نیم دو نیم اور نیم باز
نیم اردو کے قدیم ہندی الاصل الفاظ میں شامل ہے جسے کبھی نِیب بھی کہا جاتا تھا۔
لاہور:
آپ نے اکثر پرانے بزرگوں کو کہتے سنا ہوگا، ''کریلا ، وہ بھی نِیم چڑھا'' یا کریلا اور نِیم چڑھا۔ آسان سا محاورہ ہے۔
یہ دونوں چیزیں اپنی کڑواہٹ کے لیے مشہور یا بدنام ہیں، سو جب کسی شخص کی چڑچڑی، غصیلی اور سخت طبیعت کی مثال دی جائے تو یہ محاورہ استعما ل ہوتا ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ یہ دونوں کڑوی چیزیں طبی لحاظ سے بہت مفید ہیں۔ ویسے ہم آگے چل کر ذکر کریں گے کہ اس کے علاوہ یا اس سے بھی بڑھ کر کوئی شئے کڑوی ہوتی ہے کہ نہیں۔ سچ ہے کہ قدرت نے کوئی بھی چیز بے کار پیدا نہیں کی۔ آگے بڑھنے سے قبل چند اشعار بھی پیش کرتا ہوں جن میں ایک اور 'نِیم' کا استعمال ہوا ہے، اس کی وضاحت بعد میں کروں گا:
دونیم ان کی ٹھوکر سے صحراودریا
سمٹ کر پہاڑ اِن کی ہیبت سے رائی
(علامہ اقبالؔ)
میرؔ اُن نیم باز آنکھوں میں
ساری مستی شراب کی سی ہے
(میرؔ)
ہوا جو تِیر ِ نظر نیم کَش تو کیا حاصل
مزہ تو جب ہے کہ سینے کے آرپارچلے
(فیضؔ)
نیم اردو کے قدیم ہندی الاصل الفاظ میں شامل ہے جسے کبھی نِیب بھی کہا جاتا تھا۔ یہ لفظ قدیم و مردہ زبان سنسکِرِت کے لفظ 'نیم با'[Nimba]سے مشتق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے پھل کو عموماً نبولی یا بعض جگہ نِمکولی کہا جاتا ہے۔ نیم کے پتوں اور پھل دونوں سے تیل حاصل کیا جاتا ہے جو دیگر فوائد کے علاوہ، گنجے سر پر نئے، مضبوط اور سیاہ بال اگانے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے، خصوصاً خالص روغنِ سرسوں کے ساتھ ملاکر۔ روغن نیم جلدی شکایات مثلاً چھائیاں دورکرنے میں معاون ثابت ہوا ہے۔ اس کا استعمال تنہا یا دیگر تیلوں کے ساتھ کئی طرح کیا جاتا ہے۔
علاوہ ازیں نیم کے درخت پر بننے والے چھَتّے کا شہد قدرے کسیلا اور پتلا ہونے کے ساتھ ساتھ ذیابیطس کے علاج میں بہت مفید ہے۔ نیم کی شاخوں کا استعمال بطورمِسواک بہت فائدہ مند ہے۔ آج بھی بعض ماہردندان سازیہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ کوئی ٹوتھ برش، فوائد کے لحاظ سے مِسواک کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ یہ درخت دنیا بھر میں اپنے اصل نام سے جانا جاتا ہے، جب کہ اس کا وطن منطقہ حارہ (گرم علاقہ(Tropic=کا خطہ برصغیر ہے جس میں ہندوستان ، پاکستان، نیپال ، بنگلادیش، سری لنکا اور مالدیپ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ایران کے جنوبی جزائر میں بھی نیم اُگایا جاتا ہے۔ اس کا تعلق نباتات کے گھرانے 'میلی ایسی'[Meliaceae] سے ہے جس کا ایک اور پیڑ 'مہوگنی'[Mahogany] بھی بہت مشہور ہے۔
اس کانباتاتی نام Azadirachta indica ہے، جب کہ عام بول چال میں اسے ان ناموں سے یاد کیا جاتا ہے:Neem, Nim tree and Indian lilac ۔ اسی گھرانے کا ایک اور درخت ' بَکائن' نہ صرف نیم سے بہت زیادہ مماثل ہوتا ہے، (کسی ناواقف کے لیے ان دونوں میں تمیز کرنا اور نیم کو پہچان کر الگ کرنا مشکل ہے) بلکہ وہ بھی کڑواہٹ کی مثال کے طور پر مشہور ہے۔ اس سے بھی طب میں بہت کام لیا جاتا ہے۔ بکائن کو نباتاتی زبان میں Melia azedarachکہا جاتا ہے، جب کہ اس کے عام فہم نام یہ ہیں:
Chinaberry tree, Pride of India, Bead-tree, Cape lilac, Syringa berrytree, Persian lilac and Indian lilac
اب بکائن پر گفتگو ترک کرکے واپس آتے ہیں اپنے محبوب موضوع سخن یعنی نیم کی طرف۔ نیم ایک سدابہار درخت ہے، مگر شدید قحط کی صورت میں یہ ممکن ہے کہ اس کے سارے پتے جھڑجائیں۔ نیم کے پتوں کو سکھاکر بطور جڑی بوٹی استعمال کیا جاتا ہے، اس کا 'بھرتا' یا پلٹس کسی زخم پر لگایا جائے تو وہ مندمل ہوجاتا ہے۔ یہ پتے جراثیم کُش ہونے کے سبب، کیڑوں سے بچاؤ کے لیے[pest repellent]بھی استعمال ہوتے ہیں، علاوہ ازیں اگر کوئی کیڑا جسم کے کسی حصے پر کاٹ لے تو ان پتوں کے کچومر، خمیر یا بھرتے کے رگڑنے سے شفاء مل جاتی ہے۔
سر کے بالوں کی خشکی دور کرنے کے لیے، کسی شیمپو یا صابن سے سر دھونے کے بعد، نیم کے پتوں کے (اُبال کر ٹھنڈے کیے ہوئے) پانی سے سر دھولیا جائے تو خاطر خواہ نتیجہ حاصل ہوگا۔ اسی طریقے سے تیارکردہ پانی آنکھوں کی کھُجلی، سرخی اور تھکن دور کرنے کے لیے بھی مفید ہے۔ ایک مصنف مُرلی منوہر کا کہنا ہے کہ اِن پتوں کا اولین استعمال ذہن کے اعصابی درد[neuromuscular pains]کے علاج میں ہونا چاہیے۔ (کتاب: 'Ayurveda For All: Effective Ayurvedic Self Cure for Common and Chronic Ailments' )۔ ہندوستان میں بعض جگہ نیم کی شاخوں اور پھولوں یعنی بور کا استعمال کھانوں میں کیا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں، نیم کے سکون بخش یا سکون آورہونے کے سبب، طریقِ علاج بذریعہ خوشبو [Aromatheraphy] میں اس کے پھولوں کا استعمال خوب ہوتا ہے۔ انھیں بھوک کی کمی [Anorexia]، متلی [Nausea] اور آنتوں کے کیڑوں جیسے امراض کے علاج میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ ایک تازہ تحقیق کے مطابق، ان پھولوں میں موجود الکُحل جیسے عنصر سے قبض کُشا دوا بن سکتی ہے۔ نیم کے پتوں سے کِیل مہاسوں کی شکایت اور جلنے کی صورت میں بننے والے زخموں کا علاج بھی بہ آسانی ممکن ہے۔
نیم کے پتوں کے جوشاندے سے غرغرہ اور اس کے پانی کو ناک میں اوپر تک چڑھاکر نزلے کا علاج کیا جاتا ہے۔ انھیں پرانے اَلسر کے علاج میں بھی مفید بتایا گیا ہے۔ نیم کے پتے کُچل کر، شہد ملاکر اس کا پانی کان میں ٹپکانے سے کان کے پھوڑے پھنسی کی تکلیف میں آرام آتا ہے۔ بعض جِلدی بیماریوں جیسے چھاجن یا خارش[Eczema]کے علاج کے لیے نیم کے پتوں کا خمیر، ادرک کے ساتھ ملاکر استعمال کرایا جاتا ہے۔ قوت مدافعت کے اضافے کے لیے نیم کی چند پتیاں، پانی سے کھالی جائیں تو فائدہ ہوگا۔
نیم کا صابن اور اس سے تیارکردہ کریم اور فیس واش [Face wash] جِلدی امراض سے شفاء کے لیے مستعمل ہے، یہ الگ بات کہ اِن دنوں ایسے صابن بھی اکثر غیرمعیاری بن رہے ہیں۔ (یہ لفظ بالتحقیق قدیم عہد کا 'سابُن' ہے جو عربی کے اثر سے 'ص' سے لکھا جانے لگا اور پھر عربی میں مزید تبدیل ہوکر صافون ہوگیا)۔ (ضمنی نکتہ یہ ہے کہ ہماری بول چال کی زبان میں یہ لفظ عموماً 'غرارہ' بولا جاتا ہے جو ایک لباس کا نام ہے۔ انتہائی تعجب کا مقام یہ ہے کہ جوشؔملیح آبادی کی خودنوشت سوانح میں بھی یہی بگڑا ہوا تلفظ درج ہے۔ بات کی بات ہے کہ لفظ سوانح ، سانحہ یعنی واقعہ یا حادثہ کی جمع اور مذکر ہے، مگر ہم عموماً سوانح حیات کو مؤنث برتتے ہیں)۔ نیم کے پتوں سے کسی مخصوص کھانے میں بگھار اور اس کے پتوں کی چائے کا بطور دوا استعمال بھی مفید ہے۔ ''نیم کی ٹہنی ہلانا'' فعل متعدی ہے جس کے دو معانی لغات میں ملتے ہیں:
ا)۔ مرضِ آتشک میں مبتلا ہونا اور ب)۔ نیم کی ٹہنی سے زخم کی (زخم پر منڈلانے والی) مکھیاں اُڑانا۔ روحانی عاملین کے بیان کے مطابق جنّات ،عموماً، نیم کے درخت پر بسیرا نہیں کرتے۔ اس بیان میں 'عموماً' کا اضافہ خاکسار نے اپنی معلومات کے مطابق کیا ہے ۔
اردو کی زرخیز شاعری میں نیم کے موضوع پر کسی سخنور نے طبع آزمائی کی ہو تو میرے علم میں نہیں، البتہ سندھ کے نام ور فلسفی، قانون داں اور معلم علامہ آئی۔آئی (امدادعلی امام علی) قاضی(18اپریل 1886ء تا 13اپریل 1968ء) ، سابق شیخ الجامعہ، جامعہ سندھ کی جرمن اہلیہ مسز ایلسا قاضی نے The Neem Treeکے نام سے مشہور زمانہ انگریزی نظم لکھ کر اس مفید درخت سے انس کا بھرپور اظہار کیا۔ یہ نظم ہمارے نصاب کا حصہ ہے۔ اُن کا اصل نام Gertrude Loeschتھا ۔ وہ 3اکتوبر1884ء کو جرمنی کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں پیدا ہوئیں۔
اُن کے والدElderman ایک خوش باش مُوسیقار تھے جنھوں نے بعدازآں لندن میں سکونت اختیار کی جہاں محترمہ کی ملاقات علامہ آئی۔آئی قاضی سے ہوئی اور پھر 1910ء میں اس جوڑے نے جرمنی میں شادی کی تو خاتون نے اپنا نام تبدیل کرکے Elsaرکھ لیا۔ مسز ایلسا قاضی، جرمن اور انگریزی کی شاعرہ، ڈراما نگار، تاریخ داں، افسانہ نگار اور ناول نگار تو تھیں ہی، انھوں نے اپنے فاضل شوہر کے تعاون سے سندھی ادب کا مطالعہ اور اس کے متعلق کتب تحریر کرکے ایک عالَم کو اس سے رُوشناس کرایا۔ اُنھوں نے شاہ لطیف کے منتخب کلام کا نغماتی بنیاد پر، منظوم انگریزی ترجمہ کیا۔ سندھ کی دیہی زندگی کی عکاسی کرتے ہوئے انھوں نے تین بابی [3 acts]ڈراما لکھا :
"Temptation: a drama of Sind country life in three acts"
1942ء میں منظر عام پر آنے والی اُن کی یہ کتاب اور 1920ء میں شایع ہونے والی اُن کی کتاب "Aeolian: notes of an overstrung lyre" ، کو امریکا کی University of Washington Libraries نے تقسیم ہند سے قبل شایع ہونے والے، جنوبی ایشیا کے بہترین ادب میں شمار کیا۔ اس کے علاوہ انھوں نے اپنے لائق شوہر کی کتاب "The Brown Girl In Search Of God".لکھنے میں بھی مدد کی تھی۔ وہ بے اولا د تھیں، مگر انھیں جامعہ سندھ کے طُلَبہ Mother Elsaکہہ کر مخاطب کرتے تھے۔ اُن کا انتقال 3اکتوبر1967ء کو ہوا۔ اُن کی قبر، اُن کے شوہر کی قبر کے پاس، جامعہ سندھ کے نئے کیمپس میں واقع ہے جو جام شورو، حیدرآباد میں ہے۔ اب آتے ہیں اردو میں رائج ایک اور نیم کی طرف جس کے معانی مختلف ہیں اور جس کے استعمال کی مثالیں اوپر اشعار کے ذریعے واضح کی گئیں۔ پہلا شعرعلامہ اقبال کی مشہور نظم ''طارق (بن زیاد) کی دعا۔ اَندَلُس کے میدان سے'' کا دوسرا شعر ہے جس کا آغاز یوں ہوتا ہے:
یہ غازی یہ تیرے پُراَسرار بندے
جنھیں تونے بخشا ہے ذوق خدائی
اقبال نے محولہ بالاشعر میں ترکیب استعمال کی ہے، دونیم یعنی دوٹکڑے، دولخت، دوحصے۔ (محولہ: جس کا حوالہ دیا گیا)۔ یہ نیم اردو میں فارسی سے آیا ہے جس کا مطلب ہے آدھا، بیچ یا درمیان۔ (یہاں ضمناً ایک اہم بات عرض کرتاچلوں۔ جب کبھی عظیم فاتح حضرت طارق بن زیاد رحمۃ اللہ علیہ، تبع تابعی کا نام نامی لیا جاتا ہے تو ذہن میں وہ حکایت دل پزیر دَر آتی ہے کہ انھوں نے اَندَلُس[ANDALUS]کے ساحل پر لنگر انداز ہونے کے فوراً بعد تمام کشتیوں ، جہازوں کو آگ لگادی تھی تاکہ مسلمان شکست کی صورت میں فرار کی نہ سوچیں۔ یہ کسی نے گھڑ کے مشہور کردیا ہے۔ تاریخ و سیرت کے محققین نے اس کی تردید کی ہے کہ ایسا کوئی واقعہ پیش آیا ہو۔
دوسری بات یہ ہے کہ انگریز نے اسی فاتح کی بہادر قوم بَربَر کو بدنام کرنے کے لیے Barbarism جیسی اصطلاح گھڑی اور پھر اس کا ترجمہ کیا گیا، بربریت ۔ بہتر ہے کہ اس کے استعمال سے گریز کیا جائے)۔ اسی طرح میرؔ کے مشہور شعر میں مستعمل 'نیم باز' کی ترکیب کا مطلب ہے : آدھی کھُلی ہوئی۔ نشیلی آنکھ ایسی ہی ہوتی ہے، اس لیے میرؔ نے یہ ترکیب نظم کی۔ اب اس فہرست کے آخر میں شامل، فیضؔ کے شعر کی بات ہوجائے ۔ 'نیم کَش' (یا نیم کشیدہ) کا مطلب ہے آدھا کھینچا ہوا (یعنی جب کمان کے چِلّے پر چلانے کے لیے تِیر چڑھاتے ہیں اور ابھی درمیان ہی میں ہوتا ہے)۔ فیض احمد فیضؔ سے پہلے یہ مضمون اور یہ ترکیب اردو کے متعدد شعراء نے استعمال کی، اب یہ اُن کی خوش قسمتی ہے کہ بعد میں پیدا ہونے اور اُفُقِ شعر پر نمودار ہونے کے باوجود، دیگر کے اشعار اس طرح مقبول نہ ہوئے۔ 'نیم کش' کا استعمال میرزا غالبؔ کے یہاں بہرحال بہت مشہور ہوا:
کوئی میرے دل سے پوچھے تیرے تیر نیم کش کو
یہ خلش کہاں سے ہوتی جو جگر کے پار ہوتا
اسی مضمون کو بہ انداز دِگر، شادؔ عظیم آبادی کے شاگرد ، سید شہاب الدین (المتخلص بہ) بے خود ؔ عظیم آبادی نے یوں برتا ہے:
تِرچھی نظروں کی تو اوتُرک نہیں کوئی سند
تِیر ایسا تو ہو، سیدھا جگر تک پہنچے
(تلامذہ شادؔ عظیم آبادی از سید نعمت اللہ۔ ایک تعارف ۔تحریر: سہیل احمدصدیقی۔ مطبوعہ سہ ماہی نمود حرف، لاہور۔ شمارہ بابت جنوری تا مارچ 2015ء)۔اب ذرا لغات ملاحظہ فرمائیں تو اس فارسی 'نیم' کا استعمال مختلف جہات میں یوں سامنے آتا ہے:
نیم برشت: اَدھ کچا، کچھ کچا کچھ پکا، آدھا بھُنا ہوا۔ نیم بسمل: آدھا ذبح کیا ہوا۔ یا۔اَدھ مُوا۔ زخمی کر کے چھوڑا ہوا، گھایل، نیم مُردہ یا نیم کُشتہ۔ (مسدس حالی ؔ میں مجازاً متوسط طبقے کے لوگوں کے لیے یہ ترکیب استعمال ہوئی ہے)۔ نیم تر: آدھی خشک[Semi-dry]۔ مگر پرانی اردو میں یہ ترکیب اُس شخص کے لیے استعمال ہوتی تھی جو کم خواندہ وناتجربہ کار ہو۔ نیم جاں: اَدھ مُوا، قریب ِ مرگ۔یا۔قریب بہ مرگ (قریب المرگ لکھنا درست نہیں، آدھی عربی ، آدھی فارسی)۔ نیم جوش: آدھا یا ہلکا جوش دیا ہوا، ہلکا اُبالا ہوا یا اَدھ پکّا۔ نیم حکیم: کم یا ادھوری تعلیم طب حاصل کرکے حکمت کرنے والا۔ مثل مشہور ہے: نیم حکیم خطرہ جان، نیم مُلّا خطرہ ایمان۔ نیم خواب: آنکھ کا آدھا کھُلنا جیسے کچی نیند میں ہوتا ہے۔ نیم خوابید: کچی نیند میں یا غنودگی میں، اُونگھنے کی کیفیت۔ نیم خوردہ: کسی کا جھوٹا یا کھا کر چھوڑا ہوا۔ نیم راضی: تقریباً راضی یا نیم رضامند، راضی ہونے کے قریب۔ نیم روز: دوپہر۔ نیم سوختہ: آدھا جلا ہوا۔ نیم گرم: ہلکا گرم، کُنکُنا۔ نیم مست: کچھ کچھ ہوشیار۔ نیم مُلّا: کچا پکا مولوی، نام کا مولوی جس نے دین کا علم ٹھیک سے حاصل نہ کیا ہو (جیسے آج کل بہت سے ٹیلی وژن پر 'اسکالر' کے لقب سے ملقب ، ہر گھڑی جلوہ افروز ہوتے ہیں)۔ نیم نگاہ: کن انکھیوں سے دیکھنا۔
آپ نے اکثر پرانے بزرگوں کو کہتے سنا ہوگا، ''کریلا ، وہ بھی نِیم چڑھا'' یا کریلا اور نِیم چڑھا۔ آسان سا محاورہ ہے۔
یہ دونوں چیزیں اپنی کڑواہٹ کے لیے مشہور یا بدنام ہیں، سو جب کسی شخص کی چڑچڑی، غصیلی اور سخت طبیعت کی مثال دی جائے تو یہ محاورہ استعما ل ہوتا ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ یہ دونوں کڑوی چیزیں طبی لحاظ سے بہت مفید ہیں۔ ویسے ہم آگے چل کر ذکر کریں گے کہ اس کے علاوہ یا اس سے بھی بڑھ کر کوئی شئے کڑوی ہوتی ہے کہ نہیں۔ سچ ہے کہ قدرت نے کوئی بھی چیز بے کار پیدا نہیں کی۔ آگے بڑھنے سے قبل چند اشعار بھی پیش کرتا ہوں جن میں ایک اور 'نِیم' کا استعمال ہوا ہے، اس کی وضاحت بعد میں کروں گا:
دونیم ان کی ٹھوکر سے صحراودریا
سمٹ کر پہاڑ اِن کی ہیبت سے رائی
(علامہ اقبالؔ)
میرؔ اُن نیم باز آنکھوں میں
ساری مستی شراب کی سی ہے
(میرؔ)
ہوا جو تِیر ِ نظر نیم کَش تو کیا حاصل
مزہ تو جب ہے کہ سینے کے آرپارچلے
(فیضؔ)
نیم اردو کے قدیم ہندی الاصل الفاظ میں شامل ہے جسے کبھی نِیب بھی کہا جاتا تھا۔ یہ لفظ قدیم و مردہ زبان سنسکِرِت کے لفظ 'نیم با'[Nimba]سے مشتق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے پھل کو عموماً نبولی یا بعض جگہ نِمکولی کہا جاتا ہے۔ نیم کے پتوں اور پھل دونوں سے تیل حاصل کیا جاتا ہے جو دیگر فوائد کے علاوہ، گنجے سر پر نئے، مضبوط اور سیاہ بال اگانے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے، خصوصاً خالص روغنِ سرسوں کے ساتھ ملاکر۔ روغن نیم جلدی شکایات مثلاً چھائیاں دورکرنے میں معاون ثابت ہوا ہے۔ اس کا استعمال تنہا یا دیگر تیلوں کے ساتھ کئی طرح کیا جاتا ہے۔
علاوہ ازیں نیم کے درخت پر بننے والے چھَتّے کا شہد قدرے کسیلا اور پتلا ہونے کے ساتھ ساتھ ذیابیطس کے علاج میں بہت مفید ہے۔ نیم کی شاخوں کا استعمال بطورمِسواک بہت فائدہ مند ہے۔ آج بھی بعض ماہردندان سازیہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ کوئی ٹوتھ برش، فوائد کے لحاظ سے مِسواک کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ یہ درخت دنیا بھر میں اپنے اصل نام سے جانا جاتا ہے، جب کہ اس کا وطن منطقہ حارہ (گرم علاقہ(Tropic=کا خطہ برصغیر ہے جس میں ہندوستان ، پاکستان، نیپال ، بنگلادیش، سری لنکا اور مالدیپ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ایران کے جنوبی جزائر میں بھی نیم اُگایا جاتا ہے۔ اس کا تعلق نباتات کے گھرانے 'میلی ایسی'[Meliaceae] سے ہے جس کا ایک اور پیڑ 'مہوگنی'[Mahogany] بھی بہت مشہور ہے۔
اس کانباتاتی نام Azadirachta indica ہے، جب کہ عام بول چال میں اسے ان ناموں سے یاد کیا جاتا ہے:Neem, Nim tree and Indian lilac ۔ اسی گھرانے کا ایک اور درخت ' بَکائن' نہ صرف نیم سے بہت زیادہ مماثل ہوتا ہے، (کسی ناواقف کے لیے ان دونوں میں تمیز کرنا اور نیم کو پہچان کر الگ کرنا مشکل ہے) بلکہ وہ بھی کڑواہٹ کی مثال کے طور پر مشہور ہے۔ اس سے بھی طب میں بہت کام لیا جاتا ہے۔ بکائن کو نباتاتی زبان میں Melia azedarachکہا جاتا ہے، جب کہ اس کے عام فہم نام یہ ہیں:
Chinaberry tree, Pride of India, Bead-tree, Cape lilac, Syringa berrytree, Persian lilac and Indian lilac
اب بکائن پر گفتگو ترک کرکے واپس آتے ہیں اپنے محبوب موضوع سخن یعنی نیم کی طرف۔ نیم ایک سدابہار درخت ہے، مگر شدید قحط کی صورت میں یہ ممکن ہے کہ اس کے سارے پتے جھڑجائیں۔ نیم کے پتوں کو سکھاکر بطور جڑی بوٹی استعمال کیا جاتا ہے، اس کا 'بھرتا' یا پلٹس کسی زخم پر لگایا جائے تو وہ مندمل ہوجاتا ہے۔ یہ پتے جراثیم کُش ہونے کے سبب، کیڑوں سے بچاؤ کے لیے[pest repellent]بھی استعمال ہوتے ہیں، علاوہ ازیں اگر کوئی کیڑا جسم کے کسی حصے پر کاٹ لے تو ان پتوں کے کچومر، خمیر یا بھرتے کے رگڑنے سے شفاء مل جاتی ہے۔
سر کے بالوں کی خشکی دور کرنے کے لیے، کسی شیمپو یا صابن سے سر دھونے کے بعد، نیم کے پتوں کے (اُبال کر ٹھنڈے کیے ہوئے) پانی سے سر دھولیا جائے تو خاطر خواہ نتیجہ حاصل ہوگا۔ اسی طریقے سے تیارکردہ پانی آنکھوں کی کھُجلی، سرخی اور تھکن دور کرنے کے لیے بھی مفید ہے۔ ایک مصنف مُرلی منوہر کا کہنا ہے کہ اِن پتوں کا اولین استعمال ذہن کے اعصابی درد[neuromuscular pains]کے علاج میں ہونا چاہیے۔ (کتاب: 'Ayurveda For All: Effective Ayurvedic Self Cure for Common and Chronic Ailments' )۔ ہندوستان میں بعض جگہ نیم کی شاخوں اور پھولوں یعنی بور کا استعمال کھانوں میں کیا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں، نیم کے سکون بخش یا سکون آورہونے کے سبب، طریقِ علاج بذریعہ خوشبو [Aromatheraphy] میں اس کے پھولوں کا استعمال خوب ہوتا ہے۔ انھیں بھوک کی کمی [Anorexia]، متلی [Nausea] اور آنتوں کے کیڑوں جیسے امراض کے علاج میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ ایک تازہ تحقیق کے مطابق، ان پھولوں میں موجود الکُحل جیسے عنصر سے قبض کُشا دوا بن سکتی ہے۔ نیم کے پتوں سے کِیل مہاسوں کی شکایت اور جلنے کی صورت میں بننے والے زخموں کا علاج بھی بہ آسانی ممکن ہے۔
نیم کے پتوں کے جوشاندے سے غرغرہ اور اس کے پانی کو ناک میں اوپر تک چڑھاکر نزلے کا علاج کیا جاتا ہے۔ انھیں پرانے اَلسر کے علاج میں بھی مفید بتایا گیا ہے۔ نیم کے پتے کُچل کر، شہد ملاکر اس کا پانی کان میں ٹپکانے سے کان کے پھوڑے پھنسی کی تکلیف میں آرام آتا ہے۔ بعض جِلدی بیماریوں جیسے چھاجن یا خارش[Eczema]کے علاج کے لیے نیم کے پتوں کا خمیر، ادرک کے ساتھ ملاکر استعمال کرایا جاتا ہے۔ قوت مدافعت کے اضافے کے لیے نیم کی چند پتیاں، پانی سے کھالی جائیں تو فائدہ ہوگا۔
نیم کا صابن اور اس سے تیارکردہ کریم اور فیس واش [Face wash] جِلدی امراض سے شفاء کے لیے مستعمل ہے، یہ الگ بات کہ اِن دنوں ایسے صابن بھی اکثر غیرمعیاری بن رہے ہیں۔ (یہ لفظ بالتحقیق قدیم عہد کا 'سابُن' ہے جو عربی کے اثر سے 'ص' سے لکھا جانے لگا اور پھر عربی میں مزید تبدیل ہوکر صافون ہوگیا)۔ (ضمنی نکتہ یہ ہے کہ ہماری بول چال کی زبان میں یہ لفظ عموماً 'غرارہ' بولا جاتا ہے جو ایک لباس کا نام ہے۔ انتہائی تعجب کا مقام یہ ہے کہ جوشؔملیح آبادی کی خودنوشت سوانح میں بھی یہی بگڑا ہوا تلفظ درج ہے۔ بات کی بات ہے کہ لفظ سوانح ، سانحہ یعنی واقعہ یا حادثہ کی جمع اور مذکر ہے، مگر ہم عموماً سوانح حیات کو مؤنث برتتے ہیں)۔ نیم کے پتوں سے کسی مخصوص کھانے میں بگھار اور اس کے پتوں کی چائے کا بطور دوا استعمال بھی مفید ہے۔ ''نیم کی ٹہنی ہلانا'' فعل متعدی ہے جس کے دو معانی لغات میں ملتے ہیں:
ا)۔ مرضِ آتشک میں مبتلا ہونا اور ب)۔ نیم کی ٹہنی سے زخم کی (زخم پر منڈلانے والی) مکھیاں اُڑانا۔ روحانی عاملین کے بیان کے مطابق جنّات ،عموماً، نیم کے درخت پر بسیرا نہیں کرتے۔ اس بیان میں 'عموماً' کا اضافہ خاکسار نے اپنی معلومات کے مطابق کیا ہے ۔
اردو کی زرخیز شاعری میں نیم کے موضوع پر کسی سخنور نے طبع آزمائی کی ہو تو میرے علم میں نہیں، البتہ سندھ کے نام ور فلسفی، قانون داں اور معلم علامہ آئی۔آئی (امدادعلی امام علی) قاضی(18اپریل 1886ء تا 13اپریل 1968ء) ، سابق شیخ الجامعہ، جامعہ سندھ کی جرمن اہلیہ مسز ایلسا قاضی نے The Neem Treeکے نام سے مشہور زمانہ انگریزی نظم لکھ کر اس مفید درخت سے انس کا بھرپور اظہار کیا۔ یہ نظم ہمارے نصاب کا حصہ ہے۔ اُن کا اصل نام Gertrude Loeschتھا ۔ وہ 3اکتوبر1884ء کو جرمنی کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں پیدا ہوئیں۔
اُن کے والدElderman ایک خوش باش مُوسیقار تھے جنھوں نے بعدازآں لندن میں سکونت اختیار کی جہاں محترمہ کی ملاقات علامہ آئی۔آئی قاضی سے ہوئی اور پھر 1910ء میں اس جوڑے نے جرمنی میں شادی کی تو خاتون نے اپنا نام تبدیل کرکے Elsaرکھ لیا۔ مسز ایلسا قاضی، جرمن اور انگریزی کی شاعرہ، ڈراما نگار، تاریخ داں، افسانہ نگار اور ناول نگار تو تھیں ہی، انھوں نے اپنے فاضل شوہر کے تعاون سے سندھی ادب کا مطالعہ اور اس کے متعلق کتب تحریر کرکے ایک عالَم کو اس سے رُوشناس کرایا۔ اُنھوں نے شاہ لطیف کے منتخب کلام کا نغماتی بنیاد پر، منظوم انگریزی ترجمہ کیا۔ سندھ کی دیہی زندگی کی عکاسی کرتے ہوئے انھوں نے تین بابی [3 acts]ڈراما لکھا :
"Temptation: a drama of Sind country life in three acts"
1942ء میں منظر عام پر آنے والی اُن کی یہ کتاب اور 1920ء میں شایع ہونے والی اُن کی کتاب "Aeolian: notes of an overstrung lyre" ، کو امریکا کی University of Washington Libraries نے تقسیم ہند سے قبل شایع ہونے والے، جنوبی ایشیا کے بہترین ادب میں شمار کیا۔ اس کے علاوہ انھوں نے اپنے لائق شوہر کی کتاب "The Brown Girl In Search Of God".لکھنے میں بھی مدد کی تھی۔ وہ بے اولا د تھیں، مگر انھیں جامعہ سندھ کے طُلَبہ Mother Elsaکہہ کر مخاطب کرتے تھے۔ اُن کا انتقال 3اکتوبر1967ء کو ہوا۔ اُن کی قبر، اُن کے شوہر کی قبر کے پاس، جامعہ سندھ کے نئے کیمپس میں واقع ہے جو جام شورو، حیدرآباد میں ہے۔ اب آتے ہیں اردو میں رائج ایک اور نیم کی طرف جس کے معانی مختلف ہیں اور جس کے استعمال کی مثالیں اوپر اشعار کے ذریعے واضح کی گئیں۔ پہلا شعرعلامہ اقبال کی مشہور نظم ''طارق (بن زیاد) کی دعا۔ اَندَلُس کے میدان سے'' کا دوسرا شعر ہے جس کا آغاز یوں ہوتا ہے:
یہ غازی یہ تیرے پُراَسرار بندے
جنھیں تونے بخشا ہے ذوق خدائی
اقبال نے محولہ بالاشعر میں ترکیب استعمال کی ہے، دونیم یعنی دوٹکڑے، دولخت، دوحصے۔ (محولہ: جس کا حوالہ دیا گیا)۔ یہ نیم اردو میں فارسی سے آیا ہے جس کا مطلب ہے آدھا، بیچ یا درمیان۔ (یہاں ضمناً ایک اہم بات عرض کرتاچلوں۔ جب کبھی عظیم فاتح حضرت طارق بن زیاد رحمۃ اللہ علیہ، تبع تابعی کا نام نامی لیا جاتا ہے تو ذہن میں وہ حکایت دل پزیر دَر آتی ہے کہ انھوں نے اَندَلُس[ANDALUS]کے ساحل پر لنگر انداز ہونے کے فوراً بعد تمام کشتیوں ، جہازوں کو آگ لگادی تھی تاکہ مسلمان شکست کی صورت میں فرار کی نہ سوچیں۔ یہ کسی نے گھڑ کے مشہور کردیا ہے۔ تاریخ و سیرت کے محققین نے اس کی تردید کی ہے کہ ایسا کوئی واقعہ پیش آیا ہو۔
دوسری بات یہ ہے کہ انگریز نے اسی فاتح کی بہادر قوم بَربَر کو بدنام کرنے کے لیے Barbarism جیسی اصطلاح گھڑی اور پھر اس کا ترجمہ کیا گیا، بربریت ۔ بہتر ہے کہ اس کے استعمال سے گریز کیا جائے)۔ اسی طرح میرؔ کے مشہور شعر میں مستعمل 'نیم باز' کی ترکیب کا مطلب ہے : آدھی کھُلی ہوئی۔ نشیلی آنکھ ایسی ہی ہوتی ہے، اس لیے میرؔ نے یہ ترکیب نظم کی۔ اب اس فہرست کے آخر میں شامل، فیضؔ کے شعر کی بات ہوجائے ۔ 'نیم کَش' (یا نیم کشیدہ) کا مطلب ہے آدھا کھینچا ہوا (یعنی جب کمان کے چِلّے پر چلانے کے لیے تِیر چڑھاتے ہیں اور ابھی درمیان ہی میں ہوتا ہے)۔ فیض احمد فیضؔ سے پہلے یہ مضمون اور یہ ترکیب اردو کے متعدد شعراء نے استعمال کی، اب یہ اُن کی خوش قسمتی ہے کہ بعد میں پیدا ہونے اور اُفُقِ شعر پر نمودار ہونے کے باوجود، دیگر کے اشعار اس طرح مقبول نہ ہوئے۔ 'نیم کش' کا استعمال میرزا غالبؔ کے یہاں بہرحال بہت مشہور ہوا:
کوئی میرے دل سے پوچھے تیرے تیر نیم کش کو
یہ خلش کہاں سے ہوتی جو جگر کے پار ہوتا
اسی مضمون کو بہ انداز دِگر، شادؔ عظیم آبادی کے شاگرد ، سید شہاب الدین (المتخلص بہ) بے خود ؔ عظیم آبادی نے یوں برتا ہے:
تِرچھی نظروں کی تو اوتُرک نہیں کوئی سند
تِیر ایسا تو ہو، سیدھا جگر تک پہنچے
(تلامذہ شادؔ عظیم آبادی از سید نعمت اللہ۔ ایک تعارف ۔تحریر: سہیل احمدصدیقی۔ مطبوعہ سہ ماہی نمود حرف، لاہور۔ شمارہ بابت جنوری تا مارچ 2015ء)۔اب ذرا لغات ملاحظہ فرمائیں تو اس فارسی 'نیم' کا استعمال مختلف جہات میں یوں سامنے آتا ہے:
نیم برشت: اَدھ کچا، کچھ کچا کچھ پکا، آدھا بھُنا ہوا۔ نیم بسمل: آدھا ذبح کیا ہوا۔ یا۔اَدھ مُوا۔ زخمی کر کے چھوڑا ہوا، گھایل، نیم مُردہ یا نیم کُشتہ۔ (مسدس حالی ؔ میں مجازاً متوسط طبقے کے لوگوں کے لیے یہ ترکیب استعمال ہوئی ہے)۔ نیم تر: آدھی خشک[Semi-dry]۔ مگر پرانی اردو میں یہ ترکیب اُس شخص کے لیے استعمال ہوتی تھی جو کم خواندہ وناتجربہ کار ہو۔ نیم جاں: اَدھ مُوا، قریب ِ مرگ۔یا۔قریب بہ مرگ (قریب المرگ لکھنا درست نہیں، آدھی عربی ، آدھی فارسی)۔ نیم جوش: آدھا یا ہلکا جوش دیا ہوا، ہلکا اُبالا ہوا یا اَدھ پکّا۔ نیم حکیم: کم یا ادھوری تعلیم طب حاصل کرکے حکمت کرنے والا۔ مثل مشہور ہے: نیم حکیم خطرہ جان، نیم مُلّا خطرہ ایمان۔ نیم خواب: آنکھ کا آدھا کھُلنا جیسے کچی نیند میں ہوتا ہے۔ نیم خوابید: کچی نیند میں یا غنودگی میں، اُونگھنے کی کیفیت۔ نیم خوردہ: کسی کا جھوٹا یا کھا کر چھوڑا ہوا۔ نیم راضی: تقریباً راضی یا نیم رضامند، راضی ہونے کے قریب۔ نیم روز: دوپہر۔ نیم سوختہ: آدھا جلا ہوا۔ نیم گرم: ہلکا گرم، کُنکُنا۔ نیم مست: کچھ کچھ ہوشیار۔ نیم مُلّا: کچا پکا مولوی، نام کا مولوی جس نے دین کا علم ٹھیک سے حاصل نہ کیا ہو (جیسے آج کل بہت سے ٹیلی وژن پر 'اسکالر' کے لقب سے ملقب ، ہر گھڑی جلوہ افروز ہوتے ہیں)۔ نیم نگاہ: کن انکھیوں سے دیکھنا۔