پھر مارشل لا آ گیا
بے شک 1977 ء کے الیکشن اور الیکشن کمیشن میں سمجھنے والوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں۔
سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کے خلاف طاہر القادری کی پٹیشن دُہری شہریت کی بنا پر مسترد کر دی ہے۔ طاہر القادری پر سپریم کورٹ کے اعتراضات اپنی جگہ، لیکن سوال یہ ہے کہ امر متنازعہ طاہر القادری کی ذات، یا شہریت تو نہیں تھی۔ سوال یہ تھا کہ الیکشن کمیشن کے خلاف طاہر القادری کا یہ موقف کہ اُس کی تشکیل غیر آئینی طور پر ہوئی ہے، درست ہے یا نہیں۔ طاہرالقادری کا موقف یہ بھی ہے کہ اُن کے پاس اس امر کے ناقابلِ تردید ثبوت ہیں کہ الیکشن کمیشن کی تشکیل میں hearing کا آئینی تقاضا پُورا نہیں کیا گیا۔
سمجھ میں نہیںآتا کہ طاہر القادری کا موقف سُننے میں کیا امر مانع تھا۔ کہا جا رہا ہے کہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے انتخابات کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔ لیکن، انتخابات کی راہ میں تو پہلے بھی کوئی رکاوٹ نظر نہیں آ رہی تھی۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ ضمنی انتخابات کے بعد موجودہ الیکشن کمیشن پر صرف ن لیگ اور پیپلز پارٹی متفق نظر آ رہی ہیں۔ مسلم لیگ ق،ایم کیوایم، اور تحریک انصاف، ارکان کمیشن پر تحفظات کا اظہار کر چکی ہیں۔ طاہرالقادری کی پٹیشن کی صورت میں یہ تحفظات آئینی طور پر دور ہونے کا راستہ نکل رہا تھا۔ لیکن یہ راستہ اس طرح مسدود ہوا ہے کہ اب الیکشن اور الیکشن کمیشن کا معاملہ مزید پیچیدہ ہو گیا ہے۔
پچھلے ایک کالم میں، اس کالم نگار نے آج کی صورتِ حال کے تناظر میں 1977ء کے الیکشن اور الیکشن کمیشن کی طرف اجمالی طور پر اشارہ کیا تھا۔ یہ الیکشن اور الیکشن کمیشن کیوں اس طرح تباہ کُن انجام کا شکار ہو گئے کہ آخرِ کار مارشل لاء پیش خیمہ بن گے، پروفیسر غفوراحمد مرحوم نے ''پھر مارشل لاء آ گیا'' میں یہ تمام تفصیلات قلمبندکر دی ہیں۔ تفصیلات یہ ہیں: 7 جنوری 1977ء کی شام اُتر رہی تھی۔ وزیرِاعظم ذوالفقارعلی بھٹو قومی اسمبلی میں اعلان کرتے ہیں کہ آیندہ عام انتخابات مارچ 1977ء میں ہوں گے۔ قومی اسمبلی 10جنوری کو اور صوبائی اسمبلیاں 13 جنوری کو توڑ دی جائیں گی۔ اس دوران ہی ایک قرارداد پاس کر کے چیف الیکشن کمشنر جسٹس سجاد احمد جان کی مدتِ ملازمت میں مزید تین سال کی توسیع کر دی جاتی ہے۔
قبل ازیں،29 مارچ 1976ء کو انھیں ایک سال کی توسیع مل چکی تھی۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ آئین کے تحت چیف الیکشن کمشنر کی آئینی مدت صرف تین سال تھی، اور قومی اسمبلی اس میں صرف ایک سال کا اضافہ کرنے کی مجاز تھی۔ ضمنی انتخابات میں حکومت نے جس طرح دھاندلی اور دھونس سے کامیابی حاصل کی تھی، اس تناظر میں چیف الیکشن کمشنر کی مدتِ ملازمت میں دوسری بار توسیع تشویش ناک تھی۔ تاہم چیف الیکشن کمشنر کا دعویٰ تھا کہ یہ انتخابات، دھاندلی سے یکسر پاک اور مثالی ہوں گے۔ وزیرِِاعظم بھی بار بار اعلان کر رہے تھے کہ یہ انتخابات صرف پاکستان نہیں، پورے جنوبی ایشیاء کے لیے قابلِ تقلید نمونہ بنیں ہوں گے۔ لیکن عملی صورتحال یہ تھی کہ انتخابات کے پہلے مرحلہ ہی میں الیکشن کمیشن کے خلاف شکایات پیدا ہونا شروع ہو گئیں۔
اپوزیشن کو اُن کی درخواست پر ''ہل'' کا انتخابی نشان الاٹ تو کر دیا گیا، لیکن بیلٹ پیپر پر ''ہل'' کا نشان اس طرح شایع کرایا گیا کہ یہ ''ہل'' معلوم ہی نہیں ہوتا تھا۔ وزیر ِاعظم سمیت چاروں وزرائے اعلیٰ کو بلامقابلہ منتخب قرار دے دیا گیا، اور جن امیدواروں نے اُن کے خلاف کاغذات نامزدگی جمع کرانے کی کوشش کی، ان کو یا تو الیکشن کمیشن کے دفتر میں پہنچنے نہیں دیا گیا، اور اگر وہ پہنچنے میں کامیاب ہو ہی گئے تو تکنیکی بنیادوں پر ناک آئوٹ کر دیا گیا۔ ان بے ضابطگیوں پر احتجاج کیا گیا، لیکن الیکشن کمیشن نے اس کو درخور ِاعتنا نہیں سمجھا۔
یکم مارچ 1977ء کو حکومت مخالف پارٹیوں نے الیکشن کمیشن کو مشترکہ طور پر تار بھجوایا کہ انتخابات میں دھاندلی کا خطرہ ہے، لہٰذا سول انتظامیہ کی مدد کے لیے فوج یا رینجرز کی خدمات حاصل کی جائیں۔ الیکشن کمیشن نے اس تار کو بھی نظر انداز کر دیا، بلکہ دو روز بعد باقاعدہ ایک پریس کانفرنس میں حکومت کو یہ کلین چٹ دی کہ صاف، شفاف انتخابات کرانے کے لیے دیانت دارمشینری بروئے کار آ چکی ہے۔ اپوزیشن کے اعتراضات پر چیف الیکشن کمشنر کا جواب یہ تھا کہ اگر ہم اس طرح کی باتوں میں پڑ گئے تو انتخابات ملتوی ہو جائیں گے، اور آیندہ نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔
الیکشن کمیشن پر شدید تحفظات کے باوجود حکومت مخالف پارٹیوں نے انتخابات کا بائیکاٹ نہیں کیا تھا، لیکن 7 مارچ کی شام کو الیکشن کمیشن کی جانب سے جو نتائج جاری کیے گئے، اس کا فوری ردعمل یہ ہوا کہ ان پارٹیوں نے نہ صرف 10 مارچ کو ہونے والے صوبائی اسمبلی کے انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا، بلکہ اب ان کا پہلا مطالبہ ہی الیکشن کمیشن کی تحلیل تھا۔ حکومت اور الیکشن کمیشن کا موقف یہ تھا کہ الیکشن کمیشن کو آئینی تحفظ حاصل ہے، اسلیے اب تین سال بعد ہی الیکشن کمیشن میں تبدیلی کی جا سکتی ہے۔ اپوزیشن کے بائیکاٹ کے علی الرغم الیکشن کمیشن کی طرف سے صوبائی اسمبلیو ں کے نتائج بھی جاری کر دیے گئے۔ 24 مارچ کو حکومت مخالف پارٹیوں کی طرف سے وزیرِاعظم کو ایک تفصیلی خط روانہ کیا گیا، جس میں واضح طور پر کہا گیاکہ عام انتخابات سے پہلے ضمنی انتخابات میں بھی دھاندلی کا دور دورہ تھا، اس بنا پر اپوزیشن پارٹیوں کو پُورا یقین تھا کہ موجودہ حکومت اور الیکشن کمیشن کے تحت صاف شفاف انتخابات نہیں ہو سکیں گے۔
یہ خدشات درست ثابت ہو گئے ہیں، لہٰذا اب الیکشن کمیشن کی تحلیل اور از سر ِنو انتخابات کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں رہا۔ اُدھر حکومت مُصر تھی کہ الیکشن کمیشن کو مشتبہ قرار دے کر جمہوری نظام کو پٹڑی سے اُتارنے کی سازش کی جا رہی ہے۔ 28 مارچ کو الیکشن کمیشن کی زیرِنگرانی نو منتخب قومی اسمبلی میں ذوالفقارعلی بھٹو کو آیندہ پانچ سال کے لیے دوبارہ وزیرِاعظم منتخب کر لیا گیا۔ وزیرِاعظم منتخب ہونے کے بعد، اپنی پہلی تقریر میں ذوالفقارعلی بھٹو نے کہا کہ الیکشن اور الیکشن کمیشن آئینی ہیں، اور یہ کہ وہ آئینی طور پر مزید پانچ سال کے لیے وزیرِ اعظم منتخب ہوئے ہیں۔ 30 مارچ کو نو منتخب وزیرِ اعظم نے وفاقی کابینہ سے حلف لیا۔
بعد کو، پنجاب، سندھ، سرحد اور بلوچستان کے وزراے اعلیٰ بھی منتخب کر لیے گئے۔ یہ ساری کارروائیاں الیکشن کمیشن کی زیرِ نگرانی ہو رہی تھیں۔ لیکن، مئی کے آخر تک حالات اس نہج پر پہنچ گئے کہ بھٹو حکومت، الیکشن اور الیکشن کمیشن پر اپوزیشن سے مذاکرات پر تیار ہو گئی۔ مذاکرات کا یہ سلسلہ جون کے آخر میں اس طرح اختتام پذیر ہوا کہ وزیرِ اعظم ذوالفقارعلی بھٹو نے الیکشن کمیشن کی تحلیل اور از سرِنو انتخابات کا مطالبہ تسلیم کر لیا۔ یہ بھی تسلیم کر لیا گیاکہ چیف الیکشن کمشنر اور اس کے چار ارکان، اپوزیشن کی تمام پارٹیوںکی رضامندی سے مقرر ہوں گے۔
لیکن، شاید اب وقت گزر چکا تھا، کیونکہ اس سے پہلے کہ اس معاہدہ پر عمل ہوتا، 7 جنوری 1977 ء کی شام پر، 4 اور 5 جولائی کی تاریک رات چھا چکی تھی۔ مارشل لاء نافذ ہو چکا تھا۔ بقول پروفیسر غفوراحمد مرحوم، جب الیکشن اور الیکشن کمیشن کے ضمن میں اصلاحِ احوال کا وقت میسر تھا، تو آئینی اور قانونی موشگافیاں ہوتی رہیں تھیں، اور اب اس کے سوا کیا کہا جا سکتا تھا کہ،
ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا
بے شک 1977 ء کے الیکشن اور الیکشن کمیشن میں سمجھنے والوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں۔
سمجھ میں نہیںآتا کہ طاہر القادری کا موقف سُننے میں کیا امر مانع تھا۔ کہا جا رہا ہے کہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے انتخابات کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔ لیکن، انتخابات کی راہ میں تو پہلے بھی کوئی رکاوٹ نظر نہیں آ رہی تھی۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ ضمنی انتخابات کے بعد موجودہ الیکشن کمیشن پر صرف ن لیگ اور پیپلز پارٹی متفق نظر آ رہی ہیں۔ مسلم لیگ ق،ایم کیوایم، اور تحریک انصاف، ارکان کمیشن پر تحفظات کا اظہار کر چکی ہیں۔ طاہرالقادری کی پٹیشن کی صورت میں یہ تحفظات آئینی طور پر دور ہونے کا راستہ نکل رہا تھا۔ لیکن یہ راستہ اس طرح مسدود ہوا ہے کہ اب الیکشن اور الیکشن کمیشن کا معاملہ مزید پیچیدہ ہو گیا ہے۔
