ڈھانپا کفن نے داغ عیوبِ برہنگی
بڑے میر کا ذکر اس واقعے کو ضابطہ تحریر میں لائے بغیر نامکمل ہوگا جس کا میں خود بھی چشم دید گواہ تھا۔
''چیزکسی کی، دعویدارکوئی اور'' کے مصداق میروں کی جاگیر میں حکم کسی اورکا چلتا تھا۔ جی ہاں، ہمارے شہر میں نصف صدی پہلے تک کچھ ایسا ہی الٹا اور نہ سمجھ میں آنے والا نظام نافذ تھا۔ زیریں سندھ کے شہر ٹنڈو غلام علی میں یوں ڈنکا تو میر بندہ علی خان تالپور کے نام کا بجتا تھا لیکن عملاً راج کرتے تھے ان کے والد بزرگوار، میر حاجی محمد حسن جو بڑے میر کہلاتے تھے۔
اپنے اکلوتے صاحبزادے کے برعکس، جو یورپ کے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور تقسیم ہند سے قبل سر شاہ نواز بھٹو، سر غلام حسین ہدایت اللہ، اللہ بخش سومرو، خان بہادر ایوب کھوڑو، سید میراں محمد شاہ، میر غلام علی تالپور، قاضی فضل اللہ، پیر الٰہی بخش، پیرزادہ عبدالستار اور جی ایم سید کے ہمعصر چوٹی کے سیاستدان تھے، یہ چٹے ان پڑھ اور روایتی جاگیرداروں کی طرح سخت گیر حاکم تھے۔ ڈھل (لگان) ادا کرنے کے قائل نہ تھے، فرماتے تھے زمینیں ہماری ہیں تو حکومت کون ہوتی ہے لگان وصول کرنے والی۔
خود تو نہیں دیتے تھے دوسروں کو بھی منع کرتے تھے، ان کی صحبت کے زیر اثر ٹنڈو باگو کے میر خدا بخش لامبٹ بھی لگان نہیں دیتے تھے اور جب سرکار زبردستی وصولی کے لیے پولیس بھیجتی تو بھاگ کر ٹنڈو غلام علی پہنچتے اور بڑے میرکے پاس پناہ لیتے۔ نتیجتاً اپنے والد اور ان کی پناہ میں آنے والے میر لامبٹ کے حصے کی ڈھل بھی میر بندہ علی خان کو ادا کرنا پڑتی۔ بڑے میر کے رعب، دبدبے اور سخت گیری کی وجہ سے پولیس ان کی اجازت کے بغیر رپٹ درج نہیں کرتی تھی خواہ کوئی قتل ہی کیوں نہ ہوگیا ہو۔
مجھے یاد ہے ایک بار کوئی عالمانی پولیس افسر وہاں صوبیدار (ایس ایچ او) بن کر آیا، پڑھا لکھا اور قانون کی حکمرانی پہ یقین رکھنے والا آدمی تھا، اس نے پہلی غلطی تو یہ کی کہ بڑے میر کو سلام کرنے نہیں گیا، پھر اتفاق سے اس کے آنے کے بعد جلد ہی علاقے میں کوئی بڑی واردات ہو گئی، تھانے کے پرانے عملے نے اسے وہاں کام کرنے کے آداب اور طور طریقے سمجھانے کی بہت کوشش کی لیکن وہ نہ مانا، ضروری نفری لے کر موقع واردات پر پہنچا اور ملزمان کو گرفتار کرلیا جو سب بڑے میر کے ہاری تھے۔ انھیں پتہ چلا تو آگ بگولہ ہوکر حویلی سے برآمد ہوئے اور اپنے بنگلے پہنچ کر تھانیدار کو پیش کرنے کا حکم دیا، ان کے مسلح آدمی گئے اور اسے زبردستی اٹھا لائے۔ پھر بڑے میر کے حکم پر انھوں نے اس پر بہیمانہ تشدد بھی کیا۔ ادھ موا کرکے چھوڑنے سے پہلے بڑے میر نے خود اس کے قریب جاکر کہا ''اب کبھی مت بھولنا کہ یہ میرا شہر ہے اور یہاں قانون کا نہیں میرا حکم چلتا ہے۔''
بیچارہ ان کا کہا تو کیا یاد رکھتا، تبادلہ کروا کے کہیں اور چلا گیا۔ اگر کوئی قاتل بھی بڑے میر کی پناہ میں آجاتا تو کسی کی مجال نہ تھی کہ اسے قانون کی گرفت میں لے سکتا۔ متاثرہ فریق کی آہ و بقا کے جواب میں بڑے بھولپن سے کہتے کیا کریں یہ تمہارے آنے سے پہلے ہماری پناہ میں آگیا تھا، اب کچھ نہیں ہو سکتا، رونا دھونا بند کرو اور دفع ہو جاؤ۔
لیکن وہ جو کہتے ہیں نا کہ ''ہر فرعون را موسیٰ'' قدرت نے بڑے میر کو سبق سکھانے کے لیے ان ہی کے خاص آدمی کا انتخاب کیا۔ قاضی قادر بخش میمن ان کا منیجر ہی نہیں رازدار بھی تھا۔ بڑے میر کو اس پر کتنا بھروسہ تھا اور وہ اس پرکتنا اعتماد کرتے تھے اس کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ وہ اعلانیہ کہتے تھے کہ قاضی قادر بخش ان کا بڑا بیٹا ہے اور اس کا رتبہ میر بندہ علی سے بڑا ہے۔ وہ سارے صحیح و غلط کام اسی کے مشورے سے کرتے تھے اور ان کے فیصلوں میں اس کا بڑا دخل ہوتا تھا۔
کہتے ہیں قاضی قادر بخش اپنی دشمنیاں بھی بڑے میرکے ہاتھوں نکلواتا تھا اور خود پس منظر میں رہتا تھا۔ پھر جانے کیا ہوا، بڑے میر اور ان کے اس نام نہاد بڑے بیٹے میں شدید اختلافات پیدا ہو گئے۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ سندھ کے ہر ضلع میں دونوں نے ایک دوسرے کے خلاف مقدمات درج کرا رکھے تھے اور پیشیاں بھگتانے میں پورے تھے۔ بڑے میر کو اپنی دولت پر گھمنڈ تھا تو قاضی قادر بخش بھی انھی کا نوازا ہوا تھا اور مال و دولت، حیثیت، اثر رسوخ اور طاقت میں کسی طرح ان سے کم نہ تھا۔ گویا ٹکرکا مقابلہ تھا اور یہ فیصلہ کرنا مشکل تھا کہ کون جیتے گا۔
اس قضیے میں میر بندہ علی خان مکمل طور پر غیر جانبدار تھے۔ ایک مرحلے پر قاضی قادر بخش کے دائرکردہ کسی فوجداری مقدمے میں عدم حاضری کی بنیاد پر بڑے میر کی گرفتاری کے وارنٹ جاری ہوئے تو سندھ بھر کے میروں نے اسے اپنی توہین جانا اور ان کے بیٹے پر دباؤ ڈالا کہ خواہ کچھ بھی کرنا پڑے، گرفتاری کی نوبت نہ آنے پائے۔ انھوں نے پہلے تو یہ کہہ کر اپنی بھڑاس نکالی کہ یہ باپ بیٹے کا معاملہ ہے، وہ کون ہوتے ہیں مداخلت کرنے والے۔ لیکن پھر معاملے کو کچھ اس طرح سنبھالا کہ سانپ مر گیا اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹی۔
بڑے میر کا مالی نقصان تو بہت ہوا لیکن عزت بچ گئی جب کہ قاضی قادر بخش قلاش ہوگیا، تھوڑی بہت زرعی زمین بچ رہی تھی جس سے گزر بسر ہوتی تھی، اعمال درد بن کر جوڑوں میں بیٹھ گئے، چلنا پھرنا دوبھر ہوگیا، دو بیٹے قاضی علی بخش اور نبی بخش باپ کے دست و بازو تھے اور اسی کے طور طریقے اپنائے ہوئے تھے۔ بڑے میر کو وفات پائے اگرچہ مدت گزر چکی تھی لیکن قدرت کا انتقام شاید ابھی پورا نہیں ہوا تھا، پہلے قاضی قادر بخش کے چھوٹے بیٹے نبی بخش کو بھرے بازار میں دن دہاڑے کلہاڑی کے پے درپے وار کرکے قتل کیا گیا، پھر لوگوں نے اس قاضی قادر بخش کو، جس سے وہ کبھی جھک کر ملتے تھے، پولیس کا ٹاؤٹ بنے ہر وقت تھانے میں بیٹھے دیکھا۔
معذوری اور ذلت آمیز انجام کے ساتھ اس نے دنیا چھوڑی۔ بعد میں قاضی علی بخش بھی باپ کی بوئی ہوئی نفرت اور حقارت کی فصل کاٹتے ہوئے راہی ملک عدم ہوا۔ ان کی میراث اب تیسری نسل کو منتقل ہوچکی ہے۔ قاضیوں کے المناک انجام کے برعکس بڑے میر حیدرآباد شہر کے علاقے مارکیٹ میں واقع اپنے بنگلے میں صبح کے وقت تلاوت کرتے ہوئے اس طرح اپنے خالق حقیقی سے جا ملے کہ اللہ کے حضور اس کے اتارے ہوئے قرآن مجید پر سجدہ ریز تھے، واقعی اپنے فیصلوں میں پوشیدہ حکمتیں وہی خوب جانتا ہے۔
بڑے میر کا ذکر اس واقعے کو ضابطہ تحریر میں لائے بغیر نامکمل ہوگا جس کا میں خود بھی چشم دید گواہ تھا۔ 1958ء میں جنرل ایوب کی فوجی حکومت نے وہ زرعی اصلاحات نافذ کیں جن کے ذریعے جاگیریں ختم کی گئی تھیں۔ جس وقت میر بندہ علی خان کو حکومت کی جانب سے بذریعہ تار اس کی اطلاع دی گئی، دونوں باپ بیٹے اپنے اپنے بنگلوں میں بیٹھے روز مرہ کے کام نمٹا رہے تھے۔
انھوں نے تو تار پڑھ کر ایک طرف رکھ دیا اور مسکراتے ہوئے فرمایا ہم نے تو ٹھاٹ سے گزار لی، اب جو ہماری جگہ لیں گے انھیں پتہ چلے گا کہ سو میں کتنے بیس ہوتے ہیں۔ لیکن جب بڑے میر کو بتایا گیا تو انھوں نے اپنے سامنے رکھے ہوئے حقے کو لات مار کے کہا ''ایوب خان کے باپ کی بادشاہی ہے کیا کہ وہ ہم سے ہماری جاگیر چھین لے گا؟'' بڑے میر ہوں یا قاضی قادر بخش دونوں برہنگی کے عیوب کفن میں ڈھانپ کر بالاًخر اپنی قبروں میں جا سوئے اور سب کچھ یہیں دھرا رہ گیا۔