ہوئے ٹرمپ دوست جس کے

امریکی صدر ان ممالک سے تعلقات زیادہ مضبوط رکھنا چاہتے ہیں جہاں ان کا اپنا ذاتی مفاد ہو۔

اکبر جمال

فاشسٹ اور نازی خیالات رکھنے والے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی عوام کو اس طرح سے دو حصوں میں تقسیم کردیا ہے کہ جس کی امریکی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ تقریباً ہر ریاست میں نفرت کی چنگاری جس طرح سلگ رہی ہے وہ کسی بھی وقت شعلوں کی شکل اختیار کرسکتی ہے۔ ٹرمپ کے متعصبانہ رویے کے باعث امریکی میڈیا اور عوام کے ایک بڑے حصے نے ان کو Divider Inchief کے نام سے مخاطب کرنا شروع کردیا ہے۔ تارکین وطن سے لے کر سیاہ فام امریکیوں تک سے وہ نفرت کا اظہار کرتے رہے ہیں۔

مسلمانوں کے خلاف نفرت کے اظہار کی بات تو کوئی ڈھکی چھپی نہیں انھوں نے اپنے متعدد انتظامی حکم ناموں کے ذریعے 6 مسلمان ممالک کے باشندوں کے امریکا آنے پر پابندی بھی لگائی تاہم امریکی عدالتوں نے ان کے ان متعصبانہ فیصلوں کو بارہا مسترد کردیا۔ ٹرمپ کے فاشسٹ اور نازی خیالات نئے نہیں بلکہ ان کو یہ ورثے میں ملے ہیں۔ ٹرمپ کے والد بھی انھی خیالات کے حامی تھے۔ 1927ء میں ٹرمپ کے والد Fred Trump کو نیویارک پولیس نے اس وقت گرفتار کرلیا تھا جب وہ فاشسٹ تنظیم KKK گروپ میں شامل تھے اور اس دہشتگرد گروپ نے پولیس پر حملہ کیا، بعد میں ضمانت پر فریڈ ٹرمپ کو رہائی ملی تھی۔ ٹرمپ اپنی انتخابی مہم کے دوران نہ صرف تارکین وطن بلکہ مسلمانوں، سیاہ فام امریکیوں سے بھی نفرت کا اظہار کرتے رہے اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ وہ ان مسلم ممالک کے خلاف بھی شعلہ بیانی کرتے ہیں۔

جہاں ان کو اپنے مفادات نظر نہیں آتے اپنے 8 ماہ کے دور اقتدار میں میڈیا، عدالتوں، انٹیلی جنس کمیونٹی، الیکشن پروسس، قانون نافذ کرنے والے اداروں کے علاوہ متعدد اراکین کانگریس پر بھی انتہائی سخت الفاظوں میں نکتہ چینی کرتے رہے ہیں بلکہ اپنی پارٹی ری پبلکن کے ساتھیوں کو بھی انھوں نے نہیں بخشا جو انتخابی مہم میں ان کے شانہ بشانہ کھڑے تھے۔

ٹرمپ کی ان حرکتوں کی وجہ سے ایک درجن سے زائد دماغی امراض کا علاج کرنے والے ڈاکٹروں کی ایک ٹیم نے اپنی ایک رپورٹ میں ٹرمپ کو ایک ذہنی مریض بتایا ہے ڈیموکریٹک پارٹی کے اعلیٰ عہدیداروں جن میں ہاؤس انٹیلی جنس کمیٹی کے ممبر بھی شامل ہیں نے اپنے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ امریکی صدر ذہنی طور پر بیمار ہیں اور وہ بطور صدر امریکا کے لیے انتہائی خطرناک ہیں۔

ان کی اپنی ہی پارٹی ری پبلکن کے ایک اہم سینیٹر Bob Corker جو سابقہ حکومتوں میں انٹیلی جنس کے اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے ہیں کہہ چکے ہیں کہ امریکی صدر Mental Disorder کا شکار ہیں اور انھیں صدر کے عہدے سے فوری طور پر برطرف کرنے کی ضرورت ہے ورنہ ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے بعض اراکین کانگریس کا کہنا ہے کہ صدر کے پاس ایٹمی ہتھیار فائر کرنے کے سیکریٹ کوڈ موجود ہیں جو عالمی امن کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔

اسی طرح ایک اور کانگریس کی اہم خاتون رکن Zoe Lofgren نے کانگریس میں ایک بل متعارف کروایا جس میں کہا گیا کہ صدر ٹرمپ کو فوری طور پر نفسیاتی ڈاکٹروں سے علاج کی ضرورت ہے اور ان کو عہدے سے ہٹانا ضروری ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی مقبولیت دن بہ دن گرتی جا رہی ہے۔ 8 ماہ قبل صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد ان کی مقبولیت 54 فیصد تھی اور آج ان کی مقبولیت 34 فیصد رہ گئی ہے۔

ایک سروے کے مطابق ان کی مقبولیت میں کمی کی وجہ مختلف اوقات میں جھوٹ بولنے، غلط بیانی اور انصاف کے معاملے میں رکاوٹ ڈالنے کو وجہ بتایا جا رہا ہے امریکا کے انتہائی بااثر میڈیا کے تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اتنے ثبوت جمع ہوچکے ہیں کہ صدر Impeachment کے دہانے پر کھڑے ہیں بالخصوص ان کے اور ان کے اہل خانہ کے روس کے ساتھ روابط اور روسی انٹیلی جنس کی امریکی انتخابات میں مداخلت کے ثبوت شامل ہیں۔


تاہم ٹرمپ کے قریبی ساتھی سابقہ کمپین ایڈوائزر Roger Stone نے متنبہ کیا ہے کہ ٹرمپ کے خلاف مواخذےAll Out War کے مترادف ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ اگر ایسا ہوتا ہے تو ملک میں خون خرابے کو کوئی نہیں روک سکتا چونکہ دونوں اطراف کے لوگ ہتھیاروں سے لیس ہیں انھوں نے کہا کہ بعض اراکین جن میں ری پبلکن اور ڈیموکریٹ کے لوگ شامل ہیں صدر کو مواخذے کی طرف لے جا رہے ہیں۔

تاہم یہ حقیقت ہے کہ امریکی صدر نے عوام کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کے بعد بین الاقوامی صورتحال کو گمبھیر اور خطرناک بنانے کی بھی کوششوں میں سرگرم عمل ہیں حال ہی میں پاکستان کے خلاف جو شرانگیز بیان اور دھمکی آمیز لہجہ استعمال کیا پاکستان کے علاوہ عالمی میڈیا نے سخت تشویش کا اظہار کیا چین اور روس نے فوری ردعمل کے طور پر امریکی صدر کو خبردار کیا، لیکن درحقیقت افغان پالیسی پر پاکستان کو دھمکی اور بھارت کی دلجوئی کرنے پر کوئی تعجب نہیں ہونا چاہیے۔

درحقیقت امریکی صدر صرف اپنے ذاتی مفادات کو ترجیح دے رہے ہیں وہ ان ممالک سے تعلقات زیادہ مضبوط رکھنا چاہتے ہیں جہاں ان کا اپنا ذاتی مفاد ہو۔ واضح رہے کہ جن اسلامی ممالک میں ان کی بے پناہ جائیدادیں اور دولت موجود ہے ان ممالک کے خلاف ٹرمپ کبھی نہیں بولے۔ ان ممالک میں قابل ذکر ممالک سعودی عرب، قطر اور دبئی وغیرہ شامل ہیں۔ جہاں ان کے بلین ڈالروں کا کاروبار موجود ہے درحقیقت ٹرمپ ایک بزنس مین ہیں وہ نہ تو ڈپلومیسی میں مہارت رکھتے ہیں اور نہ صدارت کے لائق ہیں۔

بھارت کی حمایت اور پاکستان کے خلاف شر انگیزی ان کے لیے ایک فطری عمل تھا چونکہ بھارت میں ان کی سرمایہ کاری 1.5 بلین ڈالر سے زائد کی ہے جس میں بھارتی صنعتی شہر ممبئی کے علاوہ دیگر شہروں، ٹرم ٹاور کے علاوہ دیگر عمارتوں کی تعمیر شامل ہے جس کی تکمیل آیندہ سال تک متوقع ہے تو ہم کیوں اس بات کی امید لگائیں کہ امریکی صدر پاکستان کے دوست ثابت ہوں گے۔

ہوئے ''ٹرمپ'' دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو۔

دنیا اس حقیقت سے واقف ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہزاروں پاکستانیوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا اور بلین ڈالروں کا نقصان اٹھایا ہماری معیشت کو شدید نقصان پہنچا بھارت اور افغانستان نے امریکی صدر کے بیان کا خیرمقدم کیا لیکن پاکستان سے دشمنی رکھنے والے دونوں ہمسایہ ممالک اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ پاکستان اب اکیلا نہیں ہے چین اور روس پاکستان کے حمایتی ہیں، ٹرمپ نے مزید چار پانچ ہزار امریکی افواج کو افغانستان بھیجنے کا اعلان کیا ہے اور اس بات کا عزم ظاہر کیا ہے کہ وہ طالبان کو شکست دے دیں گے وہ اس قدر بے خبر ہیں کہ اس سے قبل ایک لاکھ امریکی افواج جب وہاں موجود تھی تو طالبان کو شکست نہیں دے سکے۔

جدید ہتھیاروں سے لیس امریکی افواج ایٹمی ہتھیاروں کے علاوہ طالبان کے خلاف ہر طرح کا اسلحہ استعمال کرچکے ہیں جن میں سب سے مہلک بم (MOAB) Mother of All Bomb قابل ذکر ہے تاہم ان مہلک ہتھیاروں کے استعمال کے باوجود آج بھی طالبان کا افغانستان کے 60 فیصد سے زائد علاقوں میں قبضہ ہے امریکی انتظامیہ کی ناقص پالیسیوں اور شکست کا الزام پاکستان پر ڈالنے کا ایک روایت بن چکا ہے افغانستان میں اس کا واحد راستہ مذاکرات ہیں اور جس کے لیے طالبان اور پاکستان کو شامل کرنا لازمی ہے۔ ورنہ یہ جنگ سو سال تک بھی جاری رہے امن قائم نہیں ہوسکتا امریکا کو اپنے بے تکے بیانات سے گریز کرنا چاہیے۔ اور دھمکی نہیں مذاکرات سے امن قائم کرنے کی ضرورت ہے۔
Load Next Story