اب ایک اور سوال اٹھے گا
موجودہ جمہوریت کا سب سے بڑا سوال این آر او کے عنوان سے اٹھا تھا جو ابھی تک خود بھی قائم ہے
KARACHI:
ہمارے ملک میں نت نئے سوال پیدا ہوتے ہیں۔ بڑے سوالات ٹی وی ٹاک شوز اور اخباری کالموں کی رونق بنتے ہیں، باقی سرسری سماعت میں ڈھیر ہو جاتے ہیں۔ موجودہ جمہوریت کا سب سے بڑا سوال این آر او کے عنوان سے اٹھا تھا جو ابھی تک خود بھی قائم ہے اور اس سے آئے دن مزید سوالات پھوٹتے رہتے ہیں۔ یہ سوال ایک وزیراعظم (یوسف رضا گیلانی) کو گھر بھجوا چکا ہے اور دوسرے (راجہ پرویز اشرف)کے سر پر تلوار بن کر لٹکا ہوا ہے۔
پارلیمنٹ نے توہین عدالت کا ایک نیا قانون بنا کر اپنی بالادستی قائم کرنے کی کوشش کی تھی لیکن وہ جمشید دستی جیسی کارکردگی بھی نہ دکھا سکا اور ایک جھٹکے میں ہی ڈھیر ہوگیا۔ سعادت حسن منٹو کے مضامین کی کتاب تلخ، ترش، شیریں کے ایک مضمون کا عنوان ہے۔ ''سوال پیدا ہوتا ہے''۔ مضمون کی ابتداء یوں ہوتی ہے۔ ''معزز خواتین و حضرات، ذلیل عورتو اور ذلیل مردو، باادب باملاحظہ ہوشیار!! آپ سب کو بروقت آگاہ کیا جاتا ہے کہ ایک سوال پیدا ہو رہا ہے۔ حضرت آدم سے لیکر اب تک اتنے سوال پیدا ہو چکے ہیں جتنے آسمان میں تارے لیکن پھر بھی آئے دن پیدا ہوتے چلے جارہے ہیں۔ کوئی اٹھ کر یا بیٹھ کر یہ نہیں کہتا کہ اب مزیدسوال پیدا نہیں ہونے چاہئیں۔''
آگے چل کر لکھا ہے۔ ''سوال ہر جگہ پیدا ہوتا ہے اور ہر مقام پر پیدا ہوسکتا ہے اس کے لیے خاص موسم کی' خاص مٹی کی، خاص پانی کی کوئی ضرورت نہیں۔ بچہ نو مہینے بعد پیدا ہوتا ہے لیکن نطفہ قرار پاتے ہی سوال پیدا ہو جاتا ہے۔ اسے دایہ گیری کی حاجت نہیں، میٹرنٹی ہوم کی ضرورت نہیں، کلورو فارم درکار نہیں۔ آئود یکھتا ہے نہ تائو 'پیدا ہو جاتا ہے۔ عدالت میں مجسٹریٹ صاحب حقہ پی رہے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ چرکیں کے دیوان کا مطالعہ کر رہے ہیں۔ کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا۔ مجرم پیش ہوتا ہے۔ وہ مجسٹریٹ کو سلام نہیں کرتا۔ فوراً توہین عدالت کا سوال پیدا ہو جائے گا۔''
منٹو صاحب کے زمانے میں توہین عدالت کو معمولی جرم سمجھا جاتا تھا اور سزا بھی نہ ہونے کے برابر تھی۔ ورنہ عدالت انھیں عظیم افسانہ نگار کے اعزاز سے محروم کرکے لاہور ضلع کچہری میں ''منشی'' بنا دیتی، اس زمانے میں آرٹیکل 204 آئین کا حصہ نہیں تھا جس کے تحت عدالت نے یوسف رضا گیلانی کو وزیراعظم سے ایک ایسے شخص میں تبدیل کر دیا جس کو توہین عدالت کے جرم میں سزا سنائی جاسکتی تھی۔
''ایک ایسا شخص'' قرار پانے کے بعد گیلانی صاحب آئین کے آرٹیکل 204 میں درج آرٹیکل 248 (1) کے تحفظ سے محروم ہو گئے تھے جس میں کہا گیا ہے کہ ''صدر، کوئی گورنر، وزیراعظم، کوئی وفاقی وزیر، کوئی وزیر مملکت، وزیر اعلیٰ اور کوئی صوبائی وزیر اپنے متعلقہ عہدے کے اختیارات استعمال کرنے اور ان کے کارہائے منصبی انجام دینے یا کسی ایسے احوال کی بنا پر جو ان اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے اور کارہائے منصبی انجام دیتے ہوئے کیے گئے ہوں یا جن کا کہا جانا مترشح ہو' کسی عدالت کے سامنے جوابدہ نہیں ہونگے۔
