بابا گرومیت کو عروج کیسے ملا

بابا گرومیت کی بی جے پی کے بعض لیڈر حوصلہ افزائی کرتے رہے ہیں


کلدیپ نئیر September 01, 2017

بابا گورمیت رام رحیم بھنڈرانوالہ کے نقش قدم پر چل رہا تھا لیکن کسی کو اس کے خلاف کوئی بات کرنے کی جرات نہیں تھی البتہ وقت آنے پر تو وہ محض ایک کاغذی شیر ثابت ہوا، جب سی بی آئی کی عدالت کے جج بھگلدیپ سنگھ نے بابا کے خلاف فیصلہ سنایا تو اس نے بھری کچہری میں زار قطار رونا شروع کر دیا اور منت سماجت کرنے لگا کہ اسے کوئی سخت سزا نہ دی جائے۔ بابا کے رونے دھونے پر اس کے پیروکار بھی ورطہ حیرت میں مبتلا ہو گئے تاہم بابا کے پیروکاروں کی کثیرتعداد کے بارے میں کسی شک شبے کی گنجائش نہیں ہے۔

ان کے نزدیک یہ بات کسی قسم کی تشویش کا باعث نہیں کہ بابا پر عدالت نے دو خواتین کی آبروریزی کا الزام لگایا ہے جو اس کے ڈیرے میں آتی جاتی تھیں، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کے پیروکار کس قدر بے بہرا اور کم عقل لوگ ہیں جو آنکھیں بند کر کے اپنے گرو کی پیروی کرتے ہیں۔ بھنڈرانوالہ بھی اس قدر طاقت ور ہو گیا تھا کیونکہ حکومت اس کی کارروائیوں سے چشم پوشی کرتی تھی، اب چونکہ بابا کی سزا کا اعلان کر دیا گیا ہے تو باور کیا جاتا ہے کہ اس کے مزید جرائم بھی بے نقاب ہو جائیں گے۔

سی بی آئی کی عدالت پہلے ہی بابا کے خلاف قتل کے الزامات پر بھی فیصلہ سنانے پر غور کر رہی ہے۔علاوہ ازیں بابا کے خلاف بعض پیروکاروں کو مردانہ صفات سے محروم کرنے کے الزامات بھی عائد ہیں، یہ سارے الزامات بابا کی ذہنی کیفیت کو آشکار کرتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی حکام کی طرف سے چشم پوشی پر بھی دلالت کرتے ہیں۔

بھنڈرانوالہ اور بابا گرومیت رام رحیم کے مابین بہت سے معاملات میں مماثلتیں بھی موجود ہیں، اگر بھنڈرانوالہ کی تخلیق سابقہ کانگریس پارٹی کی حمایت کا نتیجہ تھی تو موخر الذکر کی تخلیق میں حکمران بھارتی جنتا پارٹی (بی جے پی) کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔ یہ درست ہے کہ بابا بھنڈرانوالہ کی مانند عسکریت پسند نہیں لیکن اس کے عزائم کے سیاسی ہونے سے انکار نہیں کیا جا سکتا بصورت دیگر وہ اتنی بے پناہ دولت اکٹھی نہیں کر سکتا تھا اور نہ ہی ملک بھر میں 132سے زیادہ ڈیرے بنا سکتا تھا جب کہ یو کے اور امریکا میں بھی اس کے ڈیرے موجود ہیں۔

جنتا پارٹی کی حکومت 1977ء میں پنجاب میں برسراقتدار آئی جس کے لیے اکالی سکھ بتدریج طاقت حاصل کر رہے تھے، اس زمانے میں کانگریس پارٹی پر اندرا گاندھی کے چھوٹے بیٹے سنجے گاندھی کا تسلط تھا اور گیانی ذیل سنگھ نے بھی بھنڈرانوالہ کی حمایت کی تھی تا آنکہ اندرا گاندھی کو احساس ہوا کہ بھنڈرانوالہ نے تو ایک ایسے عفریت کی شکل اختیار کر لی ہے جو اس کے قابو سے باہر ہو گیا ہے، یہی وجہ ہے کہ اس نے سکھوں کے سب سے متبرک امرتسر کے دربار صاحب (گولڈن ٹیمپل) پر فوج کشی کا حکم دے دیا چنانچہ آپریشن بلو اسٹار میں جو جون 1984ء میں کیا گیا بھنڈرانوالہ کو ہلاک کر دیا گیا لیکن اس سے سکھوں میں اس قدر غیظ و غضب پیدا ہو گیا کہ چند سال بعد اندرا گاندھی کی جان بھی لے لی گئی۔

بابا گرومیت کی بی جے پی کے بعض لیڈر حوصلہ افزائی کرتے رہے ہیں کیونکہ ان کے خیال میں اس طرح ان کی پارٹی کو زیادہ ووٹ حاصل ہو سکیں گے۔ بابا نے 2014ء میں لوک سبھا کے انتخابات کے لیے بی جے پی کی حمایت کی تھی، اس کے ساتھ ہی ہریانہ کے ریاستی انتخاب میں بھی بی جے پی کی حمایت کی۔ بابا گرومیت نے کیپٹن امریندر سنگھ کی کانگریس کے خلاف گیروے لباس والے انتہا پسند ہندوؤں کی حمایت کی لیکن ان کو انتخابی فتح نصیب نہ ہو سکی۔

یہ افواہیں بھی موجود تھیں کہ منوہر لال کھٹر کی کابینہ کے وزیروں نے حلف اٹھانے کی تقریب کے بعد جن میں وزیراعلیٰ شامل نہیں تھے سچا سودا کے مقام پر بابا گرومیت کے ڈیرے کا دورہ کیا تھا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ دوسری پارٹیاں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی تھیں۔ 2009ء میں ڈیرے کے سربراہ نے کانگریس کی حمایت کا اعلان کر دیا جس کے جواب میں اس کو وی آئی پی سیکیورٹی فراہم کی گئی، اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بابا کس طرح زیادہ سے زیادہ طاقت حاصل کر رہا تھا اور اس نے باقاعدہ اپنی نجی فوج قائم کرلی تھی۔

ریاست ہریانہ میں دفعہ144 کی دانستہ خلاف ورزی کی گئی جس میں اس نے ان لوگوں کو اپنے ڈیرے میں پناہ دی جن پر قتل کے الزامات لگے ہوئے تھے، بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پنجاب اور ہریانہ میں بابا کے خلاف کارروائی کے لیے انٹیلی جنس رپورٹس پہلے ہی حاصل کر لی گئی تھیں حتٰی کہ چندی گڑھ انتظامیہ کو بھی آگاہ کر دیا گیا تھا کہ بابا کی گرفتاری کی صورت میں ہنگامہ آرائی سے نمٹنے کے لیے ضروری انتظامات کر لیے جائیں تاکہ سرکاری املاک کو احتجاج وغیرہ کی صورت میں کوئی نقصان نہ پہنچایا جا سکے۔ جب تاریخ خود کو دہراتی ہے تو بنیادی طور پر یہ ہمارے نظام کا مذاق اڑاتی ہے کیونکہ ہم نے سابقہ تجربات سے کوئی سبق نہیں سیکھا ہوتا۔

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ بابا گرومیت کی گرفتاری اور سزا کے اعلان کے بعد پھوٹ پڑنے والے ہنگاموں کے نتیجے میں کم از کم30 افراد کی جانیں چلی گئیں اور سرکاری املاک کو بھی خاصا نقصان پہنچا۔ اب سوال یہ ہے کہ اس جانی اور مالی نقصان کی ذمے داری کس پر عائد کی جائے گی۔ لیکن بی جے پی کی حکومت نے وزیراعلیٰ کھٹر کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی کیونکہ اسے آر ایس ایس کی حمایت حاصل ہے۔ لیکن بھارت کا مسئلہ یہ ہے کہ اس قسم کے لوگوں کو کیسے سزا دی جائے اور حکومت کو کس طرح روکا جائے کہ وہ ایسے لوگوں کی حمایت نہ کرے۔

اصل میں اپنے ووٹ بینک کو بچانے کیلیے سیاسی پارٹیاں غلط حرکات میں ملوث ہو جاتی ہیں۔ جمہوریت ووٹر اور پارٹی میں براہ راست رابطے کا تقاضا کرتی ہے لیکن بابا اور اس طرح کے دوسرے لوگ راستے میں آجاتے ہیں اور وہ ایک متوازی اتھارٹی بننے کی کوشش کرتے ہیں لیکن جب بیلٹ باکس پر دوسری طاقتیں حاوی ہو جاتی ہیں تب جمہوریت کمزور ہو جاتی ہے لہٰذا اچھے آدمیوں کو اس نظام میں بہتر جگہ ملنے کی امید بہت کم ہے۔ مذہب ایک نجی معاملہ ہے، آشرم اور نیک لوگوں کی دیگر پناہ گاہوں کا احترام کیا جانا چاہیے لیکن ان محفوظ مقامات کی آڑ میں غیرقانونی کارروائیوں کی ہرگز اجازت نہیں ہونی چاہیے کیونکہ اس سے سارا نظام خراب ہو جاتا ہے۔

(ترجمہ:مظہر منہاس)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں