کراچی محروم کیوں
پی پی پی کی صوبائی حکومت نے کراچی کی ترقی تو کیا کراچی کے عوام کے مسائل کے حل پر بھی کوئی توجہ نہیں دی۔
لاہور پاکستان کا پہلا شہر بن گیا ہے، جہاں میٹرو بس سروس شروع ہوگئی ہے جو 27 کلومیٹر کا فاصلہ 54 منٹ میں طے کرے گی اس طرح زندہ دلان شہر لاہور کے ایک کروڑ باشندوں کو اندرون شہر سفر کی جدید اور تیز رفتار بسیں میسر آگئی ہیں اور ملک کا سب سے بڑا اور برسوں سے لہولہان شہر کراچی کے دو کروڑ عوام اس جدید سفر کی سہولت سے محروم ہیں، مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں نواز نے اپنے دور میں تمام تر مخالفتوں کے باوجود ملک میں پہلی بار موٹروے کی سہولت فراہم کی تھی اور اب وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے بھی تمام تر مخالفتوں کے باوجود لاہور میں میٹرو بس شروع کرا ہی دی اور کہا ہے کہ اگر مسلم لیگ (ن) برسر اقتدار آئی تو کراچی میں بھی میٹرو بس سروس شروع کرائے گی۔
شہباز شریف نے میٹرو بس سروس کا افتتاح اس روز کیا جس دن صدر مملکت لاہور میں موجود تھے اور تقریب میں ترکی کے نائب وزیر اعظم بھی موجود تھے۔ شہباز شریف اپنی سیاسی فراخدلی کا مظاہرہ کرکے صدر مملکت آصف علی زرداری اور باقی صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کو بھی بطور مہمان ہی مدعو کرلیتے تو ان کی تعریف کی جاتی اور شاید صدر مملکت اور وزرائے اعلیٰ کو یہ احساس ہوجاتا کہ انھوں نے ایسے منصوبے کی ابتدا خود کیوں نہیں کی کہ جس سے عوام کو سفر کی سہولت حاصل ہوئی اور عوام نے میٹرو بس کی ابتدا پر جس طرح اس کا خیرمقدم کیا اس کی خوشی باقی حکمران بھی عوام کے چہروں پر دیکھ لیتے۔
موجودہ حکمرانوں نے تو ویسے ہی عوام سے ساری خوشیاں چھین رکھی ہیں اور پیپلز پارٹی کی وفاقی اور صوبائی حکومت نے تو اپنے دور میں کراچی کے ساتھ وہ سلوک کیا ہے جو کسی دشمن ملک کے شہر کے ساتھ کیا جاتا ہے، کراچی نے ضلعی حکومتوں کے دور میں جو ترقی کی وہ ایک ایسا ریکارڈ ہے جس کو عالمی سطح پر بھی تسلیم کیا گیا۔
ضلعی نظام کراچی سے تعلق رکھنے والے فوجی صدر پرویز مشرف نے نافذ کیا تھا اور ضلعی نظام بھی اس سویلین حکمرانوں کے دور میں پہلے تباہ اور بعد میں ختم کیا گیا جن کا دعویٰ ہے کہ ان کا تعلق کراچی سے ہے، صدر زرداری کا آبائی علاقہ تو سابق ضلع نوابشاہ کا ایک دیہی علاقہ تھا جہاں ان کے بڑے دفن ہیں، مگر کراچی کو صدر زرداری خود سے الگ نہیں کرسکتے۔ صدر زرداری نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ جیل کے بعد کراچی میں گزارا جہاں ان کی عالمی سطح پر مقبول اہلیہ بے نظیر بھٹو نے جنم لیا تھا، کراچی ہی میں آصف علی زرداری کی محترمہ سے شادی ہوئی تھی، کراچی کے علاقے لیاری سے ہی آصف علی زرداری ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے اور کراچی ہی میں صدر زرداری کے والد کا کاروبار تھا اور انھوں نے پہلا بلاول ہاؤس کراچی ہی میں تعمیر کرایا تھا۔کراچی سے تعلق رکھنے والے ایک فوجی صدر کے دور میں کراچی میں ریکارڈ ترقی ہوئی اور کراچی سے تعلق رکھنے والے سول صدر کے دور میں کراچی کی ترقی کو نظر لگ گئی اور آج کراچی لہولہان ہونے کے ساتھ ساتھ بربادی اور تباہی کی طرف گامزن ہے۔
صنعتیں پنجاب اور بیرون ملک منتقل ہو رہی ہیں، بیروزگاری اور جرائم عروج پر ہیں۔ صدر زرداری کی حکومت میں کراچی کو زوال اور بھتہ خوری کو عروج ملا اور آج کراچی میں بھتہ خوری نے تاجروں کو کراچی سے بیزار کرکے رکھ دیا ہے اور کراچی سے آج حکومت کو اتنا ٹیکس نہیں ملتا جتنا بھتہ تاجروں کو ہراساں کرکے وصول کیا جاتا ہے۔ ضلعی دور میں جاری و ساری ترقی کا عمل جمہوری دور میں رک چکا ہے اور کراچی میں ریکارڈ ترقی کرانے والے بلدیاتی ادارے اپنے ملازمین کو تنخواہیں دینے کے قابل بھی نہیں رہے ہیں۔ سندھ کا محکمہ خزانہ کراچی کے ساتھ کھلی دشمنی کا مظاہرہ کررہا ہے اور ایک ارب روپے کی منظور شدہ گرانٹ فراہم نہیں کر رہا جس پر سندھ ہائی کورٹ نے بھی اظہار برہمی کیا ہے۔ اگر وزیر اعلیٰ سندھ اور وزیر خزانہ کا تعلق کراچی سے ہوتا تو یقینی طور پر کراچی کا یہ حال نہ ہوتا۔
وفاقی حکومت بلدیاتی ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے گرانٹ دیتی ہے، جو OZT کہلاتی ہے وہ پوری تو مشرف دور میں بھی نہیں ملتی تھی مگر جمہوری حکومت نے آتے ہی اس میں کٹوتی بڑھانا شروع کردی تھی۔ وفاقی حکومت نے بلدیاتی ملازمین کی تنخواہیں دو بار بڑھائیں مگر تنخواہ کی رقم بڑھانے کے بجائے کم کرتی رہی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ترقیاتی کاموں کے لیے مختص رقم بھی تنخواہوں پر خرچ کرنا پڑی اور ترقیاتی کام برائے نام ہوئے اور 5 سال میں کراچی میں کوئی میگا پروجیکٹ مکمل نہ ہوسکا۔ وفاقی اور صوبائی حکومت نے کراچی کو ترقی سے محروم کر رکھا ہے، ضلعی دور میں کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولت فراہم کرنے کے لیے بڑی بسیں چلائی گئی تھیں جو سیکڑوں کی تعداد میں تھیں جو اب کم ہوتے ہوتے برائے نام رہ گئی ہیں اور باقی سب پنجاب منتقل ہونے پر مجبور کردی گئی ہیں۔
موجودہ حکومت کے دور میں ہزاروں چنگ چی رکشوں کو اجازت نامے جاری ہوئے جس سے شہریوں کو دس روپے میں سفر کی سہولت تو مل گئی مگر ہزاروں رکشوں کی وجہ سے سڑکوں پر رش بڑھ گیا اور سڑکوں پر گاڑیوں کے رش کے باعث شہر میں ٹریفک جام رہنا معمول بن چکا ہے، ٹریفک جام رہنے اور شہر میں یوٹرن دور دور ہونے کی وجہ سے روزانہ لاکھوں روپے کا پٹرول ضایع ہورہا ہے اور مزید ستم یہ کہ ٹریفک جام کے رش میں جرائم پیشہ عناصر گاڑی والوں کو لوٹ کر فرار ہوجاتے ہیں، نوازشریف جب وزیراعظم تھے تو انھوں نے سہراب گوٹھ سے ٹاور تک میٹرو ٹرین چلانے کا اعلان کیا تھا جو اعلان ہی رہا، شریف برادران کا تعلق لاہور اور گیلانی کا تعلق ملتان سے تھا اور انھوں نے اپنے اپنے شہر بنائے مگر صدر زرداری نے کراچی سے قریبی تعلق کے باوجود کراچی کے لیے کچھ نہیں کیا۔
پی پی پی کی صوبائی حکومت نے کراچی کی ترقی تو کیا کراچی کے عوام کے مسائل کے حل پر بھی کوئی توجہ نہیں دی۔ کراچی کے فنڈ روکے گئے اور پی پی پی کے وزراء نے کراچی کو کمائی کا ذریعہ بنائے رکھا اور کراچی سے تعلق رکھنے والے وزیر بھی حکمرانوں کی مصالحتی پالیسی پر عمل پیرا رہ کر اپنے شہر سے ہونے والی زیادتیوں اور ناانصافیوں پر خاموش رہ کر کراچی کی زبوں حالی کی حکومتی پالیسی کا حصہ بنے رہے اور متحدہ کے ارکان اسمبلی نے اپنے فنڈ سے تعمیری کام کرائے اور وفاق سے کراچی کے لیے کوئی بھی خصوصی پیکیج تک نہ لے سکے۔