امریکا سے دوستی کا انجام
امریکا نے اپنے دوستوں سادات اور صدام کے ساتھ بھی جنرل ضیاء سے کچھ مختلف سلوک نہیں کیا۔
پاک امریکا تعلقات ہمیشہ سے ہی اہمیت کے حامل رہے ہیں مختلف ادوار میں اْتار چڑھاؤ آتے رہے ہیں، پاکستان کی خارجہ پالیسی ترتیب دیتے ہوئے دونوں ممالک کے باہمی مفادات اور تعلقات کو سامنے رکھا گیا۔ پاکستانی سیاست میں امریکا کی دخل اندازی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے ایک وقت تھا کہ بینظیر بھٹو سمیت پیپلز پارٹی کی سینئر قیادت یہ سمجھتی تھی کہ ذوالفقار علی بھٹو کو جنرل ضیاء کے ہاتھوں پھانسی کی سزا دلوانے میں امریکا کی مرضی اور رضامندی شامل تھی یہی وجہ ہے کہ دنیا بھرکے صدر مملکت کی جانب سے بھٹو کی جان بخشی کی اپیلوں اور درخواستوں کو جنرل ضیاء نے اس لیے مسترد کر دیا تھا کہ امریکا بہادر نہیں چاہتا تھا کہ بھٹو زندہ رہیں۔
جنرل ضیاء کو امریکیوں نے پہلے ذوالفقارعلی بھٹو کا تختہ الٹنے کے لیے اور پھر سوویت یونین کے خلاف افغانستان میں لڑی جانے والی جنگ میں استعمال کیا۔ مقصد پورا ہوا تو جنرل ضیاء سے جان چھڑالی۔یہ بات بھی اب راز نہیں رہی ہے کہ محترمہ بینظیر بھٹو اور نواز شریف کے اقتدار میں آنے اور برطرفی کے پیچھے بھی امریکی اسٹیبلشمنٹ کی مرضی اور منشا شامل رہی ہے۔ ہم ستر برسوں تک امریکا کے ساتھ اس طرح جڑے رہے ہیں کہ پاکستان کے ہر اہم فیصلے میں اس کی رضامندی شامل رہی ہے ہمارے یک طرفہ جھکاؤکے باوجود امریکا کا رویہ ہمارے ساتھ برابری کی بنیاد پرکبھی نہیں رہا بلکہ اْس نے ہمیشہ ہمیں اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا ہے۔
امریکا نے اپنے دوستوں سادات اور صدام کے ساتھ بھی جنرل ضیاء سے کچھ مختلف سلوک نہیں کیا۔ مصر کے صدر انوار السادات نے کیمپ ڈیوڈ کا بدنام زمانہ معاہدہ کرکے اپنے ملک کا قرضہ تو معاف کروایا مگر فلسطینیوں کو بے یار و مدد گار چھوڑ دیا۔ ان کی ضرورت اور افادیت ختم ہوئی تو ایک مصری سپاہی کے ہاتھوں صدر انوار السادات کو مروا دیا۔ صدام حسین سے ایران پر حملہ کروایا اور نو سال کی ایران عراق جنگ میں دونوں ملکوں کے ساڑھے تین کھرب ڈالر ڈوب گئے سات لاکھ مسلمان مارے گئے۔ صدام نے پر پرزے نکالے تو امریکی عراق پر قابض ہوئے اور پھر ایک دن صدام کو غار سے پکڑا لیاگیا۔ مقدمہ چلا اور پھانسی چڑھا دیے گئے۔یہ ہے امریکا کی دوستی اور اس کاانجام۔
نوے کی دہائی میں امریکا کی سرپرستی میں سے القاعدہ اور طالبان کے نام سے ایک ایسی فوج تیار ہوئی جس نے افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف جنگ میں حصہ لیا۔ اِس جنگ میں پاکستان نے بنیادی کردار ادا کیا۔امریکا کی رضامندی سے ہی افغانستان میں طالبان کی حکومت بنوائی گئی جس نے اسلامی نظام کے نام پر افغانستان میں بربریت اور خون ریزی کا بازار گرم کیے رکھا جس پر امریکا اور پاکستان دونوں خاموش رہے، مگر جب امریکا میں 9/11 کا واقعہ پیش آیا تو امریکا نے اپنے ہی تیار کیے ہوئے فوجی جنرل اسامہ بن لادن کی تلاش میں ایک بار پھر افغانستان کو ملیا میٹ کردیا۔اسامہ کو پاکستان سے پکڑا لیا اور اس کا بھی انجام کچھ مختلف نہ تھا۔ یہ ہے امریکا سے دوستی اور اس کا انجام۔
پاکستان کی فارن پالیسی کی ایک بڑی کمزوری یہ رہی ہے کہ ہم کسی ایک ملک کو اپنا دوست اور دیگر ممالک کو غیر ضروری طور پر اپنا دشمن بنالیتے ہیں جب ہمارے حکمران امریکا کو اپنا مائی باپ سمجھتے تھے اور اْس کے ہر حکم پر سر خم کردیا کرتے تھے، جب ہم امریکا کے اشارے پر افغانستان میں امریکی مفادات کی جنگ لڑتے رہے اس جنگ میں ہم نے اپنے پڑوسی ممالک اور خطے کے دیگر ممالک کو مکمل طور پر نظر اندازکیے رکھا۔اب ہم سی پیک منصوبے کی وجہ سے چائنا کے بہت قریب ہیں تو ہم نے امریکا کے حوالے سے اپنی پالیسی میں مکمل طور پر یو ٹرن لے لیا ہے۔
قومی اسمبلی نے امریکی صدر ٹرمپ اور افغانستان میں امریکی فوج کے کمانڈر جنرل نکسن کے الزامات پر مبنی بیانات کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے پاکستان، امریکا کو زمینی و فضائی کمیونیکیشن میں تعاون کی فراہمی معطل اور وزیر خارجہ کا دورے امریکا ملتوی کرنے کی حمایت کی ہے۔ پاک امریکا تعلقات آج تاریخ کے سب سے بدترین سطح پر پہنچ گئے ہیں۔ سیاسی،عسکری قیادت اور سفارتکار سب ملکر پاکستان کی خارجہ پالیسی کو ازسرنو ترتیب دیں اور پاک امریکا تعلقات کی بحالی کے لیے کام کریں اگر ہم نے امریکا سے تعلقات بہتر نہیں بنائے اس سے امریکا کا کوئی نقصان نہیں ہوگا،مگر پاکستان کا ازلی دشمن انڈیا،پاک امریکا تعلقات کی سرد مہری سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔
موجودہ تناظر میں پاکستان کے حوالے امریکا کی ترجیحات بدل گئی ہیں امریکا نے نئے دوست نئی حکمت عملی کے تحت بنانا شروع کیے ہیں ڈیڑھ ارب کی آبادی والا بھارت اس کا نیا اتحادی ہے۔ 20 ویں صدی کے ساتویں عشرے تک ایشیاء میں جو کردار ایران کے پاس تھا وہ مقام اور کردار اب بھارت کو عطا ہوچکا۔ امریکی ملٹی نیشنل کمپنیوں کی 130 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری بھارت میں ہے۔ 2025ء تک یہ سرمایہ کاری 180 ارب ڈالر سے تجاوزکر جائے گی۔ مالی مفادات ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھتے ہیں۔ ملٹی نیشنل کمپنی کی جو پراڈکٹ بھارت میں ایک دن میں لاکھوں اور کروڑ کی تعداد میں فروخت ہوتی ہے پاکستان میں مشکل سے لاکھ دو لاکھ سے زیادہ مارکیٹ نہیں ہے۔
امریکا اور بھارت کیا چاہتے ہیں اس بات کو سمجھنے کے لیے بھارتی آرمی چیف کا حالیہ بیان ہی کافی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ سی پیک بھارت کے لیے تھریٹ ہے اس لیے امریکا ہمارے ساتھ ہے۔ اگرچہ بدلتے حالات میں پاکستان اور امریکا کے درمیان تعلقات کی نوعیت میں تبدیلی واضح دکھائی دیتی ہے لیکن اس کے باوجود امریکا اور پاکستان کے درمیان تعلقات کی اہمیت اور ضرورت اپنی جگہ موجود ہے۔ گو کہ بدلتی دنیا اور ضرورتوں نے امریکا اور پاکستان کے درمیان تعلقات کی خلیج وسیع کردی ہے دونوں کی ترجیحات اور دلچسپیاں بدل گئی ہیں مگر اس کے باوجود دونوں ممالک کے باہم تعلقات کی ضرورت دونوں کو ہے۔
پاکستان کی روس اور چین سے قربت کی وجہ سے گو کہ آج امریکا پاکستان کے لیے اس قدر اہمیت کا باعث نہیں رہا مگر دونوں ممالک کے درمیان ماضی کے معاہدوں سے لے کر امداد اور بعض مشترکہ عالمی منصوبوں میں حصہ داری اور خاص طور پر افغانستان کے خصوصی حالات اور دہشتگردی کے خلاف نا مکمل جنگ کی تکمیل ایسے معاملات ہیں جس کی بناء پر یہ ممالک آج بھی ایک دوسرے کی ضرورت ہیں۔
پاکستان جغرافیائی لحاظ سے اہم ترین جگہ واقع ہے جہاں چین، افغانستان اور بھارت کے ساتھ ہماری سر حدوں ملتی ہیں۔امریکا جنوبی ایشیاء تک رسائی چاہتا ہے اور چین کی بڑ ھتے ہوئے اثرورسوخ کو محدود کرنا چاہتاہے اس سارے گیم میں اب بھی سب سے مضبوط پوزیشن پاکستان کی ہے۔
یہ بات امریکا کو بتانے کی ضرورت ہے کہ پاک امریکا تعلقات امریکا کے حق اور مفاد میں ہے۔وزارت خارجہ اور فارن آفس کی ذمے داری تھی کہ ٹرمپ کے امریکی صدر منتخب ہوتے ہی نئی انتظامیہ سے ملاقات کرتے اور انھیں قائل کرتے کہ افغان جنگ میں ہماری قربانیاں سب سے زیادہ ہیں ہم نے اپنا بہت کچھ اس جنگ میں کھو دیا ہے ہم اپنی آخری حد تک امریکی مفادات کے خاطر گئے ہیں ہماری معیشت تباہ و برباد ہوگئی ہمارے فوجی جوان شہید ہوئے ہمارے شہری مارے گئے۔ مگر امریکا اب بھی پاکستان پر بھروسہ کرنے اور جنگ میں دی جانے والی قربانیوں کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ دونوں ممالک میں خلیج اور تناؤ روز بروز بڑھ رہا ہے۔ پاک امریکا تعلقات میں دوری کا فائدہ بھارت اٹھانا چاہتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ سیاست میں کوئی بات آخر نہیں ہوتی کل کے حریف آج کے دوست بن جاتے ہیں۔ بہترین فارن پالیسی اچھے دوست بنانے میں مدد گار ثابت ہوتی ہے۔لہٰذا سفارتکاری کا ہنر آزمایا جائے اور امریکا سے برابری کی بنیاد پر بات کیجیے اور پڑوسیوں سے بہتر تعلقات استوار کرنے کی سعی بھی۔ پڑوسی کو دشمن بنا کر کوئی بھی ملک ترقی نہیں کرتا۔ ہمیں دنیا میں با وقار انداز میں سفر طے کرنا ہے تو اپنے انداز سیاست کو تبدیل کرنا ہوگا اپنی فارن پالیسی کو پر نظر ثانی کرنی ہوگی اور از سر نو ایسی حکمت عملی بنانی ہوگی جس میں پڑوسی ممالک سمیت امریکا سے بھی رشتے مضبوط ہوں۔
جنرل ضیاء کو امریکیوں نے پہلے ذوالفقارعلی بھٹو کا تختہ الٹنے کے لیے اور پھر سوویت یونین کے خلاف افغانستان میں لڑی جانے والی جنگ میں استعمال کیا۔ مقصد پورا ہوا تو جنرل ضیاء سے جان چھڑالی۔یہ بات بھی اب راز نہیں رہی ہے کہ محترمہ بینظیر بھٹو اور نواز شریف کے اقتدار میں آنے اور برطرفی کے پیچھے بھی امریکی اسٹیبلشمنٹ کی مرضی اور منشا شامل رہی ہے۔ ہم ستر برسوں تک امریکا کے ساتھ اس طرح جڑے رہے ہیں کہ پاکستان کے ہر اہم فیصلے میں اس کی رضامندی شامل رہی ہے ہمارے یک طرفہ جھکاؤکے باوجود امریکا کا رویہ ہمارے ساتھ برابری کی بنیاد پرکبھی نہیں رہا بلکہ اْس نے ہمیشہ ہمیں اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا ہے۔
امریکا نے اپنے دوستوں سادات اور صدام کے ساتھ بھی جنرل ضیاء سے کچھ مختلف سلوک نہیں کیا۔ مصر کے صدر انوار السادات نے کیمپ ڈیوڈ کا بدنام زمانہ معاہدہ کرکے اپنے ملک کا قرضہ تو معاف کروایا مگر فلسطینیوں کو بے یار و مدد گار چھوڑ دیا۔ ان کی ضرورت اور افادیت ختم ہوئی تو ایک مصری سپاہی کے ہاتھوں صدر انوار السادات کو مروا دیا۔ صدام حسین سے ایران پر حملہ کروایا اور نو سال کی ایران عراق جنگ میں دونوں ملکوں کے ساڑھے تین کھرب ڈالر ڈوب گئے سات لاکھ مسلمان مارے گئے۔ صدام نے پر پرزے نکالے تو امریکی عراق پر قابض ہوئے اور پھر ایک دن صدام کو غار سے پکڑا لیاگیا۔ مقدمہ چلا اور پھانسی چڑھا دیے گئے۔یہ ہے امریکا کی دوستی اور اس کاانجام۔
نوے کی دہائی میں امریکا کی سرپرستی میں سے القاعدہ اور طالبان کے نام سے ایک ایسی فوج تیار ہوئی جس نے افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف جنگ میں حصہ لیا۔ اِس جنگ میں پاکستان نے بنیادی کردار ادا کیا۔امریکا کی رضامندی سے ہی افغانستان میں طالبان کی حکومت بنوائی گئی جس نے اسلامی نظام کے نام پر افغانستان میں بربریت اور خون ریزی کا بازار گرم کیے رکھا جس پر امریکا اور پاکستان دونوں خاموش رہے، مگر جب امریکا میں 9/11 کا واقعہ پیش آیا تو امریکا نے اپنے ہی تیار کیے ہوئے فوجی جنرل اسامہ بن لادن کی تلاش میں ایک بار پھر افغانستان کو ملیا میٹ کردیا۔اسامہ کو پاکستان سے پکڑا لیا اور اس کا بھی انجام کچھ مختلف نہ تھا۔ یہ ہے امریکا سے دوستی اور اس کا انجام۔
پاکستان کی فارن پالیسی کی ایک بڑی کمزوری یہ رہی ہے کہ ہم کسی ایک ملک کو اپنا دوست اور دیگر ممالک کو غیر ضروری طور پر اپنا دشمن بنالیتے ہیں جب ہمارے حکمران امریکا کو اپنا مائی باپ سمجھتے تھے اور اْس کے ہر حکم پر سر خم کردیا کرتے تھے، جب ہم امریکا کے اشارے پر افغانستان میں امریکی مفادات کی جنگ لڑتے رہے اس جنگ میں ہم نے اپنے پڑوسی ممالک اور خطے کے دیگر ممالک کو مکمل طور پر نظر اندازکیے رکھا۔اب ہم سی پیک منصوبے کی وجہ سے چائنا کے بہت قریب ہیں تو ہم نے امریکا کے حوالے سے اپنی پالیسی میں مکمل طور پر یو ٹرن لے لیا ہے۔
قومی اسمبلی نے امریکی صدر ٹرمپ اور افغانستان میں امریکی فوج کے کمانڈر جنرل نکسن کے الزامات پر مبنی بیانات کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے پاکستان، امریکا کو زمینی و فضائی کمیونیکیشن میں تعاون کی فراہمی معطل اور وزیر خارجہ کا دورے امریکا ملتوی کرنے کی حمایت کی ہے۔ پاک امریکا تعلقات آج تاریخ کے سب سے بدترین سطح پر پہنچ گئے ہیں۔ سیاسی،عسکری قیادت اور سفارتکار سب ملکر پاکستان کی خارجہ پالیسی کو ازسرنو ترتیب دیں اور پاک امریکا تعلقات کی بحالی کے لیے کام کریں اگر ہم نے امریکا سے تعلقات بہتر نہیں بنائے اس سے امریکا کا کوئی نقصان نہیں ہوگا،مگر پاکستان کا ازلی دشمن انڈیا،پاک امریکا تعلقات کی سرد مہری سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔
موجودہ تناظر میں پاکستان کے حوالے امریکا کی ترجیحات بدل گئی ہیں امریکا نے نئے دوست نئی حکمت عملی کے تحت بنانا شروع کیے ہیں ڈیڑھ ارب کی آبادی والا بھارت اس کا نیا اتحادی ہے۔ 20 ویں صدی کے ساتویں عشرے تک ایشیاء میں جو کردار ایران کے پاس تھا وہ مقام اور کردار اب بھارت کو عطا ہوچکا۔ امریکی ملٹی نیشنل کمپنیوں کی 130 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری بھارت میں ہے۔ 2025ء تک یہ سرمایہ کاری 180 ارب ڈالر سے تجاوزکر جائے گی۔ مالی مفادات ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھتے ہیں۔ ملٹی نیشنل کمپنی کی جو پراڈکٹ بھارت میں ایک دن میں لاکھوں اور کروڑ کی تعداد میں فروخت ہوتی ہے پاکستان میں مشکل سے لاکھ دو لاکھ سے زیادہ مارکیٹ نہیں ہے۔
امریکا اور بھارت کیا چاہتے ہیں اس بات کو سمجھنے کے لیے بھارتی آرمی چیف کا حالیہ بیان ہی کافی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ سی پیک بھارت کے لیے تھریٹ ہے اس لیے امریکا ہمارے ساتھ ہے۔ اگرچہ بدلتے حالات میں پاکستان اور امریکا کے درمیان تعلقات کی نوعیت میں تبدیلی واضح دکھائی دیتی ہے لیکن اس کے باوجود امریکا اور پاکستان کے درمیان تعلقات کی اہمیت اور ضرورت اپنی جگہ موجود ہے۔ گو کہ بدلتی دنیا اور ضرورتوں نے امریکا اور پاکستان کے درمیان تعلقات کی خلیج وسیع کردی ہے دونوں کی ترجیحات اور دلچسپیاں بدل گئی ہیں مگر اس کے باوجود دونوں ممالک کے باہم تعلقات کی ضرورت دونوں کو ہے۔
پاکستان کی روس اور چین سے قربت کی وجہ سے گو کہ آج امریکا پاکستان کے لیے اس قدر اہمیت کا باعث نہیں رہا مگر دونوں ممالک کے درمیان ماضی کے معاہدوں سے لے کر امداد اور بعض مشترکہ عالمی منصوبوں میں حصہ داری اور خاص طور پر افغانستان کے خصوصی حالات اور دہشتگردی کے خلاف نا مکمل جنگ کی تکمیل ایسے معاملات ہیں جس کی بناء پر یہ ممالک آج بھی ایک دوسرے کی ضرورت ہیں۔
پاکستان جغرافیائی لحاظ سے اہم ترین جگہ واقع ہے جہاں چین، افغانستان اور بھارت کے ساتھ ہماری سر حدوں ملتی ہیں۔امریکا جنوبی ایشیاء تک رسائی چاہتا ہے اور چین کی بڑ ھتے ہوئے اثرورسوخ کو محدود کرنا چاہتاہے اس سارے گیم میں اب بھی سب سے مضبوط پوزیشن پاکستان کی ہے۔
یہ بات امریکا کو بتانے کی ضرورت ہے کہ پاک امریکا تعلقات امریکا کے حق اور مفاد میں ہے۔وزارت خارجہ اور فارن آفس کی ذمے داری تھی کہ ٹرمپ کے امریکی صدر منتخب ہوتے ہی نئی انتظامیہ سے ملاقات کرتے اور انھیں قائل کرتے کہ افغان جنگ میں ہماری قربانیاں سب سے زیادہ ہیں ہم نے اپنا بہت کچھ اس جنگ میں کھو دیا ہے ہم اپنی آخری حد تک امریکی مفادات کے خاطر گئے ہیں ہماری معیشت تباہ و برباد ہوگئی ہمارے فوجی جوان شہید ہوئے ہمارے شہری مارے گئے۔ مگر امریکا اب بھی پاکستان پر بھروسہ کرنے اور جنگ میں دی جانے والی قربانیوں کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ دونوں ممالک میں خلیج اور تناؤ روز بروز بڑھ رہا ہے۔ پاک امریکا تعلقات میں دوری کا فائدہ بھارت اٹھانا چاہتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ سیاست میں کوئی بات آخر نہیں ہوتی کل کے حریف آج کے دوست بن جاتے ہیں۔ بہترین فارن پالیسی اچھے دوست بنانے میں مدد گار ثابت ہوتی ہے۔لہٰذا سفارتکاری کا ہنر آزمایا جائے اور امریکا سے برابری کی بنیاد پر بات کیجیے اور پڑوسیوں سے بہتر تعلقات استوار کرنے کی سعی بھی۔ پڑوسی کو دشمن بنا کر کوئی بھی ملک ترقی نہیں کرتا۔ ہمیں دنیا میں با وقار انداز میں سفر طے کرنا ہے تو اپنے انداز سیاست کو تبدیل کرنا ہوگا اپنی فارن پالیسی کو پر نظر ثانی کرنی ہوگی اور از سر نو ایسی حکمت عملی بنانی ہوگی جس میں پڑوسی ممالک سمیت امریکا سے بھی رشتے مضبوط ہوں۔