ہوس لالچ خود غرضی

کیا انصاف ہے کوئی منصف اس کے آگے نہیں جھکا اور صحیح فیصلہ دیا۔

دنیا کا کوئی مذہب یا قانون کسی برائی یا بلیک میلنگ کو اچھا نہیں کہتا۔ واحد پاکستان ہے جہاں بڑے عہدیدار، امرا و رؤسا کے لیے سب چھوٹ ہے صرف غریب یا درمیانی طبقہ قانون کی زد میں آتا ہے۔ پاکستان کی تمام جیلیں معمولی جرائم والے لوگوں سے بھری پڑی ہیں۔ غریب لوگ تو ضمانت بھی نہیں کرا سکتے ان کی ضمانت دینے والا کوئی نہیں۔ چونکہ وکیل کرنے کی بھی سکت نہیں تو ان کے لیے یہی کہ جیلوں میں پڑے سڑتے رہیں۔

عدالت عالیہ نے کسی بڑے آدمی کو نااہل قرار نہیں دیا۔کروڑوں روپے بڑے بڑے وکلا پر خرچ کر رہے ہیں وہ رقومات بھی عوامی ٹیکسوں، عوام کی خون پسینے کی کمائی کی ہے۔ تضحیک آمیز الفاظ، اپنے آپ کو معصوم بے گناہ کہنے سے وہ نہ بے گناہ ہوسکتے ہیں اور نہ ہی عوام کی نظروں میں عزت پاسکتے ہیں۔ ملک کے اداروں کا فرض ہے ایسے شخص کی ان تضحیک آمیز غلیظ باتوں پر فوری ایکشن لیں اس طرح نظر انداز نہ کریں۔ موجودہ نااہل ڈھٹائی سے فرماتے ہیں میرا جرم کیا ہے؟ بتا بتا کر تھک گئے آپ کا ایک جرم نہیں بلکہ جرائم کا پنڈورا ہے۔

کسی نے بڑی اچھی بات کہی لومڑی پانی میں ڈوب رہی تھی ایک کھڑے ہوئے شخص سے بولی قیامت آگئی۔ اس نے جواب دیا قیامت نہیں آئی تم ڈوب رہی ہو۔ شاید سمجھدار سمجھ گئے بلکہ میں سمجھتا ہوں اب سب ہی لوگ ساری باتیں سمجھنے لگے ہیں۔ جھوٹ اور پاگل بنانا زیادہ عرصہ نہیں چلتا یاد رکھیں سچ پھر سچ ہے کتنا ہی جھوٹ بول لیا جائے لیکن ایک دن سچ سامنے آجاتا ہے۔ شنہشاہ عالمگیر کے بارے میں مشہور ہے وہ ٹوپیاں بنا کر اپنا گزر اوقات کرتا لیکن اس کے ساتھ جب طاقت کی نوبت ہوتی تو اس نے اپنے باپ کی آنکھیں نکلوادیں نابینا کیا اور بھائیوں کو قتل کیا۔ کہتے ہیں اس طاقت کے نشے میں انسان بہت کچھ بھول جاتا ہے۔

بالکل حقیقت ہے جب وہ اس طاقت سے ہٹتا ہے تب معلوم ہوتا ہے میں کیا کر رہا تھا۔ لیکن مجبوری اس شخص کی بھی ہے کہ خوشامدی، عیار لوگوں سے اس کی جان خلاصی نہیں ہوتی۔ میں اگر اپنے رویے میں تبدیلی نہیں لاؤں گا وہی جھوٹ، فریب، غلط بیانی، جھوٹے وعدے کروں جن کو کبھی پورا نہ کرسکوں سمجھ لینا چاہیے اس وقت لوگ سن کر مان لیں لیکن کب تک وہی لوگ بیزار ہوجاتے ہیں ان کی خواہش ہوتی ہے کسی طرح اس شخص سے جان چھوٹے۔ اقتدار میں آنے کے بعد یہ ایک ایسا بادشاہ بن جاتا ہے جس کے منہ سے نکلا ایک لفظ قانون بنتا ہے۔ وہ کسی شے کو تسلیم نہیں کرتا صرف اپنی مدح میں براجمان ہوتا ہے۔ نیک اعمال ہمیشہ زندہ رہتے ہیں کبھی کوئی نہیں بھولتا۔

