بڑھتی ہوئی پیچیدگیاں اورسیاسی عمل
موجودہ پارلیمان کے 70 فیصد اراکین ٹیکس ادا کرنا تو دور کی بات NTN نمبر تک نہیں رکھتے۔
لاہور:
علامہ قادری کی الیکشن کمیشن کی تشکیل نو کے لیے دائر کردہ پٹیشن عدالت عظمیٰ نے خارج کردی ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ بحران ٹل گیاہے۔ ایک تو فیصلہ جس انداز میں آیا ہے، اس نے کچھ نئے سوالات کو جنم دیا ہے اور کچھ نئے شکوک وشبہات کی آبیاری کی ہے۔ اس لیے یہ کہناغلط نہ ہوگا کہ فیصلے کے نتائج وقتی تو ہوسکتے ہیں، حتمی نہیں۔ دوسرے ضروری نہیں کہ انتخابات کے التوا کی خواہش رکھنے والی قوتیں اس فیصلے کے بعد خاموش ہوجائیں، ہوسکتا ہے کہ وہ کوئی نیا ایشوکھڑا کرکے انتخابات کی راہ میں روڑے اٹکائیں یا پھر انتخابات ہوجانے کے بعد نتائج کو قبول کرنے سے انکار کرکے نزاعی صورتحال پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ یوں ایک نیا سیاسی بحران جنم لے سکتا ہے، جو سیاسی عمل کے تسلسل کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔
لیکن بے یقینی کی موجودہ صورتحال کا سارا الزام صرف غیر سیاسی قوتوں کے سر نہیں تھونپا جاسکتا۔ بلکہ سیاسی جماعتوں پر بھی اس کی ذمے داری عائد ہوتی ہے، جو مسلسل غیر سنجیدہ رویے کا مظاہرہ کررہی ہیں۔ حالانکہ موجودہ اسمبلی کی تکمیل 30 دن سے بھی کم مسافت پر رہ گئی ہے، مگر انتخابات کی تاریخ اور عبوری حکومت کے قیام کے بارے میں ابھی تک کوئی سن گن نہیں ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج اور پارلیمان سے باہر جماعتوں کا دبائو اس مسئلے کو مزید الجھا رہا ہے۔ ادھر ذرایع ابلاغ کی توجہ بھی آیندہ انتخابات، الیکشن کمیشن کی کارکردگی اور اس حوالے سے مختلف ریاستی اور غیر ریاستی ایکٹروں کے رویوں پر مرکوز ہے۔ وہ ملک کو درپیش دیگر مسائل کو زیادہ اہمیت نہیں دے رہے۔ ملکی مستقبل کے حوالے سے بے شک یہ اہم معاملات ہیں، لیکن پاکستان جن کثیرالجہتی مسائل و مصائب کی گرداب میں پھنسا ہوا ہے، وہ اس سے کہیں زیادہ حساس اور نازک ہیں، اس لیے ان پر توجہ دینے کی زیادہ ضرورت ہے۔
پاکستان کا سب سے اہم اور پیچیدہ مسئلہ بڑھتی ہوئی دہشت گردی اور متشدد فرقہ واریت ہے۔ جس طرح خیبر پختونخوا سے کراچی تک اور بلوچستان سے گلگت بلتستان تک یہ مسئلہ سنگین شکل اختیار کرچکا ہے، اس کے آیندہ انتخابات پر اثر انداز ہونے کے امکان کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس مسئلے کی حساسیت میں اضافے کا ایک سبب یہ ہے کہ سیاسی و مذہبی جماعتوں کے درمیان اس مسئلے پر نہ تو کسی قسم کی ہم آہنگی ہے اور نہ ہی پیدا کرنے کی سنجیدگی سے کوشش کی جارہی ہے۔ جس کی وجہ سے یہ مسئلہ سنگین سے سنگین تر ہوتا جارہا ہے۔ یہ مسئلہ صرف اندرون ملک مسائل میں اضافہ اور انھیں پیچیدہ بنانے کا سبب نہیں ہے، بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کے تشخص کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچا رہا ہے۔ مگر سیاسی اورعسکری قیادتیںاس مسئلے کے صائب حل کے لیے اب تک کسی متفقہ اور مربوط لائحہ عمل پر متفق نہیں ہوسکی ہیں۔ یہ رویہ اس مسئلے کو مزید الجھانے کا سبب بنا ہوا ہے۔ افغانستان سے نیٹوافواج کے انخلا کا مسئلہ بھی اسی صورتحال سے جڑا ہوا ہے۔ جس کے براہ راست اثرات پاکستان پر مرتب ہونے کے قوی امکانات ہیں۔
دوسرا اہم مسئلہ معیشت کی تیزی کے ساتھ مائل بہ زوال صورتحال ہے، جو اب ایک بہت بڑے بحران کی شکل اختیار کرچکی ہے۔ معیشت کی اس بدحالی سے بے خبر یا بے نیاز حکمران اپنے چہیتوں کے بینک قرضے معاف کرکے قومی معیشت پر مسلسل دبائو بڑھا رہے ہیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے اخراجات بھی شاہانہ انداز میں جاری ہیں۔ اس کے علاوہ ہر سال تقریباً 5 ارب روپے کی ٹیکس چوری معمول بن چکی ہے۔ پانچ برسوں کے دوران تقریباً 130 ارب روپے کے قرضے معاف کرکے حاتم طائی کی قبر پر لات ماری جاچکی ہے۔ جب کہ موجودہ پارلیمان کے 70 فیصد اراکین ٹیکس ادا کرنا تو دور کی بات NTN نمبر تک نہیں رکھتے۔
اس صورتحال کا پریشان کن پہلو یہ ہے کہ دو ہفتے قبل IMF کی جانب سے قرضہ کی ری شیڈولنگ سے انکار کے باوجود معاشی پالیسی میں ضروری اصلاحات لانے پر توجہ نہیں دی جارہی۔ ایک سوال یہ بھی درپیش ہے کہ آیندہ سالانہ بجٹ کون تیار کرے گا؟ کیونکہ موجودہ حکومت نصف مارچ تک ختم ہوچکی ہوگی، جب کہ نئی حکومت جون میں اقتدار سنبھالے گی۔ اس طرح اگلے بجٹ کی تیاری کا معاملہ کھٹائی میں پڑتا نظر آرہا ہے۔ قومی بجٹ کی تیاری میں عبوری حکومت کے مینڈیٹ کے بارے میں آئین میں کوئی وضاحت نہیں ہے۔ اس لیے پارلیمان کو اس اہم قومی امور پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے، تاکہ عبوری حکومت کی تشکیل کے ساتھ یہ مسئلہ بھی حل ہوسکے۔
تیسرا اہم مسئلہ بھارت اور ایران میں ہونے والے انتخابات اور ان کے پاکستان پر متوقع اثرات ہیں۔ مگر اس بارے میں بھی کوئی اہم پیش رفت سامنے نہیں آئی ہے۔ افضل گورو کی پھانسی کے بعد پاکستان میں بھارت مخالف دبائو میں اضافہ ہوا ہے۔ جب کہ بھارت کے رویے میں بھی حالیہ چند ہفتوں کے دوران تبدیلی آئی ہے۔ چند ماہ پہلے دوطرفہ تعلقات میں جو گرمجوشی آنا شروع ہوئی تھی، وہ سرد مہری میں تبدیل ہونے لگی ہے، جس کی وجہ سے خطے کی سیاست ایک تشویشناک شکل اختیار کررہی ہے۔ جس سے پاکستان کی سیاست کے براہ راست متاثر ہونے کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ اسی طرح چند ماہ بعد ایران میں ہونے والے انتخابات بھی پاکستان کی قومی اور علاقائی سیاست پر اثر انداز ہوں گے۔ لیکن باخبر ذرایع کے مطابق علاقائی سیاسی منظرنامے میں ان متوقع تبدیلیوں سے نبرد آزما ہونے کے لیے حکمت عملی کی تیاری کے لیے سنجیدگی سے غور وخوض نہیں ہورہا۔ یہ تمام مسائل پہلے عبوری حکومت اور پھر آنے والی حکومت کو بھگتنا پڑیں گے، جو ایک انتہائی غیر سنجیدہ روش ہے۔
