ایم کیو ایم کی حکومت سے علیحدگی

کراچی کی صورتحال کو مدنظر رکھا جائے تو ایم کیو ایم کا حکومت کے ساتھ تعاون جاری رکھنا بڑے حوصلے کی بات تھی۔


Editorial February 17, 2013
متحدہ نے حکومت سے الگ ہونے کے ساتھ ساتھ پیپلز پارٹی سے اتحاد بھی ختم کردیا ہے۔ فوٹو : آئی این پی

جیسے جیسے موجودہ حکومت کی آئینی مدت پوری ہو رہی ہے، نگران سیٹ اپ اور عام انتخابات کا اعلان ہونے والاہے تو اس دوران سیاسی جماعتیں اپنا اپنا لائحہ عمل تیار کرنے میں مصروف ہیں۔ نئی سیاسی صف بندیاں ہو رہی ہیں' اسی ماحول میں حکومت کی ایک اہم اتحادی جماعت متحدہ قومی موومنٹ نے ہفتے کو حکومت سے علیحدہ ہونے اور اپوزیشن میں بیٹھنے کا اعلان کردیا ہے۔متحدہ نے حکومت سے الگ ہونے کا اعلان ہی نہیں کیا بلکہ پیپلز پارٹی سے اتحاد ختم کرنے کا اعلان بھی کر دیا ہے۔

ایم کیو ایم پہلے بھی کئی بار حکومت سے علیحدگی کا اعلان کر چکی ہے لیکن پھر صدر آصف علی زرداری کی مفاہمتی پالیسی کام آئی ، گلے شکوے دور ہوئے اور دونوں جماعتیں ایک دوسرے کے ساتھ چلتی رہیں لیکن اب شاید ماضی کی تاریخ نہ دہرائی جا سکے، بہرحال حتمی طور پر توکچھ نہیں کہا جاسکتا ، یہ توآنے والا وقت ہی بتائے گا کہ دونوں پارٹیاں ایک بار پھر مل بیٹھتی ہیں یا ان کے راستے ہمیشہ کے لیے جدا ہوجاتے ہیں۔ ایم کیو ایم کے ڈپٹی کنوینر ڈاکٹر فاروق ستار نے کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وہ وجوہات بیان کر دی ہیں جن کی وجہ سے دونوں جماعتوں کے راستے جدا ہوئے۔

ان وجوہات میں مقامی حکومتوں کا نظام ختم کرنا'نئے بلدیاتی نظام کا نافذ العمل نہ ہونا اور تازہ ترین ایشو لیاری کی پیپلز امن کمیٹی کے ارکان پر قائم مقدمات کو واپس لینا شامل ہے۔ ایم کیو ایم ملک کی بڑی سیاسی جماعت ہے' اسے اپنا مستقبل کا سیاسی لائحہ عمل طے کرنے کا مکمل اختیار ہے۔ ڈاکٹر فاروق ستار نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر ہم پہلے حکومت سے علیحدہ ہوتے تو پیپلز پارٹی کی حکومت ختم ہونے کا الزام ایم کیو ایم پر لگتا' حکومت کے پانچ سال پورے کرانے کا فرض نبھا دیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ حکومت کو آئینی مدت پوری کرانے میں متحدہ قومی موومنٹ کا اہم کردار ہے' کئی ایسے مواقع آئے جب ایم کیو ایم نے بعض وجوہات کی بنا پر حکومت سے علیحدگی کا الٹی میٹم دیا تو ایسا لگتا تھا کہ حکومت ختم ہو جائے گی لیکن پھر معاملات طے ہو گئے اور حکومت چلتی رہی۔

یوں دیکھا جائے تو ایم کیو ایم نے موجودہ جمہوری نظام کو چلانے میں اہم ترین کردار ادا کیا ورنہ کراچی کی جو صورتحال ہے' اسے مد نظر رکھا جائے تو ایم کیو ایم کا حکومت کے ساتھ تعاون جاری رکھنا بڑے حوصلے کی بات تھی۔ اب جب کہ متحدہ نے حکومت سے علیحدگی اور اپوزیشن بینچوں پر بیٹھنے کا اعلان کر دیا ہے' اس کے باوجود پیپلز پارٹی نے ایم کیو ایم کے بارے میں سخت ردعمل کا اظہار نہیں کیا ہے۔ سندھ کے وزیراعلیٰ سید قائم علی شاہ نے کہا ہے کہ ایم کیو ایم کی علیحدگی کسی پلاننگ کا حصہ نہیں ہے۔ یہ ایم کیو ایم کا اپنا فیصلہ ہے' ہم مفاہمت کے دروازے بند نہیں کریں گے۔ وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک نے کہا ہے کہ حکومت سے علیحدگی کا فیصلہ ایم کیو ایم کا جمہوری حق ہے۔

قائم علی شاہ اور رحمن ملک نے گورنر عشرت العباد سے ملاقات بھی کی' جس میں اس عزم کا اظہار کیا گیا کہ صوبے میں اتحادی جماعتوں کے درمیان مفاہمت کا تسلسل یقینی بنایا جائے گا' ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے درمیان غلط فہمی اور تحفظات دور کیے جائیں گے۔ ادھر صدر مملکت آصف علی زرداری نے وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک کو ٹاسک دیا ہے کہ وہ متحدہ کے تحفظات دور کریں' صدر مملکت یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ آیندہ حکومت بھی اتحادیوں سے مل کر بنائیں گے' اس کا یہی مطلب نکلتا ہے کہ شاید دونوں جماعتیں مستقبل میں بھی ایک دوسرے کے ساتھ مل کر چلتی رہیں۔

بہر حال دونوں جماعتیں تقریباً پانچ برس تک ایک دوسرے کے ساتھ چلتی رہی ہیں' بہتر یہی ہے کہ ایک دوسرے پر الزام تراشی سے پرہیز کیا جائے کیونکہ کوئی فریق گزشتہ پانچ برسوں میں ہونے والے معاملات سے خود کو مکمل طور پر بری الذمہ قرار نہیں دے سکتا' ایک دوسرے کے ساتھ چلنے یا نہ چلنے کا فیصلہ ہر سیاسی جماعت کا حق ہے' دونوں جماعتیں مستقبل میں اکٹھی بھی ہو سکتی ہیں لہٰذا کسی بھی فریق کو ایسا طرز عمل اختیار نہیں کرنا چاہیے جس سے جمہوری اقدار متاثر ہوں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں