دہلی کے سری رام کالج کے طلباء اور مودی

پاکستان کے سیاستداں ،پاکستان کے مذہبی رہنما جمہوریت کی سڑک پر انتخابات کا پرچم تھامے بگٹٹ بھاگے جارہے ہیں۔


Zaheer Akhter Bedari February 18, 2013
[email protected]

بھارت کے حوالے سے دو خبریں ہمارے سامنے ہیں، ایک خبر کے مطابق بی جے پی کے نامزد مستقبل کے وزیر اعظم نریندر مودی جب دہلی کے سری رام کالج آف کامرس پہنچے تو کالج کے ہزاروں طلباء نے ''گجرات کے قاتل واپس جاؤ'' کے نعروں کے ساتھ اس کا استقبال کیا۔ نریندر مودی وہ شخص ہے جس نے گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام میں مرکزی کردار ادا کیا اور وزیر اعلیٰ کے اختیارات کو گجرات کے مسلمانوں کے قتل عام کے لیے استعمال کیا۔ اس قتل عام کے خلاف جو شدید ردعمل دیکھا گیا، وہ مذہب و ملت سے بالاتر تھا۔

ہندوستان کے ایک علاقے الٰہ آباد کے ایک ہندو شاعر نے المیہ گجرات پر ''ماں'' کے نام سے جو نوحہ لکھا، وہ اس قدر مقبول ہوا کہ کراچی اور پنجاب میں اس شاعر کو ہر جگہ سر آنکھوں پر بٹھایا گیا۔ میں نے یہ نوحہ شاعر کی زبان سے کراچی کی کئی تقریبات میں سنا۔ یہ نوحہ کسی مسلمان شاعر کا لکھا ہوا نہ تھا بلکہ الٰہ آباد کے ایک نوجوان ہندو شاعر کا لکھا ہوا تھا۔چونکہ یہ نوحہ مذہب و ملت کے جذبات سے بالاتر ہوکر لکھا گیا تھا، اس لیے اسے ہر جگہ پذیرائی ملی۔آج جب میں دہلی کے سری رام کالج کے ہزاروں طلباء کو ''گجرات کے قاتل واپس جاؤ'' کے نعرے لگاتے دیکھ رہا ہوں، تو میری یہ امید مستحکم ہوتی، پھلتی پھولتی نظر آرہی ہے کہ ہمارا مستقبل روشن ہوگا۔ انسان آخرکار مذہب و ملت کی نفرتوں سے نکل کر انسانوں کی مجموعی بھلائی کی طر آئے گا اور مذہب و ملت کو محبت بھائی چارے اور برداشت کا وسیلہ بنائے گا۔

جہاں یہ امید پھلتی پھولتی نظر آتی ہے وہیں یہ خوف بھی لاحق ہوتا ہے کہ اس بدنام زمانہ قاتل کو بی جے پی جیسی بھارت کی دوسری بڑی جماعت کیوں آنے والے الیکشن میں بھارت کی وزارت عظمیٰ کے لیے اپنا امیدوار نامزد کر رہی ہے۔ نریندر مودی کی وزارت عظمیٰ کے لیے نامزدگی کے خلاف میں نے کلدیپ نائر کے کئی انتہائی سخت تنقیدی کالم پڑھے ہیں جس میں کلدیپ جی نے بی جے پی کی قیادت کے اس فیصلے کو بھارت کے سیکولر تشخص کے لیے ایک مہیب خطرہ قرار دیا ہے۔

میں اس صورت حال پر جب نظر ڈالتا ہوں تو برصغیر دو فکری حصوں میں بٹا نظر آتا ہے،ایک طرف بھارتی نریندر مودی اور بی جے پی ہے دوسری طرف پاکستانی مذہبی انتہا پسندی ہے جو خودکش حملوں، بارودی گاڑیوں کی شکل میں گجرات سے سو گنا بڑے قتل عام میں اس امتیاز کے بغیر مصروف ہے کہ اس کے مقتول کون ہیں؟ بھارت ایک سیکولر ملک ہے، بھارتی حکومت مذہب و ملت کے حوالے سے سیکولر یعنی غیر جانبدار ہے، یہ ایک حوصلہ افزا بات ہے، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بھارت جیسے سیکولر ملک میں بی جے پی جیسی مذہبی انتہا پسند جماعت بھارت کی دوسری بڑی سیاسی جماعت کیسے بن گئی اور اس کے ایک رہنما واجپائی بھارت کے وزیر اعظم کیسے بن گئے؟اس قسم کا سوال ذہن میں آنا ایک فطری بات ہے۔

اس کے برخلاف پاکستان ایک مذہبی ریاست ہے جہاں درجنوں مذہبی جماعتیں موجود ہیں اور 65 سال سے پاکستان کی انتخابی سیاست میں بھرپور طریقے سے ہزاروںنظریاتی کارکنوں اور بے حدوحساب وسائل کے ساتھ حصہ لے رہی ہیں لیکن اس مذہبی ریاست میں رہنے والے عوام 65 سال سے مذہبی سیاست کرنے والوں کو مسترد کرتے آرہے ہیں، اس کی کیا وجہ ہے؟ یہ سوال بھی عین فطری ہے اور اس سوال پر بھارت کے کلدیپ نائروں کو سنجیدگی سے سوچنا چاہیے۔ بھارت ابھی تک مذہبی انتہا پسندی کی اس معراج پر نہیں پہنچا جہاں پاکستان کھڑا ہے، لیکن جب بھارت کا وزیر داخلہ یہ کہتا ہے کہ بھارت میں ہندو دہشت گردوں کے بے شمار کیمپ موجود ہیں اور ممبئی حملوں ، سمجھوتہ ایکسپریس کے سانحوں سمیت کئی خونریزیوں میں ہندو انتہا پسند تنظیمیں ملوث ہیں تو اس خطے کے بہتر مستقبل کے حوالے سے ہماری امیدیں مایوسی میں بدلنے لگتی ہیں۔

کلدیپ نائر سے میری ملاقات کبھی نہیں ہوئی اور کلدیپ نائر نے بھی ظہیر اختر بیدری سے کوئی ملاقات نہیں کی، لیکن ہماری ملاقات ایکسپریس کے ذریعے بڑی پابندی سے ہوتی ہے۔ کلدیپ نائر کا تعلق ہندو مذہب سے ہے، ہمارا تعلق اسلام سے ہے اور اس حوالے سے ہمارے درمیان ایک نظریاتی خلیج کا موجود ہونا عین فطری ہے، لیکن جب ہماری مشترکہ فکر پل بن کر اس خلیج کے درمیان کھڑی ہوجاتی ہے تو ہماری مایوسی امید میں بدلنے لگتی ہے اور اس امید کو الٰہ آباد کا ہندو شاعر اور دہلی کے سری رام کالج کے ہزاروں ہندو طلباء اور مستحکم کرتے نظر آتے ہیں اور ان کی پشت پر میں سجاد ظہیر، کرشن چندر، علی سردار جعفری اور رابندر ناتھ ٹیگور کو کھڑا دیکھتا ہوں تو یہ امید اور مضبوط نظر آتی ہے۔

آج جب میں یہ کالم لکھ رہا ہوں دوپہر کے دو بجے ہیں اور چند گھنٹوں کے دوران 14 بے گناہ افراد کو کراچی کی سڑکوں پر قتل کردیا گیا ہے۔ تمام ٹی وی چینلز پر 14 افراد کے قتل کی پٹیاں چل رہی ہیں اور میں ہر روز یہ پٹیاں دیکھ دیکھ کر اس قدر بے حس اور سنگدل ہوگیا ہوں کہ ان پٹیوں کا مجھ پر کوئی اثر ہی نہیں ہوتا۔ مجھے نہیں معلوم کہ بھارت کے ڈیڑھ ارب سے زیادہ عوام سیاستدان، دانشور، فلسفی، صحافی پاکستانی ٹی وی چینلز پر چلنے والی یہ پٹیاں دیکھتے ہیں یا نہیں؟ ہوسکتا ہے وہ اس لیے مطمئن ہوں کہ ابھی ان کے ملک کا کوئی حصہ شمالی جنوبی وزیرستان، خیبر پختونخوا یا کراچی نہیں بنا۔

لیکن میں بہت واضح طور پر دیکھ رہا ہوں کہ اگر بھارتی حکمران، بھارتی سیاستدان، بھارتی دانشور، بھارتی میڈیا نے نریندر مودی، بی جے پی جیسی اندھی طاقتوں کے آگے کلدیپ نائروں سے سری رام کا مرس کالج دہلی کے طلباء کے پہاڑ نہ کھڑے کیے تو جلد یا بدیر بھارت کا ہر حصہ شمالی جنوبی وزیرستان، خیبرپختونخوا اور کراچی بن جائے گا اور بھارت کے ڈیڑھ ارب بے گناہ انسان اسی طرح گھروں کے اندر گھروں کے باہر غیر محفوظ ہوجائیں گے جس طرح آج پاکستان کے اٹھارہ کروڑ عوام غیر محفوظ ہوگئے ہیں اور بھارت کی اعلیٰ عدالتوں کے معزز جج صاحبان عوام سے یہ کہہ رہے ہوں گے کہ وہ جب گھروں سے باہر نکلیں تو بازوؤں پر امام ضامن باندھ کر نکلیں۔

حیرت ہے کہ بھارت کے حکمران اس حال اور مستقبل کے منظرنامے کو دیکھنے سمجھنے کے بجائے اس بات پر تشویش کا اظہار کرتے نظر آرہے ہیں کہ پاکستان نے گوادر پورٹ چین کو کیوں دے دیا ہے؟ مجھے حیرت ہے کہ بھارت جیسے سیکولر ملک میں کلدیپ نائر، ارون دھنی رائے، سری رام کالج کے طلباء کیوں پھل پھول رہے ہیں؟نریندر مودی، بی جے پی، راشٹریا سیوک سنگھ، کیوں پھل پھول رہے ہیں؟ کیوں وزیر اعظم بن رہے ہیں؟ عراق ایک مسلم ملک تھا جب امریکا کا صدر جارج بش عراق پر حملے کے لیے پر تول رہا تھا تو ساری دنیا کے کروڑوں عوام بلاتفریق مذہب و ملت سڑکوں پر نکل آئے تھے، کیا عراق پر امریکی حملے اور گجرات کے قتل عام میں کوئی قدر مشترک ہے؟ کہا جارہا ہے بش اور نریندر مودی میں کوئی قدر مشترک ہے؟کیا کلدیپ نائر، ظہیر اختر بیدری اور دہلی کے سری رام کالج کے طلباء کے درمیان کوئی قدر مشترک ہے؟ اگر ہے اور وہ مثبت عوام دوست محبت اور امن کی داعی ہے تو پھر اسے پیچھے کیوں دھکیلا جارہا ہے، اس کی پذیرائی کیوں نہیں کی جارہی ہے؟

پاکستان کے سیاستداں ،پاکستان کے مذہبی رہنما جمہوریت کی سڑک پر انتخابات کا پرچم تھامے بگٹٹ بھاگے جارہے ہیں، ہر ایک کی نظر اسلام آباد کے ایوان صدر، ایوان وزیر اعظم، کراچی کے گورنر ہاؤس، کراچی کے وزیر اعلیٰ ہاؤس، پشاور کے گورنر ہاؤس، وزیر اعلیٰ ہاؤس، لاہور کے سی ایم ہاؤس، گورنر ہاؤس، کوئٹہ کے گورنر ہاؤس، سی ایم ہاؤس پر اس طرح جمی ہوئی ہیں کہ انھیں نہ ان سڑکوں پر بکھرا ہوا خون غریباں نظر آرہا ہے نہ اعلیٰ عدالتوں کے یہ فرمان کہ لوگو! گھروں سے نکلو تو اپنے بازوؤں پر امام ضامن باندھ لیا کرو۔ بھارت کے سیاستدان نریندر مودی کو مستقبل کا وزیر اعظم نامزد کر رہے ہیں پاکستان کے سیاستدان دہشت گردوں کے لیے اپنے دلوں میں نرم گوشہ رکھتے ہیں۔

بھارت کے دانشور، بھارت کے اہل فکر، بھارت کے ادیب، بھارت کے شاعر، بھارت کے صحافی، پاکستان کے دانشور، پاکستان کے اہل فکر، پاکستان کے ادیب، پاکستان کے شاعر، پاکستان کے صحافی جمہوریت کی دھول میں گم نظر آتے ہیں۔ کیا یہ پیشہ ورانہ ذمے داری ہے یا پیشہ ورانہ غیر ذمے داری؟ کیا یہ غیر ذمے داری بھارت اور پاکستان کے روشن مستقبل کے لیے ایک شگون بد ہے، یا نیک شگون ؟ اس سوال کا مثبت اور درست جواب حاصل کرنے کے لیے ہمیں انسان بننا پڑے گا۔ بی جی پی، نریندر مودی، القاعدہ، تحریک طالبان کو روکنا، کلدیپ نائر، سری رام کالج کے طلباء اور ارون دھتی رائے کو آگے لانا ہوگا، ورنہ پورا برصغیر شمالی جنوبی وزیرستان اور کراچی بن جائے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں