کوئی آنکھیں تو کھولے
اتنا کچھ ہضم کیے جانے کے باوجود اب تک آخر یہ ملک جیسے تیسے چل رہا ہے۔
ہر سمت سے آواز بلند ہورہی ہے کہ ملک کے تمام ادارے تباہ ہوگئے ہیں یا کردیے گئے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ اب سپریم کورٹ نے نام لے کر ادارے تباہ کرنے والوں کی نشاندہی بھی کردی ہے۔ اخبارات پر نظر ڈالیں تو روز کسی نہ کسی ادارے میں اربوں کی کرپشن کی خبریں موجود ہوتی ہیں۔
اگر صرف ایک ہفتے کے اخبارات سے ایسی خبروں کو اکٹھا کرکے ان اربوں کو جمع کیا جائے تو میرا خیال ہے کہ وطن عزیز کے ہر شہری پر جو قرض کا بوجھ ہے وہ تو ان کرپشن کے لوٹے ہوئے روپوں کو وصول کرکے (اگر کرلیا جائے تو) با آسانی ادا کیا جاسکتا ہے اور شاید کچھ ملکی ضروریات پر خرچ کرنے کو بچ بھی جائے یہ تو ایک مختصر مدت کی کرپشن کے بارے میں ہے اور جو برسوں سے جاری ہے ممالک غیر کے بینکوں میں جمع ہے یا جائیداد کی شکل میں موجود ہے اگر وہ سب کسی اللہ آلہ دین کے چراغ کے ذریعے واپس لائی جاسکے تو آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ ہم ایک غربت زدہ پسماندہ ملک نہیں بلکہ کئی ترقی یافتہ ممالک سے زیادہ امیر کبیر ہوجائیں گے۔
اتنا کچھ ہضم کیے جانے کے باوجود اب تک آخر یہ ملک جیسے تیسے چل رہا ہے۔ صرف اتوار اور پیر کے اخبارات کی دو تین سرخیاں پیش کرکے میں اپنے موضوع کی طرف آتی ہوں۔ اتوار 27 اگست: بینظیر انکم سپورٹ پروگرام میں پونے 7 ارب کی مالی بے ضابطگیوں کا انکشاف۔ پیر:28 اگست کے صفحہ اول پر خبر ہے کہ سندھ اسمبلی میں کروڑوں کی کرپشن، سیکڑوں غیر قانونی بھرتیاں۔ خبر کی تفصیل میں کئی معتبر اور اعلیٰ عہدیداران کے نام اس کرپشن میں شامل بتائے گئے ہیں اسی اخبار میں ایک خبر باکس آئٹم کے طور پر دی گئی ہے۔
''پاکستان پوسٹ میں 6 ارب 49 کروڑ کی کرپشن کا انکشاف'' اب آپ صرف ان تین خبروں کا میزانیہ لگائیں تو 14 ارب 32 کروڑ کی خطیر رقم بنتی ہے۔ (سندھ اسمبلی کے فنڈ میں 85 کروڑ خورد برد ہوئے) یہ تو معمولی کیسز ہیں جب کہ ہر صوبے کے ہر شعبے میں جو بڑے بڑے کرپشن سامنے آچکے ہیں ان کا تو یہاں ذکر ہی نہیں۔ اس پر ہمارے سابق معصوم وزیراعظم ہر کسی سے پوچھتے پھررہے ہیں کہ آخر مجھے کیوں نکالا اور سابق صدر اپنی حکمت عملی سے کلین چٹ لے کر خود کو واقعی دودھ کا دھلا سمجھ رہے ہیں۔ عوام سب کچھ جان کر انگشت بدنداں ہیں۔ لہٰذا یہ بھی ادارے تباہ ہونے کی اعلیٰ مثال ہی کہی جاسکتی ہے۔
ملکی ادارے تباہ ہونے کا مطلب ملک تباہ ہونا ہی ہے اور جو ہورہا ہے۔ مگر ان سب اداروں میں جس ادارے کی تباہی سب سے اہم ہے وہ ہے تعلیمی ادارہ۔ کسی قوم کو برباد کرنا ہو تو اس کے نظام تعلیم کو برباد کردو'' آج ہمارے دانشور، تجزیہ نگار طرح طرح سے نظام تعلیم کی بربادی پر لکھ اور بول رہے ہیں مگر افسوس کے عنانِ حکومت کبھی دانشوروں، تعلیم یافتہ افراد کے ہاتھ میں آئی ہی نہیں حکومت بظاہر کسی بھی جماعت کی ہو اس کی پشت پر روایتی قبائلی نظام کے پروردہ دقیانوسی خیالات کے حامل افراد یعنی جاگیردار، وڈیرے ہی رہتے ہیں جو پوری حکومتی مشینری کو اپنے شکنجے میں جکڑے رہتے ہیں۔
ملکی ترقی کی بنیادی یعنی تعلیمی ترقی پر کسی نے کبھی توجہ ہی نہ دی جس ملک میں خود رو پودوں کی طرح نجی شعبے میں مختلف ادارے، تنظیمیں، این جی اوز پروان چڑھتی رہیں اور سب حکومتی نگرانی یا کسی ضابطۂ اخلاق سے مبرا ہوں تو وہاں تو من مانی ہی ہوتی رہے گی۔ ان اداروں کو فروغ دینے والے ملکی مفاد کے بجائے ذاتی مفاد ہی کو پیش نظر رکھیںگے ورنہ ایک پرائمری اسکول کھولنے کے بعد محض آٹھ دس سال میں شہر کے ہر علاقے میں ابتدائی سے لے کر اے لیول تک کے نیٹ ورک وجود میں آجانا کسی معجزے سے کم تو نہیں۔
افسوس تو اس بات کا ہے کہ 70 برس میں کوئی ایک بھی سربراہ حکومت ایسا نہ آیا جو نظام تعلیم پر بھرپور توجہ دیتا نجی شعبہ اقربا پروری کے باعث دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرتا چلا گیا۔ سرکاری تعلیمی اداروں کو قصداً نظر انداز کیا گیا تاکہ غریبوں کے بچے تعلیمی میدان میں صاحبان اقتدار کے بچوں سے آگے نہ نکل جائیں۔
ہم پہلے بھی یہ لکھتے اور محسوس کرتے رہے ہیں کہ لکھنے والوں کی تحریریں صاحبان بست و کشاد کی نظروں سے یا تو گزرتی ہی نہیں یا گزرنے نہیں دی جاتیں۔ اصل بات یہ ہے کہ جب تعلیم سرکار کی زیر سرپرستی تھی (جگہ جگہ نجی تعلیمی ادارے وجود میں نہیں آئے تھے تو معیار تعلیم آج کے مقابلے میں کہیں بہتر تھا اور سستا بھی۔ ان سرکاری تعلیمی اداروں میں محب وطن علمی شخصیات طلبہ کو زیور علم سے نہ صرف آراستہ کرتی تھیں بلکہ حقیقی طور پر انسان اور بہترین شہری بھی بناتی تھیں۔
اب اگرچہ وہ لوگ خیال و خواب ہوئے جو تدریس کو فرض سمجھ کر ادا کرتے تھے ان کے پڑھائے طلبہ بڑے بڑے کارنامہ انجام دیتے تھے مہذب اور احترام انسانیت کا اعلیٰ نمونہ ہوتے تھے مگر اب بھی چند ایک زیب داستان کے لیے الحمدﷲ موجود ہیں خدا قوم کو ان سے تادیر فیضیاب کرے۔ آمین۔
کیا اہم محترم پیزادہ قاسم صاحب کی شخصیت سے اندازہ نہیں لگاسکتے کہ وہ جیکب لائن کے سرکاری اسکول کے طالب علم رہے ہیں، بہترین سائنس دان، عالمی شہرت یافتہ شاعر، مہذب اور رواداری میں اپنی مثال آپ۔ آج کا طالب علم اچھے گھرانے سے تعلق کے باوجود اتنا مہذب اور نکھری ہوئی شخصیت اور انداز فکر کا حامل مشکل ہی سے ملتا ہے مگر کیوں؟ کوئی اس سوال کا جواب تلاش کرے۔ لوگ کوشش کرتے ہیں مگر پھر یہی بات دہرانا پڑتی ہے کہ اس طرف کوئی توجہ ہی نہیں دے رہا۔ آپ لکھتے رہتے مگر کسی کے کان پر جوں تک رینگتی۔
پیر 28 اگست کو ادارتی صفحات پر بیک وقت تین کالم موجود تعلیمی صورتحال سے متعلق لکھے گئے تینوں میں موجودہ بے مہار نظام تعلیم خصوصاً نجی اداروں کی بد عنوانیوں پر روشنی ڈالی گئی ہے محترم عبدالرحمان منگریو نے تعلیم برائے فروخت کے عنوان سے تعلیم کو دانستہ کاروبار بنانے کی بھرپور وضاحت کی۔ دوسرا کالم ڈاکٹر نوید انصاری صاحب نے ''ماڈرن ازم اور تعلیم کا بوجھ'' کے عنوان سے لکھ کر خود والدین کے منفی رویے یا مجبوری اور احساس کمتری کو واضح کرتے ہوئے نجی اداروں کے مالکان کا ان حالات سے فائدہ اٹھانے کی روشن کا پردہ چاک کیا ہے۔
تیسرا کالم محترمہ ثناء غوری کا بعنوان ''تعلیم کے نام پر ناقص مال کی فروخت'' میں یہ واضح کیا ہے کہ یہ نام نہاد اعلیٰ تعلیمی ادارے (جامعات) والدین کو کنگال کرنے، ان کے خوابوں کو چکنا چور کرتے ہوئے بھی کس قدر غیر معیاری تعلیم فراہم کررہے ہیں۔ اونچی مکان پھیکا پکوان کے مصداق والدین ان ہی دکانوں سے اپنے بچوں کا مستقبل وابستہ کررہے ہیں۔ یہ تینوں کالم ہماری اور ہمارے صاحبان اقتدار اور تعلیمی ترقی کے ذمے داران کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہیں مگر شرط یہ ہے کہ کوئی آنکھیں کھولنے پر آمادہ تو ہو۔
اگر صرف ایک ہفتے کے اخبارات سے ایسی خبروں کو اکٹھا کرکے ان اربوں کو جمع کیا جائے تو میرا خیال ہے کہ وطن عزیز کے ہر شہری پر جو قرض کا بوجھ ہے وہ تو ان کرپشن کے لوٹے ہوئے روپوں کو وصول کرکے (اگر کرلیا جائے تو) با آسانی ادا کیا جاسکتا ہے اور شاید کچھ ملکی ضروریات پر خرچ کرنے کو بچ بھی جائے یہ تو ایک مختصر مدت کی کرپشن کے بارے میں ہے اور جو برسوں سے جاری ہے ممالک غیر کے بینکوں میں جمع ہے یا جائیداد کی شکل میں موجود ہے اگر وہ سب کسی اللہ آلہ دین کے چراغ کے ذریعے واپس لائی جاسکے تو آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ ہم ایک غربت زدہ پسماندہ ملک نہیں بلکہ کئی ترقی یافتہ ممالک سے زیادہ امیر کبیر ہوجائیں گے۔
اتنا کچھ ہضم کیے جانے کے باوجود اب تک آخر یہ ملک جیسے تیسے چل رہا ہے۔ صرف اتوار اور پیر کے اخبارات کی دو تین سرخیاں پیش کرکے میں اپنے موضوع کی طرف آتی ہوں۔ اتوار 27 اگست: بینظیر انکم سپورٹ پروگرام میں پونے 7 ارب کی مالی بے ضابطگیوں کا انکشاف۔ پیر:28 اگست کے صفحہ اول پر خبر ہے کہ سندھ اسمبلی میں کروڑوں کی کرپشن، سیکڑوں غیر قانونی بھرتیاں۔ خبر کی تفصیل میں کئی معتبر اور اعلیٰ عہدیداران کے نام اس کرپشن میں شامل بتائے گئے ہیں اسی اخبار میں ایک خبر باکس آئٹم کے طور پر دی گئی ہے۔
''پاکستان پوسٹ میں 6 ارب 49 کروڑ کی کرپشن کا انکشاف'' اب آپ صرف ان تین خبروں کا میزانیہ لگائیں تو 14 ارب 32 کروڑ کی خطیر رقم بنتی ہے۔ (سندھ اسمبلی کے فنڈ میں 85 کروڑ خورد برد ہوئے) یہ تو معمولی کیسز ہیں جب کہ ہر صوبے کے ہر شعبے میں جو بڑے بڑے کرپشن سامنے آچکے ہیں ان کا تو یہاں ذکر ہی نہیں۔ اس پر ہمارے سابق معصوم وزیراعظم ہر کسی سے پوچھتے پھررہے ہیں کہ آخر مجھے کیوں نکالا اور سابق صدر اپنی حکمت عملی سے کلین چٹ لے کر خود کو واقعی دودھ کا دھلا سمجھ رہے ہیں۔ عوام سب کچھ جان کر انگشت بدنداں ہیں۔ لہٰذا یہ بھی ادارے تباہ ہونے کی اعلیٰ مثال ہی کہی جاسکتی ہے۔
ملکی ادارے تباہ ہونے کا مطلب ملک تباہ ہونا ہی ہے اور جو ہورہا ہے۔ مگر ان سب اداروں میں جس ادارے کی تباہی سب سے اہم ہے وہ ہے تعلیمی ادارہ۔ کسی قوم کو برباد کرنا ہو تو اس کے نظام تعلیم کو برباد کردو'' آج ہمارے دانشور، تجزیہ نگار طرح طرح سے نظام تعلیم کی بربادی پر لکھ اور بول رہے ہیں مگر افسوس کے عنانِ حکومت کبھی دانشوروں، تعلیم یافتہ افراد کے ہاتھ میں آئی ہی نہیں حکومت بظاہر کسی بھی جماعت کی ہو اس کی پشت پر روایتی قبائلی نظام کے پروردہ دقیانوسی خیالات کے حامل افراد یعنی جاگیردار، وڈیرے ہی رہتے ہیں جو پوری حکومتی مشینری کو اپنے شکنجے میں جکڑے رہتے ہیں۔
ملکی ترقی کی بنیادی یعنی تعلیمی ترقی پر کسی نے کبھی توجہ ہی نہ دی جس ملک میں خود رو پودوں کی طرح نجی شعبے میں مختلف ادارے، تنظیمیں، این جی اوز پروان چڑھتی رہیں اور سب حکومتی نگرانی یا کسی ضابطۂ اخلاق سے مبرا ہوں تو وہاں تو من مانی ہی ہوتی رہے گی۔ ان اداروں کو فروغ دینے والے ملکی مفاد کے بجائے ذاتی مفاد ہی کو پیش نظر رکھیںگے ورنہ ایک پرائمری اسکول کھولنے کے بعد محض آٹھ دس سال میں شہر کے ہر علاقے میں ابتدائی سے لے کر اے لیول تک کے نیٹ ورک وجود میں آجانا کسی معجزے سے کم تو نہیں۔
افسوس تو اس بات کا ہے کہ 70 برس میں کوئی ایک بھی سربراہ حکومت ایسا نہ آیا جو نظام تعلیم پر بھرپور توجہ دیتا نجی شعبہ اقربا پروری کے باعث دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرتا چلا گیا۔ سرکاری تعلیمی اداروں کو قصداً نظر انداز کیا گیا تاکہ غریبوں کے بچے تعلیمی میدان میں صاحبان اقتدار کے بچوں سے آگے نہ نکل جائیں۔
ہم پہلے بھی یہ لکھتے اور محسوس کرتے رہے ہیں کہ لکھنے والوں کی تحریریں صاحبان بست و کشاد کی نظروں سے یا تو گزرتی ہی نہیں یا گزرنے نہیں دی جاتیں۔ اصل بات یہ ہے کہ جب تعلیم سرکار کی زیر سرپرستی تھی (جگہ جگہ نجی تعلیمی ادارے وجود میں نہیں آئے تھے تو معیار تعلیم آج کے مقابلے میں کہیں بہتر تھا اور سستا بھی۔ ان سرکاری تعلیمی اداروں میں محب وطن علمی شخصیات طلبہ کو زیور علم سے نہ صرف آراستہ کرتی تھیں بلکہ حقیقی طور پر انسان اور بہترین شہری بھی بناتی تھیں۔
اب اگرچہ وہ لوگ خیال و خواب ہوئے جو تدریس کو فرض سمجھ کر ادا کرتے تھے ان کے پڑھائے طلبہ بڑے بڑے کارنامہ انجام دیتے تھے مہذب اور احترام انسانیت کا اعلیٰ نمونہ ہوتے تھے مگر اب بھی چند ایک زیب داستان کے لیے الحمدﷲ موجود ہیں خدا قوم کو ان سے تادیر فیضیاب کرے۔ آمین۔
کیا اہم محترم پیزادہ قاسم صاحب کی شخصیت سے اندازہ نہیں لگاسکتے کہ وہ جیکب لائن کے سرکاری اسکول کے طالب علم رہے ہیں، بہترین سائنس دان، عالمی شہرت یافتہ شاعر، مہذب اور رواداری میں اپنی مثال آپ۔ آج کا طالب علم اچھے گھرانے سے تعلق کے باوجود اتنا مہذب اور نکھری ہوئی شخصیت اور انداز فکر کا حامل مشکل ہی سے ملتا ہے مگر کیوں؟ کوئی اس سوال کا جواب تلاش کرے۔ لوگ کوشش کرتے ہیں مگر پھر یہی بات دہرانا پڑتی ہے کہ اس طرف کوئی توجہ ہی نہیں دے رہا۔ آپ لکھتے رہتے مگر کسی کے کان پر جوں تک رینگتی۔
پیر 28 اگست کو ادارتی صفحات پر بیک وقت تین کالم موجود تعلیمی صورتحال سے متعلق لکھے گئے تینوں میں موجودہ بے مہار نظام تعلیم خصوصاً نجی اداروں کی بد عنوانیوں پر روشنی ڈالی گئی ہے محترم عبدالرحمان منگریو نے تعلیم برائے فروخت کے عنوان سے تعلیم کو دانستہ کاروبار بنانے کی بھرپور وضاحت کی۔ دوسرا کالم ڈاکٹر نوید انصاری صاحب نے ''ماڈرن ازم اور تعلیم کا بوجھ'' کے عنوان سے لکھ کر خود والدین کے منفی رویے یا مجبوری اور احساس کمتری کو واضح کرتے ہوئے نجی اداروں کے مالکان کا ان حالات سے فائدہ اٹھانے کی روشن کا پردہ چاک کیا ہے۔
تیسرا کالم محترمہ ثناء غوری کا بعنوان ''تعلیم کے نام پر ناقص مال کی فروخت'' میں یہ واضح کیا ہے کہ یہ نام نہاد اعلیٰ تعلیمی ادارے (جامعات) والدین کو کنگال کرنے، ان کے خوابوں کو چکنا چور کرتے ہوئے بھی کس قدر غیر معیاری تعلیم فراہم کررہے ہیں۔ اونچی مکان پھیکا پکوان کے مصداق والدین ان ہی دکانوں سے اپنے بچوں کا مستقبل وابستہ کررہے ہیں۔ یہ تینوں کالم ہماری اور ہمارے صاحبان اقتدار اور تعلیمی ترقی کے ذمے داران کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہیں مگر شرط یہ ہے کہ کوئی آنکھیں کھولنے پر آمادہ تو ہو۔