بڑا منہ چھوٹی بات  

مائیک کو منہ لگاتے ہوئے یا منہ کو مائیک لگاتے ہوئے بولے، بڑا منہ چھوٹی بات۔

barq@email.com

ایک غیر مستند ، غیرمعروف اور غیر سرکاری ''دانے '' نے کہا ہے، دانے کو ''دانا '' سمجھنے کی غلطی مت کیجیے، دانا اور دانہ بالکل الگ چیزیں ہیں۔ ''دانا '' دانشور ہوتے ہیں اور دوسروں کو پیستے ہیں جب کہ ''دانہ '' خو پیس جاتا ہے اور پھر انسانی پیٹ کے ذریعے خاک میں مل کر گل و گلزار نہیں بلکہ خار ہو جاتا ہے جس دانے کا ذکر ہم کر رہے ہیں اس کے ساتھ ہماری ملاقات پیدائش کے وقت سے چل رہی ہے لیکن صرف آئینے میں۔ تو اس دانا کا ایک قول ہے کہ

برقہ الفاظ ہم ددے وخت دبنیادم غوندے شول
چہ زائے بدل شی نو پخپلہ خپل تا ثیر بدل کڑی

یعنی الفاظ بھی انسانوں کی طرح ہو گئے ہیں کہ مقام بدلتے ہی اپنی تاثیر اور معنی بدل لیتے ہیں مثلاً احمق بیوقوف گدھا تقریباً گالیاں ہیں، اگر یہ الفاظ کسی نوکر کے منہ سے اپنے آقا کے لیے نکلیں تو گالیاں ہیں او اس ''منہ '' کی کم سے کم سزا توڑنا ہے لیکن اگر یہی الفاظ آقا ، افسر اور مالک کے منہ اس نوکر ما تحت اور غلام کے لیے نکلیں تو اعزاز بلکہ ایوارڈز بن جاتے ہیں۔ وہ خوشی اچھلتا ہوا یہاں وہاں پھرے گا کہ آقا نے آج مجھے گدھا کہا ہے، صاحب نے مجھے ''احمق '' کا اعزاز عطا کیا ہے، مالک نے مجھے بے وقوف کہہ کر ذرا نوازی کی ہے۔ من موہن سنگھ متواجی ویسے تو پنجابی ہیں لیکن اردو کا چیمپئن کہلاتے ہیں اور اکثر تقریبات کی کمپئرینگ بھی کرتے ہیں، بھوپال میں جب وہ صوفی کانفرنس کی محفل شبینہ کو کمپئرکرنے آگئے اور ان کو اس کام کے لیے بطور خاص شملہ سے بلایا گیا تھا ۔

مائیک کو منہ لگاتے ہوئے یا منہ کو مائیک لگاتے ہوئے بولے، بڑا منہ چھوٹی بات۔ بظاہر یہ غلط لگتا ہے لیکن وہ آدمی ہونے کے ساتھ سردار بھی تھے تو اس کا منہ یقینًا ہر بات کے لیے بڑا ہی ہونا چاہیے، ایسے منہ اپنے ہاں بھی بکثرت پائے جاتے ہیں جن کے منہ کا حدود اربعہ اتنا ہوتا ہے کہ ہر بات اس سے نکلتے ہوئے چھوٹی پڑ جاتی ہے ۔


مثلاً اگر تحفظات کا لفظ حضرت مولانا کے مستقل زیر استعمال نہ رہتا تو کوئی تحفظات سے یہ بھی نہ پوچھتا کہ بھیا کیسے ؟ یا تیرے منہ میں کتنے دانت ہیں لیکن مولانا کی صحبت اور ہم نشینی بلکہ ''لب نشینی '' نے اسے اتنا بڑا کیا ہوا ہے کہ سارے بڑے بڑے منہ اس کے چھوٹے ہو جاتے ہیں بلکہ اکثر تو '' لوگ '' بھی بہت ''چھوٹے '' ہو جاتے ہیں خاص طور پر سیاست کی گلیو رورلٹر میں ۔من موہن سنگھ جی کی سب سے بڑصفت یہ ہے کہ وہ فوراً ایسے الفاظ بنا بھی لیتے ہیں جو اس کے ذاتی پروڈکشن ہوتے ہیں جیسے اسی تقریب میں انھوں نے کہا کہ دست کاری ہونی چاہیے، فنکاروں کا حوصلہ دست کاری سے بڑھ جاتا ہے، پلیز زور سے دستکاری کیجیے۔ اس پر ہم نے آوازدی کہ متواجی دست کاری سے زیادہ زور ''دست ماری '' میں ہے، اس کے بعد وہ ''دست ماری '' ہی بولتے رہے۔ ترکی طائفے کے موقعے پربولے، ہماری مخدومہ شیخہ صوفیہ اور مرحومہ گمال نور اپنا طوائفہ پیش کریں گی ۔

متواجی نے ایک اور بڑا خوبصورت لفظ فی البدیہہ پروڈس کیا ، حلیمی ''حلیمی '' وقفے وقفے سے شور ہونے پر وہ پلیز حلیمی کیجیے، پلیز حلیمی ۔ بلکہ ایک موقعے پر مادھولال حسین کے ملنگوں کا دھمال پیش کرتے ہوئے بولے، یہ مادھولہ حسین کی حلیمی تھی، موسم بھی حلیمی تھا، بھوپال تو تھا ہی حلیمی ، اپنی تازہ شاعری کے لیے بھی وہ حلیمی کی اصطلاح استعمال کرتے تھے ۔ میرے ساتھ بیٹھے ہوئے ارباب داؤد نے پوچھا یہ حلیمی کون ہے ؟

عرض کیا جس طرح لاہور میں ''حلیم '' ہوتی ہے، ویسے ہی بھوپال میں حلیمی بیچی، کھائی اور فروخت کی جاتی ہے۔ بولا میں نے تو بھوپال میں نہیں دیکھی، سمجھایا کہ حلیمی چونکہ مونث ہے، اس لیے پردے کی بھی سخت پابند ہے۔ بعد میں ہم نے پروفیسر شاہد گل سے مشورہ کرکے یہ فیصلہ کرلیا کہ واپسی پر مقتدرہ قومی زبان والوں سے رابطہ کرکے بتائیں گے کہ اتنی شدید محنت کرنے کے بعد آپ تھک گئے ہوں گے تو کیوں نہ ''متواجی '' سے رابطہ کرکے اردو سازی میں ان سے مدد حاصل کریں، ویسے بھی ''کام نہ کرنے کا کام بہت ہی مشقت طلب ہوتا ہے۔

متواجی کے پاس پہلے سے بھی اردو الفاظ کی اچھی خاصی بنی بنائی ایک لاٹ موجود ہے اور وہ سردست پروڈکشن کے بھی ماہر ہیں۔ بات ذرا دوسری طرف نکل گئی لیکن موضوع رہی ہے کہ یہ الفاظ بڑے ہرجائی اور منافق ہوتے اور موقعے سے اپنا مفہوم بلکہ پارٹی بدلتے رہتے ہیں۔پشتونوں کا ایک قبیلہ جو اچھا خاصا بڑا قبلہ ہے اس کا قومی تکیہ کلام ایک انتہائی ناقابل برداشت بات پر مبنی ہے مثلاً وہ تکیہ کلام ہے خداغارت کرے ۔ تو وہ جب ایک دوسرے سے ملتے تو ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر بولتے ہیں ہاں بھئی اچھے ہونا، خداغارت تیرا باپ کیسا ہے، خداغارت کرے اور ماں تو اچھی ہے نا خداغارت کرے، ہاں بھئی تیری بیوی خدا غارت کرے بچاری کا کیا ہوا۔

دوسرے بھی اسی طرح تمام خیریت خداغارت کرے کر دیتا ہے لیکن اگر قبیلے سے باہر کا کوئی آدمی ملے تو اس کا عجیب حال ہو جاتا ہے کہ اس طرح ہاتھ ہلا ہلا کر بھی کوئی ایسی بات کرتا ہے۔ ہمارے ساتھ بھی پہلے پہل جب ایسا ہوا تو ششدرہ گئے لیکن بعد میں خدا غارت کرے کے عادی ہوگئے۔

کبھی کبھی ہم سوچتے ہیں کہ لوگ یہ لغتیں اور ڈکشنریاں فضول میں لکھتے ہیں کہ الفاظ کے اصل معنی تو بولنے والے کے منہ میں اور سننے والے کے کانوں میں ہوتے ہیں بچارے الفاظ تویوں کہیے کہ خالی پلیٹ اور برتن ہوتے ہیں جن میں الفاظ کے برمحل معنی پیش کیے جاتے ہیں مثلاً اگر عمران خان، نوازشریف، مولانا فضل الرحمن وغیرہ کے کارکن کو پاگل کہیں گے تو وہ برامان سکتا ہے ؟ ہا ں اگر اس نے والی بال کی طرح یہی لفظ لوٹا دیا تو ؟ باقی آپ سمجھدار ہیں یقین نہ ہو تو تجربہ کرکے دیکھ لیجیے کسی تھانیدار کو اس کے الفاظ لوٹا کر ۔
Load Next Story