پچھلے ایک کالم میں، اس کالم نگار نے آج کی صورتِ حال کے تناظر میں 1977ء کے الیکشن اور الیکشن کمیشن کی طرف اجمالی طور پر اشارہ کیا تھا۔ یہ الیکشن اور الیکشن کمیشن کیوں اس طرح تباہ کُن انجام کا شکار ہو گئے کہ آخرِ کار مارشل لاء پیش خیمہ بن گے، پروفیسر غفوراحمد مرحوم نے ''پھر مارشل لاء آ گیا'' میں یہ تمام تفصیلات قلمبندکر دی ہیں۔ تفصیلات یہ ہیں: 7 جنوری 1977ء کی شام اُتر رہی تھی۔ وزیرِاعظم ذوالفقارعلی بھٹو قومی اسمبلی میں اعلان کرتے ہیں کہ آیندہ عام انتخابات مارچ 1977ء میں ہوں گے۔ قومی اسمبلی 10جنوری کو اور صوبائی اسمبلیاں 13 جنوری کو توڑ دی جائیں گی۔ اس دوران ہی ایک قرارداد پاس کر کے چیف الیکشن کمشنر جسٹس سجاد احمد جان کی مدتِ ملازمت میں مزید تین سال کی توسیع کر دی جاتی ہے۔
قبل ازیں،29 مارچ 1976ء کو انھیں ایک سال کی توسیع مل چکی تھی۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ آئین کے تحت چیف الیکشن کمشنر کی آئینی مدت صرف تین سال تھی، اور قومی اسمبلی اس میں صرف ایک سال کا اضافہ کرنے کی مجاز تھی۔ ضمنی انتخابات میں حکومت نے جس طرح دھاندلی اور دھونس سے کامیابی حاصل کی تھی، اس تناظر میں چیف الیکشن کمشنر کی مدتِ ملازمت میں دوسری بار توسیع تشویش ناک تھی۔ تاہم چیف الیکشن کمشنر کا دعویٰ تھا کہ یہ انتخابات، دھاندلی سے یکسر پاک اور مثالی ہوں گے۔ وزیرِِاعظم بھی بار بار اعلان کر رہے تھے کہ یہ انتخابات صرف پاکستان نہیں، پورے جنوبی ایشیاء کے لیے قابلِ تقلید نمونہ بنیں ہوں گے۔ لیکن عملی صورتحال یہ تھی کہ انتخابات کے پہلے مرحلہ ہی میں الیکشن کمیشن کے خلاف شکایات پیدا ہونا شروع ہو گئیں۔
اپوزیشن کو اُن کی درخواست پر ''ہل'' کا انتخابی نشان الاٹ تو کر دیا گیا، لیکن بیلٹ پیپر پر ''ہل'' کا نشان اس طرح شایع کرایا گیا کہ یہ ''ہل'' معلوم ہی نہیں ہوتا تھا۔ وزیر ِاعظم سمیت چاروں وزرائے اعلیٰ کو بلامقابلہ منتخب قرار دے دیا گیا، اور جن امیدواروں نے اُن کے خلاف کاغذات نامزدگی جمع کرانے کی کوشش کی، ان کو یا تو الیکشن کمیشن کے دفتر میں پہنچنے نہیں دیا گیا، اور اگر وہ پہنچنے میں کامیاب ہو ہی گئے تو تکنیکی بنیادوں پر ناک آئوٹ کر دیا گیا۔ ان بے ضابطگیوں پر احتجاج کیا گیا، لیکن الیکشن کمیشن نے اس کو درخور ِاعتنا نہیں سمجھا۔
یکم مارچ 1977ء کو حکومت مخالف پارٹیوں نے الیکشن کمیشن کو مشترکہ طور پر تار بھجوایا کہ انتخابات میں دھاندلی کا خطرہ ہے، لہٰذا سول انتظامیہ کی مدد کے لیے فوج یا رینجرز کی خدمات حاصل کی جائیں۔ الیکشن کمیشن نے اس تار کو بھی نظر انداز کر دیا، بلکہ دو روز بعد باقاعدہ ایک پریس کانفرنس میں حکومت کو یہ کلین چٹ دی کہ صاف، شفاف انتخابات کرانے کے لیے دیانت دارمشینری بروئے کار آ چکی ہے۔ اپوزیشن کے اعتراضات پر چیف الیکشن کمشنر کا جواب یہ تھا کہ اگر ہم اس طرح کی باتوں میں پڑ گئے تو انتخابات ملتوی ہو جائیں گے، اور آیندہ نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔
الیکشن کمیشن پر شدید تحفظات کے باوجود حکومت مخالف پارٹیوں نے انتخابات کا بائیکاٹ نہیں کیا تھا، لیکن 7 مارچ کی شام کو الیکشن کمیشن کی جانب سے جو نتائج جاری کیے گئے، اس کا فوری ردعمل یہ ہوا کہ ان پارٹیوں نے نہ صرف 10 مارچ کو ہونے والے صوبائی اسمبلی کے انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا، بلکہ اب ان کا پہلا مطالبہ ہی الیکشن کمیشن کی تحلیل تھا۔ حکومت اور الیکشن کمیشن کا موقف یہ تھا کہ الیکشن کمیشن کو آئینی تحفظ حاصل ہے، اسلیے اب تین سال بعد ہی الیکشن کمیشن میں تبدیلی کی جا سکتی ہے۔ اپوزیشن کے بائیکاٹ کے علی الرغم الیکشن کمیشن کی طرف سے صوبائی اسمبلیو ں کے نتائج بھی جاری کر دیے گئے۔ 24 مارچ کو حکومت مخالف پارٹیوں کی طرف سے وزیرِاعظم کو ایک تفصیلی خط روانہ کیا گیا، جس میں واضح طور پر کہا گیاکہ عام انتخابات سے پہلے ضمنی انتخابات میں بھی دھاندلی کا دور دورہ تھا، اس بنا پر اپوزیشن پارٹیوں کو پُورا یقین تھا کہ موجودہ حکومت اور الیکشن کمیشن کے تحت صاف شفاف انتخابات نہیں ہو سکیں گے۔
یہ خدشات درست ثابت ہو گئے ہیں، لہٰذا اب الیکشن کمیشن کی تحلیل اور از سر ِنو انتخابات کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں رہا۔ اُدھر حکومت مُصر تھی کہ الیکشن کمیشن کو مشتبہ قرار دے کر جمہوری نظام کو پٹڑی سے اُتارنے کی سازش کی جا رہی ہے۔ 28 مارچ کو الیکشن کمیشن کی زیرِنگرانی نو منتخب قومی اسمبلی میں ذوالفقارعلی بھٹو کو آیندہ پانچ سال کے لیے دوبارہ وزیرِاعظم منتخب کر لیا گیا۔ وزیرِاعظم منتخب ہونے کے بعد، اپنی پہلی تقریر میں ذوالفقارعلی بھٹو نے کہا کہ الیکشن اور الیکشن کمیشن آئینی ہیں، اور یہ کہ وہ آئینی طور پر مزید پانچ سال کے لیے وزیرِ اعظم منتخب ہوئے ہیں۔ 30 مارچ کو نو منتخب وزیرِ اعظم نے وفاقی کابینہ سے حلف لیا۔
بعد کو، پنجاب، سندھ، سرحد اور بلوچستان کے وزراے اعلیٰ بھی منتخب کر لیے گئے۔ یہ ساری کارروائیاں الیکشن کمیشن کی زیرِ نگرانی ہو رہی تھیں۔ لیکن، مئی کے آخر تک حالات اس نہج پر پہنچ گئے کہ بھٹو حکومت، الیکشن اور الیکشن کمیشن پر اپوزیشن سے مذاکرات پر تیار ہو گئی۔ مذاکرات کا یہ سلسلہ جون کے آخر میں اس طرح اختتام پذیر ہوا کہ وزیرِ اعظم ذوالفقارعلی بھٹو نے الیکشن کمیشن کی تحلیل اور از سرِنو انتخابات کا مطالبہ تسلیم کر لیا۔ یہ بھی تسلیم کر لیا گیاکہ چیف الیکشن کمشنر اور اس کے چار ارکان، اپوزیشن کی تمام پارٹیوںکی رضامندی سے مقرر ہوں گے۔
لیکن، شاید اب وقت گزر چکا تھا، کیونکہ اس سے پہلے کہ اس معاہدہ پر عمل ہوتا، 7 جنوری 1977 ء کی شام پر، 4 اور 5 جولائی کی تاریک رات چھا چکی تھی۔ مارشل لاء نافذ ہو چکا تھا۔ بقول پروفیسر غفوراحمد مرحوم، جب الیکشن اور الیکشن کمیشن کے ضمن میں اصلاحِ احوال کا وقت میسر تھا، تو آئینی اور قانونی موشگافیاں ہوتی رہیں تھیں، اور اب اس کے سوا کیا کہا جا سکتا تھا کہ،
ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا
بے شک 1977 ء کے الیکشن اور الیکشن کمیشن میں سمجھنے والوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں۔