لیکن بدلہ کون لے گا

بھارتی افواج کے دلوں پرپاکستانی مردِمومن فوجی کا جو ڈر اور خوف تھا،1965ء کی جنگ نے اُسے ختم کردیا۔

tanveer.qaisar@express.com.pk

GILGIT:
کیا بھارتی ہندوئوں اور بھارتی فوج کا ڈر ہمارے دلوں پر کچھ زیادہ نہیں بیٹھ گیا؟پاکستان کے ایک سینئر اخبار نویس سے سابق وزیرِاعظم چوہدری محمد علی نے گفتگو کرتے ہوئے کہاتھا:بھارتی افواج کے دلوں پرپاکستانی مردِمومن فوجی کا جو ڈر اور خوف تھا،1965ء کی جنگ نے اُسے ختم کردیا۔

اِس واقعہ کو وقوع پذیر ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا۔صرف ڈیڑھ سال قبل کا یہ واقعہ ہے جس سے ہم اندازہ لگاسکتے ہیں کہ بھارتی فوج سے ہمارا کیاسلوک رہتا ہے اور بھارتی فوج ہماری فوج کے کسی افسر یا جوان سے کیسا سلوک کرتی ہے؟ یہ واقعہ ستمبر2011ء کا ہے۔بھارتی فوج کا ایک ہیلی کاپٹر بھٹک کر پاکستانی علاقے سکردو میں داخل ہوگیا۔اُسے دو بھارتی پائلٹ چلارہے تھے اور وہ واضح طور پر پاکستانی سرحدوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان میں داخل ہوچکے تھے۔مجبوراً اُنہیں سکردو میں اُترنا پڑا۔اُس علاقے میں متعین پاکستانی سیکیورٹی فورسز نے انسانیت اور اعلیٰ اخلاقیات کا ثبوت دیتے ہوئے ہیلی کاپٹر کے دونوں پائلٹوں کی شاندار کھانے سے تواضع کی۔یہ دونوں بھارتی فوجی پائلٹ وہاں تقریباً دوگھنٹے رہے۔پھر ہماری سیکیورٹی فورسز نے بھارتی ہیلی کاپٹر کو پورا ایندھن فراہم کیا اور دونوں پائلٹوں کو نہایت عزت سے واپس بھیج دیا۔یہ افواجِ پاکستان کا بھارت اور بھارتی افواج پر بے پناہ احسان تھا لیکن وہ بھارت ہی کیا جو احسان فراموش نہ ہو!

اور جب اِسی طرح کا واقعہ پاکستانی سیکیورٹی فورسز کے کسی جوان کے حوالے سے جنم لیتا ہے تو بھارت نہ صرف عالمی سطح پر اِسے پاکستان کے خلاف ایکسپلائیٹ کرتا ہے بلکہ بھارتی سیکیورٹی فورسز غلطی سے سرحد پار کرنے والوں کو جان سے مارڈالتی ہے اور اِسے جُرم بھی تسلیم نہیں کرتی۔اِسی طرح کا ایک واقعہ تین روز قبل افواجِ پاکستان کے ایک جوان کے ساتھ پیش آیا تو بھارتی فوج نے اپنی پاکستان دشمنی اور وحشت کا ایک اور ثبوت فراہم کرتے ہوئے اِس واقعہ کو سانحہ بنادیا اور ذراسی شرم وحیا بھی محسوس نہ کی۔

ہوا یوں کہ 14فروری 2013ء کو آزادکشمیر میں متعین پاکستانی سیکیورٹی فورسز کا ایک جوان،22سالہ اخلاق احمد،دو سرحدی پوسٹوں میں بھٹک کر بھارتی علاقے میں غلطی سے داخل ہوگیا۔ سرحد پر اِس طرح کے واقعات آئے روز ہوتے رہتے ہیں جسے باہمی تعاون سے حل کرلیاجاتا ہے،جیسا کہ پاکستان نے بھارتی پائلٹوں کو عزت سے واپس جانے دیاتھا۔پاکستانی سیکیورٹی فورسز قوی امید لگائے بیٹھی تھیں کہ بھارتی ہمیں بحفاظت اخلاق احمد واپس کردیں گے۔اِس کے لیے پاکستان کے ذمے داران نے ہاٹ لائن پر متعلقہ بھارتی حکام سے بھی بات چیت کی لیکن دوسرے ہی روز یہ دلخراش خبر سُننے کو مل گئی کہ اخلاق سپاہی کو بھارتی افواج نے بہت درندگی سے شہید کردیا ہے۔ہم سب کے دل بیٹھ گئے اور سارے پاکستان میں بجاطور پر سپاہی اخلاق شہید کے حوالے سے صفِ ماتم بچھ گئی۔


شہید کا تعلق کلرسیداں سے متصل ایک گائوں ''بھینسو'' سے تھا۔ایک غریب کسان محمد دائود کا جری اور غیور بیٹا۔اُس کے تین بھائی اور ایک ہمشیرہ ہیں۔اُس کی والدہ محترمہ آنسو بہاتے ہوئے کہتی ہیں:مَیں نے تو اخلاق کے سر پر شادی کا سہرا سجانے کا خواب بھی پورا نہ کیا۔وہ گھر کا واحد کفیل تھا۔اُس کا ایک بھائی زبان کی لُکنت کی وجہ سے کوئی مناسب ملازمت حاصل نہیں کرسکا۔اخلاق کی شہادت سے محمد دائود کا گھرانہ بظاہر معاشی کفالت سے محروم تو ہوگیا ہے لیکن دائود صاحب مطمئن ہیں کہ روٹی روزی کا مالک تو اللہ ہے لیکن خدا نے اُنہیں ایک شہید والد کے بلند اعزاز سے نوازا ہے۔شہید کو آبائی گائوں کے قبرستان کے حوالے کیاگیا توافواجِ پاکستان کے سربراہ جنرل پرویزکیانی کی ہمدردیاں، دعائیں اور محبتیں اُس کے ساتھ ساتھ تھیں۔جنرل کی طرف سے شہید کے لیے خصوصی طور پر پھولوں کی چادر بھجوائی گئی تھی۔

سپاہی شہید اخلاق کا سانحہ ایسے وقت میں پیش آیاہے جب مقبوضہ کشمیر کے ایک باسی اور حریت پسند شخص افضل گورو کو بھارتی حکومت کے ہاتھوں پھانسی دیے چند دن ہی گزرے تھے۔ابھی اس جاں گداز اور دل خراش سانحہ کی بازگشت کم بھی نہ ہوئی تھی کہ ہمیں قومی سطح پر سپاہی اخلاق ،جسے افواجِ پاکستان میں شامل ہوئے صرف چارسال ہی ہوئے تھے،کی موت کا بے پناہ غم سہنا پڑا ہے۔اخلاق شہید کا سانحہ اِس امر کا غماز ہے کہ بھارت کے دل میں پاکستان کے خلاف کوئی گہراعناد ہلچل مچارہا ہے۔وہ پاکستان کے خلاف کوئی مہم جوئی کرنا چاہتا ہے۔یہ مہم جوئی کس شکل میں ہوسکتی ہے،ابھی اِس کی پرتیں کھولی نہیں جاسکتیں۔

گزشتہ ماہ کے وسط میں بھارتی فوجیوں کا ایل او سی کے حاجی پور سیکٹر پر پاکستان کی سرحدوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان میں دراندازی کرنا معمولی اقدام نہیں تھا۔اِسے بھی اِسی ''مہم جوئی'' کا ایک شاخسانہ کہنا چاہیے۔یہ تو خدا کا شکر ہے کہ سرحد پر کھڑی ہماری سپاہ نے بروقت اِس کا مسکت جواب دیا اور اِس سازش کو ناکام بنادیا مگر بھارتی میڈیا نے(بھارتی خفیہ ایجنسیوں کے اشارے پر)واویلا مچاکر دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش ضرور کی کہ یہ پاکستانی فوجی تھے جو سرحد پار کرکے آئے اور ایک بھارتی فوجی کا سرکاٹ کراپنے ساتھ لے گئے۔یہ پروپیگنڈہ نہایت شرانگیز،بے بنیاد اور واہیات تھا ۔ عالمی میڈیا اور عالمی قوتوں نے بھارتیوں کے واویلے پر بجاطور پر کان دھرنے سے انکار کردیا۔اِس پس منظر میں کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ بھارتی سیکیورٹی فورسز نے ہمارے سپاہی اخلاق کو قتل کرکے اپنی عالمی پسپائی اور جگ ہنسائی کا انتقام لیا ہے؟

واقعہ یہ ہے پاکستان کے خلاف بھارتی زیادتیوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے لیکن پاکستان کی طرف سے بھارت کے لیے محبت کے مظاہر نے ہم سب کو حیرت میں ڈال رکھا ہے۔بھارتی زیادتیوں کا اندازہ اِس امر سے لگایاجاسکتا ہے کہ 2003ء سے لے کر 2013ء تک بھارت نے سیز فائر لائن کی472مرتبہ خلاف ورزیاں کی ہیں اور پاکستان نے بہت حد تک تحمل کا مظاہرہ کیا ہے لیکن بھارتی سیکیورٹی فورسز اِس تحمل کو پاکستان کی کمزوری پر محمول کر رہی ہیں۔رواں سال بھارت کے ہاتھوں ہمارے چار افراد شہید ہوچکے ہیں۔بھارت دانستہ یہ غلیظ حرکتیں کرکے پاکستان کا صبر بھی آزمارہا ہے اور ہمارے سرحدی محافظوں کو انگیخت بھی کررہا ہے۔ پاکستان کے خلاف بھارت کی مسلسل زیادتیاں آج کی بات نہیں ہے۔اِنہی بھارتی زیادتیوں اور مفسدانہ کارروائیوں کی وجہ سے پاکستان کا ایک بازو ہم سے جدا ہوچکا ہے لیکن بھارت نے اِس پر بس نہ کی۔اُس نے سرکریک میں گھس کر اور سیاچن گلیشیئر میں پاکستانی علاقے پر قبضہ کرکے اپنی شرارتوں کا سلسلہ جاری رکھا۔

کیا یہ ہماری بدقسمتی نہیں ہے کہ ہم 42سال گزرنے کے باوجود آج تک نہ مشرقی پاکستان کے دولخت ہونے کا بدلہ بھارت سے لے سکے ہیں اور نہ ہی سیاچن گلیشیئر کو مکمل آزاد کراسکے ہیں؟حیرت انگیز بات یہ ہے کہ امریکا نے اپنے خلاف ایک دہشت گردی کا بدلہ لینے کے لیے افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجادی،لاکھوں افغانوں کو شہید،زخمی اور بے گھر کردیا لیکن ہم بھارت کی بار بار دہشت گردیوں میں سے کسی ایک کا بدلہ بھی نہیں لے سکے ہیں؟ چند روز قبل بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں شہید ہونے والے سپاہی اخلاق کا جسدِ خاکی ہم سے مطالبہ کرتا ہے کہ مجھے بے گناہ مارنے والوں سے بدلہ کون لے گا؟یہ بدلہ کب لیا جائے گا؟ یاپھر ہم اجتماعی طور پر پاکستان کے سابق وزیرِاعظم چوہدری محمد علی مرحوم کے تبصرے کو سچ مان لیں؟
Load Next Story