بلدیہ عظمیٰ اور ضلع کونسل کراچی

سندھ کی دیہی اور شہری تقسیم کا سارا فائدہ پیپلزپارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کو مل رہا ہے۔


Muhammad Saeed Arain September 05, 2017

KARACHI: ضلع کونسل کراچی کے پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے چیئرمین نے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ کراچی کو دیے جانے والے 25 ارب روپے کے وفاقی حکومت کے پیکیج میں ضلع کونسل کراچی میں شامل دیہی علاقوں کو بھی شامل کیا جائے جوکراچی کا ستر فی صد علاقہ ہے جب کہ بلدیہ عظمیٰ کراچی کے سابق سٹی ناظمین اور موجودہ میئر کا کہناہے کہ کہنے کو ہماری بلدیہ عظمیٰ کراچی ہے، جس میں صرف 23 فی صد کراچی کا علاقہ بلدیہ عظمیٰ کے پاس ہے اور باقی کنٹونمنٹس اور دیگر سرکاری اداروں کے پاس ہے۔

دوکروڑ سے زائد آبادی کا یہ بین الاقوامی شہر صرف چھ اضلاع اور ایک ضلع کونسل پر مشتمل ہے جب کہ دنیا کے درجنوں ملک کراچی سے بہت چھوٹے بلکہ کراچی کے ضلع وسطی سے بھی چھوٹے ہیں ۔ جنرل پرویز کے ضلع حکومتوں کے دور میں سٹی حکومت کراچی ایک ضلع اٹھارہ ٹاؤنز اور 178 یونین کونسلوں پر مشتمل تھی جو ایک بہترین نظام تھا جس میں ٹاؤنز اور یونین کونسلوں کی تعداد بہت کم تھی۔

کراچی کے 18 میں چار ٹاؤن بن قاسم، گڈاپ،کیماڑی اور لیاری دونوں ضلع حکومتوں میں پیپلزپارٹی کے پاس تھے جن میں لیاری کے علاوہ باقی تین ٹاؤن دیہی علاقوں پر مشتمل تھے مگر پیپلزپارٹی کی حکومت نے سٹی حکومت ختم کرکے کراچی کو پانچ ضلعوں میں تقسیم کردیا اور بعد میں تین سابق ٹاؤنز شاہ فیصل، کورنگی اور لانڈھی کو ضلع شرقی سے الگ کرکے اپنے سیاسی مفاد کے لیے کورنگی نیا ضلع بنایا جس کے بعد اضلاع کی تعداد چھ ہوگئی اور سابقہ گڈاپ، بن قاسم کو مکمل اور کیماڑی کا بڑا حصہ ضلع کونسل میں شامل کردیا اور ضلع کونسل کراچی سندھ حکومت سے متعلق ہے جس کا بلدیہ عظمیٰ سے کوئی تعلق نہیں ہے ویسے تو پیپلزپارٹی سندھ کی تقسیم کے سخت خلاف اور متحدہ حامی ہے اور عملی طور پر پیپلزپارٹی کی پہلی حکومت نے سندھ کو 45 سال قبل کوٹا سسٹم نافذ کرکے دیہی سندھ اور شہری سندھ میں خود تقسیم کیا تھا اور 2008 میں پی پی حکومت نے کراچی ہی نہیں بلکہ ضلع ملیر کو بھی دیہی اور شہری علاقوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔

جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ شہری علاقہ لیاری میں جو میڈیکل کالج بنایا گیا تھا۔ اس میں داخلہ صرف گڈاپ اور بن قاسم ٹاؤن بلکہ ملیر کے دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والے طلبا کے لیے مخصوص تھا۔کراچی کی دیہی اور شہری تقسیم خود پی پی حکومت نے کر رکھی ہے۔ جس کا ثبوت بلدیہ عظمیٰ کراچی اورضلع کونسل کراچی ہے۔

بلدیہ عظمیٰ میں پہلے 213 یونین کمیٹیاں اور ضلع ملیر میں پہلے 23 یونین کونسلوں کی جگہ 38 یونین کونسلیں بناکر ملیر ضلع کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ شہری علاقوں کی بلدیہ عظمیٰ میں یونین کمیٹیاں اورضلع کونسل کراچی میں یونین کونسلیں بنائی گئی ہیں جب کہ سٹی حکومت میں تمام 178 یونین کونسلیں تھیں شہری اور دیہی کی تفریق نہیں تھی اور ضلع کونسل کراچی کے موجودہ دیہی علاقے گڈاپ، بن قاسم اور کیماڑی ٹاؤن میں آتے تھے جس سے دیہی عوام کو بڑی سہولت تھی اور ان تینوں ٹاؤنز پر مشتمل ضلع کونسل کا دفتر شہری علاقے ضلع شرقی کے ڈی سی آفس کے قریب ہے جس سے دیہی علاقے کے لوگوں کو سخت پریشانی ہورہی ہے اور چیئرمین ضلع کونسل خود باقاعدگی سے اپنے ضلعی آفس میں نہیں بیٹھ رہے بلکہ مختلف جگہوں پر بیٹھتے ہیں۔

سندھ کی دیہی اور شہری تقسیم کا سارا فائدہ پیپلزپارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کو مل رہا ہے۔ پی پی دیہی سندھ کی اور متحدہ شہری سندھ کی نمایندہ جماعتیں چلی آرہی ہیں۔

1988 سے متحدہ قومی موومنٹ اور پی پی 2013 تک حلیف رہیں اور متحدہ پی پی کے ساتھ حکومت میں شامل رہی مگر پی پی کی عدم دلچسپی اور متحدہ رہنماؤں کے ذاتی اور سیاسی مفادات کی وجہ سے کراچی کو کوئی فائدہ نہیں ہوا جب کہ متحدہ کے رہنما حکومتوں میں رہ کر کہاں سے کہاں پہنچ گئے اور متحدہ کا گڑھ مسلسل پیچھے جاتا رہا اور پی پی حکومت نے شہری کراچی کو مسلسل نظر انداز کیا اور کراچی کے دیہی علاقوں اور لیاری پر توجہ دی۔ یاری کو وفاقی حکومت نے خصوصی پیکیج بھی دیا کیونکہ کراچی کے شہری علاقوں میں لیاری وہ واحد علاقہ ہے جو پسماندگی کے باوجود پیپلزپارٹی ہی کو منتخب کرتا آرہا ہے۔

کرپشن کے الزامات میں مقدمات بھگتنے والے پی پی کراچی کے صدر ڈاکٹر عاصم نے کہاہے کہ پی پی اور متحدہ کا ملاپ کراچی کے لیے بہتر ثابت ہوسکتا ہے مگر پی پی اپنا رویہ کراچی کے سلسلے میں تبدیل کرنے کو تیار نہیں ہے اس نے بلدیہ عظمیٰ کراچی کو بے اختیار بے اثر کر رکھا ہے پہلے جو محکمے بلدیہ عظمیٰ کے پاس تھے وہ پی پی حکومت نے اپنے کنٹرول میں کر رکھا ہے اور وزیراعلیٰ سندھ کراچی کے میئر بھی بنے ہوئے ہیں اور کراچی کے ساتھ دہری پالیسی اختیار کی گئی ہے۔

کراچی کے ضلع جنوبی اور ضلع ملیر پر حکومت خاص مہربان ہے کیونکہ پی پی کے اپنے چیئرمین ہیں۔ پی پی کی سندھ حکومت کراچی کے دیہی اور اپنے علاقوں پر خصوصی توجہ دے رہی ہے اور متحدہ کے چیئرمینوں سے زیادہ پی پی اپنے چیئرمینوں کو منہ مانگے فنڈ دے رہی ہے۔ کراچی کے جو اضلاع متحدہ کے پاس ہیں وہاں بھی سندھ حکومت خود تعمیری کام کرارہی ہے اور یہ کام شہر کی بعض اہم شاہراؤں پر کرائے گئے ہیں جب کہ شہر کی اندرونی حالت بہت خراب ہے۔ شہر بھر میں سیوریج کا نظام تباہ ہوچکا ہے۔

متعدد علاقوں میں پینے کا پانی دستیاب نہیں۔ واٹر اینڈ سیوریج بورڈ بلدیہ عظمیٰ کے ماتحت ہوا کرتا تھا جو اب سندھ حکومت کے پاس ہے۔ جماعت اسلامی نے وفاقی حکومت سے کراچی کو دو سو ارب روپے کے پیکیج دینے کا مطالبہ کیا تھا، مگر اب وزیراعظم نے کراچی کے لیے صرف 25 ارب روپے کے پیکیج کا اعلان کیا ہے جو بہت کم ہے اور ضلع کونسل کراچی بھی اس میں حصہ مانگ رہی ہے جو سندھ حکومت کا حصہ ہے اور سندھ حکومت اس پر پہلے ہی مہربان ہے۔ کراچی کے لوگوں کو شہر میں ترقیاتی کام چاہئیں خواہ وہ کوئی بھی کروائے۔

اصل جھگڑا کمیشن اور پی پی حکومت کے دہرے معیار کا ہے سندھ حکومت اس سلسلے میں اپنی پالیسی تبدیل کرے اور کراچی سے کوئی امتیاز نہ برتے اور کراچی کے شہری علاقوں کو بھی دیہی علاقوں کی طرح پی پی اپنا سمجھے جو متحدہ کی ملکیت نہیں مگر وہاں متحدہ کا ووٹ بینک ہے شہری علاقوں کو اپناکر پی پی وہاں بھی تعمیری کام کراکر شہریوں کو متاثر کرکے اپنا ووٹ پی پی چاہے تو بڑھاسکتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں