این اے 120 کا انتخابی معرکا
جہاں تک این اے 120 کے الیکشن کا تعلق ہے تو جوں جوں انتخابی سرگرمیاں تیز ہوتی جائیں گی۔
سابق وزیر اعظم نواز شریف کی خالی ہونے والی نشست این اے 120 لاہور میں انتخابی سرگرمیوں کا آغاز ہوگیا ہے، یہ انتخابی معرکہ کئی حوالوں سے قومی دلچسپی کا محور بن گیا ہے۔ پہلی بار مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی کی جانب دو خواتین امیدوار آمنے سامنے ہیں، جن میں مسلم لیگ ن کی جانب سے بیگم کلثوم نواز اور پی ٹی آئی کی جانب ڈاکٹر یاسمین راشد امیدوار ہیں۔ دونوں میں کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے، ہوسکتا ہے یہ یک طرفہ بھی ہو۔
قومی اسمبلی کے اس حلقے کی خاص بات یہ ہے کہ کئی عشروں سے مسلم لیگ ن کا گڑھ رہا ہے اور یہاں سے سابق وزیر اعظم نے تین بار کامیابی حاصل کی ہے ۔ آنے والے دنوں میں ہر ایک کی نظر اسی حلقے کے نتیجے پر لگی ہوئی ہے ، اس کا نتیجہ کیا آتا ہے۔
بیگم کلثوم نواز کا لندن میں گلے کا کامیاب آپریشن ہوا اور ایک ہفتے کے بعد وہ ڈاکٹرز سے اجازت ملنے کے بعد وطن واپس لوٹ سکتی ہیں ۔ ان کی غیرموجودگی میں ان کی صاحبزادی مریم نواز اپنی والدہ کی انتخابی مہم چلا رہی ہیں۔ اس حلقے میں ن لیگ کافی مقبولیت رکھتی ہے، اور یہ حلقہ ان کا مضبوط گڑھ سمجھا جاتا ہے، کیونکہ مخالفین اپنے تمام تر دعوؤں کے باوجود این اے 120 پرکبھی کامیابی حاصل نہیں کرسکے ، لیکن حالیہ الیکشن میں نواز شریف مسلم لیگ ن کے امیدوار نہیں ہیں بلکہ مسلم لیگ ن کی قیادت نے کلثوم نوازکو اس حلقے سے اپنا امیدوار نامزد کیا ہے۔
اس حلقے کے حوالے سے ایک اہم بات یہ ہے کہ گزشتہ چار سال کے دوران سابق وزیر اعظم نواز شریف کی بے پناہ مصروفیات رہیں جس کی وجہ سے نواز شریف سے زیادہ کلثوم نواز نے اس حلقے کے عوام سے مسلسل رابطہ رکھا ۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت این اے 120 کی ہر گلی اور محلے میں ان کی صاحبزادی مریم نواز جا رہی ہیں ۔ میرا خیال ہے کہ پارٹی کا یہ فیصلہ نہایت دانش مندانہ تھا کیونکہ کلثوم نواز کی سیاسی صلاحیتوں اور جمہوریت کے لیے ان کی قربانیوں کوکوئی نظر انداز نہیں کرسکتا ۔ وہ ماضی میں جب بھی پارٹی یا قیادت پر برا وقت آیا تو انہوں نے ہر اول دستہ کا کردار ادا کیا۔
جمہوری دورِ حکومت میں ہی نہیں بلکہ مشرف کی آمریت میں بھی انہوں نے جو سیاسی اور جمہوری جدوجہد کی وہ پاکستان کی تا ریخ میں سنہرے حروف میں لکھی جائے گی یہ اس کا موازنہ بیگم نصرت بھٹو کی اس سیاسی جدوجہد سے کروں تو بے جا نہ ہوگا جو انہوں نے ضیا آمریت کے خلاف کی تھی۔
سابق وزیر اعظم نواز شریف بھی لندن میں ہیں اور وہ عید کے بعد تک وہاں قیام کریں گے ۔ بیگم کلثوم نواز کی خیریت سے آگاہی کے لیے اور اظہار ہمدردی کے لیے آرمی چیف جاوید قمر باجوہ سمیت متعدد عسکری و سیاسی شخصیات نے نواز شریف کو پیغامات ارسال کیے۔ میرا خیال ہے یہ ہماری سیاست میں اچھی روایت ہے کیونکہ اخلاقی تقاضے بھی پورے کیے جانے چاہیئیں۔ بیگم کلثوم نواز کی غیر موجودگی میں ان کی انتخابی مہم کی نگرانی کے لیے اور اسے باقاعدگی سے چلانے کے تمام تر ذمے داری مریم نواز کے سپرد کی گئی ہے۔
سابق وزیر اعظم نواز شریف کی ہدایت پر این اے 120 میں انتخابی مہم تیزکرنے کے لیے سرگرمیوں کا آغاز کردیا ہے۔ بلاشبہ مریم نواز کے لیے یہ کڑا امتحان ہے، والدہ کی بیماری کے ساتھ ساتھ انہیں انتخابی مہم چلانے کی ذمے داری نبھانی ہے لیکن جوں جوں وہ سیاست میں پیشرفت کر رہی ہیں ان کے حامی ہی نہیں بلکہ مخالفین بھی ان کی صلاحیتوں کے معترف دکھائی دیتے ہیں۔ اب بھی وہ اس حلقے میں پارٹی کو فرنٹ سے لیڈ کر رہی ہیں ، مریم نواز کا کہنا تھا کہ دھرنا، اقامہ، پانامہ محض بہانہ تھا نواز شریف اصل نشانہ تھا۔ انہوں نے لوگوں سے سوال کیا کہ کیا نواز شریف کا ساتھ دیں کیا وہ چوتھی بار نواز شریف کو وزیر اعظم بنائیں گے کیا وہ اپنے ووٹ کی حرمت کی بحالی کے لیے جدوجہد کریں گے لوگوں نے ان کے سوالات کے جواب میں پر جوش انداز سے تائید کی ۔ ان کی تقریر اور انداز خطاب بلاشبہ متاثر کن تھا۔
اب آئیے دوسری جانب پی ٹی آئی کا جائزہ لیتے ہیں پی ٹی آئی نے این اے 120 میں گزشتہ الیکشن میں نوازشریف سے ہزاروں ووٹوں سے شکست کھانے والی ڈاکٹر یاسمین راشد کو ایک بار پھر اپنا امید وار نامزد کیا ہے ۔ ان کی شکست کا مارجن اتنا زیادہ تھا کہ آئندہ الیکشن میں ان کی کامیابی کے امکانات دکھائی نہیں دیتے۔ پی ٹی آئی نے اپنی کمزور پوزیشن کا جائزہ لیتے ہوئے اس بات کا فیصلہ کیا تھا کہ وہ کسی طرح جماعت اسلامی کے امیدوار کو اپنے حق میں دست بردار کرالیں۔ لیکن جماعت اسلامی نے پی ٹی آئی کی اس درخواست کو مسترد کردیا، اب جماعت اسلامی کا امیدوار بھی ان کے خلاف مقابلے میں ہے۔
پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے اس موقعے پر بھی وہی گھسے پٹے الزامات کا اعادہ شروع کردیا ہے کہ کرپشن، چور، ڈاکو اور لٹیرے کا راگ الاپ رہے ہیں جبکہ نواز شریف کا دامن کرپشن سے پاک ہے اور عدالتوں نے اس حوالے سے ان کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں دیا۔ میرا خیال ہے سعد رفیق درست کہتے ہیں کہ عمران خان مہرہ ہے اسے استعمال کیا جارہا ہے ورنہ ایک ایسا وزیر اعظم جس نے چار برس انتھک محنت کرکے ملک میں امن و امان قائم کیا ، سی پیک کا تحفہ دیا موٹر ویز، شاہراہیں تعمیر کیں لوڈ شیڈنگ کے جن کو بوتل میں بند کیا۔ توانائی کے متعدد منصوبے شروع کیے اور اب جو عوام ووٹوں کے تقدس کی بحالی کی جدو جہد کر رہا ہے ایسے قائد پر بے سروپا الزامات محض بد نیتی پر مبنی ہوسکتے ہیں ان کا حقائق سے کوئی تعلق نہیں۔
جہاں تک این اے 120 کے الیکشن کا تعلق ہے تو جوں جوں انتخابی سرگرمیاں تیز ہوتی جائیں گی۔ پی ٹی آئی کو اپنی انتخابی پوزیشن کا بخوبی اندازہ ہوجائے گا ۔ قوی امید ہے کہ عوام مریم نوازکو اس مشن میں کامیاب کرکے نواز شریف اور بیگم کلثوم نواز کو تحفہ دیں گے اور اس انتخابی کامیابی سے مریم نواز کی سیاسی زندگی گئیر اپ ہوجائے گی۔ مریم نواز نے 2013 میں بھی اپنے والد کی انتخابی مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔
قومی اسمبلی کے اس حلقے کی خاص بات یہ ہے کہ کئی عشروں سے مسلم لیگ ن کا گڑھ رہا ہے اور یہاں سے سابق وزیر اعظم نے تین بار کامیابی حاصل کی ہے ۔ آنے والے دنوں میں ہر ایک کی نظر اسی حلقے کے نتیجے پر لگی ہوئی ہے ، اس کا نتیجہ کیا آتا ہے۔
بیگم کلثوم نواز کا لندن میں گلے کا کامیاب آپریشن ہوا اور ایک ہفتے کے بعد وہ ڈاکٹرز سے اجازت ملنے کے بعد وطن واپس لوٹ سکتی ہیں ۔ ان کی غیرموجودگی میں ان کی صاحبزادی مریم نواز اپنی والدہ کی انتخابی مہم چلا رہی ہیں۔ اس حلقے میں ن لیگ کافی مقبولیت رکھتی ہے، اور یہ حلقہ ان کا مضبوط گڑھ سمجھا جاتا ہے، کیونکہ مخالفین اپنے تمام تر دعوؤں کے باوجود این اے 120 پرکبھی کامیابی حاصل نہیں کرسکے ، لیکن حالیہ الیکشن میں نواز شریف مسلم لیگ ن کے امیدوار نہیں ہیں بلکہ مسلم لیگ ن کی قیادت نے کلثوم نوازکو اس حلقے سے اپنا امیدوار نامزد کیا ہے۔
اس حلقے کے حوالے سے ایک اہم بات یہ ہے کہ گزشتہ چار سال کے دوران سابق وزیر اعظم نواز شریف کی بے پناہ مصروفیات رہیں جس کی وجہ سے نواز شریف سے زیادہ کلثوم نواز نے اس حلقے کے عوام سے مسلسل رابطہ رکھا ۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت این اے 120 کی ہر گلی اور محلے میں ان کی صاحبزادی مریم نواز جا رہی ہیں ۔ میرا خیال ہے کہ پارٹی کا یہ فیصلہ نہایت دانش مندانہ تھا کیونکہ کلثوم نواز کی سیاسی صلاحیتوں اور جمہوریت کے لیے ان کی قربانیوں کوکوئی نظر انداز نہیں کرسکتا ۔ وہ ماضی میں جب بھی پارٹی یا قیادت پر برا وقت آیا تو انہوں نے ہر اول دستہ کا کردار ادا کیا۔
جمہوری دورِ حکومت میں ہی نہیں بلکہ مشرف کی آمریت میں بھی انہوں نے جو سیاسی اور جمہوری جدوجہد کی وہ پاکستان کی تا ریخ میں سنہرے حروف میں لکھی جائے گی یہ اس کا موازنہ بیگم نصرت بھٹو کی اس سیاسی جدوجہد سے کروں تو بے جا نہ ہوگا جو انہوں نے ضیا آمریت کے خلاف کی تھی۔
سابق وزیر اعظم نواز شریف بھی لندن میں ہیں اور وہ عید کے بعد تک وہاں قیام کریں گے ۔ بیگم کلثوم نواز کی خیریت سے آگاہی کے لیے اور اظہار ہمدردی کے لیے آرمی چیف جاوید قمر باجوہ سمیت متعدد عسکری و سیاسی شخصیات نے نواز شریف کو پیغامات ارسال کیے۔ میرا خیال ہے یہ ہماری سیاست میں اچھی روایت ہے کیونکہ اخلاقی تقاضے بھی پورے کیے جانے چاہیئیں۔ بیگم کلثوم نواز کی غیر موجودگی میں ان کی انتخابی مہم کی نگرانی کے لیے اور اسے باقاعدگی سے چلانے کے تمام تر ذمے داری مریم نواز کے سپرد کی گئی ہے۔
سابق وزیر اعظم نواز شریف کی ہدایت پر این اے 120 میں انتخابی مہم تیزکرنے کے لیے سرگرمیوں کا آغاز کردیا ہے۔ بلاشبہ مریم نواز کے لیے یہ کڑا امتحان ہے، والدہ کی بیماری کے ساتھ ساتھ انہیں انتخابی مہم چلانے کی ذمے داری نبھانی ہے لیکن جوں جوں وہ سیاست میں پیشرفت کر رہی ہیں ان کے حامی ہی نہیں بلکہ مخالفین بھی ان کی صلاحیتوں کے معترف دکھائی دیتے ہیں۔ اب بھی وہ اس حلقے میں پارٹی کو فرنٹ سے لیڈ کر رہی ہیں ، مریم نواز کا کہنا تھا کہ دھرنا، اقامہ، پانامہ محض بہانہ تھا نواز شریف اصل نشانہ تھا۔ انہوں نے لوگوں سے سوال کیا کہ کیا نواز شریف کا ساتھ دیں کیا وہ چوتھی بار نواز شریف کو وزیر اعظم بنائیں گے کیا وہ اپنے ووٹ کی حرمت کی بحالی کے لیے جدوجہد کریں گے لوگوں نے ان کے سوالات کے جواب میں پر جوش انداز سے تائید کی ۔ ان کی تقریر اور انداز خطاب بلاشبہ متاثر کن تھا۔
اب آئیے دوسری جانب پی ٹی آئی کا جائزہ لیتے ہیں پی ٹی آئی نے این اے 120 میں گزشتہ الیکشن میں نوازشریف سے ہزاروں ووٹوں سے شکست کھانے والی ڈاکٹر یاسمین راشد کو ایک بار پھر اپنا امید وار نامزد کیا ہے ۔ ان کی شکست کا مارجن اتنا زیادہ تھا کہ آئندہ الیکشن میں ان کی کامیابی کے امکانات دکھائی نہیں دیتے۔ پی ٹی آئی نے اپنی کمزور پوزیشن کا جائزہ لیتے ہوئے اس بات کا فیصلہ کیا تھا کہ وہ کسی طرح جماعت اسلامی کے امیدوار کو اپنے حق میں دست بردار کرالیں۔ لیکن جماعت اسلامی نے پی ٹی آئی کی اس درخواست کو مسترد کردیا، اب جماعت اسلامی کا امیدوار بھی ان کے خلاف مقابلے میں ہے۔
پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے اس موقعے پر بھی وہی گھسے پٹے الزامات کا اعادہ شروع کردیا ہے کہ کرپشن، چور، ڈاکو اور لٹیرے کا راگ الاپ رہے ہیں جبکہ نواز شریف کا دامن کرپشن سے پاک ہے اور عدالتوں نے اس حوالے سے ان کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں دیا۔ میرا خیال ہے سعد رفیق درست کہتے ہیں کہ عمران خان مہرہ ہے اسے استعمال کیا جارہا ہے ورنہ ایک ایسا وزیر اعظم جس نے چار برس انتھک محنت کرکے ملک میں امن و امان قائم کیا ، سی پیک کا تحفہ دیا موٹر ویز، شاہراہیں تعمیر کیں لوڈ شیڈنگ کے جن کو بوتل میں بند کیا۔ توانائی کے متعدد منصوبے شروع کیے اور اب جو عوام ووٹوں کے تقدس کی بحالی کی جدو جہد کر رہا ہے ایسے قائد پر بے سروپا الزامات محض بد نیتی پر مبنی ہوسکتے ہیں ان کا حقائق سے کوئی تعلق نہیں۔
جہاں تک این اے 120 کے الیکشن کا تعلق ہے تو جوں جوں انتخابی سرگرمیاں تیز ہوتی جائیں گی۔ پی ٹی آئی کو اپنی انتخابی پوزیشن کا بخوبی اندازہ ہوجائے گا ۔ قوی امید ہے کہ عوام مریم نوازکو اس مشن میں کامیاب کرکے نواز شریف اور بیگم کلثوم نواز کو تحفہ دیں گے اور اس انتخابی کامیابی سے مریم نواز کی سیاسی زندگی گئیر اپ ہوجائے گی۔ مریم نواز نے 2013 میں بھی اپنے والد کی انتخابی مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