روہنگیا کے مسلمان
میانمار میں مسلمان کئی صدیوں سے آباد ہیں لیکن پھر بھی ان کو سرکاری طور پر تسلیم نہیں کیا گیا
September 06, 2017
برما میں ہونے والے جاری مظالم کو دیکھ کر دل لرز کر رہ جاتے ہیں،آنکھیں خودبخود بھیگ جاتی ہیں اور سوال اٹھتے ہیں کہ آخر ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ بوسنیا میں 90ء کی دہائی میں کچھ اسی طرح ہوا تھا تب بھی انسانی طاقت اپنے اپنے خیموں میں خواب غفلت میں مبتلا تھی اور آج بھی جس طرح ایک قوم کو خطے سے مٹانے کی جس طرح مذموم کوششیں کی جا رہی ہیں کیا اس طرح انسانیت کے علمبردار اپنے چہرے خون کے چھینٹوں سے تر محسوس نہیں کر رہے۔
یو این کی ایک رپورٹ کے مطابق اندازاً 8,7000 روہنگیا مسلمان بنگلہ دیش کی جانب ہجرت کرچکے ہیں یہ اگست کے مہینے میں ہونے والی ایک بڑی ہجرت ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ میانمار میں انسانی جان کس قدر اذیت میں مبتلا ہے اور وہاں مسلمانوں کے لیے زمین کس قدر تنگ کردی گئی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ وہاں اور دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ نہیں ہیں۔ میانمار میں مسلمان کئی صدیوں سے آباد ہیں لیکن پھر بھی ان کو سرکاری طور پر تسلیم نہیں کیا گیا انھیں غیر ملکی حیثیت کے شناختی کارڈز جاری کیے گئے تھے گویا ماضی سے ہی اس بات کو مان لیا گیا تھا کہ صدیوں سے بسنے والے یہ مسلمان اس ملک کے باسی ہیں ہی نہیں۔
سرکاری طور پر 135 مختلف فرقوں سے تعلق رکھنے والے گروپس میں مسلمان روہنگیا رجسٹرڈ ہی نہیں ہیں۔ 1982ء سے انھیں میانمارکی شہریت دینے سے انکارکیا گیا تھا اور یہ اس جانب اشارہ تھا کہ انھیں اپنا بوریا بستر سمیٹ کر چلا جانا چاہیے۔ اکائی ویسٹرن کوسٹ کی ایک غریب ریاست ہے جہاں روہنگیا کے مسلمانوں کو کمتر شہری گردانا جاتا ہے یہاں تک انھیں حکومت سے اجازت کے بغیر ریاست سے نکلنے کی بھی اجازت نہیں۔
میانمار کی نامی گرامی نوبل انعام یافتہ لیڈر خاتون آنگ سون سوچی جب سے دنیا میں اپنی خوبصورت نام نہاد پالیسیوں کی بدولت ابھر کر سامنے آئی ہیں وہیں ان کے دل میں پنپنے والی بدصورتی جو محض مسلمانوں کے لیے ہے سامنے آئی ہے جس نے عیاں کردیا ہے کہ وہ کس قدر سفاک خاتون ہیں۔ ان کے ساتھ بدھ مت کے ایک بڑے گرو مابھاتا بھی شامل ہیں جنھوں نے روہنگیا کے مسلمانوں کو جوکہ اقلیت میں شامل ہیں کرسچن، ہندو اور بدھ مت کے ماننے والوں کے لیے ایک خطرہ قرار دے دیا، حالانکہ روہنگیا دنیا کی مظلوم ترین اقلیت قرار دی جاچکی ہے۔
ماضی میں جاکر دیکھیں تو اعداد و شمار دیکھ کر پتا چلتا ہے کہ سرکاری طور پر مسلمانوں کے لیے خطرہ محسوس کیا جا رہا ہے 1962ء سے لے کر 1982ء تک یہ صورتحال ایسا رخ اختیار کرچکی تھی صدیوں سے بسنے والوں کو غیر ملکی قرار دینے میں ہی بہتری محسوس کی گئی تھی۔
