ایس ایس یو میں بھرتیاں میڈیکل ٹیسٹ کیلئے امیدواروں کی آمد شروع
ایکسرے اور آنکھوں کے ٹیسٹ سمیت دیگر ٹیسٹ لیے گئے، سن کوٹہ پر ملازمت کے حق دار امیدوار ٹھوکریں کھا رہے ہیں.
سندھ پولیس اسپتال گارڈن ہیڈ کوارٹرز میں اسپیشل سیکیورٹی یونٹ (ایس ایس یو) میں بھرتی کے لیے میڈیکل ٹیسٹ کے لیے امیدواروں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوگیا جہاں ان کے ایکسرے ، خون کے نمونے اور آنکھوں کے ٹیسٹ سمیت دیگر لیبارٹری ٹیسٹ کیے جارہے ہیں۔
پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ منظور نظر افراد کو نوازنے اور بھرتی کیلیے مبینہ طور پر بھاری رشوت کی وصولی کے بعد میڈیکل لیٹر فراہم کیے جارہے ہیں جبکہ بھرتی کے لیے اہل افراد کو صرف اس وجہ سے نظر انداز کر دیا گیا کہ وہ پولیس میں بھرتی کے لیے منہ مانگی رقم ادا نہیں کر سکتے، اس سلسلے میں گارڈن ہیڈ کوارٹرز میں قائم سندھ پولیس اسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر محمد یونس چاچڑ نے ایکسپریس کو بتایا کہ 2011 میں پولیس کے اسپیشل سیکیورٹی یونٹ (ایس ایس یو) میں بھرتی کے لیے اشتہار دیا گیا تھا۔
امیدواروں کی بڑی تعداد نے اپنے کوائف جمع کرائے اور منتخب ہونے والوں کے فزیکل اور تحریری ٹیسٹ کے بعد ان کی بھرتی کا عمل روک دیا گیا تھا جس کی وجہ انھوںنے فنڈز کی کمی بتائی تاہم اب مالی معاملات بہتر ہونے پر ایس ایس یو میںان امیدواروں کے میڈیکل ٹیسٹ لیے جا رہے ہیں جو اس سے قبل ٹیسٹ میں کامیاب قرار پائے تھے، انھوں نے بتایا کہ ایس ایس یو میں مجموعی طور پر600سے زائد اسامیاں ہیں جبکہ الیکشن کمیشن کی جانب سے بھی بھرتیوں پر پابندی عائد ہے تاہم مذکورہ اسامیاں اگست 2011 میں شائع کی گئی تھیں تاہم ان بھرتیوں پر الیکشن کمیشن کی پابندی کا اطلاق نہیں ہوتا ، ایم ایس ڈاکٹر یونس چاچڑ نے بتایا کہ گزشتہ بدھ کو امیدواروں کی بڑی تعداد نے اپنے میڈیکل ٹیسٹ کرائے ہیں۔
جبکہ جمعرات کو بھی میڈیکل لیٹرلے کر آنے والوں کی بڑی تعداد نے سندھ پولیس اسپتال گارڈن کا رخ کیا جہاں ان کے خون کے نمونے، ایکسرے اور دیگر ٹیسٹ کیے گئے، ایس ایس یو میں بھرتی کے خواہشمندوں کے امیدواروں کو میڈیکل لیٹر جاری ہونے کے بعد شروع ہونے والے پراسرار میڈیکل ٹیسٹ کے حوالے سے پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ ایس ایس یو میں بھرتی کے اشتہار کے بعد ایسے عناصر سرگرم ہوگئے تھے جو ان بھرتیوں کے لیے منہ مانگی رقم طلب کر رہے تھے جس کی وجہ اسپیشل سیکیورٹی یونٹ میں بھرتی ہونے والے امیدوار کی تنخواہ ڈسٹرکٹ پولیس سے 12 ہزار روپے زیادہ ہوتی ہے جبکہ ڈیوٹی ٹائمنگ میں کم ہوتے ہیں۔
پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ جس وقت ایس ایس یو میں بھرتی کے لیے درخواستیں طلب کی جا رہی تھیں اس وقت ملازمت کیلیے ڈھائی سے ساڑھے تین لاکھ روپے مانگے جا رہے تھے جس میں نااہل افراد کو تمام ٹیسٹ کلیر کرانے کی نہ صرف ضمانت دی گئی تھی بلکہ پچاس فیصد ادائیگی کے بعد تقرر نامہ ملنے پر باقی رقم ادا کرنے کی بھی سہولت فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی تھی تاہم کچھ پیچیدگیوں کے باعث ایس ایس یو میں تعیناتی کاعمل روک دیا گیا تھا اور اب یہ سلسلہ انتہائی خاموشی سے دوبارہ شروع کیا گیا ہے جس میں امیدواروں کو میڈیکل لیٹر جاری کر دیئے گئے ہیں۔
ایس ایس یو میں بھرتی کے اس دوبارہ عمل کے شروع ہونے سے متعلق کراچی پولیس کے متعدد افسران سے رابطہ کیا گیا تو انھوںنے میڈیکل ٹیسٹ کے حوالے سے لاعلمی کا اظہار کیا ، پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ جہاں پولیس میں بھرتی کے عمل کے دوران میریٹ کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں وہیں پر سن کوٹہ پر ملازمت کے حق دار امیدوار در بدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں ۔
پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ منظور نظر افراد کو نوازنے اور بھرتی کیلیے مبینہ طور پر بھاری رشوت کی وصولی کے بعد میڈیکل لیٹر فراہم کیے جارہے ہیں جبکہ بھرتی کے لیے اہل افراد کو صرف اس وجہ سے نظر انداز کر دیا گیا کہ وہ پولیس میں بھرتی کے لیے منہ مانگی رقم ادا نہیں کر سکتے، اس سلسلے میں گارڈن ہیڈ کوارٹرز میں قائم سندھ پولیس اسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر محمد یونس چاچڑ نے ایکسپریس کو بتایا کہ 2011 میں پولیس کے اسپیشل سیکیورٹی یونٹ (ایس ایس یو) میں بھرتی کے لیے اشتہار دیا گیا تھا۔
امیدواروں کی بڑی تعداد نے اپنے کوائف جمع کرائے اور منتخب ہونے والوں کے فزیکل اور تحریری ٹیسٹ کے بعد ان کی بھرتی کا عمل روک دیا گیا تھا جس کی وجہ انھوںنے فنڈز کی کمی بتائی تاہم اب مالی معاملات بہتر ہونے پر ایس ایس یو میںان امیدواروں کے میڈیکل ٹیسٹ لیے جا رہے ہیں جو اس سے قبل ٹیسٹ میں کامیاب قرار پائے تھے، انھوں نے بتایا کہ ایس ایس یو میں مجموعی طور پر600سے زائد اسامیاں ہیں جبکہ الیکشن کمیشن کی جانب سے بھی بھرتیوں پر پابندی عائد ہے تاہم مذکورہ اسامیاں اگست 2011 میں شائع کی گئی تھیں تاہم ان بھرتیوں پر الیکشن کمیشن کی پابندی کا اطلاق نہیں ہوتا ، ایم ایس ڈاکٹر یونس چاچڑ نے بتایا کہ گزشتہ بدھ کو امیدواروں کی بڑی تعداد نے اپنے میڈیکل ٹیسٹ کرائے ہیں۔
جبکہ جمعرات کو بھی میڈیکل لیٹرلے کر آنے والوں کی بڑی تعداد نے سندھ پولیس اسپتال گارڈن کا رخ کیا جہاں ان کے خون کے نمونے، ایکسرے اور دیگر ٹیسٹ کیے گئے، ایس ایس یو میں بھرتی کے خواہشمندوں کے امیدواروں کو میڈیکل لیٹر جاری ہونے کے بعد شروع ہونے والے پراسرار میڈیکل ٹیسٹ کے حوالے سے پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ ایس ایس یو میں بھرتی کے اشتہار کے بعد ایسے عناصر سرگرم ہوگئے تھے جو ان بھرتیوں کے لیے منہ مانگی رقم طلب کر رہے تھے جس کی وجہ اسپیشل سیکیورٹی یونٹ میں بھرتی ہونے والے امیدوار کی تنخواہ ڈسٹرکٹ پولیس سے 12 ہزار روپے زیادہ ہوتی ہے جبکہ ڈیوٹی ٹائمنگ میں کم ہوتے ہیں۔
پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ جس وقت ایس ایس یو میں بھرتی کے لیے درخواستیں طلب کی جا رہی تھیں اس وقت ملازمت کیلیے ڈھائی سے ساڑھے تین لاکھ روپے مانگے جا رہے تھے جس میں نااہل افراد کو تمام ٹیسٹ کلیر کرانے کی نہ صرف ضمانت دی گئی تھی بلکہ پچاس فیصد ادائیگی کے بعد تقرر نامہ ملنے پر باقی رقم ادا کرنے کی بھی سہولت فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی تھی تاہم کچھ پیچیدگیوں کے باعث ایس ایس یو میں تعیناتی کاعمل روک دیا گیا تھا اور اب یہ سلسلہ انتہائی خاموشی سے دوبارہ شروع کیا گیا ہے جس میں امیدواروں کو میڈیکل لیٹر جاری کر دیئے گئے ہیں۔
ایس ایس یو میں بھرتی کے اس دوبارہ عمل کے شروع ہونے سے متعلق کراچی پولیس کے متعدد افسران سے رابطہ کیا گیا تو انھوںنے میڈیکل ٹیسٹ کے حوالے سے لاعلمی کا اظہار کیا ، پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ جہاں پولیس میں بھرتی کے عمل کے دوران میریٹ کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں وہیں پر سن کوٹہ پر ملازمت کے حق دار امیدوار در بدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں ۔