افغانستان سونے کی ’’نئی‘‘ چڑیا
افغانستان کے دورے کرنے سے ہی فین برگ پر منکشف ہوا کہ اس ملک میں بیش بہا معدنیات کی کانیں موجود ہیں۔
JUBAIL, SAUDI ARABIA:
21 اگست کی رات امریکی صدر، ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنے عوام سے خطاب کرتے ہوئے افغانستان میں جاری امریکی جنگ کی نئی پالیسی کا اعلان کیا۔
یہ امریکی تاریخ کی طویل ترین جنگ ہے جس کا انت اب تک نظر نہیں آتا۔ اب تو سیاسی اور عسکری کے علاوہ امریکی حکمران ٹولے کے کاروباری مفادات بھی اس جنگ سے وابستہ ہوچکے۔حیرت انگیز بات یہ کہ پچھلے تین چار برس سے ٹرمپ افغانستان جنگ کے شدید مخالف بن گئے تھے۔ انہوں نے 2013ء میں ٹویٹ کیا تھا ''ہمیں افغانستان سے فوراً نکل جانا چاہیے۔ ہم کب تک وہاں اپنا پیسا ضائع کرتے رہیں گے... اس کے بجائے امریکا کی تعمیر کرو ۔''
اسی طرح 2014ء میں انہوں نے اوباما حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا ''صدر اوباما مزید ایک سال افغانستان میں اپنے فوجی رکھنا چاہتے ہیں حالانکہ شکست ان کا مقدر بن چکی۔'' جب 2016ء میں ٹرمپ نے انتخابی مہم کا آغاز کیا، تو ''سب سے پہلے امریکا'' کا نعرہ لگایا اور امریکی عوام سے وعدہ کیا کہ وہ برسراقتدار آتے ہی افغانستان سے امریکی فوج واپس بلالیں گے۔
مگر 21 اگست کی رات صدر ٹرمپ نہ صرف اپنے سابقہ بیانات فراموش کر بیٹھے بلکہ اپنے ووٹروں سے کیا گیا وعدہ بھی توڑ ڈالا۔ انہوں نے افغان جنگ جاری رکھتے ہوئے مزید چار ہزار فوجی افغانستان بھیجنے کا اعلان کیا اور واپسی کا ٹائم ٹیبل بتانے سے انکار کردیا۔ سوال یہ ہے کہ جناب ٹرمپ نے گرگٹ کے مانند رنگ کیوں بدل لیا؟ اس کا جواب موصوف کے ذاتی مفادات میں بھی پوشیدہ ہے۔ اسی جگہ سٹیوفین برگ (steve feinberg)کی پُراسرار شخصیت نمودار ہوتی ہے۔
ستاون سالہ سٹیوفین برگ امریکا کا کھرب پتی سرمایہ کار ہے۔ اس نے صدر ٹرمپ کو انتخابی مہم کے دوران کروڑوں روپے کا چندہ دیا تھا۔ یہی شخص امریکی فوج کو خدمات (سروسز) فراہم کرنے والی نجی کمپنی، ڈائن کورپ انٹرنیشنل کا بھی مالک ہے۔ یہ کمپنی افغانستان میں تعینات امریکی اور نیٹو فوج کو مختلف خدمات فراہم کرتی ہے۔ لہٰذا فین برگ افغانستان آتا جاتا رہتا ہے۔
افغانستان کے دورے کرنے سے ہی فین برگ پر منکشف ہوا کہ اس ملک میں بیش بہا معدنیات کی کانیں موجود ہیں۔ یہ کانیں 2010ء میں امریکی ماہرین ارضیات ہی نے دریافت کی تھیں۔ تب ان کی مالیت کا اندازہ ''ایک ٹریلین ڈالر'' لگایا گیا تھا۔ مگر افغانستان اور امریکی حکومتوں کے باخبر حلقوں کی رو سے اصل مالیت تین ٹریلین ڈالر'' سے زائد ہے۔
افغان معدنیاتی خزانہ سونے، لوہے، لیتھیم، تانبے، کوئلے، یورینیم، قیمتی پتھروں وغیرہ پر مشتمل ہے۔ حال ہی میں رائٹرز کی ایک رپورٹ نے افشا کیا ہے کہ افغانستان ''لیتھیم کا سعودی عرب'' بننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ دور حاضر میں لیتھیم نہایت اہم معدن بن چکا کیونکہ یہ بیٹریوں میں استعمال ہوتا ہے۔ چونکہ دنیا میں الیکٹرک گاڑیوں کا چلن بڑھ رہا ہے لہٰذا لیتھیم مستقبل کا پٹرول بن چکا۔
یہ تمام حقائق سٹیوفین برگ کو معلوم ہوئے تو وہ بھونچکارہ گیا۔ اسے احساس ہوا کہ افغان کانوں پر سرمایہ کاری کی جائے تو وہ آنے والے وقت میں کھربوں ڈالروں میں کھیل سکتا ہے۔ چناں چہ وہ صدر ٹرمپ سے ملا، انہیں افغان معدنیات کی کاروباری اہمیت کے متعلق تفصیل سے بتایا اور ان پر زور دیا کہ افغانستان سے امریکی فوج ہرگزواپس نہ بلائی جائے۔ ویسے بھی یہ عمل وقوع پذیر ہوتا، تو سٹیوفین برگ کی ڈائن کورپ آمدن کے اہم ذریعے سے محروم ہوسکتی تھی۔
اُدھر امریکی جرنیلوں نے بھی صدر ٹرمپ پر دباؤ ڈال رکھا تھا کہ افغانستان سے فوج واپس نہ لائی جائے۔ دراصل یہ ملک پانچ بڑی ایٹمی طاقتوں... روس، چین، بھارت، پاکستان اور ایران کے سنگم پر آباد اور جغرافیائی و تزویراتی طور پر بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ اس ملک میں براجمان رہ کر امریکی فوج اور خفیہ ایجنسی، سی آئی اے پڑوسی ممالک کی سرگرمیوں پر قریبی نظر رکھ سکتی ہے۔ اس لیے امریکی جرنیل افغانستان چھوڑنے کو تیار نہ تھے۔
تیسرا دباؤ امریکا کے بدنام زمانہ اور انتہا پسند سفید فام ٹھیکے دار (کنٹریکٹر) ایرک پرنس نے صدر ٹرمپ پر ڈال رکھا تھا۔ یہ امریکی وزیر تعلیم، بیسٹی ڈیوس کا بھائی ہے۔ اس نے صدر ٹرمپ کو تجویز دی کہ افغانستان میں امریکی جنگ نجی ٹھیکے دار کمپنیوں کے حوالے کردی جائے اور ایک ''وائسرائے'' ان کمپنیوں کی سرگرمیوں کو کنٹرول کرے۔ بدنام زمانہ بلیک واٹر کمپنی کے بانی کی یہ تجویز سٹیوفین برگ کو بھی پسند آئی۔ اگر امریکی فوج اپنی افغان جنگ کنٹریکٹروں کے حوالے کرتی، تو یقینا ڈائن کورپ کی آمدن میں معقول اضافہ ہوجاتا۔
صدر ٹرمپ کو کاروباری اور سرمایہ دار ہونے کے ناتے فین برگ کی یہ تجویز پسند آئی کہ افغانستان کی معدنیاتی دولت سے فائدہ اٹھایا جائے۔ قوم پرست سفید فام ہونے کے باعث صدر ٹرمپ مغربی استعمار کے حکمرانوں کی مخصوص ذہنیت رکھتے ہیں... ان کا خیال ہے کہ امریکا جس ملک پر حملہ کرے اور قبضہ کرلے، وہ اس کے قدرتی وسائل سے فائدہ اٹھانے کا حق رکھتا ہے۔جون 2015ء میں جب صدر ٹرمپ نے آمدہ صدارتی الیکشن لڑنے کا اعلان کیا تو انہوں نے سب سے پہلے قوم پرستی کے پرچارک امریکی ٹی وی چینل، فوکس نیوز کو انٹرویو دیا۔ انٹرویو بل اوریلی نے لیا۔ دوران انٹرویو بل اوریلی نے ٹرمپ سے عراق جنگ کے متعلق سوال پوچھا۔ ٹرمپ کہنے لگے:
''میں عراق پر حملے کا مخالف تھا۔ مگر جب امریکا نے عراق پر قبضہ کرہی لیا، تو اسے چاہیے تھا کہ عراقی تیل سے فائدہ اٹھاتا۔ امریکا وہ تیل فروخت کرکے اربوں ڈالر کماتا اور یوں جنگ کے اخراجات بھی پورے ہوجاتے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایک ملک کے فاتح کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ مفتوحہ علاقے کے قدرتی وسائل سے استفادہ کرنے لگے ۔''
یہ بیان پڑھ کر یہی لگتا ہے کہ ہم اکیسویں صدی نہیں سترہویں اور اٹھارویں صدی کے کسی مغربی حکمران کی باتیں سن رہے ہیں۔ تب مغربی ممالک کی افواج نے ایشیا، افریقہ اور جنوبی امریکا کے ممالک پر یلغار کررکھی تھی اور وہاں کے وسائل لوٹنے میں مصروف تھیں۔ اس زمانے میں ہندوستان ''سونے کی چڑیا'' کہلاتا تھا۔ برطانوی سامراج نے وہاں حملہ کیا اور نجی کنٹریکٹروں (ایسٹ انڈیا کمپنی کے گماشتوں) کی مدد سے سازشوں، جوڑ توڑ اور غداروں کے ذریعے ہندوستان پر قبضہ جمالیا۔ انگریز پھر ہندوستان کے وسائل کی بدولت سپرپاور بن بیٹھے۔
آج صدر ٹرمپ کے نزدیک افغانستان سونے کی چڑیا بن چکا جو معدنیات کی دولت سے مالا مال ہے۔ ان کی سعی ہے کہ امریکی فوج اور کنٹریکٹروں کی مدد سے اس افغان دولت پر قبضہ کرلیا جائے۔ لیکن انصاف، جمہوریت اور انسانی حقوق کا چیمپئن کہلانے والا امریکا اب افغان قدرتی دولت پر کھلم کھلا ڈاکہ نہیں مار سکتا تھا۔ اس لیے صدر ٹرمپ، امریکی فوج کے جرنیل اور آج کی ایسٹ انڈیا کمپنی کے گماشتے مل بیٹھ کر ایسی ترکیب سوچنے لگے جو انہیں سرزمین افغاناں میں قیام کا جواز دے سکے اور پھر وہ افغانوں کی قدرتی دولت ہڑپ کرجائیں۔ آخر انہیں جواز مل ہی گیا...یہ کہ اگر امریکی و نیٹو فوج افغانستان سے رخصت ہوئی، تو القاعدہ اور طالبان کو مستحکم ہونے کا موقع مل جائے گا۔ تب دوبارہ طاقتور ہوکر وہ سرزمین امریکہ پر نائن الیون جیسے حملے کرسکتے ہیں۔
اس جواز میں کچھ صداقت بھی ہے۔ عراقی فوج کے پے در پے حملوں سے عالمی جہاد کی علمبردار جہادی تنظیم، داعش خاصی کمزور ہوچکی۔ لہٰذا القاعدہ کو دوبارہ ابھرنے کا موقع مل گیا۔ افغانستان میں جو جہادی داعش کا حصہ بن گئے تھے، اب وہ پھر القاعدہ یا طالبان میں شامل ہورہے ہیں۔ لہٰذا القاعدہ ازسرنو منظم ہوکر امریکی تنصیبات کو نشانہ بناسکتی ہے۔ مزید براں امریکی خفیہ ایجنسیوں کا دعویٰ ہے کہ القاعدہ کی قیادت افغانستان یا پاکستان میں موجود ہے۔
یہ حقائق اپنی جگہ مگر سوال یہ ہے کہ امریکہ پچھلے سولہ برس سے افغانستان میں طالبان، القاعدہ اور دیگر جہادی تنظیموں سے نبرد آزما ہے مگر انہیں شکست نہیں دے سکا۔ اس دوران لڑائیوں میں امریکی فوج کے 2260 فوجی مارے گئے جبکہ بیس ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔ امریکہ نے افغانستان کی تعمیر نو پر ''714 ارب ڈالر'' خرچ کر ڈالے مگر نتیجہ کیا نکلا؟
آج بھی افغانستان جنگ وجدل کا شکار ہے۔ اس بدقسمت دیس میں پوری ایک نئی نسل ایسی ہے جسے معلوم ہی نہیں کہ امن بھی کسی شے کا نام ہے۔ اس نسل نے صرف برستی گولیاں، بم دھماکے اور خاک و خون میں لت پت اپنے پیاروں یا پرائیوں کی لاشیں دیکھی ہیں۔ جنگ جو امریکی صدر بش نے دنیا والوں اور افغانوں کو جس خوشحال اور ترقی پذیر افغانستان کا خواب دکھایا تھا، وہ بھی شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا۔
افغانستان کو اربوں ڈالر کی جو غیر ملکی امداد ملی، وہ مٹھی بھر حکمران طبقہ ڈکار گیا۔ افغان سیاست داں، جرنیل، سرکاری افسر اور جنگی سردار راتوں رات امیر کبیر ہوگئے جبکہ افغان عوام کی حالت میں ذرہ بھر تبدیلی نہ آئی۔ آج بھی وہ غربت و جہالت کی آغوش میں بنیادی ضروریات سے محروم ہوکر بیچارگی کی زندگی بسر کررہے ہیں۔ اور اب امریکی حکمرانوں کا لالچ اور خود غرضی بدنصیب افغانوں پر بدستور جنگ مسلط رکھنا چاہتی ہے۔
صدر ٹرمپ کی دیدہ دلیری اور احسان فراموشی ملاحظہ فرمائیے کہ افغانستان میں امریکی ناکامی کا ذمے دار انہوں نے پاکستان کو ٹھہرا دیا۔ حالانکہ امریکی حکمران طبقے کی ''دہشت گردی کے خلاف جنگ'' کا حصہ بن کر پاکستان کو نہایت بھاری قیمت چکانا پڑی۔ امریکیوں کا ساتھ دینے پر جہادی پاکستانی حکومت و قوم کے دشمن بن گئے۔ 2004ء کے بعد خودکش حملوں کا جو خوفناک اور خونی سلسلہ شروع ہوا وہ اب تک وقفے وقفے سے جاری رہے۔ ان حملوں میں ہزارہا پاکستانی شہید ہوچکے اور مملکت کو اربوں ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا۔
پاکستانیوں کی عظیم قربانیاں نظر انداز کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے پاکستان پر الزام دھر دیا کہ وہ ''دہشت گردوں'' کو پناہ دیتا اور ان کی حمایت کرتا ہے۔ گویا پاک افواج کی وہ جدوجہد وسعی بھی ملیامیٹ کردی گئی جو گزشتہ دس برس سے جنگجوؤں کے خلاف جاری ہے۔ دراصل امریکی حکمران طبقے کو اپنی ناکامیاں اور کوتاہیاں چھپانے کے لیے قربانی کے بکرے کی تلاش تھی جو انہیں پاکستان کی صورت مل گیا۔
امریکی حکمرانوں نے درحقیقت یوں ایک تیر سے دو شکار کیے۔ اول افغانستان میں اپنی ناکامی انہوں نے پاکستان کے سرمنڈھ دی۔ دوسرے انہیں افغانستان میں قیام کرنے کا ایک اور جواز مل گیا... یہ کہ وہ پاکستان میں چھپے بیٹھے دہشت گردوں کو نشانہ بنانا چاہتے ہیں۔ اس طرح صدر ٹرمپ نے محض ایک تقریر میں پہلو بدل کر اپنے قدیم رفیق و دوست کو مجرم و معتوب بنادیا۔دیکھ لیجیے کہ مفادات کی سیاست اور حکمرانوں کی ہوس انسانوں کو کس قسم کے گرگٹی رنگ دکھاتی ہے۔
امریکی صدر اپنی تقریر میں بھارت پر مائل بہ کرم رہے۔ گو انہوں نے یہ ضرور فرمایا ''بھارت امریکا سے سالانہ اربوں ڈالر (بذریعہ تجارت) حاصل کرتا ہے۔ لہٰذا بھارت کو افغانستان کی تعمیر نو میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے۔'' امریکا ایشیا میں بھارت کو چین کے مقابل کھڑا کرنے کا متمنی ہے۔ امریکی حکمرانوں کی پشت پناہی پاکر ہی بھارتی وزیراعظم نریندر مودی پاکستان کو آنکھیں دکھانے لگا اور بھارتی مسلمانوں کی آزادی سلب کرنے کی مکروہ سرگرمیاں شروع ہوگئیں۔ افغانستان میں امریکا کی پٹھو حکومت کی مدد سے بھارتی خفیہ ایجنٹ پاکستان میں بدامنی و شورش پھیلانے کے بھی ذمے دار سمجھے جاتے ہیں۔
افغان جنگ کے سلسلے میں صدر ٹرمپ کی نئی حکمت عملی کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ القاعدہ اور طالبان کو شکست دینے کی خاطر افغانستان میں مزید چار ہزار فوجی بھیجے جائیں۔ یوں ملک میں امریکی فوجیوں کی کل تعداد تقریباً ساڑھے بارہ ہزار ہوجائے گی۔سوال یہ ہے کہ جب 2011ء میں ایک لاکھ امریکی فوجی طالبان کو شکست نہ دے سکے، تو یہ مختصر فوج کیا فوق البشر طاقتیں رکھتی ہیں جو اب فاتح ٹھہرے گی؟
یہی نکتہ اس امر کی جانب اشارہ کرتا ہے کہ امریکی سیاست داں، کاروباری اور جرنیل اپنے اپنے مفادات پورے کرنے کے تحت افغانستان سے واپس نہیں آنا چاہتے۔ صدر ٹرمپ بہ حیثیت سیاست داں پے در پے غلطیاں کرنے کے باعث امریکا میں شدید تنقید کی زد میں ہیں۔ لہٰذا عوام اور میڈیا کی توجہ اصل مسائل سے ہٹانے کے لیے انہوں نے افغان جنگ کو آڑ بنالیا۔
صدر ٹرمپ کاروباری بھی ہیں۔ لہٰذا ان کی آل اولاد یا دوست احباب افغانستان کی کانوں میں سرمایہ لگا کر بھاری منافع کماسکتے ہیں جبکہ امریکی فوج ایسی مملکت کو ہاتھ سے چھوڑنا نہیں چاہتی جو نہایت جغرافیائی اہمیت کا حامل ہے۔ نیز یہ بھی امکان موجود ہے کہ مستقبل میں ٹرمپ حکومت اپنی افغان جنگ نجی کنٹریکٹروں کے حوالے کر دے جو جلد ہی جدید ایسٹ انڈیا کمپنی قائم کر لیں گے۔اور ایک امریکی وائسرائے افغانستان کا انتظام سبنھال کر وہاں کی قدرتی دولت لوٹنے لگے گا۔
یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ افغانستان میں قیام لامحدود مدت تک بڑھانے سے امریکی حکمران طبقہ کس قسم کے عزائم پورے کرنا چاہتا ہے۔ مگر اس کو سپر پاورز کا قبرستان کہلائے جانے والے دیس کی یہ مشہورکہاوت یاد رکھنی چاہیے: ''باری کج بہ منزل نمی رسد''۔یعنی غلط لادا گیا بوجھ کبھی اپنی منزل تک نہیں پہنچ سکتا۔ امریکی حکمران طبقے نے بھی افغان جنگ کی صورت بھاری بوجھ اپنی کمر پر لاد لیا ہے۔کہیں ایسا نہ ہو کہ روس و چین طالبان کی عسکری مدد کر کے تاریخ کو دہرا دیں ...مگر اس بار دنیا ریاست ہائے متحدہ کے ٹکرے ٹکرے ہونے کا نظارہ کرے گی۔
21 اگست کی رات امریکی صدر، ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنے عوام سے خطاب کرتے ہوئے افغانستان میں جاری امریکی جنگ کی نئی پالیسی کا اعلان کیا۔
یہ امریکی تاریخ کی طویل ترین جنگ ہے جس کا انت اب تک نظر نہیں آتا۔ اب تو سیاسی اور عسکری کے علاوہ امریکی حکمران ٹولے کے کاروباری مفادات بھی اس جنگ سے وابستہ ہوچکے۔حیرت انگیز بات یہ کہ پچھلے تین چار برس سے ٹرمپ افغانستان جنگ کے شدید مخالف بن گئے تھے۔ انہوں نے 2013ء میں ٹویٹ کیا تھا ''ہمیں افغانستان سے فوراً نکل جانا چاہیے۔ ہم کب تک وہاں اپنا پیسا ضائع کرتے رہیں گے... اس کے بجائے امریکا کی تعمیر کرو ۔''
اسی طرح 2014ء میں انہوں نے اوباما حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا ''صدر اوباما مزید ایک سال افغانستان میں اپنے فوجی رکھنا چاہتے ہیں حالانکہ شکست ان کا مقدر بن چکی۔'' جب 2016ء میں ٹرمپ نے انتخابی مہم کا آغاز کیا، تو ''سب سے پہلے امریکا'' کا نعرہ لگایا اور امریکی عوام سے وعدہ کیا کہ وہ برسراقتدار آتے ہی افغانستان سے امریکی فوج واپس بلالیں گے۔
مگر 21 اگست کی رات صدر ٹرمپ نہ صرف اپنے سابقہ بیانات فراموش کر بیٹھے بلکہ اپنے ووٹروں سے کیا گیا وعدہ بھی توڑ ڈالا۔ انہوں نے افغان جنگ جاری رکھتے ہوئے مزید چار ہزار فوجی افغانستان بھیجنے کا اعلان کیا اور واپسی کا ٹائم ٹیبل بتانے سے انکار کردیا۔ سوال یہ ہے کہ جناب ٹرمپ نے گرگٹ کے مانند رنگ کیوں بدل لیا؟ اس کا جواب موصوف کے ذاتی مفادات میں بھی پوشیدہ ہے۔ اسی جگہ سٹیوفین برگ (steve feinberg)کی پُراسرار شخصیت نمودار ہوتی ہے۔
ستاون سالہ سٹیوفین برگ امریکا کا کھرب پتی سرمایہ کار ہے۔ اس نے صدر ٹرمپ کو انتخابی مہم کے دوران کروڑوں روپے کا چندہ دیا تھا۔ یہی شخص امریکی فوج کو خدمات (سروسز) فراہم کرنے والی نجی کمپنی، ڈائن کورپ انٹرنیشنل کا بھی مالک ہے۔ یہ کمپنی افغانستان میں تعینات امریکی اور نیٹو فوج کو مختلف خدمات فراہم کرتی ہے۔ لہٰذا فین برگ افغانستان آتا جاتا رہتا ہے۔
افغانستان کے دورے کرنے سے ہی فین برگ پر منکشف ہوا کہ اس ملک میں بیش بہا معدنیات کی کانیں موجود ہیں۔ یہ کانیں 2010ء میں امریکی ماہرین ارضیات ہی نے دریافت کی تھیں۔ تب ان کی مالیت کا اندازہ ''ایک ٹریلین ڈالر'' لگایا گیا تھا۔ مگر افغانستان اور امریکی حکومتوں کے باخبر حلقوں کی رو سے اصل مالیت تین ٹریلین ڈالر'' سے زائد ہے۔
افغان معدنیاتی خزانہ سونے، لوہے، لیتھیم، تانبے، کوئلے، یورینیم، قیمتی پتھروں وغیرہ پر مشتمل ہے۔ حال ہی میں رائٹرز کی ایک رپورٹ نے افشا کیا ہے کہ افغانستان ''لیتھیم کا سعودی عرب'' بننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ دور حاضر میں لیتھیم نہایت اہم معدن بن چکا کیونکہ یہ بیٹریوں میں استعمال ہوتا ہے۔ چونکہ دنیا میں الیکٹرک گاڑیوں کا چلن بڑھ رہا ہے لہٰذا لیتھیم مستقبل کا پٹرول بن چکا۔
یہ تمام حقائق سٹیوفین برگ کو معلوم ہوئے تو وہ بھونچکارہ گیا۔ اسے احساس ہوا کہ افغان کانوں پر سرمایہ کاری کی جائے تو وہ آنے والے وقت میں کھربوں ڈالروں میں کھیل سکتا ہے۔ چناں چہ وہ صدر ٹرمپ سے ملا، انہیں افغان معدنیات کی کاروباری اہمیت کے متعلق تفصیل سے بتایا اور ان پر زور دیا کہ افغانستان سے امریکی فوج ہرگزواپس نہ بلائی جائے۔ ویسے بھی یہ عمل وقوع پذیر ہوتا، تو سٹیوفین برگ کی ڈائن کورپ آمدن کے اہم ذریعے سے محروم ہوسکتی تھی۔
اُدھر امریکی جرنیلوں نے بھی صدر ٹرمپ پر دباؤ ڈال رکھا تھا کہ افغانستان سے فوج واپس نہ لائی جائے۔ دراصل یہ ملک پانچ بڑی ایٹمی طاقتوں... روس، چین، بھارت، پاکستان اور ایران کے سنگم پر آباد اور جغرافیائی و تزویراتی طور پر بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ اس ملک میں براجمان رہ کر امریکی فوج اور خفیہ ایجنسی، سی آئی اے پڑوسی ممالک کی سرگرمیوں پر قریبی نظر رکھ سکتی ہے۔ اس لیے امریکی جرنیل افغانستان چھوڑنے کو تیار نہ تھے۔
تیسرا دباؤ امریکا کے بدنام زمانہ اور انتہا پسند سفید فام ٹھیکے دار (کنٹریکٹر) ایرک پرنس نے صدر ٹرمپ پر ڈال رکھا تھا۔ یہ امریکی وزیر تعلیم، بیسٹی ڈیوس کا بھائی ہے۔ اس نے صدر ٹرمپ کو تجویز دی کہ افغانستان میں امریکی جنگ نجی ٹھیکے دار کمپنیوں کے حوالے کردی جائے اور ایک ''وائسرائے'' ان کمپنیوں کی سرگرمیوں کو کنٹرول کرے۔ بدنام زمانہ بلیک واٹر کمپنی کے بانی کی یہ تجویز سٹیوفین برگ کو بھی پسند آئی۔ اگر امریکی فوج اپنی افغان جنگ کنٹریکٹروں کے حوالے کرتی، تو یقینا ڈائن کورپ کی آمدن میں معقول اضافہ ہوجاتا۔
صدر ٹرمپ کو کاروباری اور سرمایہ دار ہونے کے ناتے فین برگ کی یہ تجویز پسند آئی کہ افغانستان کی معدنیاتی دولت سے فائدہ اٹھایا جائے۔ قوم پرست سفید فام ہونے کے باعث صدر ٹرمپ مغربی استعمار کے حکمرانوں کی مخصوص ذہنیت رکھتے ہیں... ان کا خیال ہے کہ امریکا جس ملک پر حملہ کرے اور قبضہ کرلے، وہ اس کے قدرتی وسائل سے فائدہ اٹھانے کا حق رکھتا ہے۔جون 2015ء میں جب صدر ٹرمپ نے آمدہ صدارتی الیکشن لڑنے کا اعلان کیا تو انہوں نے سب سے پہلے قوم پرستی کے پرچارک امریکی ٹی وی چینل، فوکس نیوز کو انٹرویو دیا۔ انٹرویو بل اوریلی نے لیا۔ دوران انٹرویو بل اوریلی نے ٹرمپ سے عراق جنگ کے متعلق سوال پوچھا۔ ٹرمپ کہنے لگے:
''میں عراق پر حملے کا مخالف تھا۔ مگر جب امریکا نے عراق پر قبضہ کرہی لیا، تو اسے چاہیے تھا کہ عراقی تیل سے فائدہ اٹھاتا۔ امریکا وہ تیل فروخت کرکے اربوں ڈالر کماتا اور یوں جنگ کے اخراجات بھی پورے ہوجاتے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایک ملک کے فاتح کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ مفتوحہ علاقے کے قدرتی وسائل سے استفادہ کرنے لگے ۔''
یہ بیان پڑھ کر یہی لگتا ہے کہ ہم اکیسویں صدی نہیں سترہویں اور اٹھارویں صدی کے کسی مغربی حکمران کی باتیں سن رہے ہیں۔ تب مغربی ممالک کی افواج نے ایشیا، افریقہ اور جنوبی امریکا کے ممالک پر یلغار کررکھی تھی اور وہاں کے وسائل لوٹنے میں مصروف تھیں۔ اس زمانے میں ہندوستان ''سونے کی چڑیا'' کہلاتا تھا۔ برطانوی سامراج نے وہاں حملہ کیا اور نجی کنٹریکٹروں (ایسٹ انڈیا کمپنی کے گماشتوں) کی مدد سے سازشوں، جوڑ توڑ اور غداروں کے ذریعے ہندوستان پر قبضہ جمالیا۔ انگریز پھر ہندوستان کے وسائل کی بدولت سپرپاور بن بیٹھے۔
آج صدر ٹرمپ کے نزدیک افغانستان سونے کی چڑیا بن چکا جو معدنیات کی دولت سے مالا مال ہے۔ ان کی سعی ہے کہ امریکی فوج اور کنٹریکٹروں کی مدد سے اس افغان دولت پر قبضہ کرلیا جائے۔ لیکن انصاف، جمہوریت اور انسانی حقوق کا چیمپئن کہلانے والا امریکا اب افغان قدرتی دولت پر کھلم کھلا ڈاکہ نہیں مار سکتا تھا۔ اس لیے صدر ٹرمپ، امریکی فوج کے جرنیل اور آج کی ایسٹ انڈیا کمپنی کے گماشتے مل بیٹھ کر ایسی ترکیب سوچنے لگے جو انہیں سرزمین افغاناں میں قیام کا جواز دے سکے اور پھر وہ افغانوں کی قدرتی دولت ہڑپ کرجائیں۔ آخر انہیں جواز مل ہی گیا...یہ کہ اگر امریکی و نیٹو فوج افغانستان سے رخصت ہوئی، تو القاعدہ اور طالبان کو مستحکم ہونے کا موقع مل جائے گا۔ تب دوبارہ طاقتور ہوکر وہ سرزمین امریکہ پر نائن الیون جیسے حملے کرسکتے ہیں۔
اس جواز میں کچھ صداقت بھی ہے۔ عراقی فوج کے پے در پے حملوں سے عالمی جہاد کی علمبردار جہادی تنظیم، داعش خاصی کمزور ہوچکی۔ لہٰذا القاعدہ کو دوبارہ ابھرنے کا موقع مل گیا۔ افغانستان میں جو جہادی داعش کا حصہ بن گئے تھے، اب وہ پھر القاعدہ یا طالبان میں شامل ہورہے ہیں۔ لہٰذا القاعدہ ازسرنو منظم ہوکر امریکی تنصیبات کو نشانہ بناسکتی ہے۔ مزید براں امریکی خفیہ ایجنسیوں کا دعویٰ ہے کہ القاعدہ کی قیادت افغانستان یا پاکستان میں موجود ہے۔
یہ حقائق اپنی جگہ مگر سوال یہ ہے کہ امریکہ پچھلے سولہ برس سے افغانستان میں طالبان، القاعدہ اور دیگر جہادی تنظیموں سے نبرد آزما ہے مگر انہیں شکست نہیں دے سکا۔ اس دوران لڑائیوں میں امریکی فوج کے 2260 فوجی مارے گئے جبکہ بیس ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔ امریکہ نے افغانستان کی تعمیر نو پر ''714 ارب ڈالر'' خرچ کر ڈالے مگر نتیجہ کیا نکلا؟
آج بھی افغانستان جنگ وجدل کا شکار ہے۔ اس بدقسمت دیس میں پوری ایک نئی نسل ایسی ہے جسے معلوم ہی نہیں کہ امن بھی کسی شے کا نام ہے۔ اس نسل نے صرف برستی گولیاں، بم دھماکے اور خاک و خون میں لت پت اپنے پیاروں یا پرائیوں کی لاشیں دیکھی ہیں۔ جنگ جو امریکی صدر بش نے دنیا والوں اور افغانوں کو جس خوشحال اور ترقی پذیر افغانستان کا خواب دکھایا تھا، وہ بھی شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا۔
افغانستان کو اربوں ڈالر کی جو غیر ملکی امداد ملی، وہ مٹھی بھر حکمران طبقہ ڈکار گیا۔ افغان سیاست داں، جرنیل، سرکاری افسر اور جنگی سردار راتوں رات امیر کبیر ہوگئے جبکہ افغان عوام کی حالت میں ذرہ بھر تبدیلی نہ آئی۔ آج بھی وہ غربت و جہالت کی آغوش میں بنیادی ضروریات سے محروم ہوکر بیچارگی کی زندگی بسر کررہے ہیں۔ اور اب امریکی حکمرانوں کا لالچ اور خود غرضی بدنصیب افغانوں پر بدستور جنگ مسلط رکھنا چاہتی ہے۔
صدر ٹرمپ کی دیدہ دلیری اور احسان فراموشی ملاحظہ فرمائیے کہ افغانستان میں امریکی ناکامی کا ذمے دار انہوں نے پاکستان کو ٹھہرا دیا۔ حالانکہ امریکی حکمران طبقے کی ''دہشت گردی کے خلاف جنگ'' کا حصہ بن کر پاکستان کو نہایت بھاری قیمت چکانا پڑی۔ امریکیوں کا ساتھ دینے پر جہادی پاکستانی حکومت و قوم کے دشمن بن گئے۔ 2004ء کے بعد خودکش حملوں کا جو خوفناک اور خونی سلسلہ شروع ہوا وہ اب تک وقفے وقفے سے جاری رہے۔ ان حملوں میں ہزارہا پاکستانی شہید ہوچکے اور مملکت کو اربوں ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا۔
پاکستانیوں کی عظیم قربانیاں نظر انداز کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے پاکستان پر الزام دھر دیا کہ وہ ''دہشت گردوں'' کو پناہ دیتا اور ان کی حمایت کرتا ہے۔ گویا پاک افواج کی وہ جدوجہد وسعی بھی ملیامیٹ کردی گئی جو گزشتہ دس برس سے جنگجوؤں کے خلاف جاری ہے۔ دراصل امریکی حکمران طبقے کو اپنی ناکامیاں اور کوتاہیاں چھپانے کے لیے قربانی کے بکرے کی تلاش تھی جو انہیں پاکستان کی صورت مل گیا۔
امریکی حکمرانوں نے درحقیقت یوں ایک تیر سے دو شکار کیے۔ اول افغانستان میں اپنی ناکامی انہوں نے پاکستان کے سرمنڈھ دی۔ دوسرے انہیں افغانستان میں قیام کرنے کا ایک اور جواز مل گیا... یہ کہ وہ پاکستان میں چھپے بیٹھے دہشت گردوں کو نشانہ بنانا چاہتے ہیں۔ اس طرح صدر ٹرمپ نے محض ایک تقریر میں پہلو بدل کر اپنے قدیم رفیق و دوست کو مجرم و معتوب بنادیا۔دیکھ لیجیے کہ مفادات کی سیاست اور حکمرانوں کی ہوس انسانوں کو کس قسم کے گرگٹی رنگ دکھاتی ہے۔
امریکی صدر اپنی تقریر میں بھارت پر مائل بہ کرم رہے۔ گو انہوں نے یہ ضرور فرمایا ''بھارت امریکا سے سالانہ اربوں ڈالر (بذریعہ تجارت) حاصل کرتا ہے۔ لہٰذا بھارت کو افغانستان کی تعمیر نو میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے۔'' امریکا ایشیا میں بھارت کو چین کے مقابل کھڑا کرنے کا متمنی ہے۔ امریکی حکمرانوں کی پشت پناہی پاکر ہی بھارتی وزیراعظم نریندر مودی پاکستان کو آنکھیں دکھانے لگا اور بھارتی مسلمانوں کی آزادی سلب کرنے کی مکروہ سرگرمیاں شروع ہوگئیں۔ افغانستان میں امریکا کی پٹھو حکومت کی مدد سے بھارتی خفیہ ایجنٹ پاکستان میں بدامنی و شورش پھیلانے کے بھی ذمے دار سمجھے جاتے ہیں۔
افغان جنگ کے سلسلے میں صدر ٹرمپ کی نئی حکمت عملی کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ القاعدہ اور طالبان کو شکست دینے کی خاطر افغانستان میں مزید چار ہزار فوجی بھیجے جائیں۔ یوں ملک میں امریکی فوجیوں کی کل تعداد تقریباً ساڑھے بارہ ہزار ہوجائے گی۔سوال یہ ہے کہ جب 2011ء میں ایک لاکھ امریکی فوجی طالبان کو شکست نہ دے سکے، تو یہ مختصر فوج کیا فوق البشر طاقتیں رکھتی ہیں جو اب فاتح ٹھہرے گی؟
یہی نکتہ اس امر کی جانب اشارہ کرتا ہے کہ امریکی سیاست داں، کاروباری اور جرنیل اپنے اپنے مفادات پورے کرنے کے تحت افغانستان سے واپس نہیں آنا چاہتے۔ صدر ٹرمپ بہ حیثیت سیاست داں پے در پے غلطیاں کرنے کے باعث امریکا میں شدید تنقید کی زد میں ہیں۔ لہٰذا عوام اور میڈیا کی توجہ اصل مسائل سے ہٹانے کے لیے انہوں نے افغان جنگ کو آڑ بنالیا۔
صدر ٹرمپ کاروباری بھی ہیں۔ لہٰذا ان کی آل اولاد یا دوست احباب افغانستان کی کانوں میں سرمایہ لگا کر بھاری منافع کماسکتے ہیں جبکہ امریکی فوج ایسی مملکت کو ہاتھ سے چھوڑنا نہیں چاہتی جو نہایت جغرافیائی اہمیت کا حامل ہے۔ نیز یہ بھی امکان موجود ہے کہ مستقبل میں ٹرمپ حکومت اپنی افغان جنگ نجی کنٹریکٹروں کے حوالے کر دے جو جلد ہی جدید ایسٹ انڈیا کمپنی قائم کر لیں گے۔اور ایک امریکی وائسرائے افغانستان کا انتظام سبنھال کر وہاں کی قدرتی دولت لوٹنے لگے گا۔
یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ افغانستان میں قیام لامحدود مدت تک بڑھانے سے امریکی حکمران طبقہ کس قسم کے عزائم پورے کرنا چاہتا ہے۔ مگر اس کو سپر پاورز کا قبرستان کہلائے جانے والے دیس کی یہ مشہورکہاوت یاد رکھنی چاہیے: ''باری کج بہ منزل نمی رسد''۔یعنی غلط لادا گیا بوجھ کبھی اپنی منزل تک نہیں پہنچ سکتا۔ امریکی حکمران طبقے نے بھی افغان جنگ کی صورت بھاری بوجھ اپنی کمر پر لاد لیا ہے۔کہیں ایسا نہ ہو کہ روس و چین طالبان کی عسکری مدد کر کے تاریخ کو دہرا دیں ...مگر اس بار دنیا ریاست ہائے متحدہ کے ٹکرے ٹکرے ہونے کا نظارہ کرے گی۔