دمشق سے کیمبرج تک

ڈاکٹر حمید اﷲ کا پتہ معلوم ہوگیا تو اس کی مدد سے رضوان علی ڈاکٹر کے مکان پر پہنچ گئے

یہ ایک سفرکی کہانی ہے۔ مسافر تھے سید رضوان علی ندوی۔ سفر تھا دمشق سے کیمبرج کا، مشرق سے مغرب کا۔

سید رضوان علی نے دمشق یونیورسٹی میں چار سال گزارے، تعلیم مکمل ہوئی تو کیمبرج یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کے لیے داخلہ مل گیا۔ دمشق سے حلب تک کا سفر ٹیکسی سے ہوا وہاں سے منزل مقصود تک ریل میں براستہ استنبول بلگراڈ پیرس، لندن۔

پہلی منزل استنبول تھی، ٹرین میں شام اورعراق کے کافی مسافر تھے۔ ایک عراقی طالب علم سے دوستی ہو گئی۔ دوسرے دن شام کو استنبول کے ایشیائی ساحل پر حیدر پاشا کے ریلوے اسٹیشن پر اترے، بحیرہ مرمر روشنیوں سے جگمگا رہاتھا چھوٹے سمندری جہاز میں بیٹھ کر رضوان علی یورپی ساحل غلطہ پر آگئے۔ یہاں استنبول کے ایک متوسط درجہ کے ہوٹل میں قیام پذیر ہوگئے۔ جلد ہی ان کی ملاقات ایک ترکی دوست احسان توکرے سے ہوگئی جو پورے وقت ان کے ساتھ رہے۔ انھوں نے انھیں ترکی کی اہم مساجد، آیاصوفیہ، مسجد سلطان محمد فاتح، مسجد سلمانیہ، مسجد سلطان دکھائی، آیاصوفیہ میں جو پہلے مسجد تھی اور جسے اتاترک میوزیم بنادیا تھا، نماز پڑھنے کی اجازت نہ تھی۔ رضوان علی نے اپنے دوست سے کہا میرا جی چاہتا ہے یہاں دوگانہ نفل پڑھ لوں۔

انھوں نے کہا ضرور۔ ان کا وضو تھا فوراً ایک طرف ہوکر دو رکعت نماز پڑھ لی۔ شاد کام ہوگئے۔ اسی ترک دوست کے ساتھ یہ استنبول یونیورسٹی گئے اور سلطان محمد فاتح کے مشہور محفل توپ کاپی سرائے کی سیر کی جس کے ایک خاص حصے میں وہ میوزیم ہے جہاں حضورؐ کا موئے مبارک، آپؐ کا عصا، آپؐ کی تلوار اور دوسری متبرک اشیا ہیں یہیں وہ مصحفِ عثمانی بھی محفوظ جس کو سیدنا عثمانؓ اپنی شہادت کے وقت پڑھ رہے تھے۔ احسان ان کو حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے مزار پر بھی لے گئے۔ چار پانچ روز استنبول میں قیام کے بعد یورپ کو جانے والی ٹرین میں سوار ہوکر سید رضوان علی اپنی اگلی منزل کی طرف روانہ ہوگئے۔ یہ یونان کا شہر سالونیکی تھا جو 1914ء تک ترکی کی سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھا۔ مصطفیٰ کمال اسی شہر میں پیدا ہوئے تھے۔ دو راتیں یہاں گزار کر وہ یوگو سلاویہ کے صدر مقام بلگراڈ پہنچ گئے۔ لکھتے ہیں ''سالونیکی سے بلگراڈ تک ٹرین میں مسافروں کو جو منظر نظر آیا اس کی تصویر کشی کو شاید کوئی مبالغہ سمجھے لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ بالکل ہمارے ملک کی تھرڈ کلاس ریل گاڑی کا منظر تھا۔ لوگوں کے لباس سے جو یوگوسلاوی تھے غربت عیاں تھی'' یہ ٹیٹو کا یوگو سلاویہ تھا۔

رضوان علی کا ارادہ بلگراڈ میں دو دن ٹھہرنے کا تھا مگر انھیں شہرمیں کہیں ٹھہرنے کی جگہ نہ ملی سب ہوٹل بھرے تھے بالآخر پریشان ہوکر اسٹیشن آکر بیٹھ گئے اسی میں رات گزرگئی۔ صبح ہوئی تو پہلی ٹرین سے بلگراڈ پر لعنت بھیجتے ہوئے سوئٹزر لینڈ کے شہر لوزان کا رخ کیا۔

لکھتے ہیں '' اب جو مسافر تھے وہ صاف ستھرے، مہذب تھے۔ ریل گاڑی میں اب وہ طوفان بدتمیزی اورغربت کا منظر نہ تھا۔ راستہ بھی انتہائی حسین تھا۔ میں نے زندگی میں ریل کا اتنا حسین سفر نہیں کیا۔ ریل گاڑی کوہستان الپس کے مشرقی سلسلے سے ہوکر ایک صاف شفاف پہاڑی دریا کے ساتھ رواں دواں تھی''

ریل گاڑی کے ڈبے میں رضوان علی کی پناما کے ایک حبشی مسافر سے دوستی ہو گئی جو بعد میں پیرس میں ان کے کام آیا۔ ڈبہ تقریباً خالی تھا۔ یہ دو راتوں سے نہیں سوئے تھے، پاؤں پھیلا کر آرام سے سوگئے حتیٰ کہ انھیں یہ بھی پتہ نہ چلا کہ لوزان کب آیا اور کب گزرگیا۔ آنکھ کھلی تو لوزان گزرچکا تھا۔ بڑا افسوس ہوا کہ سوئٹزرلینڈ دیکھنے کا موقع نہ ملا۔


بہر حال دو دن اور ایک رات کے سفر کے بعد سید رضوان علی پیرس پہنچ گئے۔ سیاحت کے علاوہ پیرس میں ان کے رکنے کا ایک اہم مقصد حیدرآباد دکن کے ایک مشہور عالم مصنف اور محقق ڈاکٹر حمید اﷲ سے ملنا تھا۔ وہ ڈاکٹر صاحب کی کتابیں پڑھ چکے تھے۔ ان کی دمشق یونیورسٹی کے استاد ڈاکٹر صبحی صالح نے بھی ڈاکٹر حمید اﷲ کی بڑی تعریف کی تھی۔ انھیں ان سے ملنے کا بہت اشتیاق تھا۔ چنانچہ سب سے پہلے ریلوے اسٹیشن پر ہی ان سے رابطے کی کوشش کی۔ یہاں ان کا ہم سفر پناما کا سیاہ فام دوست ان کا مددگار ثابت ہوا۔ وہ پیرس آ چکا تھا اور فرانسیسی جانتا تھا۔

ڈاکٹر حمید اﷲ کا پتہ معلوم ہوگیا تو اس کی مدد سے رضوان علی ڈاکٹر کے مکان پر پہنچ گئے۔ لکھتے ہیں ''پتھر کی پرانی اور مضبوط بلڈنگ تھی۔ چوتھی منزل پر جاکر فلیٹ کی گھنٹی بجائی۔ موصوف باہر خود آئے۔ میں نے اپنا تعارف کرایا۔ مجھے اندر لے گئے۔ چھوٹے سے فلیٹ کا مجلسی کمرہ کتابوں سے بھرا ہوا تھا۔ ایک چالیس سالہ فرنچ خاتون ڈاکٹر صاحب سے فارسی کی کوئی کتاب پڑھ رہی تھیں۔ تقریباً پانچ بجے کا وقت تھا۔ جلد ہی ڈاکٹر صاحب نے فراغت حاصل کرلی۔ میں دنیا کے ایک مشہور اسکالر ڈاکٹر حمیداﷲ کو دیکھ کر بہت حیران ہوا تھا۔ ذہن میں ان کے علم و فضل اور شہرت کی وجہ سے ایک بھاری بھرکم شخصیت کا تصور تھا لیکن دروازہ کھولنے پر ایک کافی منحنی، باریش، متواضع شخص نظر آیا جو ایک پروفیسر اور مشہور مصنف سے بالکل مختلف ایک طالب علم نظر آتاتھا۔''

دوسری صبح ڈاکٹر حمیداﷲ خود رضوان علی کے ہوٹل پہنچ گئے اور انھیں اہل علم و دانش و دین کا شہر دکھانے لے گئے۔ سب سے پہلے پیرس کی عظیم الشان نیشنل لائبریری لے گئے۔ پھر پیرس کی مسجد، اسلامک سینٹر لے گئے انھوں نے مشہور لوور میوزیم اور ایفل ٹاور بھی دیکھا۔ دوپہر کا کھانا ایک چھوٹے سے ریستوران میں کھایا۔ ڈاکٹر صاحب نے آملیٹ بنوایا۔ اگلے روز صبح رضوان علی کی ریل سے لندن روانگی تھی ڈاکٹر حمیداﷲ انھیں ریلوے اسٹیشن سے رخصت کرنے کے لیے ان کے ہوٹل پہنچ گئے۔ رضوان علی کہتے ہیں کہ یہ ان کی انتہائی خوش بختی تھی کہ ایک مشہور و عظیم عالم اور پروفیسر نے انھیں رخصت کیا اور وہ ان کے اخلاق عالیہ کے معترف ہوئے۔

رضوان علی لندن پہنچے۔ اسٹیشن پر ایک دوست محمد میاں استقبال کے لیے موجود تھے پہلے دن لندن کی سیر کی۔ دوسرے دن برٹش میوزیم کے قلمی کتابوں کے سیکشن میں قرآن کی تفسیر پر وہ کتاب دیکھنے گئے جس کو اپنے پی ایچ ڈی کے لیے ایڈٹ کرنا اور اس کے مصنف کی زندگی پر انگریزی میں مقالہ لکھنا تھا۔ تیسرے روز لندن سے ریل میں چالیس منٹ میں کیمبرج پہنچ گئے۔ اگلے روز ہی پروفیسر آربری سے جن کی نگرانی میں انھیں کام کرنا تھا ملاقات ہوگئی اور ان کے دل میں اس صوفی انگریز پروفیسر کا گہرا نقش قائم ہوگیا۔

سید رضوان علی اپنے موضوع پر پہلے عربی میں کام کرچکے تھے اس لیے ایک سال کا استثنیٰ مل گیا اور انھوں نے دو سال میں پی ایچ ڈی کرلیا۔ وہ لکھتے ہیں ''پروفیسر آربری مجھ سے بہت محبت کرتے تھے۔ میری کمزور مالی حالت کے سبب انھوں نے مجھے مڈل ایسٹ سینٹر میں ریسرچ اسسٹنٹ کے طور پر رکھ لیا جس میں میرے ساتھ اردن کے شاہ حسین کے نوجوان چچا بھی کام کرتے تھے۔''

یورپ کے اس تعلیمی سفر کے بعد رضوان علی نے چوبیس سال تدریسی سفروں میں گزارے۔ لکھتے ہیں ''زندگی میں اﷲ تعالیٰ نے میری کیسی کیسی آرزوئیں پوری فرمائی ہیں ان کا ذکر میں نہیں کرسکتا۔ PHD کرنے کی خواہش ایک ایسی ہی جوانی کی خواہش تھی جو اﷲ تعالیٰ نے اپنے فضل سے پوری کرائی وہ بھی ہندوستان میں نہیں بلکہ انگلستان کی ایک اعلیٰ یونی ورسٹی کیمبرج میں۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔

مجھ سے پوشیدہ نہیں ہے تیری تقدیر کا راز

جو ترے دل میں نہیں وہ تری قسمت میں نہیں
Load Next Story