جیل کی یادیں جیل کی باتیں
جیل میں خطرے کے سائرن بجنے لگے تھے اور ایمرجنسی کی صورتحال پیدا ہوگئی تھی۔
سینٹرل جیل سکھرکیلیے مشہور ہے کہ یہ رقبے اورگنجائش کے اعتبار سے ایشیا کا سب سے بڑا قیدخانہ ہے۔ مجھے اس میں دو ڈھائی مہینے سی کلاس قیدی بن کر رہنے کا موقعہ 78ء میں منہاج برنا کی زیر قیادت چلائی گئی تحریک آزادی صحافت کے دوران اْس وقت ملا جب ہم نے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ کراچی پریس کلب میں بھوک ہڑتال شروع کرکے رضاکارانہ گرفتاری دی۔ اْس دن جولائی کی 24 تاریخ تھی، میں بھٹو صاحب کے اخبار ہلالِ پاکستان میں بطور سب ایڈیٹر کام کرتا اور لیاری کے علاقے آگرہ تاج کالونی میں رہتا تھا۔ اْس روز میرے چھوٹے بیٹے محمود احمد کی دوسری سالگرہ تھی، اس ْسے کیک کٹوا کر میں سیدھا کلب پہنچا تھا کہ اْس دن گرفتاری دینے والوں کا جو دستہ ترتیب دیا گیا تھا، اْس میں میرا نام پہلے سے شامل تھا۔
کلب کے ٹیرس کو، جو اب سابق سیکریٹری نجیب احمد مرحوم سے منسوب ہے، شامیانہ لگا کر بھوک ہڑتالی کیمپ بنایا گیا تھا جہاں ہر روز نئے ہڑتالی دستے کا اعلان جلسے میں کیا جاتا تھا۔ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس، اْس سے ملحقہ کراچی یونین آف جرنلسٹس اور آل پاکستان نیوز پیپر ایمپلائزکنفیڈریشن چونکہ تحریک میں بھرپور حصہ لے رہی تھیں، اس لیے ان جلسوں میں صحافیوں اور دیگر اخباری ملازمین کے علاوہ سیاسی کارکن اور طلبہ و مزدور تنظیموں سے وابستہ افراد بھی بڑی تعداد میں شریک ہوا کرتے تھے۔
جنرل ضیا الحق کا مارشل لا جوبن پر تھا، جو صحافیوں کو درختوں پر الٹا لٹکانے کی اعلانیہ دھمکیاں دیا کرتا تھا۔ مساوات اورکچھ دوسرے اخبارات بندکیے جا چکے تھے جبکہ سخت سنسرشپ کی پابندیاں پہلے سے عائد تھیں۔ ان آمرانہ اقدامات کو چیلنج کرنے کیلیے ملک بھرکے صحافی اور دیگر اخباری کارکن اپنے کیریئر اور روزگارکو داؤ پر لگا کر میدان میں نکل آئے۔
جیل بھرو تحریک کا آغاز بھوک ہڑتالیوں کے جس پہلے دستے کی گرفتاری سے ہوا، اس کی قیادت برنا صاحب خود کررہے تھے، یوں شروع سے ہی تحریک کے روح رواں دراصل نثارعثمانی مرحوم اور احفاظ الرحمٰن صاحب تھے جنھیں بالترتیب لاہور اورکراچی میں زیر زمیں رہ کر انتہائی مشکل حالات میں قیادت کی ذمے داریاں نبھانی پڑرہی تھیں اور جو ان دونوں اصحاب نے خوب نبھائیں۔
طلبا ومحنت کش تنظیموں کی شرکت نے تحریک میں گویا نئی روح پھونک دی اورجیلوں میں جگہ کم پڑگئی۔ گرفتاری کے بعد پہلی رات آرٹلری میدان تھانے کے لاک اپ میں گزارنی پڑی جہاں سے علی الصبح ہمیں لانڈھی جیل پہنچا دیا گیا۔ہمیں نہ توکسی عدالت میں پیش کر کے ریمانڈ وغیرہ لینے کی زحمت گوارا کی گئی، نہ ہی جیل بھیجنے کے دوسرے قانونی تقاضے پورے کیے گئے۔ بس ڈپٹی کمشنر کا اتنا لکھا کافی سمجھا گیا کہ اْسے یقین ہے کہ ہمارا آزاد رہنا امنِ عامہ کو خطرے میں ڈالنے کا موجب بن سکتا ہے۔
دراصل آمر ضیاء نے اے کے بروہی اور شریف الدین پیرزادہ جیسے قانونی وآئینی ماہرین کی مدد سے شہریوں کی آزادی سلب کرنے کا ایک سادہ اور سہل ترین طریقہ نکالا تھا، جو میری معلومات کیمطابق اب تک منسوخ یا مسترد نہیں کیا گیا اور بدستور نافذالعمل ہے مگر نہ جانے کیوں ہماری قانون نافذ کرنیوالی ایجنسیاں خصوصاً عدالتیں اس سے استفادہ نہیں کرتیں۔
میں نے خود دیکھا تھا، تحریک کے دوران پہلے ہمیں ایم پی اے ہاسٹل میں قائم جس فوجی عدالت میں پیش کیا جاتا تھا اْس کا میجر رینک کا باوردی جج جو فیصلہ پڑھ کر سناتا تھا، اْس کا مضمون کچھ اس قسم کا ہوتا تھا کہ ''فلاں، فلاں اور فلاں! تم لوگ فلاں فلاں جرائم کے مرتکب ہوئے، تمہیں فردِ جرم پڑھ کر سنائی گئی اور تم لوگوں نے اپنے جرائم کا اعتراف کیا، لہٰذا تم لوگوں میں سے ہر ایک کو مارشل لا ریگولیشن فلاں کے تحت اتنی اتنی مدت کی قید با مشقت اور اتنے اتنے کوڑوں کی سزا سنائی جاتی ہے۔''
میں اْس واقعے کا بھی عینی گواہ ہوں جب ایسا ایک فیصلہ سن کر ہمارے ایک ساتھی نے کہا تھا کہ ہم نے کوئی اعتراف وعتراف نہیں کیا، تمام الزامات جھوٹے ہیں، تو باوردی جج نے اٹھتے ہوئے فرمایا ''میں کچھ نہیں جانتا، فیصلے میں یہی لکھا ہے۔'' لیکن نہیں، اوپر میں نے اس طریقے سے استفادہ نہ کرنے کی جو بات کی ہے وہ شاید پوری طرح درست نہیں ہے۔
بڑے پیمانے پر نہ سہی، استفادہ کیا ضرور جاتا ہے۔ ابھی پاناما گیٹ کیس کا فیصلہ آنے سے چند روز قبل میں نے کہیں پڑھا تھا کہ جے آئی ٹی ممبران سے سپریم کورٹ میں پیش کی جانیوالی رپورٹ پر پڑھے بغیر دستخط لیے جاتے تھے۔ تو خیر، میں آپ سے اپنی جیل کی یادیں شیئر کر رہا تھا۔ تحفظِ امنِ عامہ آرڈیننس (ایم پی او) کے تحت نظر بندی کا پہلا مہینہ ہم نے لانڈھی جیل،کراچی میں جبکہ دو ماہ سے زائد باقی عرصہ سینٹرل جیل سکھر میں گزارا۔ ہماری گرفتاری اور نظربندی کی وجوہات پر مبنی چارج شیٹ بھی ہم سے دوران اسیری جیل میں وصول کروائی گئی تھی جس میں ہر مہینے کے اختتام پر مزید ایک مہینے کی توسیع کر دی جاتی تھی۔ لانڈھی جیل کی ایک پوری بیرک پر ہمارا راج تھا، جبکہ سکھر جیل کے اسپیشل اور پولیٹیکل وارڈ دونوں ہماری تحویل میں تھے جہاں تعداد زیادہ ہونے کے باعث ہمیں دو حصوں میں تقسیم کرکے رکھا گیا تھا۔
برنا صاحب اور ان کے ساتھ گرفتاری دینے والے دوسرے ساتھیوں کو، جن میں ہمارے ہلال پاکستان ورکرز یونین کے جنرل سیکریٹری عرس ملاح بھی شامل تھے، اے کلاس دی گئی تھی جبکہ ہم سب باقی لوگوں نے محض اس لیے بی کلاس لینے سے انکار کردیا تھا کہ جیل حکام ہماری تحریک کی حمایت میں گرفتاریاں دینے والے طلبا، مزدوروں اور ہاری تحریک سے وابستہ کسانوں کو ہم سے الگ کرکے سی کلاس میں رکھنا چاہتے تھے، جس سے ظاہر ہے ان میں بد دلی پھیلتی لہذا ہم سب نے ایک ساتھ سی کلاس کے قیدی بن کر اسیری کے مزے لْوٹے۔ سکھر جیل کی لائبریری نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا جس میں تاریخ، آزادی کی تحریکوں اور ان کے قائدین، عالمی رہنماؤں، سیاسیات اور مشہور شخصیات پر کتابوں کا بہت بڑا ذخیرہ موجود تھا۔
معلوم کرنے پر لائبریرین نے بتایا کہ یہ کتابیں جیل کے فنڈ سے نہیں خریدی گئیں بلکہ برٹش راج کے زمانے سے یہاں قیدی بن کر آنیوالے سیاسی رہنما وقت گزاری کیلیے یہ کتابیں اپنے ساتھ لاتے تھے اور جاتے وقت جیل کی لائبریری کو گفٹ کر جاتے تھے۔ اْس نے ایک شیلف میں ترتیب سے رکھی ہوئی کتابوں کی طرف اشارہ کرکے بتایا کہ یہ بھٹو صاحب لائے تھے، جب اپنی حکومت کا تختہ الٹے جانے کے بعد انھیں کچھ عرصہ یہاں قید رکھا گیا تھا۔ اسی طرح مہاتما گاندھی، پنڈت جواہر لعل نہرو اور بر صغیر کے درجنوں دیگر سیاسی رہنماؤں کی کتابیں بھی وہاں موجود تھیں۔
یہاں آپکو یہ نہ بتانا میرے خیال میں زیادتی ہوگی کہ کارل مارکس کی شہرہ آفاق تصنیف داس کیپیٹال کا اردو ترجمہ '' سرمایہ'' میں نے پہلی بار وہیں پڑھا تھا جو جنگ عظیم دوئم سے بھی پہلے لکھنؤ میں چھپا تھا اور جو مولانا حسرت موہانی اپنے ساتھ لائے تھے۔
کتاب کے آخری صفحے پر ان کی یہ دستخط شدہ تحریر بھی موجود تھی کہ ''میرے خیال میں کمیونسٹ ہونے کیلیے کسی کا مسلمان ہونا ضروری نہیں، لیکن صحیح مسلمان ہونے کیلیے اْس کا کمیونسٹ ہونا بہت ضروری ہے۔'' میں سکھر جیل کے پولیٹیکل وارڈ کے صحن میں ایستادہ وہ درخت بھی نہیں بھولا جو متحدہ ہندوستان کے نامور مشاہیر نے اپنے ہاتھوں سے لگائے تھے اور جن کے تنوں پر ان کے ناموں کی تختیاں آویزاں تھیں۔