بات پھر لوٹ کر عبوری حکومت کی جانب آتی ہے، کیونکہ پاکستان کو درپیش مسائل کے حل یا ان میں کمی سیاسی استحکام سے مشروط ہے۔ جس کا واحد ذریعہ عام انتخابات کا بروقت انعقاد ہے۔ اس مقصد کے لیے پہلا قدم عبوری حکومت کا قیام ہے۔ بیسویں ترمیم کے تحت نگران وزیراعظم کا فیصلہ ابتداً وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف نے کرنا ہے۔ ان کے کسی نام پر متفق نہ ہونے کی صورت میں حزب اقتدار اور حزب اختلاف کی ایک کمیٹی تشکیل دی جائے گی، جو چند ناموں پر غور کرکے کسی ایک نام پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کرے گی۔ اگر یہ کمیٹی بھی ناکام رہتی ہے تو مجوزہ ناموں کی فہرست الیکشن کمیشن کے حوالے کی جائے گی، جہاں چیف الیکشن کمشنر نگران وزیراعظم کا فیصلہ کریں گے۔ یہی عمل صوبائی وزرائے اعلیٰ کے حوالے سے صوبائی اسمبلیوں میں دہرایا جائے گا۔
نگراں حکومت کے قیام میں 30 دن سے بھی کم وقت رہ گیا ہے، مگر ابھی تک اس سلسلے میں کوئی خاص پیش رفت سامنے نہیں آئی ہے۔ چند روز قبل عاصمہ جہانگیر، محمود خان اچکزئی اور جسٹس (ر) ناصر اسلم زاہد سمیت چند نام سامنے آئے۔ اب اس فہرست میں بزرگ سیاستدان معراج محمد خان کے نام کا اضافہ ہوا ہے، جو کہ ایک خوش آیند بات ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ معراج بھائی پاکستان کی وہ واحد سیاسی شخصیت ہیں، جو لبرل ہونے کے باوجود ملک کے تمام سیاسی مکاتب فکر کے لیے قابل قبول ہیں۔ انھیں ہر شعبہ زندگی سے وابستہ لوگ عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، کیونکہ 50 برس کی سیاسی زندگی میں ان کے دامن پر کسی قسم کا کوئی دھبہ نہیں ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ معراج بھائی نگراں وزیراعظم کے منصب کے لیے موزوں ترین شخصیت ہیں۔ جہاں تک ان کی بڑھتی ہوئی عمر کا تعلق ہے، تو اول یہ عہدہ کسی جسمانی مشقت کا طلبگار نہیں ہے۔ دوئم، جب 84 برس کے فخرالدین جی ابراہیم چیف الیکشن کمشنر ہوسکتے ہیں تو معراج بھائی جو صرف 75 برس کے ہیں نگران وزیراعظم کیوں نہیں بن سکتے۔ ہمارے خیال میں پیپلزپارٹی، مسلم لیگ (ن)، متحدہ قومی موومنٹ، عوامی نیشنل پارٹی، جمعیت علمائے اسلام (ف)، جماعت اسلامی اور تحریک انصاف سمیت کسی بھی جماعت کو ان کے نگران وزیراعظم مقرر کیے جانے پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ اس لیے ہمارا مشورہ ہے کہ ملک کے وسیع تر مفاد اور غیر جانبدارانہ انتخابات کے انعقاد کے لیے سیاسی جماعتیں ان کے نام پر متفق ہوجائیں، تاکہ ملک آسانی کے ساتھ نئے انتخابات کی طرف بڑھ سکے اور ان قوتوں کا راستہ روکا جاسکے جو انتخابی عمل کے راستے میں رکاوٹیں ڈالنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
علامہ قادری کی الیکشن کمیشن کی تشکیل نو کے لیے دائر کردہ پٹیشن عدالت عظمیٰ نے خارج کردی ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ بحران ٹل گیاہے۔ ایک تو فیصلہ جس انداز میں آیا ہے، اس نے کچھ نئے سوالات کو جنم دیا ہے اور کچھ نئے شکوک وشبہات کی آبیاری کی ہے۔ اس لیے یہ کہناغلط نہ ہوگا کہ فیصلے کے نتائج وقتی تو ہوسکتے ہیں، حتمی نہیں۔ دوسرے ضروری نہیں کہ انتخابات کے التوا کی خواہش رکھنے والی قوتیں اس فیصلے کے بعد خاموش ہوجائیں، ہوسکتا ہے کہ وہ کوئی نیا ایشوکھڑا کرکے انتخابات کی راہ میں روڑے اٹکائیں یا پھر انتخابات ہوجانے کے بعد نتائج کو قبول کرنے سے انکار کرکے نزاعی صورتحال پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ یوں ایک نیا سیاسی بحران جنم لے سکتا ہے، جو سیاسی عمل کے تسلسل کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔
لیکن بے یقینی کی موجودہ صورتحال کا سارا الزام صرف غیر سیاسی قوتوں کے سر نہیں تھونپا جاسکتا۔ بلکہ سیاسی جماعتوں پر بھی اس کی ذمے داری عائد ہوتی ہے، جو مسلسل غیر سنجیدہ رویے کا مظاہرہ کررہی ہیں۔ حالانکہ موجودہ اسمبلی کی تکمیل 30 دن سے بھی کم مسافت پر رہ گئی ہے، مگر انتخابات کی تاریخ اور عبوری حکومت کے قیام کے بارے میں ابھی تک کوئی سن گن نہیں ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج اور پارلیمان سے باہر جماعتوں کا دبائو اس مسئلے کو مزید الجھا رہا ہے۔ ادھر ذرایع ابلاغ کی توجہ بھی آیندہ انتخابات، الیکشن کمیشن کی کارکردگی اور اس حوالے سے مختلف ریاستی اور غیر ریاستی ایکٹروں کے رویوں پر مرکوز ہے۔ وہ ملک کو درپیش دیگر مسائل کو زیادہ اہمیت نہیں دے رہے۔ ملکی مستقبل کے حوالے سے بے شک یہ اہم معاملات ہیں، لیکن پاکستان جن کثیرالجہتی مسائل و مصائب کی گرداب میں پھنسا ہوا ہے، وہ اس سے کہیں زیادہ حساس اور نازک ہیں، اس لیے ان پر توجہ دینے کی زیادہ ضرورت ہے۔
پاکستان کا سب سے اہم اور پیچیدہ مسئلہ بڑھتی ہوئی دہشت گردی اور متشدد فرقہ واریت ہے۔ جس طرح خیبر پختونخوا سے کراچی تک اور بلوچستان سے گلگت بلتستان تک یہ مسئلہ سنگین شکل اختیار کرچکا ہے، اس کے آیندہ انتخابات پر اثر انداز ہونے کے امکان کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس مسئلے کی حساسیت میں اضافے کا ایک سبب یہ ہے کہ سیاسی و مذہبی جماعتوں کے درمیان اس مسئلے پر نہ تو کسی قسم کی ہم آہنگی ہے اور نہ ہی پیدا کرنے کی سنجیدگی سے کوشش کی جارہی ہے۔ جس کی وجہ سے یہ مسئلہ سنگین سے سنگین تر ہوتا جارہا ہے۔ یہ مسئلہ صرف اندرون ملک مسائل میں اضافہ اور انھیں پیچیدہ بنانے کا سبب نہیں ہے، بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کے تشخص کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچا رہا ہے۔ مگر سیاسی اورعسکری قیادتیںاس مسئلے کے صائب حل کے لیے اب تک کسی متفقہ اور مربوط لائحہ عمل پر متفق نہیں ہوسکی ہیں۔ یہ رویہ اس مسئلے کو مزید الجھانے کا سبب بنا ہوا ہے۔ افغانستان سے نیٹوافواج کے انخلا کا مسئلہ بھی اسی صورتحال سے جڑا ہوا ہے۔ جس کے براہ راست اثرات پاکستان پر مرتب ہونے کے قوی امکانات ہیں۔
دوسرا اہم مسئلہ معیشت کی تیزی کے ساتھ مائل بہ زوال صورتحال ہے، جو اب ایک بہت بڑے بحران کی شکل اختیار کرچکی ہے۔ معیشت کی اس بدحالی سے بے خبر یا بے نیاز حکمران اپنے چہیتوں کے بینک قرضے معاف کرکے قومی معیشت پر مسلسل دبائو بڑھا رہے ہیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے اخراجات بھی شاہانہ انداز میں جاری ہیں۔ اس کے علاوہ ہر سال تقریباً 5 ارب روپے کی ٹیکس چوری معمول بن چکی ہے۔ پانچ برسوں کے دوران تقریباً 130 ارب روپے کے قرضے معاف کرکے حاتم طائی کی قبر پر لات ماری جاچکی ہے۔ جب کہ موجودہ پارلیمان کے 70 فیصد اراکین ٹیکس ادا کرنا تو دور کی بات NTN نمبر تک نہیں رکھتے۔
اس صورتحال کا پریشان کن پہلو یہ ہے کہ دو ہفتے قبل IMF کی جانب سے قرضہ کی ری شیڈولنگ سے انکار کے باوجود معاشی پالیسی میں ضروری اصلاحات لانے پر توجہ نہیں دی جارہی۔ ایک سوال یہ بھی درپیش ہے کہ آیندہ سالانہ بجٹ کون تیار کرے گا؟ کیونکہ موجودہ حکومت نصف مارچ تک ختم ہوچکی ہوگی، جب کہ نئی حکومت جون میں اقتدار سنبھالے گی۔ اس طرح اگلے بجٹ کی تیاری کا معاملہ کھٹائی میں پڑتا نظر آرہا ہے۔ قومی بجٹ کی تیاری میں عبوری حکومت کے مینڈیٹ کے بارے میں آئین میں کوئی وضاحت نہیں ہے۔ اس لیے پارلیمان کو اس اہم قومی امور پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے، تاکہ عبوری حکومت کی تشکیل کے ساتھ یہ مسئلہ بھی حل ہوسکے۔
تیسرا اہم مسئلہ بھارت اور ایران میں ہونے والے انتخابات اور ان کے پاکستان پر متوقع اثرات ہیں۔ مگر اس بارے میں بھی کوئی اہم پیش رفت سامنے نہیں آئی ہے۔ افضل گورو کی پھانسی کے بعد پاکستان میں بھارت مخالف دبائو میں اضافہ ہوا ہے۔ جب کہ بھارت کے رویے میں بھی حالیہ چند ہفتوں کے دوران تبدیلی آئی ہے۔ چند ماہ پہلے دوطرفہ تعلقات میں جو گرمجوشی آنا شروع ہوئی تھی، وہ سرد مہری میں تبدیل ہونے لگی ہے، جس کی وجہ سے خطے کی سیاست ایک تشویشناک شکل اختیار کررہی ہے۔ جس سے پاکستان کی سیاست کے براہ راست متاثر ہونے کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ اسی طرح چند ماہ بعد ایران میں ہونے والے انتخابات بھی پاکستان کی قومی اور علاقائی سیاست پر اثر انداز ہوں گے۔ لیکن باخبر ذرایع کے مطابق علاقائی سیاسی منظرنامے میں ان متوقع تبدیلیوں سے نبرد آزما ہونے کے لیے حکمت عملی کی تیاری کے لیے سنجیدگی سے غور وخوض نہیں ہورہا۔ یہ تمام مسائل پہلے عبوری حکومت اور پھر آنے والی حکومت کو بھگتنا پڑیں گے، جو ایک انتہائی غیر سنجیدہ روش ہے۔
بات پھر لوٹ کر عبوری حکومت کی جانب آتی ہے، کیونکہ پاکستان کو درپیش مسائل کے حل یا ان میں کمی سیاسی استحکام سے مشروط ہے۔ جس کا واحد ذریعہ عام انتخابات کا بروقت انعقاد ہے۔ اس مقصد کے لیے پہلا قدم عبوری حکومت کا قیام ہے۔ بیسویں ترمیم کے تحت نگران وزیراعظم کا فیصلہ ابتداً وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف نے کرنا ہے۔ ان کے کسی نام پر متفق نہ ہونے کی صورت میں حزب اقتدار اور حزب اختلاف کی ایک کمیٹی تشکیل دی جائے گی، جو چند ناموں پر غور کرکے کسی ایک نام پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کرے گی۔ اگر یہ کمیٹی بھی ناکام رہتی ہے تو مجوزہ ناموں کی فہرست الیکشن کمیشن کے حوالے کی جائے گی، جہاں چیف الیکشن کمشنر نگران وزیراعظم کا فیصلہ کریں گے۔ یہی عمل صوبائی وزرائے اعلیٰ کے حوالے سے صوبائی اسمبلیوں میں دہرایا جائے گا۔
نگراں حکومت کے قیام میں 30 دن سے بھی کم وقت رہ گیا ہے، مگر ابھی تک اس سلسلے میں کوئی خاص پیش رفت سامنے نہیں آئی ہے۔ چند روز قبل عاصمہ جہانگیر، محمود خان اچکزئی اور جسٹس (ر) ناصر اسلم زاہد سمیت چند نام سامنے آئے۔ اب اس فہرست میں بزرگ سیاستدان معراج محمد خان کے نام کا اضافہ ہوا ہے، جو کہ ایک خوش آیند بات ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ معراج بھائی پاکستان کی وہ واحد سیاسی شخصیت ہیں، جو لبرل ہونے کے باوجود ملک کے تمام سیاسی مکاتب فکر کے لیے قابل قبول ہیں۔ انھیں ہر شعبہ زندگی سے وابستہ لوگ عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، کیونکہ 50 برس کی سیاسی زندگی میں ان کے دامن پر کسی قسم کا کوئی دھبہ نہیں ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ معراج بھائی نگراں وزیراعظم کے منصب کے لیے موزوں ترین شخصیت ہیں۔ جہاں تک ان کی بڑھتی ہوئی عمر کا تعلق ہے، تو اول یہ عہدہ کسی جسمانی مشقت کا طلبگار نہیں ہے۔ دوئم، جب 84 برس کے فخرالدین جی ابراہیم چیف الیکشن کمشنر ہوسکتے ہیں تو معراج بھائی جو صرف 75 برس کے ہیں نگران وزیراعظم کیوں نہیں بن سکتے۔ ہمارے خیال میں پیپلزپارٹی، مسلم لیگ (ن)، متحدہ قومی موومنٹ، عوامی نیشنل پارٹی، جمعیت علمائے اسلام (ف)، جماعت اسلامی اور تحریک انصاف سمیت کسی بھی جماعت کو ان کے نگران وزیراعظم مقرر کیے جانے پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ اس لیے ہمارا مشورہ ہے کہ ملک کے وسیع تر مفاد اور غیر جانبدارانہ انتخابات کے انعقاد کے لیے سیاسی جماعتیں ان کے نام پر متفق ہوجائیں، تاکہ ملک آسانی کے ساتھ نئے انتخابات کی طرف بڑھ سکے اور ان قوتوں کا راستہ روکا جاسکے جو انتخابی عمل کے راستے میں رکاوٹیں ڈالنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