ڈو مور کیوں
مختصر سی کابینہ بنائی جائے اور فوج کو داخلی اورخارجی معاملات میں شریک کیا جائے
NEW DELHI:
سپر پاور کے صدر ٹرمپ نے پاکستان سے ڈومورکا مطالبہ کردیا اور 16 سالہ جدوجہد جو دہشتگردی کے خاتمے کے لیے کی گئی اس کا اعتراف بھی نہ کیا۔ پاکستان ایک آزاد خود مختار اور عظیم لوگوں کی ایسی مملکت ہے جس کے عوام غیور بھی ہیں بہادر بھی۔ اس ڈو مور کے پیچھے امریکا کی وہ ناکامی ہے جو اسے افغانستان میں ملی ہے۔ آج 16 سال گزرگئے افغانستان میں امریکا نے ہر حربہ آزما لیا۔ حکومتیں بدلیں مگر اسے ایسی کامیابی نہ ملی جس کے نتیجے میں امریکی فوجیوں کو واپس جانا تھا۔ آج افغانستان میں امریکی اور نیٹو فوجی موجود ہیں اور امریکا کے موجودہ صدر ٹرمپ مزید فوج بھیجنے کا حکم دے چکے ہیں۔ اور پاکستان پر برس رہے ہیں۔
پاکستان نے امریکا کا ساتھ نبھایا اور ہمیں جو مالی امداد ملی وہ اس مالی خسارے کے مقابلے میں10 فی صد بھی نہیں ہے جو ہم نے برداشت کیا مزید براں پاکستان کے ہزاروں لوگوں نے جام شہادت نوش کیا، اس میں عام شہری بھی شامل ہیں اور پاک فوج کے جوان بھی۔ دنیا امریکا سے اس لیے خوفزدہ ہے وہ امریکا کے زیراثر ہیں۔ کہیں ڈالرکی چمک ہے تو کہیں ہتھیاروں کی بہتات۔ ورنہ حقیقت میں امریکا کے پاس نہ وہ حکمت عملی ہے جس سے امن لایا جا سکتا ہو نہ ہی وہ سفارتکاری جس کے ذریعے کسی دوسرے ملک میں امن آ سکے۔ ہمارے سامنے عراق، شام، مصر، لیبیا جسے ملکوں کی مثال موجود ہے جہاں انسانی خون بہتا رہا، جہاں بے گناہ شہریوں کے گھر دھماکوں سے اڑتے رہے۔ معصوم بچے، عورتیں، بوڑھے شہید ہوتے رہے، مگر کہیں امریکا کی ایسی حکمت عملی نظر نہ آئی جہاں بغیر خون خرابے کے امن آتا۔ امریکا کو افغانستان کی تاریخ پر نظرکرنی ہو گی جنہیں آج تک کوئی فتح نہ کر سکا۔ جہاں کوئی قبضہ نہ کر سکا۔ افغان مزاج میں جانبازی کا عنصر بہت ہے اور افغانی اسلامی روایات کے مطابق ہی اپنا معاشرہ بناتے ہیں۔
اسی لیے ان کے بیان قبائلی رسم و رواج نے انھیں جنگجو بنایا ہوا ہے، اگر امریکا افغانستان میں آزادی ساتھ صاف اورشفاف حکومت جو اعتدال پسندوں پر بنانے کا موقع دے ایسا انتخاب ہو جو اقوام متحدہ کی نگرانی میں ہو تو امریکا کو وہاں فوجی رکھنے کی ضرورت نہیں ہو گی۔ پاکستان کے حق میں ہے کہ افغانستان میں امن ہو اور آزاد حکومت، اس معاملے میں پاکستان نے ہرممکن تعاون کیا ہے۔ اب امریکا نے جو ڈومور کا مطالبہ کیا ہے اس میں جو پیغام ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان افغانستان کے طالبان کے ساتھ مسلح جدوجہد کرے۔ جب کہ یہ پاکستان کی ذمے داری نہیں ہے اور افغانستان ہمارا ہمسایہ اور برادار اسلامی ملک بھی ہے اور پاکستان کی یہ پالیسی ہے کہ وہ کسی بھی ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت پسند نہیں کرتا۔ حالانکہ پاکستان کو بھی افغانستان سے بہت شکائیتیں ہیں اور پاکستان نے اسی لیے اپنی سرحد کو باڑ لگا کر محفوظ کیا ہے۔
امریکا نے پاکستان کو وہ ہی پیغام دیا ہے جو امریکا نے اس وقت کے پاکستان کے صدر پرویز مشرف کو دیا تھا۔گویا آج بھی امریکا افغانستان کے معاملے میں وہیں کھڑا ہے جہاں 16 سال پہلے کھڑا تھا۔ آج امریکا نے ہمیں 'ڈومور' کا اس لیے کہا ہے کے ہماری کوئی مستحکم حکومت نہیں، ہماری کوئی واضح خارجہ پالیسی نہیں ہے یہ سب میاں نواز شریف کی حکومت کی وہ خامیاں ہیں جس کا خمیازہ قوم کو بھگتنا ہو گا۔
نئے وزیراعظم خاقان عباسی نے جو نئی کابینہ بنائی اور وزراء کو محکمے ملے اس میں کوئی سنجیدگی نظر نہیں آئی، اگر میاں نواز شریف صرف اپنی تبدیلی پر اکتفاء کرتے یعنی صرف خاقان عباسی کو وزیراعظم بناتے باقی کابینہ کو جوں کا توں ہی رکھتے تو ایک مستحکم حکومت ہوتی۔ وزیر خارجہ یا مشیر خارجہ کا منصب سر تاج عزیز کے پاس ہی رہتا۔ وزارت داخلہ چوہدری نثار ہی کے پاس رہتی منصوبہ بندی کی وزارت اقبال حسن ہی مناسب تھے اگر تبدیلی ہی کرنی تھی تو کسی سابق جنرل کو وزارت داخلہ دینی چاہیے۔ جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ ہوتے یا جنرل (ر) عبدالقیوم مگر یہ سب ملک کے معاملات پر سنجیدگی کا تاثر نہیں دیتے ہیں۔ اب حالات کا تقاضہ ہے کہ فوری طور پر ایسی حکومت تشکیل دی جائے جو ماہرین پر مشتمل ہو۔
مختصر سی کابینہ بنائی جائے اور فوج کو داخلی اورخارجی معاملات میں شریک کیا جائے اور احتساب کے سلسلے کو شفاف طریقے سے آگے بڑھایا جائے خاص طور پر ان لوگوں کا احتساب ضرورکیا جائے، جنہوں نے گزشتہ کئی سال تک حکمرانی کی ان کا حساب ضروری ہے جو آج سیاسی پارٹیوں کے سربراہ نہیں۔ ان کی پر آسائش زندگی اور ان کی جائیداد مال و دولت میں کئی گنا اضافہ کیسے ہوا، اگر آج ان لوگوں کا کڑا احتساب نہ ہوا تو شاید پھرکبھی کسی کا حساب نہ ہو سکے گا اور پاکستان میں کبھی بدعنوانی ختم نہ ہوگی اور نہ ہی کوئی مستحکم حکومت آئے گی۔آج بھی 9 مہینے کے لیے جوکابینہ بنی ہے،اس میں وزراء کی تعداد 53 ہے جب کہ ان میں بمشکل تمام 10 افراد ہوں گے جو اہل ہوں یہ پاکستان کے لیے خوش آیند بات ہے کہ عدلیہ نے ملک میں قانون کی حکمرانی کو اولیت دی ہے اورکچھ بڑوں کو احتساب کے کٹہرے میں لا کھڑاکیا ہے۔ بس خدا کرے یہ سلسلہ مستقل مزاجی سے جاری رہے۔کیونکہ اس وقت پاکستان کی عوام کو حب الوطنی اور نیشنل ازم کا مظاہرہ کرنا ہے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ امریکا کی اس دھمکی پر پورے پا کستان کی عوام گھروں سے باہر آکر اتحاد اور قوت کا ایسا مظاہرہ کرتے جیسا کبھی ایران کے عوام آیت اللہ خمینی کے اشارے پر کیاکرتے تھے، لیکن ہمارے ہاں تقسیم در تقسیم کی سیاست آگے بڑھ رہی ہے۔ کاش پاکستان کے سیاستدان اب پارلیمانی نظام کے بجائے صدارتی نظام حکومت پر متفق ہوجائیں۔کیونکہ صدارتی نظام میں ریاست بھی مضبوط ہوتی ہے اور عوام میں پاکستانیت کا عنصر بھی پیدا ہوتا ہے اب ہمیں ڈو مور کا جواب ''نو مور'' سے دینا ہو گا ہے۔ ہمیں اپنے وسائل پر بھروسہ کرنا ہوگا ہمیں پڑوسی ملکوں سے تعلقات کو بہتر بنانا ہوگا تاکہ ہمارا داخلی اور خارجی محاذ مضبوط ہو جائے۔
سپر پاور کے صدر ٹرمپ نے پاکستان سے ڈومورکا مطالبہ کردیا اور 16 سالہ جدوجہد جو دہشتگردی کے خاتمے کے لیے کی گئی اس کا اعتراف بھی نہ کیا۔ پاکستان ایک آزاد خود مختار اور عظیم لوگوں کی ایسی مملکت ہے جس کے عوام غیور بھی ہیں بہادر بھی۔ اس ڈو مور کے پیچھے امریکا کی وہ ناکامی ہے جو اسے افغانستان میں ملی ہے۔ آج 16 سال گزرگئے افغانستان میں امریکا نے ہر حربہ آزما لیا۔ حکومتیں بدلیں مگر اسے ایسی کامیابی نہ ملی جس کے نتیجے میں امریکی فوجیوں کو واپس جانا تھا۔ آج افغانستان میں امریکی اور نیٹو فوجی موجود ہیں اور امریکا کے موجودہ صدر ٹرمپ مزید فوج بھیجنے کا حکم دے چکے ہیں۔ اور پاکستان پر برس رہے ہیں۔
پاکستان نے امریکا کا ساتھ نبھایا اور ہمیں جو مالی امداد ملی وہ اس مالی خسارے کے مقابلے میں10 فی صد بھی نہیں ہے جو ہم نے برداشت کیا مزید براں پاکستان کے ہزاروں لوگوں نے جام شہادت نوش کیا، اس میں عام شہری بھی شامل ہیں اور پاک فوج کے جوان بھی۔ دنیا امریکا سے اس لیے خوفزدہ ہے وہ امریکا کے زیراثر ہیں۔ کہیں ڈالرکی چمک ہے تو کہیں ہتھیاروں کی بہتات۔ ورنہ حقیقت میں امریکا کے پاس نہ وہ حکمت عملی ہے جس سے امن لایا جا سکتا ہو نہ ہی وہ سفارتکاری جس کے ذریعے کسی دوسرے ملک میں امن آ سکے۔ ہمارے سامنے عراق، شام، مصر، لیبیا جسے ملکوں کی مثال موجود ہے جہاں انسانی خون بہتا رہا، جہاں بے گناہ شہریوں کے گھر دھماکوں سے اڑتے رہے۔ معصوم بچے، عورتیں، بوڑھے شہید ہوتے رہے، مگر کہیں امریکا کی ایسی حکمت عملی نظر نہ آئی جہاں بغیر خون خرابے کے امن آتا۔ امریکا کو افغانستان کی تاریخ پر نظرکرنی ہو گی جنہیں آج تک کوئی فتح نہ کر سکا۔ جہاں کوئی قبضہ نہ کر سکا۔ افغان مزاج میں جانبازی کا عنصر بہت ہے اور افغانی اسلامی روایات کے مطابق ہی اپنا معاشرہ بناتے ہیں۔
اسی لیے ان کے بیان قبائلی رسم و رواج نے انھیں جنگجو بنایا ہوا ہے، اگر امریکا افغانستان میں آزادی ساتھ صاف اورشفاف حکومت جو اعتدال پسندوں پر بنانے کا موقع دے ایسا انتخاب ہو جو اقوام متحدہ کی نگرانی میں ہو تو امریکا کو وہاں فوجی رکھنے کی ضرورت نہیں ہو گی۔ پاکستان کے حق میں ہے کہ افغانستان میں امن ہو اور آزاد حکومت، اس معاملے میں پاکستان نے ہرممکن تعاون کیا ہے۔ اب امریکا نے جو ڈومور کا مطالبہ کیا ہے اس میں جو پیغام ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان افغانستان کے طالبان کے ساتھ مسلح جدوجہد کرے۔ جب کہ یہ پاکستان کی ذمے داری نہیں ہے اور افغانستان ہمارا ہمسایہ اور برادار اسلامی ملک بھی ہے اور پاکستان کی یہ پالیسی ہے کہ وہ کسی بھی ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت پسند نہیں کرتا۔ حالانکہ پاکستان کو بھی افغانستان سے بہت شکائیتیں ہیں اور پاکستان نے اسی لیے اپنی سرحد کو باڑ لگا کر محفوظ کیا ہے۔
امریکا نے پاکستان کو وہ ہی پیغام دیا ہے جو امریکا نے اس وقت کے پاکستان کے صدر پرویز مشرف کو دیا تھا۔گویا آج بھی امریکا افغانستان کے معاملے میں وہیں کھڑا ہے جہاں 16 سال پہلے کھڑا تھا۔ آج امریکا نے ہمیں 'ڈومور' کا اس لیے کہا ہے کے ہماری کوئی مستحکم حکومت نہیں، ہماری کوئی واضح خارجہ پالیسی نہیں ہے یہ سب میاں نواز شریف کی حکومت کی وہ خامیاں ہیں جس کا خمیازہ قوم کو بھگتنا ہو گا۔
نئے وزیراعظم خاقان عباسی نے جو نئی کابینہ بنائی اور وزراء کو محکمے ملے اس میں کوئی سنجیدگی نظر نہیں آئی، اگر میاں نواز شریف صرف اپنی تبدیلی پر اکتفاء کرتے یعنی صرف خاقان عباسی کو وزیراعظم بناتے باقی کابینہ کو جوں کا توں ہی رکھتے تو ایک مستحکم حکومت ہوتی۔ وزیر خارجہ یا مشیر خارجہ کا منصب سر تاج عزیز کے پاس ہی رہتا۔ وزارت داخلہ چوہدری نثار ہی کے پاس رہتی منصوبہ بندی کی وزارت اقبال حسن ہی مناسب تھے اگر تبدیلی ہی کرنی تھی تو کسی سابق جنرل کو وزارت داخلہ دینی چاہیے۔ جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ ہوتے یا جنرل (ر) عبدالقیوم مگر یہ سب ملک کے معاملات پر سنجیدگی کا تاثر نہیں دیتے ہیں۔ اب حالات کا تقاضہ ہے کہ فوری طور پر ایسی حکومت تشکیل دی جائے جو ماہرین پر مشتمل ہو۔
مختصر سی کابینہ بنائی جائے اور فوج کو داخلی اورخارجی معاملات میں شریک کیا جائے اور احتساب کے سلسلے کو شفاف طریقے سے آگے بڑھایا جائے خاص طور پر ان لوگوں کا احتساب ضرورکیا جائے، جنہوں نے گزشتہ کئی سال تک حکمرانی کی ان کا حساب ضروری ہے جو آج سیاسی پارٹیوں کے سربراہ نہیں۔ ان کی پر آسائش زندگی اور ان کی جائیداد مال و دولت میں کئی گنا اضافہ کیسے ہوا، اگر آج ان لوگوں کا کڑا احتساب نہ ہوا تو شاید پھرکبھی کسی کا حساب نہ ہو سکے گا اور پاکستان میں کبھی بدعنوانی ختم نہ ہوگی اور نہ ہی کوئی مستحکم حکومت آئے گی۔آج بھی 9 مہینے کے لیے جوکابینہ بنی ہے،اس میں وزراء کی تعداد 53 ہے جب کہ ان میں بمشکل تمام 10 افراد ہوں گے جو اہل ہوں یہ پاکستان کے لیے خوش آیند بات ہے کہ عدلیہ نے ملک میں قانون کی حکمرانی کو اولیت دی ہے اورکچھ بڑوں کو احتساب کے کٹہرے میں لا کھڑاکیا ہے۔ بس خدا کرے یہ سلسلہ مستقل مزاجی سے جاری رہے۔کیونکہ اس وقت پاکستان کی عوام کو حب الوطنی اور نیشنل ازم کا مظاہرہ کرنا ہے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ امریکا کی اس دھمکی پر پورے پا کستان کی عوام گھروں سے باہر آکر اتحاد اور قوت کا ایسا مظاہرہ کرتے جیسا کبھی ایران کے عوام آیت اللہ خمینی کے اشارے پر کیاکرتے تھے، لیکن ہمارے ہاں تقسیم در تقسیم کی سیاست آگے بڑھ رہی ہے۔ کاش پاکستان کے سیاستدان اب پارلیمانی نظام کے بجائے صدارتی نظام حکومت پر متفق ہوجائیں۔کیونکہ صدارتی نظام میں ریاست بھی مضبوط ہوتی ہے اور عوام میں پاکستانیت کا عنصر بھی پیدا ہوتا ہے اب ہمیں ڈو مور کا جواب ''نو مور'' سے دینا ہو گا ہے۔ ہمیں اپنے وسائل پر بھروسہ کرنا ہوگا ہمیں پڑوسی ملکوں سے تعلقات کو بہتر بنانا ہوگا تاکہ ہمارا داخلی اور خارجی محاذ مضبوط ہو جائے۔