اسی سکھر جیل میں جب ہم دو تین ساتھی پولیٹیکل وارڈ کی عقبی دیوار کے ساتھ بہنے والے دریائے سندھ کی موجوں کا نظارہ کرنے درختوں پر چڑھے تھے تو جیل میں خطرے کے سائرن بجنے لگے تھے اور ایمرجنسی کی صورتحال پیدا ہوگئی تھی۔ تب پتہ چلا کہ جیل میں بیرک کی چھت یا درخت پر چڑھنا بغاوت کے زمرے میں آتا ہے اور ایسا کرنے والے قیدیوں کو دیکھتے ہی گولی مار دی جاتی ہے۔ جیل سپرنٹنڈنٹ نورالٰہی شیخ نے ہمیں یہ بات کچھ اس انداز میں بتائی تھی جیسے زندہ چھوڑ کر اْس نے ہماری آنے والی نسلوں پر احسان کیا تھا۔
کلب کے ٹیرس کو، جو اب سابق سیکریٹری نجیب احمد مرحوم سے منسوب ہے، شامیانہ لگا کر بھوک ہڑتالی کیمپ بنایا گیا تھا جہاں ہر روز نئے ہڑتالی دستے کا اعلان جلسے میں کیا جاتا تھا۔ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس، اْس سے ملحقہ کراچی یونین آف جرنلسٹس اور آل پاکستان نیوز پیپر ایمپلائزکنفیڈریشن چونکہ تحریک میں بھرپور حصہ لے رہی تھیں، اس لیے ان جلسوں میں صحافیوں اور دیگر اخباری ملازمین کے علاوہ سیاسی کارکن اور طلبہ و مزدور تنظیموں سے وابستہ افراد بھی بڑی تعداد میں شریک ہوا کرتے تھے۔
جنرل ضیا الحق کا مارشل لا جوبن پر تھا، جو صحافیوں کو درختوں پر الٹا لٹکانے کی اعلانیہ دھمکیاں دیا کرتا تھا۔ مساوات اورکچھ دوسرے اخبارات بندکیے جا چکے تھے جبکہ سخت سنسرشپ کی پابندیاں پہلے سے عائد تھیں۔ ان آمرانہ اقدامات کو چیلنج کرنے کیلیے ملک بھرکے صحافی اور دیگر اخباری کارکن اپنے کیریئر اور روزگارکو داؤ پر لگا کر میدان میں نکل آئے۔
جیل بھرو تحریک کا آغاز بھوک ہڑتالیوں کے جس پہلے دستے کی گرفتاری سے ہوا، اس کی قیادت برنا صاحب خود کررہے تھے، یوں شروع سے ہی تحریک کے روح رواں دراصل نثارعثمانی مرحوم اور احفاظ الرحمٰن صاحب تھے جنھیں بالترتیب لاہور اورکراچی میں زیر زمیں رہ کر انتہائی مشکل حالات میں قیادت کی ذمے داریاں نبھانی پڑرہی تھیں اور جو ان دونوں اصحاب نے خوب نبھائیں۔
طلبا ومحنت کش تنظیموں کی شرکت نے تحریک میں گویا نئی روح پھونک دی اورجیلوں میں جگہ کم پڑگئی۔ گرفتاری کے بعد پہلی رات آرٹلری میدان تھانے کے لاک اپ میں گزارنی پڑی جہاں سے علی الصبح ہمیں لانڈھی جیل پہنچا دیا گیا۔ہمیں نہ توکسی عدالت میں پیش کر کے ریمانڈ وغیرہ لینے کی زحمت گوارا کی گئی، نہ ہی جیل بھیجنے کے دوسرے قانونی تقاضے پورے کیے گئے۔ بس ڈپٹی کمشنر کا اتنا لکھا کافی سمجھا گیا کہ اْسے یقین ہے کہ ہمارا آزاد رہنا امنِ عامہ کو خطرے میں ڈالنے کا موجب بن سکتا ہے۔
دراصل آمر ضیاء نے اے کے بروہی اور شریف الدین پیرزادہ جیسے قانونی وآئینی ماہرین کی مدد سے شہریوں کی آزادی سلب کرنے کا ایک سادہ اور سہل ترین طریقہ نکالا تھا، جو میری معلومات کیمطابق اب تک منسوخ یا مسترد نہیں کیا گیا اور بدستور نافذالعمل ہے مگر نہ جانے کیوں ہماری قانون نافذ کرنیوالی ایجنسیاں خصوصاً عدالتیں اس سے استفادہ نہیں کرتیں۔
میں نے خود دیکھا تھا، تحریک کے دوران پہلے ہمیں ایم پی اے ہاسٹل میں قائم جس فوجی عدالت میں پیش کیا جاتا تھا اْس کا میجر رینک کا باوردی جج جو فیصلہ پڑھ کر سناتا تھا، اْس کا مضمون کچھ اس قسم کا ہوتا تھا کہ ''فلاں، فلاں اور فلاں! تم لوگ فلاں فلاں جرائم کے مرتکب ہوئے، تمہیں فردِ جرم پڑھ کر سنائی گئی اور تم لوگوں نے اپنے جرائم کا اعتراف کیا، لہٰذا تم لوگوں میں سے ہر ایک کو مارشل لا ریگولیشن فلاں کے تحت اتنی اتنی مدت کی قید با مشقت اور اتنے اتنے کوڑوں کی سزا سنائی جاتی ہے۔''
میں اْس واقعے کا بھی عینی گواہ ہوں جب ایسا ایک فیصلہ سن کر ہمارے ایک ساتھی نے کہا تھا کہ ہم نے کوئی اعتراف وعتراف نہیں کیا، تمام الزامات جھوٹے ہیں، تو باوردی جج نے اٹھتے ہوئے فرمایا ''میں کچھ نہیں جانتا، فیصلے میں یہی لکھا ہے۔'' لیکن نہیں، اوپر میں نے اس طریقے سے استفادہ نہ کرنے کی جو بات کی ہے وہ شاید پوری طرح درست نہیں ہے۔
بڑے پیمانے پر نہ سہی، استفادہ کیا ضرور جاتا ہے۔ ابھی پاناما گیٹ کیس کا فیصلہ آنے سے چند روز قبل میں نے کہیں پڑھا تھا کہ جے آئی ٹی ممبران سے سپریم کورٹ میں پیش کی جانیوالی رپورٹ پر پڑھے بغیر دستخط لیے جاتے تھے۔ تو خیر، میں آپ سے اپنی جیل کی یادیں شیئر کر رہا تھا۔ تحفظِ امنِ عامہ آرڈیننس (ایم پی او) کے تحت نظر بندی کا پہلا مہینہ ہم نے لانڈھی جیل،کراچی میں جبکہ دو ماہ سے زائد باقی عرصہ سینٹرل جیل سکھر میں گزارا۔ ہماری گرفتاری اور نظربندی کی وجوہات پر مبنی چارج شیٹ بھی ہم سے دوران اسیری جیل میں وصول کروائی گئی تھی جس میں ہر مہینے کے اختتام پر مزید ایک مہینے کی توسیع کر دی جاتی تھی۔ لانڈھی جیل کی ایک پوری بیرک پر ہمارا راج تھا، جبکہ سکھر جیل کے اسپیشل اور پولیٹیکل وارڈ دونوں ہماری تحویل میں تھے جہاں تعداد زیادہ ہونے کے باعث ہمیں دو حصوں میں تقسیم کرکے رکھا گیا تھا۔
برنا صاحب اور ان کے ساتھ گرفتاری دینے والے دوسرے ساتھیوں کو، جن میں ہمارے ہلال پاکستان ورکرز یونین کے جنرل سیکریٹری عرس ملاح بھی شامل تھے، اے کلاس دی گئی تھی جبکہ ہم سب باقی لوگوں نے محض اس لیے بی کلاس لینے سے انکار کردیا تھا کہ جیل حکام ہماری تحریک کی حمایت میں گرفتاریاں دینے والے طلبا، مزدوروں اور ہاری تحریک سے وابستہ کسانوں کو ہم سے الگ کرکے سی کلاس میں رکھنا چاہتے تھے، جس سے ظاہر ہے ان میں بد دلی پھیلتی لہذا ہم سب نے ایک ساتھ سی کلاس کے قیدی بن کر اسیری کے مزے لْوٹے۔ سکھر جیل کی لائبریری نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا جس میں تاریخ، آزادی کی تحریکوں اور ان کے قائدین، عالمی رہنماؤں، سیاسیات اور مشہور شخصیات پر کتابوں کا بہت بڑا ذخیرہ موجود تھا۔
معلوم کرنے پر لائبریرین نے بتایا کہ یہ کتابیں جیل کے فنڈ سے نہیں خریدی گئیں بلکہ برٹش راج کے زمانے سے یہاں قیدی بن کر آنیوالے سیاسی رہنما وقت گزاری کیلیے یہ کتابیں اپنے ساتھ لاتے تھے اور جاتے وقت جیل کی لائبریری کو گفٹ کر جاتے تھے۔ اْس نے ایک شیلف میں ترتیب سے رکھی ہوئی کتابوں کی طرف اشارہ کرکے بتایا کہ یہ بھٹو صاحب لائے تھے، جب اپنی حکومت کا تختہ الٹے جانے کے بعد انھیں کچھ عرصہ یہاں قید رکھا گیا تھا۔ اسی طرح مہاتما گاندھی، پنڈت جواہر لعل نہرو اور بر صغیر کے درجنوں دیگر سیاسی رہنماؤں کی کتابیں بھی وہاں موجود تھیں۔
یہاں آپکو یہ نہ بتانا میرے خیال میں زیادتی ہوگی کہ کارل مارکس کی شہرہ آفاق تصنیف داس کیپیٹال کا اردو ترجمہ '' سرمایہ'' میں نے پہلی بار وہیں پڑھا تھا جو جنگ عظیم دوئم سے بھی پہلے لکھنؤ میں چھپا تھا اور جو مولانا حسرت موہانی اپنے ساتھ لائے تھے۔
کتاب کے آخری صفحے پر ان کی یہ دستخط شدہ تحریر بھی موجود تھی کہ ''میرے خیال میں کمیونسٹ ہونے کیلیے کسی کا مسلمان ہونا ضروری نہیں، لیکن صحیح مسلمان ہونے کیلیے اْس کا کمیونسٹ ہونا بہت ضروری ہے۔'' میں سکھر جیل کے پولیٹیکل وارڈ کے صحن میں ایستادہ وہ درخت بھی نہیں بھولا جو متحدہ ہندوستان کے نامور مشاہیر نے اپنے ہاتھوں سے لگائے تھے اور جن کے تنوں پر ان کے ناموں کی تختیاں آویزاں تھیں۔
اسی سکھر جیل میں جب ہم دو تین ساتھی پولیٹیکل وارڈ کی عقبی دیوار کے ساتھ بہنے والے دریائے سندھ کی موجوں کا نظارہ کرنے درختوں پر چڑھے تھے تو جیل میں خطرے کے سائرن بجنے لگے تھے اور ایمرجنسی کی صورتحال پیدا ہوگئی تھی۔ تب پتہ چلا کہ جیل میں بیرک کی چھت یا درخت پر چڑھنا بغاوت کے زمرے میں آتا ہے اور ایسا کرنے والے قیدیوں کو دیکھتے ہی گولی مار دی جاتی ہے۔ جیل سپرنٹنڈنٹ نورالٰہی شیخ نے ہمیں یہ بات کچھ اس انداز میں بتائی تھی جیسے زندہ چھوڑ کر اْس نے ہماری آنے والی نسلوں پر احسان کیا تھا۔