امریکا کی نئی افغان پالیسی اور پاکستان

امریکا پاکستان پر کڑی شرائط عائد کرکے اس پر دباؤ بڑھانا چاہتا ہے۔


طاہر نجمی September 05, 2017
[email protected]

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی اپنے پیشروؤں اوباما اور بش جونیئر کی طرح پاکستان پر الزامات لگا کر ڈو مور کا مطالبہ کردیا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے والے امریکی صدور الزامات عائد کرتے ہوئے سفارتی زبان استعمال کرتے تھے جب کہ ٹرمپ خود کو سفارتی تکلفات سے مبرا سمجھتے ہیں۔ انھوں نے افغانستان اور جنوبی ایشیا کے حوالے سے اپنی پالیسی بتاتے ہوئے پاکستان پر دہشتگردوں کو پناہ دینے کا پرانا الزام عائد کرکے بھارت کو افغانستان میں زیادہ موثر کردار اپنانے کا سگنل دیا۔

امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن نے بھی واشنگٹن میں افغان پالیسی پر میڈیا بریفنگ کے دوران ٹرمپ کے الزامات کو دہرایا اور دھمکی دی کہ اگر پاکستان اسی طرح دہشت گردوں کو پناہ دیتا رہا تو اس کی امداد میں کمی کے ساتھ اس کی نان نیٹو اتحادی کی حیثیت خطرے میں پڑسکتی ہے اور دہشت گردوں کی پناہ گاہوں پر حملہ بھی کیا جاسکتا ہے۔ یہ ہے وہ ''صلہ'' جو امریکا نے نائن الیون کے بعد کے اپنے 16 سالہ اتحادی پاکستان کو دیا ہے۔

ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے جب نئی افغان پالیسی تشکیل دی جارہی تھی تو اس بات کے خدشات موجود تھے کہ امریکا کی ترجیحات بدل سکتی ہیں اور اب نئی افغان پالیسی سامنے آنے کے بعد یہ واضح ہوگیا ہے کہ امریکا پاکستان پر کڑی شرائط عائد کرکے اس پر دباؤ بڑھانا چاہتا ہے۔پاکستان کی قومی سلامتی کمیٹی نے امریکا سے مطالبہ کردیا ہے کہ وہ افغانستان میں موجود پاکستان مخالف دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرے۔

گویا پاکستان نے جوابی مطالبہ کیا ہے کہ امریکا ان جہادیوں کے خلاف آپریشن کرے جن میں فضل اللہ اور اس کے ساتھی سرفہرست ہیں۔ اب دیکھتے ہیں کہ امریکا اس کا کیا جواب دیتا ہے۔ پاکستان نے ابتدائی ردعمل میں ہی نئی افغان پالیسی کو مایوس کن قرار دیا تھا۔ ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ امریکی پالیسیوں میں ہماری قربانیوں کو نظر انداز کیا جانا مایوس کن ہے۔

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے امریکی سفیر ڈیوڈ ہیل سے ملاقات میں بالکل صائب کہا کہ ہمیں امریکا سے کسی بھی مالی یا عسکری امداد کی ضرورت نہیں بلکہ ہم اپنی خدمات کا اعتراف اور اعتماد چاہتے ہیں۔ یہ بات اس لحاظ سے درست ہے کہ جب امریکا ہم سے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں مدد چاہتا ہے تو پھر اسے ہم پر اعتماد بھی کرنا چاہیے۔ قومی اسمبلی نے تو دو قدم آگے بڑھ کر حکومت سے کہہ دیا ہے کہ وہ امریکا کے ساتھ فضائی اور زمینی حدود کے استعمال کے بارے میں برسوں سے جاری تعاون کو معطل کرنے پر غور کرے مگر معاملے کی نزاکت اس بات کی متقاضی ہے کہ جلد بازی میں یا جذبات میںآکر کوئی اقدام نہ کیا جائے۔

قومی خودمختاری کا نعرہ لگا کر امریکا کے خلاف عوام کے جذبات بھڑکا دینا کوئی مشکل کام نہیں مگر ہمارا اصل امتحان اس بات میں مضمر ہے کہ ہم اس نازک اور مشکل وقت میں اس مسئلے سے کس طرح نمٹتے ہیں۔ امریکا مردہ باد کے نعرے پر مبنی پالیسی اپنا کر عوام کو خوش کرتے ہیں یا کوئی سنجیدہ حکمت عملی اپنا کر ملک و قوم کو ایک سپر پاور کی دشمنی یا مخاصمت سے محفوظ رکھنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔

عام آدمی یہ سمجھ رہا ہے کہ نئی افغان پالیسی میں ٹرمپ نے جس طرح واضح اور دو ٹوک انداز میں بات کی ہے، اسی طرح اب ہمیں بھی لگی لپٹی رکھے بغیر موقف اپنانا ہوگا، عالمی برادری کو اس بات کا بخوبی ادراک ہے کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے کس قدر خدمات انجام دی ہیں، ہمارے 70 ہزار افراد اس جنگ میں اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، ایک کھرب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوچکا ہے، لاکھوں افراد بے گھر ہوئے، پھر بھی امریکا کو صبر اور قرار نہیں آرہا اور ڈو مور، ڈو مور کی تکرار تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہی، اس لیے اب ہمیں امریکا کو سنجیدگی سے کوئی معقول جواب دینا ہوگا۔ اس کی شکایات سننی ہوں گی اور اپنے تحفظات سے آگاہ کرنا ہوگا مگر اس کے لیے سب سے پہلے اعتماد کا ماحول پیدا کرنا ہوگا۔

نئی امریکی پالیسی کے اعلان سے قبل امریکی سینٹرل کمان کے سربراہ جنرل جوزف وٹل نے اعلیٰ سطح کے وفد کے ساتھ پاکستان کا دورہ کیا تھا اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اس پر واضح کرچکے تھے کہ پاکستان سے زیادہ شاید ہی کسی ملک کو افغانستان میں امن سے دلچسپی ہو۔ ہم خطے میں قیام امن اور استحکام کے لیے کئی عشروں پر محیط خدمات خصوصاً پاکستانی عوام اور سیکیورٹی فورسز کی طرف سے دہشتگردی کے خلاف دی گئی قربانیوں کا اعتراف چاہتے ہیں۔

اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ افغانستان کی شورش زدہ اور سنگین صورتحال کی بہتری کے لیے اگر کسی ملک نے نیک نیتی سے دلچسپی لی ہے تو وہ صرف پاکستان ہے، ٹرمپ انتظامیہ تک یہ پیغام امریکی وفد کے توسط سے جانا چاہیے تھا کہ افغانستان میں امن واستحکام کے لیے روڈ میپ اور حکمت عملی میں پاکستان کی کوششوں کا نہ صرف اعتراف کیا جائے بلکہ اس کی حوصلہ افزائی کی جائے مگر توقعات کے برعکس اس طرح کی پالیسی کا آنا ناقابل فہم ہے اور پاکستان کے لیے کسی دھچکے سے کم نہیں۔

اوباما کے دور میں بھی پاکستان سے حقانی نیٹ ورک کے خلاف ایکشن لینے کا مطالبہ کیا گیا تھا، پاکستان کی امداد بھی 60 فیصد کم کردی گئی تھی۔ اب صدر ٹرمپ نے اپنا آخری کارڈ بھارت کو آگے لا کر استعمال کرلیا ہے، امریکا کے بدلتے ہوئے تیور دیکھ کر ہمیں دوست ممالک بالخصوص چین اور روس کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کی کوششیں کرنی چاہیے، خوش آیند بات یہ ہے کہ ناصرف چین بلکہ روس نے بھی اس کڑے وقت میں پاکستان کی کھل کر حمایت کی ہے۔

پاکستان کے پالیسی سازوں کو تمام حقائق کا بغور جائزہ لے کر ایسی پالیسی تشکیل دینی چاہیے جس سے پاکستان محفوظ و مستحکم رہ سکے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے نئی پالیسی میں افغانستان کے حوالے سے امریکی فوج کے افغانستان میں غیرمعینہ مدت تک موجود رہنے کا اعلان بھی کیا اور وہاں پر موجود فوجیوں کی تعداد میں اضافہ اور کارروائیوں میں شدت لانے کا انتباہ بھی دیا۔

سولہ برس قبل جب امریکا افغانستان پر حملہ آور ہوا تھا تب سے اب تک اس کا افغانستان میں ایجنڈا ادھورا ہے، امریکا اپنی تاریخ کی سب سے طویل ترین جنگ افغانستان میں لڑ رہا ہے، سولہ برس بعد بھی وائٹ ہاؤس کے تھنک ٹینک اور ماہرین سر جوڑ کر بیٹھے ہوئے ہیں کہ اب مزید کیا کیا جاسکتا ہے۔ اس وقت آٹھ ہزار امریکی اور نیٹو کے ساڑھے چار ہزار فوجی افغانستان میں موجود ہیں۔ جب امریکا نے مداخلت کی تھی تو اس وقت ایک لاکھ سے زائد امریکی فوجی وہاں بھیجے گئے تھے، امریکا کی جانب سے مزید فوج بھیجے جانے کے نتائج کیا نکل سکتے ہیں؟

یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا تاہم امریکا کے پالیسی سازوں کو حقائق کا سامنا کرنا چاہیے، امریکی قومی سلامتی کے مشیر جنرل ایچ آر مک ماسٹر یہ اعتراف کرچکے ہیں کہ امریکا افغانستان میں جنگ جیتنے میں ناکام ہو چکا ہے۔ کیا خوب ہے کہ 16سال تک کھربوں ڈالرز خرچ کرنے کے باوجود بھی امریکی فوج پورے افغانستان میں اپنی کٹھ پتلی افغان حکومت کی عملداری قائم نہیں کرسکی۔

آدھے سے زیادہ افغان علاقوں پر طالبان چھائے ہوئے ہیں جنھیں امریکی دہشت گردکہتے ہیں مگر ان پر قابو پانے میں ناکام ہوتے چلے آرہے ہیں لیکن ناکامی تسلیم کرنے کے بجائے اس کا ملبہ پاکستان پر گراتے ہیں، امریکا کو تسلیم کرلینا چاہیے کہ اس نے افغانستان میں ایک ایسی حکومت مسلط کررکھی ہے جو کہ عوام میں مقبول نہیں ہے اور قومیتی اعتبار سے غیر متوازن ہے۔

افغانستان کی آبادی کا غالب حصہ 56فیصد پختون ہیں اور وہ حکومتی نظام میں اپنی نمایندگی سے مطمئن نہیں، وہ بر ملا کہتے ہیں کہ امریکیوں نے ہمارے ملک پر قبضہ کر رکھا ہے اور اقلیتی گروہوں ازبکوں اور تاجکوں کو پختونوں پر مسلط کردیا ہے، اس لیے وہ اپنے وطن کو آزادکرانے کے لیے جنگ لڑ رہے ہیں، ماضی میں جھانکا جائے تو ایک وقت وہ بھی تھا جب امریکا کے لوگ یہ سمجھتے تھے کہ برطانیہ نے اسے اپنی نوآبادی بنا رکھا ہے، امریکیوں نے ان کے خلاف جنگ لڑی تھی، وہ خود آزادی کی تحریک چلاتے تھے اور برطانیہ انھیں باغی یا دہشتگرد کہتا تھا، اب یہی صورتحال افغانستان میں امریکا کو درپیش ہے، افغانستان کے مسئلہ کا باعزت اور باوقار حل یہی ہے کہ امریکا افغانستان کو حقیقی معنوں میں آزادی دے، وہاں مزید فوج بھیجنے کے بجائے اپنی فوج کے مکمل انخلا کو یقینی بنائے، فوجی حل تلاش کرنے کے بجائے مسئلے کا سیاسی حل تلاش کرے کیونکہ بندوق کا زور تو وہ اب تک بہت لگا چکا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں