ایوان صدر میں اتحادیوں کا اجلاس قانون سازی کے حق پر سمجھوتہ نہیں ہوگا
وزارت قانون نے نئے بل پرکام شروع کردیا،8اگست سے قبل منظور کرایا جائیگا، نجی ٹی وی
پیپلزپارٹی اور اس کی اتحادی جماعتوں نے توہین عدالت کا نیا قانون لانے کا فیصلہ کرلیا،عدالتی فیصلے کو پارلیمنٹ میں زیر بحث لانے کے ساتھ ساتھ اس پر نظرثانی کی اپیل بھی دائر کیے جانے کا امکان ہے، تفصیلات کے مطابق اتحادی جماعتوں کا اہم اجلاس صدر آصف علی زرداری اور وزیراعظم راجا پرویز اشرف کی زیرصدارت ایوان صدر میں ہوا جس میں توہین عدالت کے قانون کو سپریم کورٹ کی جانب سے کالعدم قرار دینے کے فیصلے اور موجودہ سیاسی صورتحال پر غورکیاگیا۔
ذرائع کاکہناہے کہ حکومت نے وزارت قانون کو توہین عدالت قانون میں خامیوں کا ازسرنو جائزہ لیکر نیا مسودہ تیار کرنے کی ہدایت کی ہے،اجلاس میںشریک تین سیاسی جماعتوں کے نمائندوں نے دعویٰ کیا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پرنظرثانی کی اپیل دائر کی جائے گی جبکہ اتحادی جماعتوں نے صدر کو عدالتی فیصلے پر پارلیمنٹ میں بحث کرنے کا بھی مشورہ دیا ہے، اتحادی جماعتوں اور پیپلزپارٹی نے اس بات کا اعادہ کیا کہ پارلیمنٹ کی بالادستی اور قانون سازی کے حق پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔
ذرائع کے مطابق اجلاس میں لاہور ہائیکورٹ کی صدرکے دو عہدوں سے متعلق دی گئی ڈیڈلائن پر بھی تبادلہ خیال ہوا،اجلاس میں مسلم لیگ (ق) کوپنجاب میں سیاسی تبدیلی کیلیے فری ہینڈ دیا گیا تاکہ وہ مسلم لیگ ن کے ناراض ارکان کو ساتھ ملانے سمیت پنجاب میں ٹھوس حکمت عملی مرتب کر سکے، اتحادی جماعتوں کے اجلاس میں بلوچستان کی صورتحال کے حوالے سے کابینہ کی ذیلی کمیٹی کی سفارشات پر مکمل عملدرآمد کرانے کا بھی فیصلہ کیا گیا۔
صدارتی ترجمان کے مطابق اجلاس میں وزیراعظم راجا پرویز اشرف نے اتحادی جماعتوں کو توانائی کے بحران پر بریفنگ دی، صدر نے شمسی توانائی کو فروغ دینے کیلیے سولر پینل کی درآمد پر زیرو ڈیوٹی عائد کرنے کے فیصلے پر عملدرآمد کرنے اور چھوٹے ڈیم بنانے کی بھی ہدایت کی ہے۔ مانیٹرنگ ڈیسک کے مطابق حکومت اور اس کی اتحادی جماعتوں نے توہین عدالت قانون کے بارے میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر نظرثانی کی اپیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس فیصلے کو پارلیمنٹ میں زیر بحث لانے کی منظوری دے دی ہے، دونوں ایوانوں کے اجلاس بلا کراس پر بحث کی جائے گی۔
پارلیمنٹ کے قانون سازی کے اختیار پر سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا، چاہے اس کیلیے کوئی بھی قمیت ادا کرنا پڑے۔ ٹی وی رپورٹس کے مطابق وزارت قانون توہین عدالت کے نئے مسودہ قانون کی ڈرافٹنگ پر کام شروع کر دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق نیا قانون 8 اگست سے پہلے پارلیمنٹ سے منظور کرایا جائے گا۔ وزیراعظم کو آئندہ قانون سازی میں بھی تحفظ دیا جائے گا۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ جنوبی پنجاب میں ٹھوس حکمت عملی اپنائی جائے گی۔
ذرائع کاکہناہے کہ حکومت نے وزارت قانون کو توہین عدالت قانون میں خامیوں کا ازسرنو جائزہ لیکر نیا مسودہ تیار کرنے کی ہدایت کی ہے،اجلاس میںشریک تین سیاسی جماعتوں کے نمائندوں نے دعویٰ کیا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پرنظرثانی کی اپیل دائر کی جائے گی جبکہ اتحادی جماعتوں نے صدر کو عدالتی فیصلے پر پارلیمنٹ میں بحث کرنے کا بھی مشورہ دیا ہے، اتحادی جماعتوں اور پیپلزپارٹی نے اس بات کا اعادہ کیا کہ پارلیمنٹ کی بالادستی اور قانون سازی کے حق پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔
ذرائع کے مطابق اجلاس میں لاہور ہائیکورٹ کی صدرکے دو عہدوں سے متعلق دی گئی ڈیڈلائن پر بھی تبادلہ خیال ہوا،اجلاس میں مسلم لیگ (ق) کوپنجاب میں سیاسی تبدیلی کیلیے فری ہینڈ دیا گیا تاکہ وہ مسلم لیگ ن کے ناراض ارکان کو ساتھ ملانے سمیت پنجاب میں ٹھوس حکمت عملی مرتب کر سکے، اتحادی جماعتوں کے اجلاس میں بلوچستان کی صورتحال کے حوالے سے کابینہ کی ذیلی کمیٹی کی سفارشات پر مکمل عملدرآمد کرانے کا بھی فیصلہ کیا گیا۔
صدارتی ترجمان کے مطابق اجلاس میں وزیراعظم راجا پرویز اشرف نے اتحادی جماعتوں کو توانائی کے بحران پر بریفنگ دی، صدر نے شمسی توانائی کو فروغ دینے کیلیے سولر پینل کی درآمد پر زیرو ڈیوٹی عائد کرنے کے فیصلے پر عملدرآمد کرنے اور چھوٹے ڈیم بنانے کی بھی ہدایت کی ہے۔ مانیٹرنگ ڈیسک کے مطابق حکومت اور اس کی اتحادی جماعتوں نے توہین عدالت قانون کے بارے میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر نظرثانی کی اپیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس فیصلے کو پارلیمنٹ میں زیر بحث لانے کی منظوری دے دی ہے، دونوں ایوانوں کے اجلاس بلا کراس پر بحث کی جائے گی۔
پارلیمنٹ کے قانون سازی کے اختیار پر سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا، چاہے اس کیلیے کوئی بھی قمیت ادا کرنا پڑے۔ ٹی وی رپورٹس کے مطابق وزارت قانون توہین عدالت کے نئے مسودہ قانون کی ڈرافٹنگ پر کام شروع کر دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق نیا قانون 8 اگست سے پہلے پارلیمنٹ سے منظور کرایا جائے گا۔ وزیراعظم کو آئندہ قانون سازی میں بھی تحفظ دیا جائے گا۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ جنوبی پنجاب میں ٹھوس حکمت عملی اپنائی جائے گی۔