حساب ِخوں بہا

میری ماٹی کے لاغر و ناتواں باسیو آؤ کہ ہم سب مل کر وہ تمام نقش کہن گرا دیںجو میری اور تمہاری آزادی کے خیر خواہ نہیں۔


وارث رضا February 18, 2013
[email protected]

ہم تو پہلے ہی لکھ چکے تھے کہ انصاف کا فیصلہ آنے والا ہے، مگر ہماری بات طوطی کی آواز گردان کر انھوں نے کوئی اہمیت ہی نہ دی اور پھر کھائی ایسی پٹخنی کہ چاروں شانے چت پڑگئے۔ہمارے طاہرالقادری صاحب ملکی عوام کے دکھوں پر تو بجا غمگین ہیں،مگر انھیں سندھ کے اس شہر بے اماں کی روز گرتی ہوئی بے گناہ لاشیں شاید اس لیے نظر نہیں آتیں کہ ان کے اہم اور نظریاتی اتحادی ہی اس شہر بے اماں کے صاحب سیاہ اور سفید ہیں۔

سندھ کے اس روشن شہر کے وہ دکھ کیونکر بتائے جائیں جن کی پرواہ اہل ستم نہ کریں،وہ نوحہ کیسے پڑھا جائے جس کے معنی سمجھنے سے اہل اقتدار ناواقف سے ہو جائیں، وہ المیہ کیسے لکھا جائے کہ جن کے حروف اپنی زبان سے احساس کو نہ جگا پائیں۔یہ میرا نہیں ان افراد کا المیہ ہے جن پر مشق ستم روا رکھنے میں سندھ کے اقتداری اتحادی مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں،یہ کون لوگ ہیں جو ہر دن لاشے اٹھا کر بھی اہل اقتدار کے ایوانوں کی شاہراہوں کو آزادانہ چھوڑ کر صرف مطالبوں تک محدود کر دیے گئے ہیں،یہ کیسا شہر بے اماں ہے کہ کسی کی جاں بخشی تو کجا کسی گھر کے ماتم کی صدا کو بھی تہہ تیغ کرنے سے گریز نہیں کیا جا رہا۔

یہ عوام کے منتخب ہونے والوںکی کیسی قطار ہے جو اپنی آسائشات کے لیے اہل سیاست سے ساز باز تو کر لیتے ہیں،مگر جہاں عوامی استحصال کے لیے آواز اٹھانے کا کہا جائے تو ''ہم اقتدار میں با اثر نہیں ہیں ''کی راگنی سنا کر عوام کے ووٹ کی توہین کرنے سے بھی گریز پا نہیں ہوتے۔کیا اقتدار کے یہ حصے دار واقف نہیں کہ عوام نہ گونگے ہیں نہ بہرے ،نہ اندھے ہیں اور نہ بے اختیار ، بس صرف ہے تو اس وقت کا انتظار جب کوہ گراں کی طرح عوام صف بند ہو کر اہل اقتدار اور ان کے حصے داروں کے تاج اچھالیں۔ایسا بھی نہیں کہ وہ وقت نہ آئے جب اک نئی صبح کی امید سے حق کے نئے راستے کو نہ چل دیں۔یاد رکھا جائے کہ تاریخ ہی عروج کو زوال پذیر کرتی ہے ، اس سے سبق لینا اور تباہ ہونا آپ کا اختیار ہے۔یہ سیاسی شعور کا وہ امتحان ہے ۔

جس میں ہر کوئی سرخرو ہو کر نہیں نکلتا ،یہی تاریخ کے بھیانک انتقام کا وہ طریقہ ہے جو دبے پاؤں آتا ہے مگر یک لخت زمانے کو اپنی نوید سنا جاتا ہے ۔ہم اس قوم کے بھول بھجکڑ ہیں جو بھول بھلیوں کی تعمیر پر آصف الدولہ کی مداح سرائی کرتے نہیں تھکتے۔ہم تو تاج محل کو بھی محبت کا وہ عظیم کارنامہ گردانتے ہیں،جس کی تعمیر میں لاکھوں مزدور اپنی محنت کے عوض گھر کے چراغ نہ جلا سکے،ہم عقیدہ پرستی اور روایت کی اس لکیر کے متولی ہیں جو ہمارے ذہنوں کی توقیر کو کھائے جا رہی ہے،مگر ہم ہیں کہ روایت میں جکڑے رہنے کو ہی اپنا نجات دہندہ سمجھے بیٹھے ہیں۔

حرف کی توقیر کو سمجھنے والے میرے دیس کے سیکڑوں ایسے لکھاری ہیں،جو عوام کے المیوں پر صرف اس وجہ سے طبع آزمائی سے گریز کرتے ہیں کہ اہل اقتدار کی بے حسی ان سے برداشت نہیں ہوتی،اہل اقتدار کی بے حسی تو اپنی جگہ مگر اس میں عوام بھی شامل ہو جائیں تو بھلا کیونکر اور کس کے لیے لکھا جائے۔یہ میرے سماج کو وہ دکھ ہے جسے بیان کرنے میں رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں،کیا یہ ستم کسی طور گوارا ہے کہ ہم مرتے اور قتل ہوتے لاشے اٹھاتے بھی ہیں اور ان سے ہی تعزیت نامے لینے کے متمنی رہتے ہیں جو بالواسطہ یا بلا واسطہ ہمارے قتل کے مجرم ہیں؟اس ماں کے دکھوں کا مداوا کیسے ہوگا جو اپنی ناتوانی میں بھی استقامت سے بیٹے کے جنازے کو اپنی چوکھٹ سے گذرتا ہوا دیکھتی ہے ، اور لوگ اسے صبر کی تلقین کے سہارے زندہ رہنے پر مجبور کیے رکھتے ہیں۔

اس بہن کا کلیجہ کیوں نہ پھٹ جائے جو اپنے جواں بھائی کو اعتبار سمجھے خود کو طاقتور سمجھتی رہی، بتایئے کہ وہ بیوی کہاں جائے جو بیوہ ہونے کے تصور سے بھی لرز جاتی ہے ،اور وہ بچے کیونکر با اعتماد ہوں جن کا بھرپور سہارا ہی خون آلودہ ہو جائے ۔ان ہزاروں گھرانوں کی توقیر اور استقامت کو کیسے زندہ رکھا جائے جو کہ وحشتوں کے شہر میں دہشت گردی کا شکار ہیں۔اور اہل اقتدار کے ساتھ ان کے حکومتی اتحادی خوب غفلت کے مزے لیتے رہیں،اب تو یہ المیہ الگ جان کو کھائے جا رہا ہے کہ درست رپورٹنگ بھی وحشتوں کی نذر ہوتی ہوئی پردہ پوشی کی گلی میں خود کو محبوس کرنے کے درپے ہے،اہل صحافت پہلے ہی اپنوں کے ہاتھوں اس طرح لہو لہان کر دی گئی ہے کہ قدروں کی بات کرنے والے صحافیوں پر پھبتی کسی جانے لگی ہے ۔

یہ میرے شہر اور ملک کی دہشت اور وحشت کا وہ منظر نامہ ہے جس پر جتنا لکھا جائے کم ہے ،تاریخ کے جھروکوں میں جایا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اس شہر بے اماں کو پہلے تنگ نظر سوچ نے دبوچا تو اب وحشت اس شہر کے باسیوںکے لیے زندان بنتی جا رہی ہے ،یہ شہر ہر بار پکار اور چیخ کے دوراہے پر کھڑا اپنی ناموس کو برباد ہوتا ہوا دیکھتا ہے اور دل مسوس کر رہ جاتا ہے ،کوئی نہیں جو اس شہر بے اماںکے دکھوں اور المیوںکی درست عکاسی کر سکے ،حق داروں کو حق اور نا انصافی کے مرتکب افراد کو انصاف دلا سکے۔کوئی نہیں جو رانڈوں کی دہائی پر احساس کے دیے جلائے ،اور کوئی نہیں جو لہولہان ہوتے شہر میں وحشتوں کے آسیب کو پچھاڑنے کا کام کرے؟یہ بھی کیا ستم نہیںکہ ہر نفس کے دل میں ذرا سی آہٹ پہ خوف اور ہر گذرگاہ پر جان کے جانے کا اندیشہ گھر کر جائے ،اور ہمارے اقتدار کے سنگھاسی لینڈکروزر میں قانون نافذ کرنے والوں کی معیت میں خود کو محفوظ کر کے پھرتے رہیں۔

بھلا لکھاری اور اہل صحافت وہ کونسے چنیدہ الفاظ انتخاب کریں جو کہ اہل اقتدار کے دلوں میں عوام کے دکھوں کی جوت جگائے۔ وہ کونسا طریقہ استعمال کیا جائے جس سے شہر بے امان کے دریدہ باسی اپنے لہو کی گرانی کو توقیر مند بنا سکیں،وہ کیا ترکیب اختیار کی جائے کہ جو ایوان اقتدار کی راہداریوں میں بہتے لہو کی پکار پہنچا سکے ،لگتا ہے کہ سارے شہر کو بے توقیر کیے جانے کا سامان کیا جا رہا ہے ،ہر راہ کو وحشت کے سپرد کرنے کے انتظامات کے ساتھ زندہ دلوں کو مردہ کرنے کے کام کو آگے بڑھایا جا رہا ہے ،ایسا کیوں لگنے لگا ہے کہ ہم جس راہ کے منتظر تھے اور ہیں اس کی نس بندی کی جا رہی ہے ،ہم بھلا کیوں اس شہر میں لہو کا تریاق ڈھونڈنے کے درپے ہیں ،ہماری امید کے دیوں کے تیل کو کیوں بہانے کا انتظام کیا جا رہا ہے۔

صبح نوید کی کرنیں کیوں ہم سے دور کی جا رہی ہیں،ہمارے حقوق کی کشتی کو ناخدا نہ دینے میں کیوں پس و پیش کیا جا رہا ہے، ہمارے ارادوںکو شل کیے جانے پر کیوں کمر کس لی گئی ہے ،ہمیں وحشتوں کے سائے میں آبلہ پا ہونے کو کیوں کہا جا رہا ہے ،ہمارے نان نفقے کی ترسیل دہشت کے نام پر کیوں روکی جا رہی ہے ،ہمیں جینے کے حق سے محروم کر کے فرنگیوں کے سہاروں پر چلنے کو کیوں کہا جا رہا ہے ،کیوں ترک وطن کرنے والوں کی سیاست کو شہر پر تھوپنے کے انتظامات کو ہوا دی جا رہی ہے ،جو ملکہ برطانیہ کے دریوزہ گر ہیں ہمیں کیوں ان کے تالو چاٹنے کا درس دیا جا رہا ہے ،ہم کیوں ایسی مفاہمانہ سیاست کے اسیر بنا دیے گئے ہیں جس نے اس شہر اماں کو وحشت اور دہشتگردی کی بھینٹ چڑھا دیا ہے ،وہ جو ہتھیاروں کی زباں میں بات کرتے ہیں کیا وہ قابل نفرت نہیں۔بس انہی سے نفرت اور نفرت کر کے اس شہر بے امان کو امن کا گہوارہ بنایا جا سکتا ہے ،سو اٹھو میری ماٹی کے لاغر و ناتواں باسیو آؤ کہ ہم سب مل کر وہ تمام نقش کہن گرا دیںجو میری اور تمہاری آزادی کے خیر خواہ نہیں،بقول فیض۔

ستم سکھلائے گا رسم وفا ایسے نہیں ہوتا

صنم دکھلائیں گے راہ خدا ایسے نہیں ہوتا

گنو سب حسرتیں جو خوں ہوئی ہیں تن کے مقتل میں

مرے قاتل!حساب خوںبہا ایسے نہیں ہوتا

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں