نہ موڑا جھوٹ سے منہ حاکموں نے

مردم شماری بھی سندھ حکومت اور ایم کیو ایم پاکستان نے مستردکردی ہے یہ بھی بڑا دھماکا ہے۔


Saeed Parvez September 05, 2017

MILAN: ماہ ستمبرکا آغاز ہوچکا ہے ، یہی وہ ''ستمگر'' مہینہ ہے کہ جب نو شہرہ کو ڈبوتے ہوئے برسات کا پانی اٹک ، جہلم، سیالکوٹ، وزیر آباد، گجرات، سوہدرا، کامونکی، شیخوپورہ ، قصور، مرید کے اور پھر آگے چل سوچل، وسطی پنجاب، جنوبی پنجاب، کو ڈبوتا ہوا ، صوبہ سندھ میں داخل ہوجاتا ہے اور سندھ کو بھی برباد کرتا ہوا آخر سمندر میں جاگرتا ہے۔

ملک میں سال بھر جو دہشت گردیاں جاری رہتی ہیں، خودکش بمبار دھماکے، منصوبہ بند قتل، رہزنی، ڈاکے، لوٹ مار وہ الگ اور پھر ستمگر کا مہینہ آجاتا ہے۔ جولائی، اگست کی بارشوں کے نتیجے میں پانی خونی سیلاب کی صورت انسانوں، جانوروں کو مارتا ہوا کچے گھروں، جھونپڑیوں کو مٹاتا ہوا کمزوروں کی کھیتیاں اجاڑتا ہوا سمندر میں ٹھنڈا ہوجاتا ہے۔

ستر سال سے قائم پاکستان میں کسی بھی حکومت نے اس ملک کو درپیش مسائل کے حل کی طرف توجہ نہیں دی جو آیا اس نے اپنا گھر بھرا اور چلا گیا۔ 70 سال پہلے 14 اگست 1947 کے دن میں گیارہ ماہ کا تھا۔ واہگہ سے پاکستان میں داخل ہونے پر ریل کی کھڑکیاں کھول دی گئیں۔ گیارہ ماہ کا سعید پرویز ایک ہی نعرہ سن رہا تھا ''پاکستان زندہ باد'' چھوٹے سے بچے نے بھی حلق سے زور دار آواز نکالی ''تان'' اور پھر وہ بچہ کراچی پہنچنے تک ''تان تان'' ہی کرتا رہا۔

آج 70 سال بعد اسی ننھے منے گیارہ ماہ کے سعید پرویز کی سب سے چھوٹی پوتی ڈیڑھ سال کی ''ہانیہ'' ''پاکستان'' کے جواب میں اپنے ننھے ننھے ہاتھ اٹھاکر کہتی ہے ''دندا'' یعنی زندہ ۔ حبیب جالب کی دو سالہ بیٹی جمیلہ نورافشاں بھی جب باپ کے ہاتھوں میں پڑی ہتھکڑیوں سے کھیلنے لگی تو شاعر باپ نے اپنی بیٹی کے لیے تین اشعار کی ننھی سی مگر بہت بڑی نظم لکھی تھی۔

اُس کو شاید کھلونا لگی ہتھکڑی
میری بچی مجھے دیکھ کر ہنس پڑی

یہ ہنسی تھی سحرکی بشارت مجھے
یہ ہنسی دے گئی کتنی طاقت مجھے

کس قدر زندگی کو سہارا ملا
ایک تابندہ کل کا اشارا ملا

اسی طرح آج میں جب اپنی ڈیڑھ سالہ پوتی کے منہ سے زندہ سنتا ہوں ، تو مجھے بھی بڑا سہارا ملتا ہے۔ تابندہ کل کا اشارا ملتا ہے۔ پتا نہیں ملک میں کتنے لاکھوں بچے پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتے ، ننھے ننھے ہاتھوں میں سبز ہلالی پرچم اٹھائے سینے پر بیج لگائے کچی گلیوں میں رستوں میں دیوانہ وار بھاگتے چلے جاتے ہوں گے یہی لاکھوں بچے پاکستان کا سہارا ہیں اور یہی بچے ایک دن پاکستان زندہ باد بنادیں گے۔ انھی بچوں کی وجہ سے پاکستان قائم ہے اور وہ وقت آن پہنچا کہ جب غاصب، ڈاکو، چور لٹیرے ختم ہوجائیں گے۔

آپ دیکھ رہے ہیں! مسائل کتنے گمبھیر اور کس قدر ہیں صوبہ خیبر پختونخوا میں ڈینگی نے تباہی مچا رکھی ہے۔ مریضوں کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے اب تک اطلاعات کے مطابق تعداد پانچ ہزار ہوچکی ہے۔ ڈینگی سے اموات بھی تقریباً تیس ہوچکی ہے مگر کوئی پرسان حال نہیں۔ مریض اور لواحقین بے یار و مددگار پریشان پھررہے ہیں اور لیڈران کرام ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں لگے ہوئے ہیں۔ ہر شام ڈھلے ٹی وی پر ڈراموں کا میلہ لگ جاتا ہے۔ بڑی پارٹیوں کے نمایندے اکٹھے بیٹھ کر چائے پیتے ہیں اور باری باری اپنے ڈاکو لیڈر کی پاکیزگی کے بارے میں زمین آسمان ایک کردیتے ہیں۔

ہمارے لیڈر نے اتنے سال جیل کاٹی اور اُف نہیں کی ہمارا لیڈر زخم کھاتارہا ، مسکراتا رہا، شوق سیاست گری ہماری پارٹی نے سب سے زیادہ شہید جمہوریت دیے ہیں مگر اس شوق سیاست گری کا نتیجہ کیا نکلا، کیا نکلا ، لوگ بھی جان گئے ہیں اور آپ تو جانتے ہی ہیں۔ ایک لیڈر صاحب کے ساتھی کہے چلے جارہے ہیں ''ہمارے لیڈر کوکیوں نکالا'' اور پھر اپنے لیڈر کے اوصاف کا بیان شروع ہوجاتا ہے۔ ہمارے میاں صاحب پر بدعنوانی کا ایک ہلکا سا داغ دھبہ نہیں ہے۔ انھوں نے کمیشن نہیں لی۔

میاں صاحب کے بارے میں ان کے پاک دامنی پر ان کے سارے ساتھی خوب بولتے ہیں اور لوگ سنتے رہتے ہیں مگر لوگوں نے بارہا یہ بھی سنا۔ سپریم کورٹ کے جج صاحبان یہ کہتے رہے ''لندن کے فلیٹوں کی منی ٹریل دیں اور آپ جائیں، آپ فارغ، آپ پوتر'' مگر میاں صاحب کے وکیل منی ٹریل نہ دے سکے اور اب یہ معاملات نیب کے پاس ہیں۔ بے نظیر بھٹو کے قتل کا فیصلہ بلاول، بختاور اور آصفہ نے مسترد کردیا ہے یہ بھی بڑا دھماکہ ہے۔

قومی اسمبلی کے حلقہ 120 (لاہور) میں تقریروں کے دھوئیں اٹھ رہے ہیں۔ ابلتے گٹرگندی گلیاں تعفن زدہ محلے یہ ہے حلقہ 120 (لاہور) جہاں سے وزیراعظم پاکستان تین بار جیت چکے۔ شاید اب کی بار بھی جیت جائیں۔ جیت بھی گئے تو کیا فرق پڑے گا۔ میدان سیاست میں عمران خان بھی ہیں۔ ان کی تحریک انصاف میں بھی بڑی نا انصافیاں بیان کی جارہی ہیں۔ خیبر پختونخوا میں بھی بقول عمران خان مکمل نیا پاکستان نہیں بن سکا یہ بیان عمران خان کا بڑا پن ہے۔ عمران خان کی کردارکشی بھی کی جا رہی ہے مگر اس کی آزمائش ملکی سطح پر نہیں ہوئی وہ منہ پھٹ ہے جذباتی ہے۔ غصیلا ہے، انھی اداؤں پر لوگ اس کے ساتھ ہیں۔

کراچی ذرا سی تیز بارش میں پھر ڈوب گیا۔ برسوں سے اس سب سے بڑے شہر کا یہی حال ہے کہ ذرا سی بارش میں ڈوب جاتا ہے۔ سندھ حکومت اور ایم کیو ایم کے میئر وسیم اختر دونوں نے ہاتھ کھڑے کردیے ہیں۔ وسیم اختر کا کہناہے کہ کراچی کا سیوریج نظام تباہ ہوچکا، مردم شماری بھی سندھ حکومت اور ایم کیو ایم پاکستان نے مستردکردی ہے یہ بھی بڑا دھماکا ہے۔ یہ ہے ملک کا حال جس حال میں سیاست دان الیکشن الیکشن کھیل رہے ہیں، جھوٹ بول بول کر اپنے اپنے لیڈروں کو سچا ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور وہ خوب اچھی طرح جانتے ہیں کہ جھوٹ بول رہے ہیں۔ جالب کا شعر اور اجازت:

نہ موڑا جھوٹ سے منہ حاکموں نے
نہ میں سچ بولنے سے باز آیا

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں