اندھی عقیدت کے منہ پر طمانچہ
برصغیر کے ایک بڑی آبادی اندھی عقیدت اور توہم پرستی کے کیچڑ میں لت پت ہے۔
برصغیر کے ایک بڑی آبادی اندھی عقیدت اور توہم پرستی کے کیچڑ میں لت پت ہے۔ قریب سے گزرنے والے سائنس اور ٹیکنالوجی کے سفید جھرنوں کے راستے میں یا تو جاگیردارانہ نظام کے رکھوالوں نے اپنی چوکیاں بنا رکھی ہیں یا مذہب کے نام پر سادہ دل انسانوں کو گمراہ کرنے والے سادھو دھونی رمائے بیٹھے ہیں۔ ہمارے خیال میں کوئی شخص کسی مذہب یا عقیدے کو مانے یا نہ مانے، مگر اس کا احترام اس لیے بھی لازم ہے کہ اس کی مخالفت سے لاکھوں پیروکاروں کی دل آزاری ہو سکتی ہے، مگر برصغیر کے کچھ مذاہب کے ماننے والے بعض دفعہ ایسی حرکتیں کرتے ہیں، جنھیں دیکھنے والے ششدر رہ جاتے ہیں۔ ہم ہندو مذہب کی بات کریں گے۔
جس کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ وقت کے ساتھ اس کے مبلغین نے اس کی جو شرح بیان کی اس نے انسانیت کو دکھوں سے نکالنے کے بجائے مزید دکھوں کا اسیر بنا دیا۔ اسی مذہب کے ساتھ برصغیر میں جنم لینے والی دو بڑی تحریکیں جین مت اور بدھ مت نے ہندو مذہب کے اصول و ضوابط، دوسرے جنم اور سزا و جزا کے ہندو فلسفے کو ٹھکراتے ہوئے بغاوت کا اعلان تو کر دیا، مگر کچھ صدیاں گزرنے کے بعد اپنے رہنماؤں کے حقیقی پیغام کو بھلا کر یہ دونوں تحریکیں بھی مذہب کا روپ اختیار کر بیٹھیں۔ہندو مذہب میں پائے جانے والی روایات، توہم پرستی اور اندھی عقیدت پر بات کی جائے تو سلسلہ بہت طویل ہو جائے گا، مگر ہمارے دور تک آتے آتے اس کے ماننے والوں نے جس انداز سے اس پر عمل کروانے کا سلسلہ شروع کیا اُس نے پورے برصغیرکو امتحان گاہ میں کھڑا کر دیا ہے۔
شاید یہ بنیاد پرستی، توہم پرستی اور اندھی عقیدت کا ہی شاخسانہ ہے کہ بھارت کے کئی پڑھے لکھے ہندو ہمیں ہاتھوں میں گلاس تھامے اس انتظار میں کھڑے دکھائی دیتے ہیں کہ ان کے سامنے بندھی ہو ئی گائے کب پیشاب کرے اور وہ کب اس سے اپنی روحانی پیاس بجھائیں۔اندھی عقیدت کی یہ مثالیں صرف گائے کے پیشاب تک ہی محدود نہیں بلکہ اس کی ہزاروں مثالیں ہم روزانہ سوشل میڈیااور الیکٹرانک میڈیا پر دیکھتے ہی رہتے ہیں۔
اندھی عقیدت کی ایک ایسی ہی تازہ ترین اور نا قابل یقین خبر آج کل دنیا بھر کے میڈیا پر چھائی ہوئی ہوئی جس کے مطابق ایک قاتل اور سیاہ کار شخص کے خلاف عدالت نے بیس سالہ قید کا فیصلہ سنایاہے۔ سادہ دل افراد کے جذبات سے کھیلنے والے اس شخص نے دس سال پہلے سکھ مذہب کے دسویں گرو گوبند سنگھ کا روپ دھارا تو سکھ مذہب کے ماننے والوں نے اپنے غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے اس کے خلاف بھر پور احتجاج کیا جس پر اسے اس مذہب کے ماننے والوں سے معافی مانگنا پڑی۔ انیس سال قبل اسی شخص کی گاڑی نے ایک بچے کو کچل دیا تھا۔کچھ عرصہ بعد اس پر اپنے منیجر کے قتل کا الزام لگا اور اس کے ساتھ ہی اس نے اپنی ایک داسی کو بھی قتل کر دیا، لیکن ان تمام الزامات کے مقابلے میں دو مزید الزامات اس سے بھی زیادہ سنگین تھے جن میں ایک ایسے صحافی کے قتل کا الزام بھی شامل تھا جو ''ڈیرا سچا سودا'' میں ہونے والی ان مشکوک سرگرمیوں کی خبریں چھاپتا تھا جن سے دوسرے لوگ بے خبر ہوتے تھے۔ سچ لکھنے پر اس صحافی کو گولی کا نشانہ بنایا گیا اور وہ بعد میں ایک اسپتال میں دم توڑ گیا تھا۔ اس شخص پر دوسرا الزام یہ تھاکہ اس نے اپنی ایک داسی کے ساتھ جنسی زیادتی کی تھی اور اس متاثرہ خاتون نے پندرہ سال قبل اس زیادتی کے خلاف وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کو ایک خط لکھا تھا جس کی ایک کاپی چیف جسٹس پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ کو بھی بھیجی تھی۔
اندھی عقیدت کا یہ خوف ناک واقعہ شروع ہوا تھا ہریانا میں واقع ''ڈیرا سچا سودا'' سے جسے 1948ء میں شاہ مستانہ نامی ایک شخص نے قائم کیا تھا۔ اس کے مرنے کے بعد ایک مرید نے ''ڈیرا سچا سودا'' کا نظم و نسق سنبھالاتو مریدوں میں دو میاں بیوی بھی شامل تھے۔ ان کا بیٹا گرمیت سنگھ بڑا ہوا تو 1990ء میں اسے ڈیرا سچا سودا کا تیسرا سربراہ مقرر کیا گیا اور یہ وہی گرمیت سنگھ ہے جس پر قتل اور زیادتی کے الزامات عائد کرنے کے بعد جب عدالت میں پیش کیا گیا تو اس کے چاہنے والوں نے وہ ہنگامہ کیا کہ اڑتیس افراد ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہو گئے۔
گرمیت سنگھ نے سادہ لوح افراد کو بے وقوف بنانے کے لیے مسلمانوں، ہندوؤں اور سکھوں کے مقدس ناموں کا سہارا لیتے ہوئے اپنا نام ''گرمیت رام رحیم سنگھ انسان'' رکھا اور ہمارے آس پاس نظر آنے والے کئی خود ساختہ عاملین کی طرح سادہ دل لوگوں کے جذبات سے کھیلناشروع کر دیا۔ موسیقی کی پہلی البم ''ہائی وے ٹو چارجر'' کے بعد رنگین مزاج گرمیت سنگھ نے پانچ فلموں میں کام بھی کیا اور خود کو تقریبا دس کھیلوں کا ماہر کھلاڑی بھی ظاہر کیا۔ اپنی فلم ایم ایس جی ۔ٹو میں اس نے اپنے آپ کو اوتار ثابت کرنے کی بھر پور کوشش کی جسے دیکھ کر اندھے عقیدت مند تو بہت متاثر ہوئے، مگر عام فلم بین اسے ایک مزاحیہ اور ناکام فلم سمجھ کر سینما گھروں سے باہر نکل آئے۔
ہر معاشرے میںجہاں عقل کے اندھے موجود ہوتے ہیں وہاں ایسے افراد کی بھی کمی نہیں ہوتی جو انسانوں کو انسان سمجھ کر ان کے حقوق کے لیے میدان میں آ جاتے ہیں۔ دو بڑی سیاسی پارٹیوں کی پشت پناہی اور لاکھوں عقل کے اندھوں کی اندھی عقیدت کے باوجود ایک جج نے اس ہفتے گرمیت سنگھ کو مجرم قرار دیتے ہوئے جب بیس سال قید کی سزا سنائی تو لوگوں نے سکھ کا سانس لیتے ہوئے اس عدالتی فیصلے کو خوب سراہا۔ فیصلہ سننے کے بعد گرمیت سنگھ جج کے سامنے گڑ گڑا کر معافی مانگ رہا تھا، مگر اب بہت دیر ہو چکی تھی۔
گرمیت سنگھ تو اپنے کرتوتوں کے ہاتھوں انجام تک پہنچ چکا ہے، مگر ہمارے آس پاس ایسے کئی گرمیت سنگھ موجود ہیں جن کا نام گرمیت سنگھ سے چاہے نہیں ملتا مگر ان کے کرتوت گرمیت سنگھ سے کسی طور بھی کم نہیں۔ایسی خود ساختہ بلاؤں کو علم و عمل اور سائنس و ٹیکنالوجی کی مدد سے ہی ختم کیا جا سکتا ہے، مگرہمارے بچوں کو جس طرح علم کی روشنی سے دور رکھا جا رہا ہے ہم اس کی شکایت بھی نہیں کر رہے اور ہمارے آس پاس گرمیت سنگھوںکا مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