آئین کے اس آرٹیکل کے تحت سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اپنے اختیارات یا اقدامات کے سلسلے میں کسی عدالت کے سامنے جوابدہ نہیں تھے۔ سابق وزیراعظم نے اپنے اختیارات استعمال کرتے سوئس حکومت کو ایک خط نہیں لکھا کیونکہ وہ اسے اپنے فرض منصبی کے دائرہ کار میں آئین کی دفعہ 248(2) کی خلاف ورزی سمجھتے تھے۔ لیکن آرٹیکل204 بالا دست ثابت ہوا اور گیلانی صاحب وزیراعظم کے بجائے عام شخص قرار پا گئے۔ ساتھ ہی آئین کی وہ شقیں غیر موثر ہوگئیں جو وزیراعظم کو ہٹانے کے آئینی طریق کار پر مبنی ہیں۔
پاکستان میں ابھی تک یہ طے نہیں ہوسکا کہ آئین، پارلیمنٹ یا عدلیہ میں سے کون بالادست ہے؟ 1977ء اور 12اکتوبر1999ء کے مارشل لائوں میں فوج اور عدلیہ نے مل کر آئین توڑ ڈالا تھا۔ بہرحال ججوں کی اکثریت نے دونوں آمروں کے پی سی او کے تحت حلف اٹھا کر سپریم کورٹ کا وقار قائم رکھا اور خود بھی قائم رہے۔ سپریم کورٹوں نے دونوں مارشل لا میں آئین کو آرمی چیفس کی ''ذاتی ملکیت'' بھی قرار دیا۔ نئے نظام نے پارلیمنٹ بھی اڑا دی تھی اور وہ اس وقت تک غائب رہی جب تک پہلے ضیاء الحق نے غیر جماعتی اور پھر جنرل مشرف نے جماعتی انتخابات کے مثبت نتائج کے ذریعے اپنی اپنی پارلیمنٹوں کو میدان میں نہیں اتارا۔ دونوں پارلیمنٹوں کو پی سی او والی سپریم کورٹ اور آرمی چیفس نے ملکر وہ طاقت مہیا کی جس کو ''سپریم'' کہا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نہ صرف دونوں مارشل لائوں کے پی سی اوز جج بالادست قرار پائے بلکہ بہت سے دوسرے اقدامات آئین کا حصہ بن گئے۔ 1973ء کا آئین دو بار توڑا گیا۔ دونوں بار سپریم کورٹ نے اسے جائز قرار دیا۔ دونوں بار ججوں نے پی سی او کے تحت حلف اٹھائے۔ پھر دونوں بار دھاندلی اور ہیرا پھیری کی پیداوار پارلیمنٹوں نے آئینی گناہوں کو کار ثواب قرار دے دیا۔
اٹارنی جنرل عرفان قادر نے مقدمے کی سماعت کے دوران بڑے جارحانہ دلائل دیے تھے۔ سماعت کرنے والے بنچ سے ایک تکرار کے دوران انھوں نے یہ بھی کہہ دیا کہ وہ نرم لہجے میں بات نہیں کرسکتے کیونکہ ان کی آواز قدرتی طور پر اونچی ہے۔ عرفان قادر نے بینچ پر جانبداری کا الزام بھی لگایا، وہ جنرل مشرف کے دوسرے پی سی او کے تحت حلف اٹھا کر لاہور ہائیکورٹ کے جج بنے تھے۔ اپنے پی سی او پیشروئوں اور ان کے درمیان فرق صرف یہ ہے کہ وہ باوردی آئین کے تحت قائم ہونے والی کسی نام نہاد پارلیمنٹ کی قیمتی اور مقدس مہر سے محروم رہ گئے اور فارغ کر دیے گئے۔ جنرل پرویز مشرف وردی نہ اتارتے اور ''شفاف'' الیکشن کرا دیتے تو عرفان قادر صاحب آج بھی یقینی طور پر جج ہوتے، پارلیمنٹ بھی سپریم ہوتی اور اس کا قانون بھی چلتا اور آئین کے آرٹیکل ایک دوسرے پر حاوی ہو کر وزیر اعظم کو ایک ایسے شخص میں تبدیل نہ کرتے جس پر 248(1) کا اطلاق نہ ہوتا ہو۔
توہین عدالت کا قانون کالعدم ہونے کے بعد فوری طورپر ایک اور سوال اٹھنے والا ہے جس میں سے مزید کئی سوال نکلیں گے۔ توہین عدالت کیس میں اٹارنی جنرل بڑے زور دار انداز میں مقدمہ لڑے۔ چیف جسٹس صاحب نے انھیں عدالت کی معاونت کے بجائے عدلیہ کو بدنام کرنے کا مرتکب قرار دیا۔ انھیں خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ مقدمہ توہار گئے، خود توہین عدالت کے مرتکب نہیں ہوئے۔ انھیں سخت لہجے میں بات کرنے پر رعایت دی گئی ورنہ آجکل عدالتیں ''گھورنے'' پر بھی پکڑ لیتی ہیں۔