ذہنی امراض سے بچاؤ کی گھریلو تراکیب

نفس کی آما جگاہ دماغ مانی جاتی ہے جبکہ انسانی جسد کا دار ومدار جگر پر ہو تا ہے۔


انسانی وجود تین اجزاء کا مجموعہ ہے۔ روح ،نفس اور جسد۔ فوٹو : فائل

دماغی امراض سے نمٹنے اور ان سے نجات حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنی ذہنی حالت سے متعلق مکمل طور پر واقف ہوں اور ہم یہ تسلیم کریں کہ واقعی ہماری دماغی کیفیت میں خرابی پیدا ہو چکی ہے۔

عام طور پر مختصر دورانیے کی متاثرہ دماغی حالت کو بخوبی جلد ہی ختم کیا جا سکتا ہے۔ اس مقصد کے لئے انتظامی تراکیب استعمال کر کے ہم کم عرصے کی کیفیت سے پیچھا چھڑا نے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔لیکن طویل عرصے کے پیدا شدہ عوارض سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے ہمیں اپنے رہن سہن،رویے اور ماحول کو تبدیل کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔اگر ہم پھر بھی اپنی حالت میں بہتری پیدا کرنے میں کام یاب نہ ہوں تو پھر ماہرِ نفسیات سے مشاورت کرنا ہی لازمی ہو جاتا ہے۔

یاد رہے کہ ذہنی امراض سے نجات دلانے کے لئے دو طرح کے نفسیات دان ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو دماغی امراض کا علاج ذہنی کیفیت کو بھانپ کر مریض کی سوچ اور طرزِ فکر میں اپنے مخصوص انداز اور لفظوں کے اثر سے تبدیلی پیدا کرتے ہیں انہیں سائکالوجسٹ کہا جاتا ہے۔جبکہ دوسرے وہ جو مرض میں شدت پیدا ہو جانے کی وجہ سے ضروری اور سکون آور ادویات کا استعمال کرواکر مریض کو بیماری سے نجات دلاتے ہیں۔

ایسے ماہر نفسیات کو سائکاٹرسٹ کہا جاتا ہے۔دھیان رہے اگر ذہنی امراض کا باعث دماغی کمزوری ہو اورکمزوری کا سبب جسمانی عوارض ہوں تو پہلے ان سے چھٹکارا حاصل کریں۔اس سلسلے میںکسی ماہر معالج سے رجوع کرتے ہوئے غذا اور دواتجویز کروائیں۔ جس طرح مْختلف افراد میں ذہنی امراض کے پیدا ہونے کی مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں اسی طرح انہیں ان سے چھٹکارا پانے کے لئے بھی مختلف طریقِ کار ہوسکتے ہیں۔

اس سلسلے میں اگر متاثرہ فرد ایک ڈائری بنائے اور اپنی ذہنی محسوسات کو مختلف اوقات کے حوالے سے تحریر کرتا جائے نیز یہ بھی نوٹ کرے کہ کس وقت کس طرح کے سر گرمی سے اسے اپنی حالت میں بہتری محسوس ہوئی یوں اْسے اپنے سٹریس، ڈیپریشن اور اینگزائٹی کی وجہ سمجھ میں آجائے گی۔جب وجہ معلوم ہو گئی تو پھر بیماری سے جان چھڑانا بھی آسان ہو جائے گا۔ اگر وہ چاہے تو بتدریج اپنی کیفیات میں درستگی پیدا کر سکتا ہے۔

علاوہ ازیں کچھ لوگوں کو کھیل کر ذہنی دباؤ اور اعصابی تناؤ سے نجات مل جاتی ہے۔بعض افراد دفتر سے گھر جا کر اپنے بیوی بچوں سے گھل مل کر خود نارمل محسوس کرنے لگتے ہیں۔چند اشخاص ورزش اور جسمانی مشقت سے بہتر کیفیت میں آجاتے ہیں۔بعض افراد محض سوچ کو بدل کر بھی بہتر ی محسوس کرنے لگتے ہیں۔کتاب پڑھ کر، موسیقی سن کر یا اپنا من پسند مشغلہ اپنا کر بھی ذہنی حالت کو بدلا جا سکتا ہے۔

انسانی وجود تین اجزاء کا مجموعہ ہے۔ روح ،نفس اور جسد۔ روح کا مرکز دل ہوتا ہے۔ نفس کی آما جگاہ دماغ مانی جاتی ہے جبکہ انسانی جسد کا دار ومدار جگر پر ہو تا ہے۔دل میں قوتِ حیوانی پائی جاتی ہے۔دماغ میں عقلیہ و شہوانیہ قوتیں براجمان ہو تی ہیں۔جگر پر قوتِ طبعی کا ا نحصارہو تا ہے۔

قوتِ طبعی ایک ایسی صلاحیت کو کہا جاتا ہے جو پورے انسانی بدن کو حرارت پہنچانے کا ذریعہ ہے۔روح اور نفس کی صحت مندی یا بیماری کادارو مدار قوتِ طبعی پر ہو تا ہے۔جگر مذکورہ حرارت پہنچانے والی قوت یا ایندھن کھائی جانے والی غذا سے حاصل کرتا ہے۔ انسانی جسم کو جوغذائی اجزاء درکار ہوتے ہیں ان میں کیلشیم،پوٹاشیم، میگنیشیم،فاسفورس کلورین آیوڈین، سوڈیم، گندھک، فولاد وٹامنز، نشاستہ،پر وٹین،آکسیجن اورچکنائیاں وغیرہ شامل ہیں۔

روح اور نفس کی تمام تر کا کردگی کا انحصار انہیں اجزاء پر ہو تا ہے۔غذا کی بہتری یا ابتری قوتِ حیوانیہ،قوتِ عقلیہ اور قوتِ شہوانیہ کی صلاحیتوں کا تعین کرتی ہے۔خالقِ خائنات نے فرشتوں کو قوتِ عقلیہ سے نواز کراپنا قربِ خاص عطا کیا، حیوانات کو شہوت کی طاقت فراہم کر کے انہیں کائنات کی رونقوں میں اضافے کا ذریعہ بنادیا۔لیکن حضرت انسان کوعقل اور شہوت دونوں ہی دیں تاکہ وہ اپنے انتخاب کی بناء پر اپنا مقام خود بنائے۔

جب انسان قوتِ عقلیہ کا استعمال کرتا ہے تو وہ اشرف المخلوقات کا درجہ حاصل کرکے مسجودِ ملائک کہلاتا ہے لیکن جب وہ قوتِ شہوت سے مغلوب ہوتا ہے تو حیوانوں سے بھی کمتر درجے میںشمار ہونے لگتا ہے۔یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہماری صلاحیتوں کے پروان چڑھنے میں ہماری غذا کا بنیادی اور اہم کردار ہوتا ہے۔

روح کی مضبوطی اور توانائی کے لئے اللہ کا ذکر پہلی غذا ہے۔بطورِ مسلمان ہمارا ایمان ہو نا چاہئے کہ " خبر دار!دلوں کا اطمینان اللہ کے ذکر میں ہے" فرقانِ حمید کے اس حکم پر پوری طرح سے عمل پیرا ہوں۔ ہمہ وقت اللہ کی یاد کثرت سے کریں۔تاکہ روحانی طور پر ہم مضبوط ہو سکیں۔ نفس کی غذا ہم نے اپنی خوراک کے ذریعے سے حاصل کرنی ہوتی ہے۔

اب اگر ہم شہوانی جذبات کو بھڑکانے والی اشیاء کا استعمال کریںگے تو ہمارے اندر قوتِ شہوانیہ مضبوط ہو کر ہمیں حیوانی صفات سے متصف کردے گی۔اور اگر ہم عقلی جذبات کو بڑھاوا دینے والے اجزاء کا انتخاب کریں گے تو ہم قوتِ عقل سے ما لا مال ہو کر فرشتوں سے بھی بلند مقام پر فائز ہو کر ارض و سماء کو مسخر کرنے والے بن جائیں گے۔

ایسی تمام غذائیں جو ہمارے دماغ کی مضبوطی کا باعث بنتی ہیں ہم ان کا استعمال تواتر سے کریں۔قارئین !حلال رزق ہی وہ واحد ذریعہ ہے جس کو اپنا کر ہم قوتِ عقلیہ سے سر فراز ہو کر قوتِ شہوانیہ کو مغلوب کر سکتے ہیں۔انسانی جسد کی تعمیرمیں طبعی قوت کا بنیادی کردار ہوتا ہے۔ جبکہ طبعی قوت کے ماخذ مذکورہ بالا غذائی اجزاء ہی ہو تے ہیں۔

عقل ہمیں برداشت،ہمت، طاقت، حوصلہ، عفو و درگزر، صلہ رحمی، عجزو انکساری، غمگساری ہمدردی اور ایثار و قربانی جیسے ارفع و اعلیٰ جذبات سکھاتی ہے۔جبکہ شہوت سے غصہ، انتقام، نفرت، حسد،بْغض،کینہ،کنجوسی، قطع رحمی،خود غرضی، سنگدلی اور طمع و لالچ جیسے قبیح جذبات کو ہوا ملتی ہے۔یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ تن آسودہ زندگی گزارنے اور ذہنی و بدنی مسائل سے بچنے کا واحد ذریعہ ہماری غذا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں