پاکستان میں امریکی کھیل

امریکا کو جعلی جمہوریت میں ہی لطف ہے جیساکہ آپ کے سامنے مصر میں جمہوریت کو دفن کیا گیا

anisbaqar@hotmail.com

GENEVA:
لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ افغانستان اور پاکستان میں امریکی کھیل آج شروع ہوا ہے۔ جناب یہ تو بڑی پرانی بات ہے جب روس سوویت یونین تھا اور افغانستان میں انقلاب ثور برپا ہوا تھا۔ نور محمد ترہ کئی اس کے روح رواں تھے تقریباً 42 برس سے زیادہ بیت گئے کہ امریکا کو زبردست تشویش شروع ہوئی اور اس نے پاکستان کو اپنا ہمنوا بنا کے افغان جنگ کا آغاز کیا اور بالآخر سوویت یونین بکھرگیا۔

سلطانی جمہورکا زمانہ جاتا رہا اور افغانستان میں پھر نقش کہن کی حکومت ہوئی، نائن الیون سے دنیا گزری مگر جنگ ختم نہ ہوئی ۔ اسامہ بن لادن کے بعد دنیا نے داعش کی ہولناکی دیکھی جس کی پرورش خود امریکا نے کی مگر تاریخ میں وہ صاف ستھرا رہا۔

ہوسکتا ہے کہ مورخ یہ لکھے اور نہ بھی لکھے تب بھی ذرائع ابلاغ میں امریکی جبر کے نشان مٹائے نہ جاسکیں گے کیونکہ دنیا جدید تہذیب اور ٹیکنالوجی کے حصار میں ہے اور ہم بڑے فخر سے یہ کہا کرتے تھے کہ ہم نے روس کو شکست دی مگر ان 40 برسوں کے سیاسی نشیب و فراز نے یہ خود بتا دیا کہ امریکی فریب کاروں نے تسلسل سے پاکستان کو دھوکہ دیا اور پاکستان کے حکمران اس میں مکمل طور پر اور مذہبی رہنماؤں کا ایک ٹولہ تعاون کرتا رہا۔ آخر کار وہ وقت قریب تر آتا گیا جب کشمیر کی جنگ آزادی کی شکل بدلنے لگی اور یہ جنگ مذہبی رنگ لینے لگی۔

شروع میں یعنی شیخ عبداللہ کی قیادت میں کشمیری جنگ قومیت کا رنگ لیے تھی، اس میں اسلامی رنگت اتنی شدت سے موجود نہ تھی مگر اب یہ جنگ اسلامی جدوجہد کے طرز پر نمایاں ہوچکی ہے جس کی وجہ سے بھارتی ہندو انتہا پسند بھی اپنا روپ بدل رہے ہیں اور وہ خود یہی چاہتے ہیں کہ یہ قوم پرستی کی تحریک نہ رہے بلکہ مذہبی تحریک بن کر سامنے آئے تاکہ ان کو دنیا کو یہ بتانا آسان ہوجائے کہ یہ مسلم انتہا پسند گروہ ہیں جو پاکستان کے تیار کردہ ہیں۔ اس لیے اسرائیل، بھارت اور امریکا کو یہ راستے پسند آئے۔ یہ بھی ایک عجیب اتفاق ہے کہ سعودی عرب بھی کشمیر کی اس جدوجہد میں پاکستان کی کھلم کھلا حمایت نہیں کر رہا۔

کیونکہ وہ امریکی اتحاد کا ایک حصہ ہے، مگر پاکستانی سیاسی لیڈر خصوصاً پی ایم ایل این اس باریکی کو سمجھنے سے قاصر ہے، جب کہ پاکستان میں یہ افواہ گرم ہے کہ پاکستان پر فی الحال جو امریکی دباؤ ہے وہ اس لیے ہے کہ پاکستانی عدلیہ نے جو نواز شریف کی برطرفی کا حکم جاری کیا وہ امریکا کو پسند نہ آیا کیونکہ یہ عمل امریکا کو اچھا نہ لگا اور وہ فوج پر دباؤ ڈالنے کے لیے یہ اقدامات اٹھا رہا ہے جب کہ حقیقت تو یہ ہے کہ اس کو جمہوریت کی اصل روح سے کوئی واسطہ نہیں عرب امارات اور ان کے زیادہ تر حواری بادشاہت کے طرز حکومت پر ہی حکومت چلا رہے ہیں۔

امریکا کو جعلی جمہوریت میں ہی لطف ہے جیساکہ آپ کے سامنے مصر میں جمہوریت کو دفن کیا گیا اور امریکا جنرل السیسی کی تائید کرتا رہا۔ لہٰذا امریکا پاکستان سے یہی چاہتا ہے کہ وہ ہر قدم اس سے پوچھ کر اٹھائے۔ یہاں تک کہ ملک میں جو مذہبی پارٹیاں جلسے یا جلوس جو اس کے خلاف نکالتے ہیں وہ بھی نہ نکالیں اور حکومت کی تشکیل کے لیے بھی اس سے ڈکٹیشن لیں۔ امریکا کو یہ بخوبی معلوم ہے نواز شریف یا ان کی پارٹی عوام میں اتنی مقبول نہیں کہ ملک میں کوئی نظریاتی تبدیلی لاسکیں۔ جیساکہ میاں صاحب خود نظریاتی روح کا تذکرہ کرتے رہے ہیں یا پاکستان کے بعض لیڈر جو بیانات دے رہے ہیں ان میں بھی کوئی حقیقت نہیں بس وہ پاکستان میں عوام کے جذبات کو بھڑکا کے مقبول ہونا چاہتے ہیں، ان کو حالات کی سنگینی کا کوئی علم نہیں۔ امریکا کوئی حملہ تو یقینا نہیں کرے گا البتہ وہ معاشی دباؤ ڈالے گا۔


تعجب ہے پاکستانی لیڈروں کو اس کا بالکل ادراک نہیں سینیٹ کے چیئرمین فرماتے ہیں کہ پاکستان امریکی فوجوں کا قبرستان بنے گا گویا معاملات اس طرف بھی جاسکتے ہیں جیساکہ باقاعدہ جنگ میں ہوتے ہیں۔ ایسا ہی ایک بیان جاوید ہاشمی نے بھی دیا ہے کہ ٹرمپ کی یہ گیدڑ بھبکی ہے کہاں ساڈا شیر اور ٹرمپ، ایک گیدڑ جس کی پذیرائی کے لیے یہ شیر ریاض گیا تھا اور اسلامی فوج کو معرض وجود میں لایا تھا جو حقیقت کی شکل نہ دھار سکا کیونکہ قطر نے سعودی عرب کے پلان کو بالکل مسترد کردیا۔

مصر کے تمام وہ لیڈر جو محمد مرسی کے ساتھی تھے وہ قطر میں پناہ گزیں ہوگئے اور سعودی مخالف گروپ وجود میں آگیا۔ اس کشمکش میں نواز شریف جو امریکی سیاست کا بڑا مہرہ تھے پاکستان میں خود بے اثر ہوکر رہ گئے۔ پاکستان چونکہ امریکا کا شروع سے اتحادی رہا ہے اور ہر موقعے پر امریکا کے کام آیا ہے اس لیے یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ ڈومور مزید کرو کے فارمولے کو نظرانداز کرسکتا تھا اور اس میں سست روی امریکا کو محسوس ہوئی تو ظاہری طور پر اس نے زبانی کلامی جنگ شروع کردی چونکہ ٹرمپ سیاست داں نہیں تاجر ہے وہ کھلم کھلا جنگ کا خود اعلان نہیں کرے گا بلکہ اپنے کسی اتحادی کو آگے بڑھائے گا اور معاشی، سیاسی اور عسکری جنبش کے ذریعے اپنے معاملات کو حل کرسکتا ہے۔

اگر پاکستان کے سیاست داں یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں سی پیک کی وجہ سے روس چین ان کے محافظ ہوسکتے ہیں تو یہ سراسر غلطی ہے کیونکہ پاکستان چین کا کوئی پرانا اتحادی نہیں۔ جیساکہ کم ال سنگ ماؤزے تنگ کے ساتھی اور آج بھی کم جان عن جو شمالی کوریا کے صدر ہیں وہ روس اور چین کے اتحادی ہیں اور شمالی کوریا انھی کے سیاسی حمایت کی بنا پر اس قدر مشکل دباؤ کا سامنا کر رہا ہے جب کہ پاکستان کا چین کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں لہٰذا جلد یا دیر پاکستان کو سیاست کی زبان میں تعاون کرنا پڑے گا اور جو سیاست داں امریکا سے مزاحمت کی زبان میں باتیں کر رہے ہیں وہ پاکستان کے حقیقی دوست نہیں کیونکہ پاکستان امریکا کا دیرینہ ساتھی ہے مانا کہ پاکستان اب اتنی قربت کا حامل نہیں اب روس کے ساتھ اور چین کے ساتھ فوجی مشقیں بھی کرتا ہے مگر عالمی سطح پر پاکستان اب بھی امارات اور قدامت پرست عرب ملکوں کا ساتھی ہے اور ہر سطح پر اس کی امریکا کی قربت ہی کام آتی رہے گی۔ امریکا کا بھی عجیب طریقہ مزاحمت ہے جو بظاہر دوستی مگر اندرونی طور پر طریقہ کار مختلف ہے۔ خصوصاً ری پبلکن رہنماؤں کا جو جنگی معاملات کو سیاسی تدبیر پر فوقیت دیتے ہیں۔

حالانکہ شام کے معاملات اور جنگی حکمت عملی میں امریکا کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور شرق اوسط میں اس کو پسپائی کا سامنا کرنا پڑا مگر افغان مسئلے پر امریکا کو ایک طرح کی سبقت حاصل ہے کیونکہ بھارت اور افغان حکومت ایک دوسرے کے ہمنوا ہیں اور پاکستان کو امریکی پالیسی سے انحراف کرنے سے گریز مشکل ہے کیونکہ پاکستان معیشت سے لے کر سیاست تک امریکی پالیسی میں بندھا ہوا ہے بچوں کا نصاب تعلیم ہو کہ فنون حرب پاکستانی لیڈروں کے تانے بانے امریکا سے بندھے ہوئے ہیں۔ لہٰذا جب کوئی پاکستانی لیڈر خود کو انقلابی کہتا ہے تو یہ ایک بڑا فریب لگتا ہے۔

پاکستان کی سیاسی نبض بھی امریکا کے کہنے پر ہی دھڑکتی ہے آپ کو یاد ہوگا جب نواز شریف اور آصف علی زرداری اور محترمہ بے نظیر بھٹو ملک بدری کے بعد واپس آئے تو یہ کوئی روس اور چین کی معاونت کا نتیجہ نہ تھا بلکہ امریکی این آر او کا عطیہ تھا تو پھر آج جو لوگ امریکی مخالف بیانات دے رہے ہیں عوام کو فریب دے رہے ہیں اور ان کے جذبات کو ٹھیس لگا رہے ہیں۔

امریکی مخالف قوتیں پاکستان میں ختم ہو کر رہ گئی ہیں ملک کی بڑی پارٹیاں امریکی اشارے پر رقص کرتی ہیں یہ سیاسی کھیل اس وقت تک جاری رہے گا جب تک ملک میں کوئی صحیح معنی میں انقلابی پارٹی وجود میں نہیں آتی۔ ایسا نہیں کہ عوامی انقلاب برپا کرنے والی قوتیں نابود ہوگئیں مگر ان کو کئی طرف سے مزاحمت کا سامنا ہے۔ جن میں سامراجی قوتیں سرفہرست ہیں جہاں تک موجودہ پاک امریکا بحران کا تعلق ہے یہ کسی خطرناک موڑ لیے بغیر ختم ہوجائے گا۔
Load Next Story