جنون پرستی کا بڑھتا ہوا رجحان
بھارت خطے کاوہ پہلاملک ہے جس نے 26جنوری1950کو پارلیمانی جمہوری اور سیکیولر آئین منظورکرکے نافذکیا
بھارتی ریاست ہریانہ کے دہلی سے ملحق دو اضلاع چند روز قبل آگ وخون کے دریا سے گذرے ۔ جب یہ اظہاریہ لکھا جا رہا تھا، اس وقت تک درجنوں افراد جاں بحق اور سیکڑوں کی تعداد میں گھائل ہوچکے تھے۔ ٹرین کی بوگیاں، کاریں، بسیں اور دیگر املاک نذر آتش کی جاچکی تھیں ۔ دہلی کے اطراف کے تقریباً80 فیصد علاقوں میں بد ترین شورش کے باعث زندگی مفلوج ہوگئی تھی۔
موصولہ اطلاعات کے مطابق واقعہ کچھ یوں ہے کہ 2002 میں اس وقت کے بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کو ایک خط موصول ہوا ، جس میں الزام لگایا گیا کہ ہریانہ کے ضلع پنچکولہ کی ایک روحانی شخصیت گرمیت رام رحیم سنگھ نامی ایک گرونے اپنی دو کم سن داسیوں (مریدوں)کے ساتھ بلادکار (Rape) کیا ہے۔ وزیر اعظم نے یہ خط مرکزی تفتیشی ادارے(CBI)کے حوالے کردیا۔ پانچ برس کی تفتیش کے بعد 2007 میںدو خواتین حلفیہ بیان دینے اور گواہ بننے پر آمادہ ہوئیں۔ انھوں نے بتایاکہ گرو ہر خوبصورت کم سن داسی کے ساتھ بلادکار کرتا ہے۔ CBI نے یہ معاملہ کرمنل کورٹ میں بھجوا دیا۔ جس نے دس برس کی کارروائی کے بعد 25 اگست کو گرو کو اس جرم کا مرتکب قرار دیتے ہوئے سزا سنا دی ۔ سزا سنائے جاتے ہی پورا ضلع اور دہلی کے اطراف کے علاقے پرتشدد مظاہروں کی لپیٹ میں آگئے۔
سوچنے اور سمجھنے کا پہلو یہ ہے کہ برصغیر کے تین ممالک بھارت، بنگلہ دیش اور پاکستان میںعقیدت مندی کے نام پر پرتشدد واقعات شدومد سے کیوں ہوتے ہیں؟ جہاں عقیدے، نظریے اور قومیت کی خاطر عوام اس قدر مشتعل ہوجاتے ہیں کہ ان کے سامنے کوئی بھی چیزحتیٰ کہ انسان بھی آجائے، تو اسے روندتے چلے جاتے ہیں ۔ ہمیں اس خطے(تینوں ممالک)کے عوام کی اجتماعی نفسیات کا مطالعہ کرنے کے ساتھ اس کی سیاسی، انتظامی، عدالتی اور سماجی ساخت پر غورکرنے کی بھی ضرورت ہے تاکہ اندازہ ہوسکے کہ وہ کون سے عوامل ہیں، جو اس خطے کے عوام میں فوری اشتعال کا باعث بن رہے ہیں۔
اس خطے میں پاکستان کا معاملہ قدرے مختلف ہے۔ اولاً آئین پارلیمانی جمہوری ہونے کے باوجود پہلی شق کی رو سے ملک کو ایک مذہبی ریاست قرار دیتا ہے۔ جس میں بعض کمیونٹیزکوآئینی ترامیم کے ذریعے با ضابطہ طور پر غیر مسلم قرار دیاگیا ہے۔ اس کے باوجود غیر مسلموں اور چھوٹی نسلی ولسانی کمیونٹٰزکے حقوق کے تحفظ کی ضمانت کی کئی شقیں شامل ہونے کے باوجود انھیں یہ حقوق نہیں مل رہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ریاستی مشنری عقیدے اور نسلی و لسانی بنیادوں پرہونے والی متشددکارروائیوں کے خلاف آئین اور قانون کی درج بالاشقوں کے باعث سخت گیرکارروائی کرنے سے اجتناب کرنے پر مجبور ہوتی ہے۔ دوسری طرف بنگلہ دیش کا آئین پارلیمانی اور سیکیولر ہے۔جو اقلیتی کمیونٹیز کو سیاسی اور سماجی طور پر تحفظ فراہم کرتا ہے، لیکن اس کے باوجود وہاں بھی اکثریتی مسلم آبادی مذہبی معاملات میں متشدد جذباتیت کامظاہرہ کرتی ہے اور حکومت ان کے سامنے بے بس ہوجاتی ہے۔
جب کہ بھارت خطے کاوہ پہلاملک ہے جس نے 26جنوری1950کو پارلیمانی جمہوری اور سیکیولر آئین منظورکرکے نافذکیا ۔ ساتھ ہی کانگریس کی حکومت نے ریاستوں، رجواڑوںاور جاگیرداری کا خاتمہ کردیا۔ لہٰذا خطے کے متوشش شہریوں کو یہ توقع پیدا ہوئی تھی کہ بھارت خطے میں ایک ذمے دار سیکیولر جمہوری ملک کی صورت میں مذہبی اور لسانی اکائیوں کو تحفظ فراہم کرکے خطے کے دیگر ممالک کے لیے مثال قائم کرے گا۔ مگر ستر برس کے تجربات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ جب تک سماج جمہوری اور سیکیولر نہ ہوجائے،آئین کے جمہوری اور سیکیولر ہونے کے ثمرات مذہبی اقلیتوں اور چھوٹی کمیونٹیز تک نہیں پہنچ پاتے۔اس کی وجہ انتظامی ڈھانچے سے وابستہ اہلکاروں کے مائنڈ سیٹ میں تبدیلی کا نہ آنا ہے ۔ یہی سبب ہے کہ آئین میں مہیا کردہ تحفظ تک ان کمیونٹیزکی رسائی نہیں ہو پاتی۔
یہاں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جمہوریت اور جمہوری نظام فکری اورسیاسی کثرتیت ، سماجی اور ثقافتی تنوع اور صنفی برابری سے مشروط ہوتا ہے ۔ جس میں ہر عقیدے، نظریے کے حامل افراد اور نسلی ولسانی گروہوں اور تینوں اصناف کو مساوی شہری حیثیت اور ترقی کرنے کے یکساں مواقعے حاصل ہوتے ہیں، اگر کسی کمیونٹی کوکسی جمہوری ملک یا معاشرے میں طے شدہ حقوق نہیں مل رہے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت آئینی شقوں پر عمل درآمد کرانے میں ناکام ہے۔ جب کہ معاشرہ ذہنی طور پر فکری ، سیاسی، سماجی اور ثقافتی کثرتیت کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔
برصغیر میں ہراس واقعے پر شدید عوامی ردعمل کی تاریخ خاصی پرانی ہے، جس میں مذہب اور عقیدے سے وابستگی کا کوئی پہلو نکلتا ہو۔ چونکہ برصغیر کا معاشرہ کثیر المذہبی اور کثیر القومی ہے، اس لیے تاریخ کے مختلف ادوار میں حکمرانوں نے سماجی رواداری اور پرسکون حکمرانی کی خاطر مشتعل ہجوم کے متشددانہ اقدامات سے صرف نظر کیا۔ انگریزوں نے البتہ قانون کی بالادستی قائم کرنے میں پہل کی اور کئی ایسی روایت کو انتہائی سختی کے ساتھ کچل دیا، جو انسانیت سوز تھیں، جیسے ستی کی رسم وغیرہ۔ ساتھ ہی انھوں نے عدالتی رٹ قائم کرنے کی بھی کوشش کی۔ لیکن شمال مغربی اور شمال مشرقی قبائل کو ان اپنے روایاتی عدالتی نظام (یعنی جرگوں)کو جاری رکھنے کا حق دے دیا۔ جس کے نتیجے میں ان علاقوں میں جدید نظام عدل متعارف نہیں ہوسکا۔
آزادی کے بعد پہلے دو اور پھر تین ممالک برصغیر کے نقشے پر ابھرے ۔ ان میں بھارت میں نظام عدل باقی دو ممالک کے مقابلے میں زیادہ بہتر رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ حکمران اشرافیہ اور سیاسی جماعتوں نے عدالتی نظام میں مداخلت کی کوشش نہیں کی۔ بلکہ اس کے فیصلوں کو وسیع تر قومی مفاد میں قبول کیا۔ آزادی کے بعد بنگلہ دیش نے بھی اپنے عدالتی نظام کو برطانوی اصولوں کے مطابق چلانے کی کوشش کی اور خاصی حد تک کامیاب ہے۔ لیکن پاکستان میں نظام عدل ابتدائی برسوں ہی سے سے عوامی تشکیک اور تحفظات کی زد میں ہے۔ ججوں کی تقرری، ان پر مختلف ریاستی اور غیر ریاستی حلقوں کا دباؤاور سب سے بڑھ کر آئین میں پائے جانے والے اسقام یعنی حقوق انسانی سے متصادم شقیں، پاکستان میں نظام عدل کی بہتری کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ اس کے علاوہ متوازی عدالتی نظام (شریعت کورٹ) نے بھی مروجہ عدالتی نظام کو متاثر کیا ہوا ہے۔
عدالتی نظام کے بہتر ہونے اور عدالتوں کی جانب سے جرأت مندانہ فیصلوں کے باوجود بھارتی معاشرہ تیزی کے ساتھ متشدد راہوں کی جانب گامزن ہے۔ بھارت میں دلتوں(Untouchables)، مسلمانوں، عیسائیوں اور سکھ کمیونٹیوں کے ساتھ اکثریتی آبادی کے معاندانہ رویے آئین، سیاسی ڈھانچے اور عدالتی فیصلوں کی نفی ہیں۔ 2011کی مردم شماری کے مطابق دلت کل آبادی کا25فیصد ہیں۔ مسلمان 14.2فیصد، عیسائی2.3 فیصد۔جب کہ سکھ2.08فیصد ہیں۔ اگر ان کی کل تعداد کو جمع کرلیا جائے تو یہ لوگ کل آبادی کا 43.22 فیصد بنتے ہیں، گویا تقریباً نصف ۔ مگر ان کمیونٹیوں کے ساتھ معمولی اکثریت رکھنے والی اعلیٰ جاتیوں کا برتاؤ انتہائی معاندانہ بلکہ متشددانہ ہے۔ جو جمہوری اقدار کی کھلی نفی ہے۔
اب جہاں تک ہریانہ واقعہ کا تعلق ہے تو یہ اندھی عقیدت کی بدترین مثال ہے۔ جرم ثابت ہوجانے کے باوجود کسی روحانی شخصیت کو عدالت سے ملنے والی سزا کے خلاف ہجوم کا مشتعل ہونا یہ ثابت کرتا ہے کہ سماج کو جمہوریائے (Democratise) بغیر ریاست کو جمہوریانے کے کچھ زیادہ بہتر نتائج نہیں نکلتے۔ بلکہ جمہوری انتخابی عمل کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مذہبی جنون پرست تنظیمیں اور جماعتیں اقتدار میں آجاتی ہیں، جن سے جمہوری اقدار کو زیادہ نقصان پہنچتا ہے۔ جیسا کہ BJPکی انتخابی کامیابی کی شکل میں بھارت میں مذہبی شدت پسندی کاinstitutionalizeہونا ہے۔ BJP کی کامیابی سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ ریاستی دستاویز کے حوالے سے بھارت بے شک ایک جمہوری ملک ہے۔ لیکن سماجی سطح پر ایک بھیانک مذہبی جنونی ملک بن چکا ہے، جہاں جنون پرستی میں وقت گذرنے کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے، جو اس خطے میں پرامن بقائے باہمی کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔ پنچکالہ (ہریانہ) کا واقعہ بظاہر جذباتی لگاؤ کا عام ساواقعہ ہے، مگر اس سے سماج میں تیزی سے پروان چڑھتی متشدد سوچ کی نشاندہی ہوتی ہے۔
موصولہ اطلاعات کے مطابق واقعہ کچھ یوں ہے کہ 2002 میں اس وقت کے بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کو ایک خط موصول ہوا ، جس میں الزام لگایا گیا کہ ہریانہ کے ضلع پنچکولہ کی ایک روحانی شخصیت گرمیت رام رحیم سنگھ نامی ایک گرونے اپنی دو کم سن داسیوں (مریدوں)کے ساتھ بلادکار (Rape) کیا ہے۔ وزیر اعظم نے یہ خط مرکزی تفتیشی ادارے(CBI)کے حوالے کردیا۔ پانچ برس کی تفتیش کے بعد 2007 میںدو خواتین حلفیہ بیان دینے اور گواہ بننے پر آمادہ ہوئیں۔ انھوں نے بتایاکہ گرو ہر خوبصورت کم سن داسی کے ساتھ بلادکار کرتا ہے۔ CBI نے یہ معاملہ کرمنل کورٹ میں بھجوا دیا۔ جس نے دس برس کی کارروائی کے بعد 25 اگست کو گرو کو اس جرم کا مرتکب قرار دیتے ہوئے سزا سنا دی ۔ سزا سنائے جاتے ہی پورا ضلع اور دہلی کے اطراف کے علاقے پرتشدد مظاہروں کی لپیٹ میں آگئے۔
سوچنے اور سمجھنے کا پہلو یہ ہے کہ برصغیر کے تین ممالک بھارت، بنگلہ دیش اور پاکستان میںعقیدت مندی کے نام پر پرتشدد واقعات شدومد سے کیوں ہوتے ہیں؟ جہاں عقیدے، نظریے اور قومیت کی خاطر عوام اس قدر مشتعل ہوجاتے ہیں کہ ان کے سامنے کوئی بھی چیزحتیٰ کہ انسان بھی آجائے، تو اسے روندتے چلے جاتے ہیں ۔ ہمیں اس خطے(تینوں ممالک)کے عوام کی اجتماعی نفسیات کا مطالعہ کرنے کے ساتھ اس کی سیاسی، انتظامی، عدالتی اور سماجی ساخت پر غورکرنے کی بھی ضرورت ہے تاکہ اندازہ ہوسکے کہ وہ کون سے عوامل ہیں، جو اس خطے کے عوام میں فوری اشتعال کا باعث بن رہے ہیں۔
اس خطے میں پاکستان کا معاملہ قدرے مختلف ہے۔ اولاً آئین پارلیمانی جمہوری ہونے کے باوجود پہلی شق کی رو سے ملک کو ایک مذہبی ریاست قرار دیتا ہے۔ جس میں بعض کمیونٹیزکوآئینی ترامیم کے ذریعے با ضابطہ طور پر غیر مسلم قرار دیاگیا ہے۔ اس کے باوجود غیر مسلموں اور چھوٹی نسلی ولسانی کمیونٹٰزکے حقوق کے تحفظ کی ضمانت کی کئی شقیں شامل ہونے کے باوجود انھیں یہ حقوق نہیں مل رہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ریاستی مشنری عقیدے اور نسلی و لسانی بنیادوں پرہونے والی متشددکارروائیوں کے خلاف آئین اور قانون کی درج بالاشقوں کے باعث سخت گیرکارروائی کرنے سے اجتناب کرنے پر مجبور ہوتی ہے۔ دوسری طرف بنگلہ دیش کا آئین پارلیمانی اور سیکیولر ہے۔جو اقلیتی کمیونٹیز کو سیاسی اور سماجی طور پر تحفظ فراہم کرتا ہے، لیکن اس کے باوجود وہاں بھی اکثریتی مسلم آبادی مذہبی معاملات میں متشدد جذباتیت کامظاہرہ کرتی ہے اور حکومت ان کے سامنے بے بس ہوجاتی ہے۔
جب کہ بھارت خطے کاوہ پہلاملک ہے جس نے 26جنوری1950کو پارلیمانی جمہوری اور سیکیولر آئین منظورکرکے نافذکیا ۔ ساتھ ہی کانگریس کی حکومت نے ریاستوں، رجواڑوںاور جاگیرداری کا خاتمہ کردیا۔ لہٰذا خطے کے متوشش شہریوں کو یہ توقع پیدا ہوئی تھی کہ بھارت خطے میں ایک ذمے دار سیکیولر جمہوری ملک کی صورت میں مذہبی اور لسانی اکائیوں کو تحفظ فراہم کرکے خطے کے دیگر ممالک کے لیے مثال قائم کرے گا۔ مگر ستر برس کے تجربات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ جب تک سماج جمہوری اور سیکیولر نہ ہوجائے،آئین کے جمہوری اور سیکیولر ہونے کے ثمرات مذہبی اقلیتوں اور چھوٹی کمیونٹیز تک نہیں پہنچ پاتے۔اس کی وجہ انتظامی ڈھانچے سے وابستہ اہلکاروں کے مائنڈ سیٹ میں تبدیلی کا نہ آنا ہے ۔ یہی سبب ہے کہ آئین میں مہیا کردہ تحفظ تک ان کمیونٹیزکی رسائی نہیں ہو پاتی۔
یہاں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جمہوریت اور جمہوری نظام فکری اورسیاسی کثرتیت ، سماجی اور ثقافتی تنوع اور صنفی برابری سے مشروط ہوتا ہے ۔ جس میں ہر عقیدے، نظریے کے حامل افراد اور نسلی ولسانی گروہوں اور تینوں اصناف کو مساوی شہری حیثیت اور ترقی کرنے کے یکساں مواقعے حاصل ہوتے ہیں، اگر کسی کمیونٹی کوکسی جمہوری ملک یا معاشرے میں طے شدہ حقوق نہیں مل رہے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت آئینی شقوں پر عمل درآمد کرانے میں ناکام ہے۔ جب کہ معاشرہ ذہنی طور پر فکری ، سیاسی، سماجی اور ثقافتی کثرتیت کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔
برصغیر میں ہراس واقعے پر شدید عوامی ردعمل کی تاریخ خاصی پرانی ہے، جس میں مذہب اور عقیدے سے وابستگی کا کوئی پہلو نکلتا ہو۔ چونکہ برصغیر کا معاشرہ کثیر المذہبی اور کثیر القومی ہے، اس لیے تاریخ کے مختلف ادوار میں حکمرانوں نے سماجی رواداری اور پرسکون حکمرانی کی خاطر مشتعل ہجوم کے متشددانہ اقدامات سے صرف نظر کیا۔ انگریزوں نے البتہ قانون کی بالادستی قائم کرنے میں پہل کی اور کئی ایسی روایت کو انتہائی سختی کے ساتھ کچل دیا، جو انسانیت سوز تھیں، جیسے ستی کی رسم وغیرہ۔ ساتھ ہی انھوں نے عدالتی رٹ قائم کرنے کی بھی کوشش کی۔ لیکن شمال مغربی اور شمال مشرقی قبائل کو ان اپنے روایاتی عدالتی نظام (یعنی جرگوں)کو جاری رکھنے کا حق دے دیا۔ جس کے نتیجے میں ان علاقوں میں جدید نظام عدل متعارف نہیں ہوسکا۔
آزادی کے بعد پہلے دو اور پھر تین ممالک برصغیر کے نقشے پر ابھرے ۔ ان میں بھارت میں نظام عدل باقی دو ممالک کے مقابلے میں زیادہ بہتر رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ حکمران اشرافیہ اور سیاسی جماعتوں نے عدالتی نظام میں مداخلت کی کوشش نہیں کی۔ بلکہ اس کے فیصلوں کو وسیع تر قومی مفاد میں قبول کیا۔ آزادی کے بعد بنگلہ دیش نے بھی اپنے عدالتی نظام کو برطانوی اصولوں کے مطابق چلانے کی کوشش کی اور خاصی حد تک کامیاب ہے۔ لیکن پاکستان میں نظام عدل ابتدائی برسوں ہی سے سے عوامی تشکیک اور تحفظات کی زد میں ہے۔ ججوں کی تقرری، ان پر مختلف ریاستی اور غیر ریاستی حلقوں کا دباؤاور سب سے بڑھ کر آئین میں پائے جانے والے اسقام یعنی حقوق انسانی سے متصادم شقیں، پاکستان میں نظام عدل کی بہتری کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ اس کے علاوہ متوازی عدالتی نظام (شریعت کورٹ) نے بھی مروجہ عدالتی نظام کو متاثر کیا ہوا ہے۔
عدالتی نظام کے بہتر ہونے اور عدالتوں کی جانب سے جرأت مندانہ فیصلوں کے باوجود بھارتی معاشرہ تیزی کے ساتھ متشدد راہوں کی جانب گامزن ہے۔ بھارت میں دلتوں(Untouchables)، مسلمانوں، عیسائیوں اور سکھ کمیونٹیوں کے ساتھ اکثریتی آبادی کے معاندانہ رویے آئین، سیاسی ڈھانچے اور عدالتی فیصلوں کی نفی ہیں۔ 2011کی مردم شماری کے مطابق دلت کل آبادی کا25فیصد ہیں۔ مسلمان 14.2فیصد، عیسائی2.3 فیصد۔جب کہ سکھ2.08فیصد ہیں۔ اگر ان کی کل تعداد کو جمع کرلیا جائے تو یہ لوگ کل آبادی کا 43.22 فیصد بنتے ہیں، گویا تقریباً نصف ۔ مگر ان کمیونٹیوں کے ساتھ معمولی اکثریت رکھنے والی اعلیٰ جاتیوں کا برتاؤ انتہائی معاندانہ بلکہ متشددانہ ہے۔ جو جمہوری اقدار کی کھلی نفی ہے۔
اب جہاں تک ہریانہ واقعہ کا تعلق ہے تو یہ اندھی عقیدت کی بدترین مثال ہے۔ جرم ثابت ہوجانے کے باوجود کسی روحانی شخصیت کو عدالت سے ملنے والی سزا کے خلاف ہجوم کا مشتعل ہونا یہ ثابت کرتا ہے کہ سماج کو جمہوریائے (Democratise) بغیر ریاست کو جمہوریانے کے کچھ زیادہ بہتر نتائج نہیں نکلتے۔ بلکہ جمہوری انتخابی عمل کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مذہبی جنون پرست تنظیمیں اور جماعتیں اقتدار میں آجاتی ہیں، جن سے جمہوری اقدار کو زیادہ نقصان پہنچتا ہے۔ جیسا کہ BJPکی انتخابی کامیابی کی شکل میں بھارت میں مذہبی شدت پسندی کاinstitutionalizeہونا ہے۔ BJP کی کامیابی سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ ریاستی دستاویز کے حوالے سے بھارت بے شک ایک جمہوری ملک ہے۔ لیکن سماجی سطح پر ایک بھیانک مذہبی جنونی ملک بن چکا ہے، جہاں جنون پرستی میں وقت گذرنے کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے، جو اس خطے میں پرامن بقائے باہمی کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔ پنچکالہ (ہریانہ) کا واقعہ بظاہر جذباتی لگاؤ کا عام ساواقعہ ہے، مگر اس سے سماج میں تیزی سے پروان چڑھتی متشدد سوچ کی نشاندہی ہوتی ہے۔