میں سمجھتا ہوں اب ایسا ہرگز نہیں بلکہ لوگوں کا کہنا ہے لٹے دل میں دیا جلتا نہیں ہم کیا کریں پھر بھی آپ فرماتے ہیں اب تنہا سفر کٹتا نہیں ہم کیا کریں۔ اپنی سوچوں کے غلام، اقتدار کے بھوکے وہ چاہتے ہیں لوگوں کی آنکھوں کے جھروکوں میں آجائیں لیکن بات پھر وہی ہے ان بند جھروکوں کو وہ کیا کریں؟ جس طرح کے عمل دکھائیں گے اس کا نتیجہ ویسا ہی نکلے گا۔ اب شاید ان لوگوں کے لیے رات اندھیری بڑی ہے جس کو گزارنا ہے۔ کسی نے نگاہوں سے گرا دیا کسی نے تو اپنی جان لیا۔ یہ میری اپنی باتیں نہیں بلکہ دوسرے دوست احباب فرماتے ہیں لوگوں کی اپنی باتیں ہیں۔


کسی نے بالکل صحیح کہا ہے بہت کم لوگ اپنی طاقت کو مثبت ترقی کی راہ میں جس میں ملک و ملت کو ترقی و کامیابی حاصل استعمال کر پاتے ہیں دیکھا یہ گیا ہے ایسا کم لوگوں نے کیا یا تو ایسا ہے وہ طاقت کے نشے میں یہ سب بھول جاتے ہیں یا وہ سمجھتے ہیں جو طاقت ملی ہے اس کو اپنی ذات اور خاندان کے لیے استعمال کروں تاکہ انھیں فیض حاصل ہو۔ اس وقت شاید یہ سب بھول جاتے ہیں کہ اس میں انھیں ملک اور ملت کے لیے خدمات انجام دینی ہیں۔ جب وہ طاقت ختم ہو جائے یا چھین لی جائے تو پھر بڑے ہمدرد، معصوم نظر آتے ہیں گویا ان جیسا ہمدرد کوئی اور نہیں۔ ایسا ہی ہوتا رہا عوام کو بے وقوف بنایا گیا اپنے اغراض و مقاصد پورے کیے گئے۔

درحقیقت عوام معصوم ہے اپنی معصومیت میں چوروں، ڈاکوؤں، ملک تباہ کرنے والوں کا ساتھ دینا شروع کردیتے ہیں۔ ان کی باتیں جب سمجھ میں آتی ہیں اس وقت تک وہ لوگ بہت کچھ کرچکے ہوتے ہیں کروڑوں کچھ نہیں اربوں روپے بناکر مال و زرکے ڈھیر لگا لیتے ہیں لیکن ہوس پھر پھر بھی پوری نہیں ہوتی۔ مواقعے تلاش کرتے ہیں ان کو صرف لالچ، خودغرضی، اقربا پروری، کالا دھن اکٹھا کرنا ان کو اپنی زندگی کا خاص مقصد لتا ہے ایسا کچھ ہوتا رہا اور آیندہ بھی ہوتا رہے گا اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسے لالچی، خودغرض لوگوں کا قلع قمع نہ ہوا۔ کسی نے خوب کہا برے لوگوں کے ہاتھ لمبے ہوتے ہیں تعلقات وسیع اور موقع پر نوٹوں کی بوری کے منہ کھول دیتے ہیں۔ ان کے پاس دوست اس قدر ہوتے ہیں وہ اربوں روپے خرچ کردیتے ہیں۔ کامیابی حاصل کرنے کی ہر کوشش میں لگ جاتے ہیں۔

بے چارے غریب لوگ اپنی غربت کے ہاتھوں پھر بھول جاتے ہیں ابھی یہ اچھی باتیں کر رہا ہے لیکن بعد میں ادھر سے اس کا گزر بھی نہیں ہوگا آج اگر آیا ہے تو صرف اپنا مطلب حاصل کرنے کوئی نوٹوں میں بک جاتا ہے کوئی میٹھی چپڑی باتوں میں آجاتا ہے۔ میں یہی کچھ دیکھ رہا ہوں لوگ کہتے ہیں خان صاحب! اب ایسا نہیں چلے گا ساری عوام جان چکی ہے۔ کاش ایسا نہ ہو جو پہلے ہوتا رہا میں تو کہتا ہوں جتنے بھی کرپٹ کالا دھن جمع کرنے والے ہیں ان کا احتساب سخت ہونا چاہیے تاکہ اس ملک سے برائی اگر ختم نہ ہوسکے تو بڑھے بھی نہیں، امید پر دنیا قائم ہے۔

موجودہ دور میں ایک مثال پڑوسی ملک سے نظر آئی ایک گرو جن کو وہاں کے لاکھوں لوگ مانتے تھے۔ لیکن پس پردہ اس کے اعمال انتہائی درجہ برے نازیبا تھے۔ وہاں کی عدالت میں مقدمہ چلا ڈسٹرکٹ کورٹ کے ایک باہمت، ایماندار، منصف نے اس کو 20 سال کی سزا سنائی۔ صرف سزا سنانا ہی نہیں بلکہ انتظامیہ کو سخت ہدایت دی کہ اس کو جیل میں ڈال دیں۔ اس کو قید کرکے جیل میں ڈالا اس پر اس کے ماننے چاہنے والوں نے بڑا احتجاج کیا جس میں 35 لوگ مارے گئے لیکن عدالت کا فیصلہ اپنی جگہ آج بھی وہ جیل میں ہے۔

کیا انصاف ہے کوئی منصف اس کے آگے نہیں جھکا اور صحیح فیصلہ دیا۔ کہا جاتا ہے جب کسی جج کے پاس کوئی مقدمہ آتا ہے تو وہ سمجھ جاتا ہے اس میں مجرم کون ہے لیکن وہ گواہی شہادت پر فیصلہ دیتا ہے۔ طاقتور لوگ گواہوں کو خرید لیتے ہیں اگر وہ خریدنے میں نہیں آتے تو دھونس دیتے ہیں اس میں بھی نہ آئے تو ان کو قتل کروا دیا جاتا ہے۔ ایک نہیں بہت سے بڑے لوگوں کے مقدموں میں ایسا ہی ہوا ہے جس کی مثالیں موجود ہیں۔

حتیٰ کہ کسی عدالت کے پاس اصل کاغذات جمع ہوتے ہیں اور نہ جانے کیسے وہ اصل کاغذات غائب، گواہ ناپید لہٰذا عدالت اس مجرم کو بری کردیتی ہے اس بات پر کہ اصل کاغذ نہیں اور اس مقدمے کا گواہ بھی نہیں آیا۔ جیسا میں عرض کرچکا ہوں اگر ملک کی جیلوں کو جاکر دیکھیں تو اس میں کوئی بڑا آدمی نہیں ملے گا بلکہ سارے غریب، غربا، مساکین جن کا کوئی پرسان حال نہیں وہ بھرے ہوں گے۔ بڑا مجرم تو اس قدر طاقتور ہوتا ہے جو اپنی ہر طاقت کو ہر جگہ استعمال کرلیتاہے اس سے انتظامیہ بھی ڈرتی ہے ہاتھ لگاتے کپکپاتے ہیں۔
Load Next Story