پلاسٹک شاپنگ بیگ استعمال کرنے کی سزا
پلاسٹک بیگ استعمال کرنے پر 4000000 روپے جُرمانہ اور 4 سال قید بامشقت کی سزا
پلاسٹک اور اس سے بنی اشیاء ماحولیاتی بالخصوص سمندری آلودگی میں اضافے کا سب سے بڑا ذریعہ بن چکی ہیں۔ پلاسٹک کی مصنوعات میں سب سے زیادہ تھیلیوں کا استعمال ہوتا ہے جنھیں عرف عام میں شاپنگ بیگز کہا جاتا ہے۔
ماہرین ماحولیات پلاسٹک کی تھیلیوں کے تباہ کُن ماحولیاتی اثرات کے سلسلے میں خبردار کرتے رہتے ہیں۔ وقتاً فوقتاً منظر عام پر آنے والی تحقیق بھی ان کی ہولناکی کی تصویر کھینچتی ہیں۔
پلاسٹک کی تھیلیاں گٹرلائنوں میں بہتے ہوئے، کچرے میں شامل ہوکر اور دیگر ذرائع سے ہوتے ہوئے آخر کار سمندر میں جا گرتی ہیں، جہاں یہ آبی جانوروں کے لیے زہرہلاہل ثابت ہوتی ہیں۔ آبی کچھوے اور پرندے ان میں الجھ کر دم گھنٹے سے مر جاتے ہیں۔ ڈولفن ، وھیل اور دوسری مچھلیاں انھیں خوراک بنالیتی ہیں اور بالاخر جان سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ پلاسٹک جس مرکب سے بنتی ہے وہ پانچ سو سال تک بھی تحلیل نہیں ہوتا۔ نتیجتاً پلاسٹک مچھلیوں کے معدے میں جمع ہوتا رہتا ہے اور ان کی ہلاکت کا سبب بن جاتا ہے۔
بڑے پیمانے پر آبی حیات کی تباہی کا سبب پلاسٹک ہی ہے۔ چالیس سے زائد ممالک پلاسٹک کی تھیلیوں کے استعمال پر کُلی یا جزوی پابندی عائد کرچکے ہیں۔ ان ممالک میں چین، فرانس، اٹلی کے علاوہ روانڈا جیسے ممالک بھی شامل ہیں۔ یہاں پلاسٹک کی پیداوار اور فروخت پر پابندی ہے اور اس کی خلاف ورزی کی صورت میں جرمانے کی سزا رکھی گئی ہے۔
حال ہی میں کینیا بھی ان ممالک میں شامل ہوگیا ہے بلکہ پلاسٹک کے منفی ماحولیاتی اثرات کو محدود کرنے کے معاملے میں کینیا نے تمام ممالک کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ کینیا کی حکومت نے پلاسٹک کی تھیلیوں کی تیاری اور فروخت پر مکمل پابندی عائد کردی ہے، اور خلاف ورزی کی صورت میں چالیس ہزار امریکی ڈالر ( چالیس لاکھ پاکستانی روپے) اور چار برس قید بامشقت کی سزا مقرر کی گئی ہے۔ شاپنگ بیگز بنانے والی فیکٹریوں سے لے کر ایک تھیلی استعمال کرنے والے شہری کے لیے بھی یہی سزا رکھی گئی ہے۔ اس طرح افریقی ملک پلاسٹک شاپنگ بیگز کے حوالے سے سخت ترین سزا مقرر کرنے والا ملک بن گیا ہے۔
اس سلسلے میں ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے حکومتی ترجمان نے کہا کہ اگر کسی شہری کے پاس سے بھی ایک تھیلی برآمد ہوگئی تو اس کے لیے بھی یہی جرمانہ اور سزا ہوگی۔ تاہم ان کا کہنا تھاکہ پہلے مرحلے میں پلاسٹک بیگز تیار کرنے والے کارخانے بند کیے جائیں گے اور ڈسٹری بیوٹرز کے خلاف کارروائی ہوگی۔
کینیا میں اس سے قبل دو بار پلاسٹک کی تھیلیوں کی تیاری اور فروخت پر پابندی عائد کرنے کی کوشش کی گئی جو ناکام رہی۔ تاہم اس بار حکومت نے آخرکار یہ سخت قدم اٹھالیا۔ اس اقدام سے بلاشبہ سمندری آلودگی پر قابو پانے میں مدد ملے گی، دوسری جانب ہزاروں افراد بے روزگار ہوجائیں گے۔ کینیا، اس خطے میں پلاسٹک بیگز برآمد کرنے والا بڑا ملک ہے۔ ملک میں پلاسٹک شاپنگ بیگز بنانے کے پونے دوسو کارخانے ہیں جن میں ساٹھ ہزار افراد ملازمت کرتے ہیں۔ حکومت نے ان متوقع بے روزگاروں کے روزگار کا انتظام کرنے کا کوئی اعلان نہیں کیا۔
ماہرین ماحولیات پلاسٹک کی تھیلیوں کے تباہ کُن ماحولیاتی اثرات کے سلسلے میں خبردار کرتے رہتے ہیں۔ وقتاً فوقتاً منظر عام پر آنے والی تحقیق بھی ان کی ہولناکی کی تصویر کھینچتی ہیں۔
پلاسٹک کی تھیلیاں گٹرلائنوں میں بہتے ہوئے، کچرے میں شامل ہوکر اور دیگر ذرائع سے ہوتے ہوئے آخر کار سمندر میں جا گرتی ہیں، جہاں یہ آبی جانوروں کے لیے زہرہلاہل ثابت ہوتی ہیں۔ آبی کچھوے اور پرندے ان میں الجھ کر دم گھنٹے سے مر جاتے ہیں۔ ڈولفن ، وھیل اور دوسری مچھلیاں انھیں خوراک بنالیتی ہیں اور بالاخر جان سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ پلاسٹک جس مرکب سے بنتی ہے وہ پانچ سو سال تک بھی تحلیل نہیں ہوتا۔ نتیجتاً پلاسٹک مچھلیوں کے معدے میں جمع ہوتا رہتا ہے اور ان کی ہلاکت کا سبب بن جاتا ہے۔
بڑے پیمانے پر آبی حیات کی تباہی کا سبب پلاسٹک ہی ہے۔ چالیس سے زائد ممالک پلاسٹک کی تھیلیوں کے استعمال پر کُلی یا جزوی پابندی عائد کرچکے ہیں۔ ان ممالک میں چین، فرانس، اٹلی کے علاوہ روانڈا جیسے ممالک بھی شامل ہیں۔ یہاں پلاسٹک کی پیداوار اور فروخت پر پابندی ہے اور اس کی خلاف ورزی کی صورت میں جرمانے کی سزا رکھی گئی ہے۔
حال ہی میں کینیا بھی ان ممالک میں شامل ہوگیا ہے بلکہ پلاسٹک کے منفی ماحولیاتی اثرات کو محدود کرنے کے معاملے میں کینیا نے تمام ممالک کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ کینیا کی حکومت نے پلاسٹک کی تھیلیوں کی تیاری اور فروخت پر مکمل پابندی عائد کردی ہے، اور خلاف ورزی کی صورت میں چالیس ہزار امریکی ڈالر ( چالیس لاکھ پاکستانی روپے) اور چار برس قید بامشقت کی سزا مقرر کی گئی ہے۔ شاپنگ بیگز بنانے والی فیکٹریوں سے لے کر ایک تھیلی استعمال کرنے والے شہری کے لیے بھی یہی سزا رکھی گئی ہے۔ اس طرح افریقی ملک پلاسٹک شاپنگ بیگز کے حوالے سے سخت ترین سزا مقرر کرنے والا ملک بن گیا ہے۔
اس سلسلے میں ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے حکومتی ترجمان نے کہا کہ اگر کسی شہری کے پاس سے بھی ایک تھیلی برآمد ہوگئی تو اس کے لیے بھی یہی جرمانہ اور سزا ہوگی۔ تاہم ان کا کہنا تھاکہ پہلے مرحلے میں پلاسٹک بیگز تیار کرنے والے کارخانے بند کیے جائیں گے اور ڈسٹری بیوٹرز کے خلاف کارروائی ہوگی۔
کینیا میں اس سے قبل دو بار پلاسٹک کی تھیلیوں کی تیاری اور فروخت پر پابندی عائد کرنے کی کوشش کی گئی جو ناکام رہی۔ تاہم اس بار حکومت نے آخرکار یہ سخت قدم اٹھالیا۔ اس اقدام سے بلاشبہ سمندری آلودگی پر قابو پانے میں مدد ملے گی، دوسری جانب ہزاروں افراد بے روزگار ہوجائیں گے۔ کینیا، اس خطے میں پلاسٹک بیگز برآمد کرنے والا بڑا ملک ہے۔ ملک میں پلاسٹک شاپنگ بیگز بنانے کے پونے دوسو کارخانے ہیں جن میں ساٹھ ہزار افراد ملازمت کرتے ہیں۔ حکومت نے ان متوقع بے روزگاروں کے روزگار کا انتظام کرنے کا کوئی اعلان نہیں کیا۔