موجودہ حکومت کے 5 سال میں بجلی بحران پر ناقص پالیسی سرکلر ڈیٹ 872 ارب ہوگیا

نگراں حکومت کے دور میں بھی سرکلر ڈیٹ میں اضافے کا خدشہ ہے جسے آنے والی نئی حکومت کو بھگتنا ہوگا۔

ذرائع نے بتایا کہ ملک میں فرسودہ اور پیداواری لاگت کے لحاظ سے مہنگے پاور پلانٹس سے بجلی تیار کرکے حکومت نے سرکلر ڈیٹ کے ساتھ بجلی کے بحران میں بھی اضافے کی راہ ہموار کردی۔ فوٹو: فائل

بجلی کے بحران کے حل کے لیے ناقص حکمت عملی کے سبب موجودہ حکومت کے دور میں سرکلر ڈیٹ کی مالیت میں 711ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے۔

عوامی حکومت نے جب اقتدار سنبھالا تو اسے سرکلرڈیٹ کی شکل میں 161.21ارب روپے کا بوجھ ملا تاہم بجلی کی چوری، بھاری مالیت کے بلوں کی عدم ریکوری اور پرانے فرسودہ پاور پلانٹس سے بجلی کی پیداوار کی پالیسی کے سبب سرکلر ڈیٹ پانچ سال میں بڑھ کر 872.41 ارب روپے تک پہنچ گیا۔ انرجی اینڈ پاور سیکٹر کے ذرائع کے مطابق حکومت کی غلط پالیسی کے سبب نہ صرف ملک ریفائنریز بلکہ سب سے بڑی قومی آئل کمپنی پی ایس او کو بھی بھاری نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ دوسری جانب ملک کی دو اہم ترین گیس کمپنیاں بھی تباہی کے دہانے پہنچ گئیں۔

ماہرین کے مطابق سرکلرڈیٹ کو اسی سطح پر رکھنے اور موسم گرما میں بجلی کی قلت کو بھی موجودہ سطح پر برقررا رکھنے کے لیے نگراں حکومت کو زیادہ سے زیادہ ریکوری کے ذریعے سرکلر ڈیٹ میں کمی اور ملک میں لگے ہوئے زیادہ کارگر اور سستے پاور پلانٹس کے ذریعے بجلی کی پیداوار حاصل کرنے کی پالیسی اختیار کرنا ہوگی، بصورت دیگر نگراں حکومت کے دور میں بھی سرکلر ڈیٹ میں اضافے کا خدشہ ہے جسے آنے والی نئی حکومت کو بھگتنا ہوگا۔ اعدادوشمار کے مطابق سال 2006میں سرکلر ڈیٹ 111ارب روپے، سال 2007میں 145ارب روپے تھا جو موجودہ حکومت کے اقتدار سنبھالتے وقت 161.21 ارب روپے کی سطح تک پہنچ گیا، سال 2009میں سرکلر ڈیٹ 235.65ارب روپے، سال 2020میں 365.66 ارب روپے سال 2011میں 537.53 ارب روپے جبکہ سال 2012میں بڑھ کر 872.41 ارب روپے تک پہنچ گیا۔




ذرائع نے بتایا کہ ملک میں فرسودہ اور پیداواری لاگت کے لحاظ سے مہنگے پاور پلانٹس سے بجلی تیار کرکے حکومت نے سرکلر ڈیٹ کے ساتھ بجلی کے بحران میں بھی اضافے کی راہ ہموار کردی 2002کی پاور پالیسی کے تحت لگنے والے آئی پی پیز کی پیداواری لاگت جینکوز کے مقابلے میں نمایاں طور پر کم ہونے کے باوجود حکومت نے فرسودہ پاور پلانٹس چلانے کو ترجیح دی جس سے نجی پاور پلانٹس کو بھی بھاری نقصان کا سامنا کرنا پڑا جبکہ ملک میں بجلی کا بحران بھی مزید شدت اختیار کر گیا۔

جینکوز کے مقابلے میں 2002کی پاور پالیسی کے تحت لگنے والے پاور پلانٹس سستی بجلی پیدا کرتے ہیں ان پاور پلانٹس کی فرنس آئل سے بجلی کی پیداوار 14.095 روپے فی یونٹ جبکہ جینکوز کی 21.04روپے فی یونٹ ہے حکومت اور فیصلہ ساز شخصیات فرسودہ پاور پلانٹ کے بجائے زیادہ کارگر اور سستے پاور پلانٹس کے ذریعے فرنس آئل کی بجلی پر بھی فی یونٹ 7روپے تک کی پیداواری بچت کرسکتی تھی جس سے نہ صرف ایک جانب سرکلرڈیٹ میں کمی آتی بلکہ ملک میں بجلی کی پیداوار میں بھی اضافہ کیا جاسکتا تھا نئے نجی پاور پلانٹس گیس پر بھی فی یونٹ 2.36پیسے سستی بجلی پیدا کررہے ہیں، تاہم ان پاور پلانٹس کو گیس سے چلانے پر بھی کوئی توجہ نہیں دی گئی۔

نگراں حکومت کو بجلی اور سرکلر ڈیٹ کا بحران ورثے میں ملے گا 11جنوری تک کے اعدادوشمار کے مطابق صرف پیپکو، گیس کمپنیوں آئل کمپنیوں، انڈیپنڈنٹ پاور پلانٹس، ڈسکوز اور دیگر اداروں کی 453ارب روپے سے زائد کی مقروض ہے اسی طرح پیپکو پر گیس سے چلنے والے جینکوز کے 36.26 ارب روپے اور فرنس آئل سے چلنے والے جینکوز کے 15.344ارب روپے کے واجبات ہیں، ملک میں اربوں روپے کی سرمایہ کاری سے لگنے والے انڈی پینڈنٹ آئی پی پیز کے پیپکو پر 284.897 ارب روپے کے واجبات ہیں جن میں فرنس آئل سے چلنے والے پاور پلانٹس کے 196.84ارب روپے اور گیس پر چلنے والے پاور پلانٹس کے 65.296ارب روپے کے واجبات ہیں۔
Load Next Story