امریکی سامراج اور پاکستان

سرمایہ دارانہ جمہوریت کے ذریعے پاکستانی حکمران طبقے اور امریکی سامراج اپنی حکمرانی کو طویل تر کریں گے۔

SWAT:
لاہور ہائیکورٹ نے 14 فروری کو سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت مقدمہ درج کرنے اور ان کا ٹرائل کرنے کے لیے دائر درخواست پر کارروائی غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ یہ درخواست غیر موثر ہو چکی ہے اور ناقابل سماعت ہے جس پر عدالت نے کہا کہ یہ اہم نوعیت کا معاملہ اور عوامی مفاد سے متعلقہ کیس ہے۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے موقف پیش کیا کہ پوری قوم انتخابات کی طرف دیکھ رہی ہے۔

ایسے میں پنڈورا بکس کھولا گیا ''تو پھر بعض عدالتی فیصلے بھی سامنے آئیں گے جس میں پرویز مشرف کو تین سال کی مدت دی گئی اور انھیں آئین میں ترمیم کا اختیار دیا گیا تھا۔'' ڈپٹی اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ درج کروانا اتنا آسان نہیں جتنا سمجھا جا رہا ہے۔ عدالت نے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی۔''

اس خبر کے بعد جب میں نے اپنے دوست لطیف چوہدری صاحب کا دلچسپ کالم پڑھا تو میرے تو چودہ طبق روشن ہو گئے۔ آئیے دیکھتے ہیں وہ کیا لکھتے ہیں۔''سپریم کورٹ میں طاہر القادری کی جو درگت بنی اس سے انھیں اپنی اوقات کا بخوبی علم ہو گیا ہو گا۔ اگر ان کا تعلق مقتدر طبقے سے ہوتا تو ان کی درخواست بے شک خارج ہو جاتی لیکن غریب کے بال والا سلوک نہ ہوتا۔''۔ایک ڈسپنسر کا بیٹا جھنگ کے محلہ قصاباں کے رہائشی طاہر القادری بھی عوامی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے ساتھ بھی وہی کچھ ہوا جو پچھلے 65 سال سے پاکستانی عوام کے ساتھ ہو رہا ہے۔ عوام جب اپنی ''اوقات'' بھولتے ہیں تو ان کو ان کی اوقات یاد دلانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی جاتی۔ پھانسی ہو یا ٹکٹکی یا ننگی پیٹھ پر کوڑوں کی بوچھاڑ یا وحشت ناک جیل کی تاریکیاں اور تنہایاں ہزاروں سال سے حکمران طبقات باغی عوام سے ایسا ہی سلوک کرتے چلے آ رہے ہیں۔

اپنی خونخوار حکمرانی برقرار رکھنے کے لیے۔ قادری صاحب کی غیر ملکی شہریت کے بارے میں جو کچھ کہا گیا، اس سے بیرون ملک مقیم 70 لاکھ سے زائد دہری شہریت کے حامل پاکستانیوں کے جذبات شدید طور پر مجروع ہوئے۔ کہا جاتا ہے کہ قانون مکڑی کا جالا ہوتا ہے جسے طاقتور توڑ کر نکل جاتا ہے اور کمزور پھنس کر رہ جاتا ہے۔ اصغر خان کیس کے فیصلے کو ہی لے لیں کہ اس بھاری پتھر کو چوم کر فراموش کر دیا گیا۔ سابق جرنیلوں سمیت کسی بھی سیاستداں کو سزا نہیں ملی۔ ہاں ایوان صدر دو عہدوں کے حوالے سے ضرور قابو میں آ گیا ہے۔

آج کل جس جمہوریت کی دن رات دہائی دی جا رہی ہے، اس کی حقیقت کا بھی جائزہ لیتے ہیں۔ ہماری موجودہ جمہوریت (کنٹرولڈ ڈیموکریسی) کا آغاز ضیاء الحق دور میں 1985ء سے ہوا۔ 80ء کی دہائی میں ہماری اسٹیبلشمنٹ نے پیپلز پارٹی کا زور خاص طور پر پنجاب میں توڑنے کے لیے ایک ایسی سیاسی قیادت کو جنم دیا (یا متعارف کرایا) جس کا تعلق پنجاب سے تھا۔ اس کے نتائج خاطر خواہ برآمد ہوئے۔ نہ صرف پنجاب سے پیپلز پارٹی کا زور ٹوٹا بلکہ افغانستان میں امریکی جہاد بھی بخیر و خوبی انجام پایا۔


جیسا کہ پہلے بتایا گیا ہے کہ امریکا کی نظر مستقبل پر بھی تھی کہ جب اس نے ہمارے جیسے ملکوں میں آمریت کی جگہ ''جمہوریتوں'' کو لانا تھا۔ جب آمریت جڑیں بنالے تو اس کو ہٹانا آسان نہیںہوتا۔ اس کے خاتمے کے لیے کئی دہائیاں درکار ہوتی ہیں۔ سندھ سے (بھٹوز) نے آمریت کو للکارا تو انھیں غدار قرار دے کر راستے سے ہٹا دیا گیا۔ چنانچہ اب کیا جائے تو کیا جائے۔ تو فیصلہ کیا گیا کہ پنجاب سے اسٹیبلشمنٹ کی بالادستی کو چیلنج کیا جائے۔

اب امریکا کی ضرورت پاکستان میں آمریت نہیں بلکہ جمہوریت ہے، پہلے یہ آمریت ہی تھی جس کے ذریعے پاکستان اور اس خطے میں سامراجی مفادات کا تحفظ کیا گیا۔ جیسا کہ ہمیں پتہ ہے کہ برصغیر کو سامراجی ضرورتوں کے تحت تقسیم کیا گیا۔ یعنی پاکستان کے قیام کے ذریعے مشرق وسطیٰ کی بادشاہتوں کو مستحکم کیا گیا اور ان بادشاہتوں کے ذریعے اسرائیل کی حفاظت کی گئی۔ یعنی پاکستان کا قیام عرب بادشاہتوں اور اسرائیل کے تحفظ کے لیے ضروری تھا تا کہ سامراج کے تیل کے مفادات کی حفاظت کی جا سکے۔ اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ پاکستان کی اہمیت امریکا کی نظر میں اسرائیل اور عرب بادشاہتوں سے بھی زیادہ ہے۔

آج جو لوگ اور گروہ جمہوریت کے ٹھیکیدار بنتے ہیں، اگر آپ نے ان کا اصل چہر ہ دیکھنا ہو تو آپ 1980ء کی دہائی کے اخبارات اٹھا لیں۔ ان کا اصل چہرہ بے نقاب ہو جائے گا۔ منزل انھیں ملی جو شریک سفر نہ تھے۔ جن لوگوں کو آمریت نے جنم دیا، آج وہی جمہوریت کے پاسبان بن گئے ہیں کیونکہ اب پاکستان میں امریکی سامراج کی ضرورت آمریت نہیں ''جمہوریت'' ہے۔ اب امریکا نے ہمارے ملک میں ان لوگوں اور اداروں کو جمہوریت کی نگہبانی پر لگا دیا ہے جو ماضی میں آمریت کی پاسبانی کرتے تھے۔ اب امریکا اس پورے خطے میں ''جمہوریت'' کے ذریعے اپنے سامراجی مفادات کی حفاظت کرے گا۔ پہلے اس نے آمریت کے ذریعے اپنے مفادات کی حفاظت کی اب جمہوریت کے ذریعے کرے گا ۔۔۔ ہے نا مزے کی بات۔ پرانے آزمائے ہوئے وفادار لوگوں کو ہی آج پھر امریکا نے جمہوریت کی چوکیداری کا فریضہ سونپ دیا ہے۔

جو بات پاکستانی عوام کے ذہن نشین کرنے کی ہے، اس سرمایہ دارانہ جمہوریت کے ذریعے پاکستانی حکمران طبقے اور امریکی سامراج اپنی حکمرانی کو طویل تر کریں گے۔ پاکستانی عوام کو کچھ نہیں ملے گا۔ اسی طرح جس طرح بھارتی غریب عوام پچھلے 65 سال سے دھوکا کھا رہے ہیں ، آج بھی وہاں 60 کروڑ انسان ٹوائلٹ کی سہولتوں سے محروم ہیں۔ عورتیں و مرد یہ ضرورت گھر سے باہر جا کر پوری کرتے ہیں اور وہاں کی 70 فیصد آبادی کی یومیہ آمدنی دو ڈالر سے کم ہے کیونکہ سرمایہ دارانہ جمہوریت پوری دنیا کے انسانوں کے لیے امریکا اور یورپ سمیت ایک دھوکا فریب سراب کے سوا کچھ نہیں۔ اس کی فطرت میں سرمایہ دارانہ نظام اور سرمایہ داروں کا تحفظ ترقی اور غریبوں کا خاتمہ ہے۔

...18 فروری یا 22 فروری سے 28 فروری کے درمیان سردی کا زور ٹوٹ جائے گا۔

 
Load Next Story