برطانوی سامراج کے دور میں برما کے حالات کس قدر ابتر تھے غربت کا دور دورہ تھا کہ وہاں ترقی اور تعمیرات کے سلسلے میں ہندوستان سے لوگوں کو بھیجا گیا تھا، بہادر شاہ ظفر کی زندگی کے آخری ایام بھی رنگون (برما) میں گزرے اور یہیں 1862ء میں ان کا انتقال ہوا۔ دوسری جنگ عظیم تک رنگون اور حالیہ میانمار میں ترقی کا سفر ہندوستان سے جانے والے مہاجرین جس میں انجینئرز، مزدور اور تعمیرات سے تعلق رکھنے والے بھیجے گئے تھے۔ برطانیہ کے والیان کا خیال تھا کہ اس طرح وہاں بھی ہندوستان کی طرح سہولیات اور تعمیرات کی جائیں، لیکن دوسری جنگ عظیم اور ہندوستان کے اختیارات مقامی طاقتوں کے حوالے کرنے کے عمل میں یہ سلسلہ منقطع ہوگیا تھا آج حالیہ برما میں ترقی کا جو عمل جاری ہے اس کی بنیاد ان مظلوم لوگوں کے آبا و اجداد نے ہی رکھی تھی اور آج یہ لوگ ہی نگاہوں میں کانٹے بن کر چبھ رہے ہیں۔
روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا جا رہا ہے، اس کی اصل تصویر کو دنیا سے چھپانے کے لیے سرکاری طور پر صحافیوں اور مختلف تنظیموں کو وہاں جانے کی اجازت نہیں ہے۔ یو این کی ایک خاتون رپورٹر کے مطابق صحافیوں کو وہاں کا ویزا دینے سے گریزکیا جاتا ہے اور انھیں روہنگیا کے صرف ان مسلمانوں سے ملاقات کی اجازت ہے جنھیں سرکار سے اجازت نامہ دیا گیا ہے۔
یوکے میں برصغیر روہنگیا آرگنائزیشن کے صدر ٹن کھن نے حالیہ روہنگیا میں ہونے والے مظالم پرگہرے دکھ کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اب تک ایک ہزارکے قریب مظلوم روہنگیا کی اموات اور دس ہزار کے قریب گھروں کو تباہ و برباد کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ملٹری گاؤں گاؤں گھوم کر وہاں لوٹ مار اور جلاؤ گھیراؤ کرتی ہے، وہ روہنگیا قوم کے مستقبل سے خوفزدہ ہیں۔
روہنگیا کا حل کیا ہے کیا وہاں امن قائم ہوسکتا ہے؟ کیا وہاں مسلمانوں کے مکمل انخلا کے بعد دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والے آرام سکون سے رہ سکتے ہیں؟ اس سوال کا جواب مشکل ہے، ایک طویل عرصے سے ایک اقلیت کو ظلم و ستم کے ذریعے پابندیوں میں جکڑ کر ختم کردینے سے بات نہیں بن سکتی بلکہ اس سے ان عوامل کو ہوا مل رہی ہے جو اصل بدھ مت کے ماننے والوں کی امن پسندی اور سکون سے رہنے والوں کے اصل چہروں کو عیاں کر رہی ہے کہ مذہب کے نام پر بکنے والے دراصل کچھ اور بیچتے ہیں خاتون لیڈر چاہے نوبل انعام حاصل کرکے کتنا ہی اعلیٰ مقام عالمی سطح پر حاصل کرلیں لیکن وہ ان ہزاروں مظلوم مسلمانوں کے خون کے دھبوں کو اپنے دامن سے دھو نہیں سکتی کہ مظلوم اور بے سہارا مسلمان اسی زمین کا حصہ ہیں وہ دل سے اسے اپنا وطن سمجھتے ہیں۔ خدا روہنگیا میں ہونے والے مظالم ڈھانے والوں کو ہدایت دے۔ عالمی سطح پر عالمی طاقتیں ہی اس مسئلے کے لیے مل کر کام کرسکتی ہیں کیونکہ برما بہت عظیم نہیں بلکہ چھوٹا سا ملک ہے۔