں طالبان کی سرکوبی کیلئے اپنا اتحادی بنایا تھا تب پاکستان میں خودکش حملوں کے نام سے بھی کوئی واقف نہیں تھا۔ لیکن وہ فیصلہ پاکستان کے لیے ایسی ہڈی بن گیا جسے پاکستان نہ تو اُگل سکتا تھا اور نہ ہی نگل سکتا تھا اور اِس فیصلے کی قیمت ہمیں آج تک چکانی پڑ رہی ہے۔

لیکن آپ ملک پاکستان کی بدقسمتی ملاحظہ کیجیے کہ دہشت گردی کی اِس جنگ میں امریکہ کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر چلنے کے باوجود آج سترہ (17) سال بعد بھی پاکستان کو ہی دہشت گرد کہا جارہا ہے اور ایک مرتبہ پھر ڈومور کی تلوار پاکستان کی گردن پر لٹکا دی گئی ہے، جبکہ چین سمیت عالمی برادری اِس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہے کہ ڈومور مسئلے کا حل نہیں ہے۔

اِس جنگ کو جیتنے کے لیے امریکہ کو پاکستان کی پالیسی پر عمل پیرا ہونا ہوگا اور پاکستان کی دہشت گردی روکنے کی پالیسی میں بنیادی نقطہ پاک افغان سرحد پر بارڈر مینجمنٹ ہے لیکن افغانستان اِس بارڈر مینجمنٹ کو روکنے کے لیے انٹرنیشنل لابنگ کررہا ہے اور اقوامِ متحدہ میں اِس کے خلاف درخواست بھی دے چکا ہے۔ امریکہ اگر دہشت گردی پر قابو پانا چاہتا ہے تو اُسے سب سے پہلے افغانستان کو بارڈر مینجمنٹ پر راضی کرنا ہوگا اور سب سے بڑھ کر اپنے اتحادیوں کی صف میں پاکستان کو عزت دینی ہوگی کیونکہ پاکستان واحد ملک ہے جو دہشت گردی کی اِس جنگ میں مسلسل امریکہ کا ساتھ دیتا آرہا ہے، جبکہ یورپ اور برطانیہ سمیت امریکہ کے اتحادی اُس کا ساتھ چھوڑ چکے ہیں۔

یہاں تک کہ امریکی فوج کے اندر افغانستان کی جنگ کے حوالے سے بغاوت جنم لے چکی ہے۔ اِن حالات کے پیشِ نظر اگر ڈونلڈ ٹرمپ بارڈر مینجمنٹ کے بجائے پاکستان کی سرحد پر کارروائی کیلئے زور دیتے رہے تو امریکہ کی حالیہ افغان جنگ پالیسی بھی ناکام ہوجائے گی کیونکہ افغانستان کے جو زمینی حقائق پاکستان جانتا ہے وہ امریکہ نہیں جانتا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے


اگر آپ بھی ہمارے لیے بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریراپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک و ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کیساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنکس بھی

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں