فلسفہ حج

حج کے لغوی معنی زیارت کا ارادہ کرنے کے ہیں


[email protected]

حج کے لغوی معنی زیارت کا ارادہ کرنے کے ہیں، لیکن شریعت کی زبان میں خانہ کعبہ کی زیارت کا ارادہ کرنا ہے۔ یہ 9 ہجری میں فرض ہوا۔ حج اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ایک رکن ہے۔ جسے ہر صاحب استطاعت کو زندگی میں ایک بار ادا کرنا فرض ہے۔ رسولؐ اکرم نے فرمایا ''جو شخص زادِ راہ اور سواری رکھتا ہو اور پھر بھی حج نہ کرے تو اس کا اس حالت میں مرنا اور یہودی یا عیسائی ہوکر مرنا برابر ہے۔'' (بخاری)

مناسک حج کے پس منظر میں جو تصورات اورحقائق کارفرما ہیں، اس کی روح اور فلسفہ مندرجہ ذیل ہے۔

(۱)۔ اِحرام: وحدت نسل انسانی کے اسلامی تصور کا عملی مظاہرہ اِحرام کا لباس ہے۔ شاہ و گدا امیر وغریب، عربی وعجمی، کالے گورے سب ایک ہی لباس میں ملبوس ہوتے ہیں۔ جو اس حقیقت کا عملی ثبوت ہے کہ اسلام ایک عالمی ریاست کو وجود میں لانے کا واحد موثر ذریعہ یہ ہے۔ احرام کا لباس انسانی مساوات کا منظر پیش کرتا ہے۔ احرام کی پابندیاں مسلمان کے لیے ضبط نفس کی تربیت اور امن و سلامتی سے رہنے کی مشق ہے۔

(۲)۔طواف: طواف رضائے الٰہی کی خاطر اپنے آپ کو قربان کردینے کے والہانہ جذبے کا اظہار ہے۔ جب مرد مومن کعبے کے ارد گرد چکر لگاتا ہے تو شمع وپروانہ کا شاعرانہ تخیل حقیقت میں ڈھل جاتا ہے۔ جیسے وہ خدا کو دیکھ رہا ہو۔ طواف انسانی مساوات کا قابل رشک منظر پیش کرتا ہے۔ فرزندان توحید کے اس ٹھاٹھیں مارتے سمندر کو دیکھ کر دشمن کا دل دہل جاتا ہے۔

(۳)۔حجرِ اسود: حجرِ اسود پر ہاتھ رکھنا دل کی اس تڑپ کا اظہار ہے کہ میں تمثیلی طور پر اللہ کے ہاتھ میں ہاتھ دے رہا ہوں۔ فرمان الٰہی کو چوم رہا ہوں۔

(۴)۔سَعِی: صفا و مروہ کی سعی اس عزم و یقین کا اظہار ہے کہ حضرت ابراہیم اور اسمٰعیل علیہم السلام کا راستہ ہی میرا راستہ ہوگا اور اس راستے پر میانہ روی کے ساتھ چلتا رہوں گا جو میرے لیے باعث صد افتخار ہوگا۔

(۵)۔ رَمِی: جَمرات پرکنکریاں مارنا عذاب الٰہی کی کنکریوں کی شکل میں اس موسلا دھار بارش کی یادگار ہے جس نے اصحاب فیل کو انھیں مقامات پر کَعَصْفٍ مَّاْکُوْل کردیا تھا۔ ہم ایک بار پھر اصحاب فیل کی تاریخ کو دہرا دیں گے۔

رَمی جَمار ایک اور حقیقت کی بھی ترجمان ہے۔ یہ وہی مقامات ہیں جہاں شیطان نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنے لخت جگر کو راہ خدا میں قربان کرنے سے بہکانے کی تین بار جسارت کی تھی لیکن آپ نے اس کو پتھر مارکر بھگا دیا تھا۔ ہر مسلمان رَمی جمارکی رسم کے ذریعے بسم اللہ اللہ اکبر کہہ کر تمثیلی شیطان پر نفرت اور حقارت کے جذبے کے ساتھ کنکریاں مارتا ہے اور اس طرح اس عزم کا اظہارکرتا ہے کہ وہ شیطان مردود کو اپنے معاملات زندگی میں دخل انداز نہیں ہونے دے گا۔

(۶)۔قربانی: قربانی اس بات کا خاموش اقرار ہے کہ میں اپنی حیوانیت کو حکم الٰہی کی چھری سے ذبح کردوں گا۔ اپنے نفس امارہ کو نفس مطمئنہ یعنی حکم الٰہی پر چلنے والا بناؤں گا۔ میری جان ذبیح اللہ کی طرح اللہ کی راہ میں نذر ہوچکی ہے۔ جب وہ طلب کرے گا برضا بخوشی پیش کردوں گا پھر بھی یہی کہوں گا:

جان دی دی ہوئی اسی کی تھی

حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا

مختصراً یہ تھے مراسمِ حج کے پس منظر میں کارفرما تصورات اور حقیقتیں۔

ہر رسم سے رب کی پسندیدگی یعنی بندگی کی تصویر ابھرتی۔ خصوصاً جذبہ جہاد جو بندگی کا معراج کمال ہے وہ ان تمام مراسم میں اس طرح سمویا ہوا ہے کہ پورا حج جہاد کی تربیتی مشق معلوم ہوتا ہے حج موتمر عالم اسلامی کا ایک سالانہ اجتماع ہے جہان مختلف اسلامی ممالک کے حالات کا پتہ چلتا ہے اور علمائے کرام اسلامی دنیا کو بحیثیت مجموعی درپیش مسائل کا حل تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

حج میں شان جامعیت پائی جاتی ہے اس میں تمام ارکان اسلام مثلاً نماز، زکوٰۃ اور روزہ کی روح، جوہر اور عطر موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حج کو اسلامی عبادات میں غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔

مناسک حج:

پہلا دن: حج کے مناسک (مراسم) کی ادائیگی 8 ذی الحجہ سے شروع ہوتی ہے۔ آج شمعِ توحید کے پروانے طلوع آفتاب کے بعد منیٰ جاتے ہیں۔ 8 ذی الحج کی نماز ظہر سے 9ذی الحجہ کی نماز فجر منیٰ میں پڑھی جاتی ہیں۔

دوسرا دن: 9 ذی الحجہ کو سورج نکلنے کے بعد منیٰ سے عرفات جایا جاتا ہے۔ زوال آفتاب سے غروب آفتاب تک میدان عرفات میں ٹھہرنا حج کا رکن اعظم ہے بلکہ اصل حج ہے۔ جس نے عرفات میں ایک دن گزار لیا وہ حاجی شمار ہو گا اور جس نے تمام ارکان حج ادا کیے مگر عرفات میں ایک لمحہ بھی اس کو میسر نہ آیا وہ حاجی نہ بن سکے گا۔ غروب آفتاب کے بعد مغرب کی نماز پڑھے بغیر مزدلفہ روانگی ہوگی اور رات کا قیام مزدلفہ میں کیا جائے گا۔ مزدلفہ میں قیام کے دوران شیطان کو مارنے کے لیے 70 کنکریاں کھجور کے دانے کے برابر پاک و صاف کرکے جمع کر لی جائیں۔

تیسرا دن: 10 ذی الحج کو نماز فجر ادا کرکے طلوع آفتاب کے بعد دوبارہ منیٰ کو واپسی ہوگی۔ عیدالاضحیٰ کی نماز حاجیوں پر معاف ہے۔ منیٰ پہنچ کر سب سے پہلا کام جو کرنا ہے وہ جمرہ عقبیٰ کی رَمِی ہے۔ اس جمرہ پر سات کنکریاں ماری جائیں گی۔ رَمِی جمار کا وقت طلوع آفتاب سے پہلے تک ہے۔ حجرہ عقبیٰ سے کم ازکم پانچ ہاتھ کے فاصلے پرکھڑا ہوکر داہنے ہاتھ سے بسم اللہ اللہ اکبر کہہ کر کنکری مارے۔ رمی شروع کرتے ہی تلبیہ پڑھنا بند کر دے آج دوسرا اہم کام قربانی ہے۔

مفرد کے لیے قربانی واجب نہیں وہ بال حلق (منڈوانا) کرا کر یا قصر (کتروانا) کر احرام کھول دے۔ لیکن قَارِن اور متمتع پہلے قربانی کریں گے۔ پھر بال حلق یا قصر کریں گے اس کے بعد احرام کھولیں گے اب سلا ہوا کپڑا پہن سکتے ہیں خوشبو لگا سکتے ہیں غرض یہ کہ احرام کی ایک پابندی کے علاوہ سب پابندیاں ختم ہو جائیں گی۔ رمی، قربانی، حلق یا قصر اور احرام کھولنا ان سب کاموں کو ترتیب کے ساتھ ادا کرنا ضروری ہے۔ ان کے بعد آج کا سب سے اہم کام طواف زیارت ہے جس کے لیے مکہ معظمہ جایا جائے گا۔ طواف زیارت کے بعد آپ پر سے احرام کی سب پابندیاں ختم ہوگئیں۔ اب آپ کے لیے احرام سے جو کچھ حلال تھا وہ سب حلال ہو گیا۔ طواف زیارت کے بعد صفا و مروہ کی سعی کی جائے گی۔ سعی سے فارغ ہوکر دوبارہ منیٰ کو واپسی ہو گی اور رات وہاں بسر کی جائے گی۔

چوتھا دن: 11 ذی الحج رمی جمار کا دن ہے۔ آج رمی کا وقت زوال آفتاب سے غروب آفتاب تک ہے۔ پہلے جمرہ اُولیٰ پر سات کنکریاں مار کر دعا کی جاتی ہے۔ پھر جمرہ وسطیٰ پر سات کنکریاں مارکر دعا کی جاتی ہے اور پھر جمرہ عقبیٰ پر سات کنکریاں مار کر بغیر دعا کے لوٹ جاتے ہیں۔

پانچواں دن: 12 ذی الحج بھی رمی کا دن ہے۔ آج بھی زوال آفتاب کے بعد تینوں جمرات پر کنکریاں مارنی ہیں۔ رمی کے بعد غروب آفتاب سے پہلے آپ منیٰ سے مکہ معظمہ واپس آجائیں گے۔ الحمد اللہ اب آپ کا حج مکمل ہوگیا۔ اب آپ طواف وداع کرکے وطن واپس لوٹ آئیں گے۔ ان مناسک، مراسم، یا ارکان حج میں کچھ فرائض ہیں اورکچھ واجبات۔ تفصیل یہ ہے۔

فرائض:- (۱)۔ نیت کرنا، احرام باندھنا اور تلبیہ پڑھنا۔ (۲)۔وقوفِ عرفات۔ (۳)۔ طوافِ زیارت۔

واجبات:- (۱)۔وقوفِ مزدلفہ۔ (۲)۔صفا و مروہ کی سعی۔ (۳)۔جمرات کی رمی۔ (۴)۔قربانی۔ (۵)۔بال کٹوانا یا کتروانا۔ (۶)۔طوافِ وَداع کرنا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں