قصور سے کھیم کرن تک جنگِ ستمبر کی کچھ یادیں
مرحوم والد صاحب کا قصہ جو کچھ سال پہلے سننے اور پڑھنے کا اتفاق ہوا تھا؛ ان ہی کی زبانی بیان ہے
لوگ رخصت ہو جاتے ہیں، کہانیاں زندہ رہتی ہیں۔ بزرگوں سے بٹوارے کی دردناک کہانیاں سنتے تو دل جذبات کی شدت سے معمور ہو جاتا، آنکھوں میں ہجرت کے مناظر گھومنے لگتے، برطانوی حکومت اور کانگریس کی ملی بھگت نے نہ صرف لاکھوں انسانوں کو قتل کروا دیا بلکہ صدیوں ساتھ رہنے والے بدترین دشمن بن گئے۔ مسئلہ کشمیر کو پیدا کرکے دو ملکوں میں مستقل بنیادوں پر خونی لکیر کھینچ دی گئی؛ نتیجتاً آج پورا خطہ ایٹم بموں کے ذخیرے پربیٹھا ہے۔
سلطنت برطانیہ نے جب اپنی نوآبادیات کو آزاد کرنا شروع کیا تو ان ملکوں سے جاتے جاتے اقتدار کی منتقلی میں جان بوجھ کر ایسے مسائل پیدا کئے جس کی آگ میں یہ ممالک آج بھی سلگ رہے ہیں۔ خیر! موضوعِ سخن کسی اور طرف چلا گیا۔ بات کرنی تھی پاک بھارت معرکوں پر، جن میں پہلا معرکہ 1948 میں کشمیر کو حاصل کرنے کے لیے لڑا گیا۔
دوسری جنگ جو 1965 میں لڑی گئی، اسے جنگ ستمبر کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ پاکستانی قوم نے دفاع وطن کا حق ادا کیا بلکہ عددی برتری کے حامل ملک کے سامنے فوج اور عوام سیسہ پلائی دیوار بن گئے۔ کم وسائل کے باوجود فوج کے جوانوں نے ایسے کارنامے سرانجام دئیے جن کی نظیر ملنا مشکل ہے۔
جنگ کے بعد کاغذ کے معاہدوں میں کیا کہانیاں لکھی گئیں؟ ہم اس پر بات نہیں کر رہے بلکہ سن 65 میں جہاں فوج محاذ جنگ پر ڈٹی رہی وہیں عوامی جوش وجذبے نے بھی سب کو ایک قوم میں بدل دیا۔ ہمارا موضوع بھی یہ ہوگا۔ والد صاحب تو اس جہان فانی سے رخصت ہوچکے ہیں مگر ان کی کہانی زندہ ہے جو کچھ سال پہلے سننے اور پڑھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ یہ قصہ ان ہی کی زبانی سنتے ہیں:
میں (منیر احمد) اپنے والد کی اکلوتی نرینہ اولاد تھا۔ یہ 1964-65 ہی کے سال تھے جب کالج کی تعلیم ادھوری چھوڑ کر والد صاحب کے ساتھ کاروبار میں شامل ہونا پڑا۔
بھارت نے لاہور پر رات کی تاریکی میں حملہ کردیا جس کی اطلاع صبح ملی۔ سب لوگوں کی عجیب کیفیت ہورہی تھی، اُدھر ریڈیو سے بار بار جنگ کے اعلانات نشر ہو رہے تھے۔ تھوڑی ہی دیر میں صدر ایوب خان کی تقر یر نشر ہونے والی تھی۔ سب لوگ ریڈیو سے کان لگائے بیٹھے تھے۔ صدر ایوب کی مختصر مگر جامع تقریر نشر ہونے کی دیر تھی کہ عوام سرحدوں پر جانے کو بے تا ب ہونے لگی۔ دفاع وطن کےلیے ہر کسی کا جذبہ دیدنی تھا۔ جنگ کی وجہ سے ریڈیوکی مانگ میں بے پناہ اضافہ ہوچکا تھا۔
اس لیے خریداری کےلیے آبائی شہر (وہاڑی) سے لاہور آنا پڑتا۔ لاہور میں چیمبرلین روڈ پر واقع نثار آرٹ پریس کے ہاں قیام ہوتا۔ بی آربی نہر جو لاہور شہر کی حفاظتی دیوار کے طور پر کھودی گئی تھی، اس کے کناروں پر پاک فوج کی مشہور زمانہ ''رانی توپ'' نصب تھی۔ رات کی خاموشی میں جب یہ دشمن پر گولہ باری کرتی تو آواز اُردو بازار تک بھی سنائی دیتی۔ اس آواز کی وجہ سے رات کو نیند نہ آتی مگر ایک دو دن بعد ہی اتنی عادت ہوگئی جب تک رانی توپ کی آواز سنائی نہ دیتی، تب تک نیند نہیں آتی۔ اس توپ نے لاہور شہر کے دفاع کا خوب حق ادا کیا تھا۔
اگلے ہی دن لاہور شہر کے عین اوپر بھارتی طیاروں نے حملہ کر دیا۔ دوسری طرف پاک فضائیہ کے جنگی جہاز بھی نمودار ہوگئے۔ فضائی معرکہ شروع ہو گیا۔ مساجد سے مسلسل گھروں کے اندر رہنے کے اعلانات گونج رہے تھے مگر عوام فرطِ جذبات سے دونوں ہاتھ فضا میں بلند کئے، اور ''اللہ اکبر'' نعرے لگاتے ہوئے، طیاروں کی سمت بھاگ رہے تھے۔ بالاّخر پاک فوج کے پائلٹ نے بھارت کا طیارہ مار گرایا۔ یہ جہاز بند روڈ پر گرا۔ عوام نے اس کے ٹکڑے اُٹھائے اور سرکلر روڈ پر سجا دیئے۔ لوگوں میں جنگ کا خوف اور ڈر نہیں تھا؛ میں نے خود فضائی جھڑپ کا یہ منظر موری دروازہ کے قریب کھڑے ہوکر دیکھا تھا۔ جنگ ستمبر میں ریڈیو پاکستان کی خدمات اور کارنامے ناقابل فراموش ہیں۔ شاعروں، گلوکاروں اور موسیقی ترتیب دینے والوں نے حد درجہ محنت کی؛ لازوال ملی نغمے تخلیق کئے۔ شکیل احمد جنگ کی خبریں پڑھتے تھے۔ شکیل کی آواز میں ایسی گرج تھی کہ سننے والے متاثر ہوکر نعرے بلند کرنے لگتے۔
اصل واقعہ یوں ہے کہ میں اور میرے کاروباری ساتھی عبدالرحمان لاہور آنے کی تیاریوں میں مصروف تھے۔ اس دوران ریڈیو پاکستان سے پاک فوج کی جانب سے بھارتی قصبے کھیم کرن پر قبضے کا اعلان کر دیا گیا۔ یہ قصبہ قصور کے قریب واقع ہے۔ میں نے اور عبدالرحمان نے لاہور جانے سے پہلے قصور جانے کا ارادہ کیا۔ جوانی کا جوش ہی تھا جو جنگ زدہ علاقے میں جانے کا ارادہ کرلیا۔ اس مرتبہ بذریعہ ٹرین قصور جانے کا پروگرام ترتیب دیا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ قصور جانے والی ٹرین میں عملے کے ارکان کے علاوہ ہم صرف دو لوگ تھے۔ سارے ڈبے خالی تھے۔
قصور ریلوے اسٹیشن پر پہنچتے ہی دیکھا کہ وہاں عوام کا جم غفیر تھا جو دیکھتے ہی دیکھتے ٹرین میں سوار ہوگیا۔ یہ قصور کے لوگ تھے جو یہاں سے جا رہے تھے۔ پاک فوج کو بھی اطلاع مل چکی تھی۔ فوجی جوانوں نے لوگوں کو سمجھایا کہ ہم لوگ آپ کی حفاظت کےلیے یہاں آئے ہیں اور آپ کے بھروسے ہی پر یہاں موجود ہیں، آپ لوگ چلے گئے تو ہم کس کی خاطر لڑیں گے۔ لوگ بات سمجھ گئے اور ٹرین سے واپس اتر آئے۔
ہم عبدالرحمان کے پھوپھا کے گھر چلے گئے اور جب انہیں ہمارے ارادوں کا علم ہوا کہ ہم کھیم کرن جانا چاہتے ہیں تو وہ لوگ حیران بھی ہوئے اور پریشان بھی۔ فوج کی اجازت ضروری تھی جو دریافت کرنے پر نہیں ملی؛ لیکن ہم بھی بضد ہوچکے تھے کہ ضرور جانا ہے۔ ہمارے ارادوں کی پختگی دیکھ کر مزید ایک درجن لوگ ساتھ جانے کو تیا ر ہوگئے۔ ہم نے فوج کی نظروں سے بچ کر بھارتی سرزمین میں داخلے کا ارادہ کیا۔
قصور اور کھیم کرن کے درمیان نہر ہے جسے پل کے بغیر پار کرنا تھا۔ سب کو ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر نہر پار کرنی تھی۔ ایک پھسلتا تو سب پھسل جاتے۔ پانی کا بہاؤ بھی تیز تھا۔ آخرکار نہر پار کرکے ہم بھارتی سرزمین پر جا پہنچے۔
کھیم کرن جانے کا شوق ہم سب پر اس قدر حاوی تھا راستے کی مسافت کا پتا ہی نہیں چلا حالانکہ کھیم کرن، قصور سے 13 میل کی مسافت پر تھا۔ کھیم کرن کے راستے میں کپاس کے کھیت تھے اور ان کھیتوں میں جابجا اسلحے کی بند پیٹیاں پڑی ہوئی تھیں۔ ان پیٹیوں پر انگلش میں ''فار پاکستان'' لکھا ہوا تھا جسے کاٹ کر ''فار انڈیا'' کیا گیا تھا اور نیچے ''میڈ اِن امریکا'' بھی درج تھا۔ یاد رہے کہ اُس وقت ہم ''سیٹو'' اور ''سینٹو'' معاہدوں کے تحت امریکی کیمپ کا حصہ تھے اور بھارت سے جنگ کی صورت میں ہماری مدد کرنا ان کی ذمہ داری تھی۔ لیکن یہ بھی یاد رکھنے والی بات ہے کہ دوست اور دشمن کی پہچان بھی جنگ کے میدان ہی ہوتی ہے۔
کھیت پار کئے تو زمین کی حالت سرمے کی طرح ہوچکی تھی۔ بعد میں پتا چلا کہ کھیم کرن پر قبضے سے پہلے یہاں ٹینکوں کی جنگ ہوئی تھی۔ تھوڑی ہی دور ہندوستانی فوجیوں کی لاشیں کھیتو ں پر پڑی تھیں۔ اسی اثناء میں پاک فوج کے جوان نظر آئے جنہوں نے ہمیں کھیم کرن کی طرف آتا دیکھ کر کچھ نہ کہا۔ اب کھیم کرن آچکا تھا۔ یہاں پاک فوج کی جانب سے بورڈ آویزاں تھے کہ جن پر پانی نہ پینے کے پیغامات درج تھے کیونکہ شکست خوردہ بھارتی فوج ان میں زہر ملا چکی تھی۔
کھیم کرن وحشت کامنظر پیش کر رہا تھا۔ ایسے لگ رہا جیسے یہاں زبردست لوٹ مار کی ہو۔ پورا قصبہ ٹوٹ پھوٹ شکار تھا، وہاں موجود مکانات کی چھتوں سے اینٹیں اُتار کر کھیم کرن سے قصور تک سولنگ لگا دیا گیا تھا تاکہ آمدورفت آسان بنائی جاسکے۔ یہاں توپ کے گولے، ہندوؤں کے خطوط اور ٹوکریوں کے علاوہ کوئی چیز موجود نہیں تھی۔ اپنی فوج کی کامیابی کا حال دیکھ کر دل کو اطمینان حاصل ہوگیا تھا اور اب شام بھی ہو رہی تھی؛ واپس جانا ضروری تھا۔
پاک فوج کی ایک گاڑی قصور کی طرف جا رہی، اُنہوں نے ہمیں قصور چھوڑ دیا۔ اگلے دن لاہور جانا تھا، ادھر ریڈیو سے لاہور امرتسر روڈ پر ہندوستانی طیاروں کی شدید بمباری کے اعلانات ہورہے تھے۔ پاکستان کی زمینی اور فضائی مزاحمت سے یہاں بھارتی فوج کا خاصا نقصان ہوا۔ عبدالرحمان کہنے لگا کہ لاہور تو جانا ہی ہے، اُدھر امرتسر روڈ دیکھ کر ہی چلتے ہیں۔ میرے پاس ایک عدد ریڈیو تھا جس سے اعلانات ہو رہے تھے کہ یہاں کسی چیز کو ہاتھ نہیں لگانا کیونکہ وہ کسی بھی طرح کا کھلونا بم ہوسکتا ہے۔
امرتسر روڈ پر ہندوستانی فوج کے تباہ شدہ اور کچھ ٹھیک حالت میں ٹینک کھڑے تھے۔ ایک تباہ شدہ ٹینک کا ڈھکن لوگوں نے مل کر کھول دیا۔ میں اور عبدالرحمان بھی ٹینک پر چڑھ گئے، وہ پچاس سال پرانا منظر آج بھی آنکھوں میں گھوم جاتا ہے۔ طاقت ور گولے نے ٹینک کی موٹی چادر کو دونوں طرف سے پھاڑ دیا تھا۔ اندر ایک سکھ فوجی کی لاش پڑی تھی جس کے ہاتھ پر گڑ اور چنے رکھے ہوئے تھے اور تعفن اس قدر شدید تھا کہ اگلے کئی دن تک میں کھانا نہ کھا سکا۔ عبدالرحمان نے ٹینک کے ساتھ لگی سن ریز کی ٹیوب بطور نشانی اپنے پاس رکھ لی۔ اس کے بعد لاہور کےلیے روانہ ہو گئے۔
میں نے یہ جنگ عین عالم شباب میں دیکھی تھی۔ ہندوستان سے ہجرت کرتے وقت میں محض چند سال کا بچہ تھا۔ آج سول آدمی ہونے کے باوجود میں ہندوستانی فوج کی شکست کا حال دیکھنے بھارتی علاقے میں گھس گیا تھا۔ جس طرح پاکستانی قوم نے دفاع وطن میں اپنا حصہ ڈالا، وہ بیان بھی نہیں کیا جاسکتا۔ بے مثال جذبہ تھا اور دفاع وطن آج بھی جاری و ساری ہے۔
ہندوستان آج بھی پاکستان کے خلاف خوفناک سازشوں میں مصروف ہے۔ اندرونی اور بیرونی خطرات سر اُٹھا رہے ہیں۔ نوجوان نسل کو ان باتوں سے آگاہ رکھنا ہم بزرگوں کی ذمہ داری ہے۔ اللہ پاکستان کا حامی و ناصر ہو۔''
سلطنت برطانیہ نے جب اپنی نوآبادیات کو آزاد کرنا شروع کیا تو ان ملکوں سے جاتے جاتے اقتدار کی منتقلی میں جان بوجھ کر ایسے مسائل پیدا کئے جس کی آگ میں یہ ممالک آج بھی سلگ رہے ہیں۔ خیر! موضوعِ سخن کسی اور طرف چلا گیا۔ بات کرنی تھی پاک بھارت معرکوں پر، جن میں پہلا معرکہ 1948 میں کشمیر کو حاصل کرنے کے لیے لڑا گیا۔
دوسری جنگ جو 1965 میں لڑی گئی، اسے جنگ ستمبر کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ پاکستانی قوم نے دفاع وطن کا حق ادا کیا بلکہ عددی برتری کے حامل ملک کے سامنے فوج اور عوام سیسہ پلائی دیوار بن گئے۔ کم وسائل کے باوجود فوج کے جوانوں نے ایسے کارنامے سرانجام دئیے جن کی نظیر ملنا مشکل ہے۔
جنگ کے بعد کاغذ کے معاہدوں میں کیا کہانیاں لکھی گئیں؟ ہم اس پر بات نہیں کر رہے بلکہ سن 65 میں جہاں فوج محاذ جنگ پر ڈٹی رہی وہیں عوامی جوش وجذبے نے بھی سب کو ایک قوم میں بدل دیا۔ ہمارا موضوع بھی یہ ہوگا۔ والد صاحب تو اس جہان فانی سے رخصت ہوچکے ہیں مگر ان کی کہانی زندہ ہے جو کچھ سال پہلے سننے اور پڑھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ یہ قصہ ان ہی کی زبانی سنتے ہیں:
میں (منیر احمد) اپنے والد کی اکلوتی نرینہ اولاد تھا۔ یہ 1964-65 ہی کے سال تھے جب کالج کی تعلیم ادھوری چھوڑ کر والد صاحب کے ساتھ کاروبار میں شامل ہونا پڑا۔
بھارت نے لاہور پر رات کی تاریکی میں حملہ کردیا جس کی اطلاع صبح ملی۔ سب لوگوں کی عجیب کیفیت ہورہی تھی، اُدھر ریڈیو سے بار بار جنگ کے اعلانات نشر ہو رہے تھے۔ تھوڑی ہی دیر میں صدر ایوب خان کی تقر یر نشر ہونے والی تھی۔ سب لوگ ریڈیو سے کان لگائے بیٹھے تھے۔ صدر ایوب کی مختصر مگر جامع تقریر نشر ہونے کی دیر تھی کہ عوام سرحدوں پر جانے کو بے تا ب ہونے لگی۔ دفاع وطن کےلیے ہر کسی کا جذبہ دیدنی تھا۔ جنگ کی وجہ سے ریڈیوکی مانگ میں بے پناہ اضافہ ہوچکا تھا۔
اس لیے خریداری کےلیے آبائی شہر (وہاڑی) سے لاہور آنا پڑتا۔ لاہور میں چیمبرلین روڈ پر واقع نثار آرٹ پریس کے ہاں قیام ہوتا۔ بی آربی نہر جو لاہور شہر کی حفاظتی دیوار کے طور پر کھودی گئی تھی، اس کے کناروں پر پاک فوج کی مشہور زمانہ ''رانی توپ'' نصب تھی۔ رات کی خاموشی میں جب یہ دشمن پر گولہ باری کرتی تو آواز اُردو بازار تک بھی سنائی دیتی۔ اس آواز کی وجہ سے رات کو نیند نہ آتی مگر ایک دو دن بعد ہی اتنی عادت ہوگئی جب تک رانی توپ کی آواز سنائی نہ دیتی، تب تک نیند نہیں آتی۔ اس توپ نے لاہور شہر کے دفاع کا خوب حق ادا کیا تھا۔
اگلے ہی دن لاہور شہر کے عین اوپر بھارتی طیاروں نے حملہ کر دیا۔ دوسری طرف پاک فضائیہ کے جنگی جہاز بھی نمودار ہوگئے۔ فضائی معرکہ شروع ہو گیا۔ مساجد سے مسلسل گھروں کے اندر رہنے کے اعلانات گونج رہے تھے مگر عوام فرطِ جذبات سے دونوں ہاتھ فضا میں بلند کئے، اور ''اللہ اکبر'' نعرے لگاتے ہوئے، طیاروں کی سمت بھاگ رہے تھے۔ بالاّخر پاک فوج کے پائلٹ نے بھارت کا طیارہ مار گرایا۔ یہ جہاز بند روڈ پر گرا۔ عوام نے اس کے ٹکڑے اُٹھائے اور سرکلر روڈ پر سجا دیئے۔ لوگوں میں جنگ کا خوف اور ڈر نہیں تھا؛ میں نے خود فضائی جھڑپ کا یہ منظر موری دروازہ کے قریب کھڑے ہوکر دیکھا تھا۔ جنگ ستمبر میں ریڈیو پاکستان کی خدمات اور کارنامے ناقابل فراموش ہیں۔ شاعروں، گلوکاروں اور موسیقی ترتیب دینے والوں نے حد درجہ محنت کی؛ لازوال ملی نغمے تخلیق کئے۔ شکیل احمد جنگ کی خبریں پڑھتے تھے۔ شکیل کی آواز میں ایسی گرج تھی کہ سننے والے متاثر ہوکر نعرے بلند کرنے لگتے۔
اصل واقعہ یوں ہے کہ میں اور میرے کاروباری ساتھی عبدالرحمان لاہور آنے کی تیاریوں میں مصروف تھے۔ اس دوران ریڈیو پاکستان سے پاک فوج کی جانب سے بھارتی قصبے کھیم کرن پر قبضے کا اعلان کر دیا گیا۔ یہ قصبہ قصور کے قریب واقع ہے۔ میں نے اور عبدالرحمان نے لاہور جانے سے پہلے قصور جانے کا ارادہ کیا۔ جوانی کا جوش ہی تھا جو جنگ زدہ علاقے میں جانے کا ارادہ کرلیا۔ اس مرتبہ بذریعہ ٹرین قصور جانے کا پروگرام ترتیب دیا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ قصور جانے والی ٹرین میں عملے کے ارکان کے علاوہ ہم صرف دو لوگ تھے۔ سارے ڈبے خالی تھے۔
قصور ریلوے اسٹیشن پر پہنچتے ہی دیکھا کہ وہاں عوام کا جم غفیر تھا جو دیکھتے ہی دیکھتے ٹرین میں سوار ہوگیا۔ یہ قصور کے لوگ تھے جو یہاں سے جا رہے تھے۔ پاک فوج کو بھی اطلاع مل چکی تھی۔ فوجی جوانوں نے لوگوں کو سمجھایا کہ ہم لوگ آپ کی حفاظت کےلیے یہاں آئے ہیں اور آپ کے بھروسے ہی پر یہاں موجود ہیں، آپ لوگ چلے گئے تو ہم کس کی خاطر لڑیں گے۔ لوگ بات سمجھ گئے اور ٹرین سے واپس اتر آئے۔
ہم عبدالرحمان کے پھوپھا کے گھر چلے گئے اور جب انہیں ہمارے ارادوں کا علم ہوا کہ ہم کھیم کرن جانا چاہتے ہیں تو وہ لوگ حیران بھی ہوئے اور پریشان بھی۔ فوج کی اجازت ضروری تھی جو دریافت کرنے پر نہیں ملی؛ لیکن ہم بھی بضد ہوچکے تھے کہ ضرور جانا ہے۔ ہمارے ارادوں کی پختگی دیکھ کر مزید ایک درجن لوگ ساتھ جانے کو تیا ر ہوگئے۔ ہم نے فوج کی نظروں سے بچ کر بھارتی سرزمین میں داخلے کا ارادہ کیا۔
قصور اور کھیم کرن کے درمیان نہر ہے جسے پل کے بغیر پار کرنا تھا۔ سب کو ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر نہر پار کرنی تھی۔ ایک پھسلتا تو سب پھسل جاتے۔ پانی کا بہاؤ بھی تیز تھا۔ آخرکار نہر پار کرکے ہم بھارتی سرزمین پر جا پہنچے۔
کھیم کرن جانے کا شوق ہم سب پر اس قدر حاوی تھا راستے کی مسافت کا پتا ہی نہیں چلا حالانکہ کھیم کرن، قصور سے 13 میل کی مسافت پر تھا۔ کھیم کرن کے راستے میں کپاس کے کھیت تھے اور ان کھیتوں میں جابجا اسلحے کی بند پیٹیاں پڑی ہوئی تھیں۔ ان پیٹیوں پر انگلش میں ''فار پاکستان'' لکھا ہوا تھا جسے کاٹ کر ''فار انڈیا'' کیا گیا تھا اور نیچے ''میڈ اِن امریکا'' بھی درج تھا۔ یاد رہے کہ اُس وقت ہم ''سیٹو'' اور ''سینٹو'' معاہدوں کے تحت امریکی کیمپ کا حصہ تھے اور بھارت سے جنگ کی صورت میں ہماری مدد کرنا ان کی ذمہ داری تھی۔ لیکن یہ بھی یاد رکھنے والی بات ہے کہ دوست اور دشمن کی پہچان بھی جنگ کے میدان ہی ہوتی ہے۔
کھیت پار کئے تو زمین کی حالت سرمے کی طرح ہوچکی تھی۔ بعد میں پتا چلا کہ کھیم کرن پر قبضے سے پہلے یہاں ٹینکوں کی جنگ ہوئی تھی۔ تھوڑی ہی دور ہندوستانی فوجیوں کی لاشیں کھیتو ں پر پڑی تھیں۔ اسی اثناء میں پاک فوج کے جوان نظر آئے جنہوں نے ہمیں کھیم کرن کی طرف آتا دیکھ کر کچھ نہ کہا۔ اب کھیم کرن آچکا تھا۔ یہاں پاک فوج کی جانب سے بورڈ آویزاں تھے کہ جن پر پانی نہ پینے کے پیغامات درج تھے کیونکہ شکست خوردہ بھارتی فوج ان میں زہر ملا چکی تھی۔
کھیم کرن وحشت کامنظر پیش کر رہا تھا۔ ایسے لگ رہا جیسے یہاں زبردست لوٹ مار کی ہو۔ پورا قصبہ ٹوٹ پھوٹ شکار تھا، وہاں موجود مکانات کی چھتوں سے اینٹیں اُتار کر کھیم کرن سے قصور تک سولنگ لگا دیا گیا تھا تاکہ آمدورفت آسان بنائی جاسکے۔ یہاں توپ کے گولے، ہندوؤں کے خطوط اور ٹوکریوں کے علاوہ کوئی چیز موجود نہیں تھی۔ اپنی فوج کی کامیابی کا حال دیکھ کر دل کو اطمینان حاصل ہوگیا تھا اور اب شام بھی ہو رہی تھی؛ واپس جانا ضروری تھا۔
پاک فوج کی ایک گاڑی قصور کی طرف جا رہی، اُنہوں نے ہمیں قصور چھوڑ دیا۔ اگلے دن لاہور جانا تھا، ادھر ریڈیو سے لاہور امرتسر روڈ پر ہندوستانی طیاروں کی شدید بمباری کے اعلانات ہورہے تھے۔ پاکستان کی زمینی اور فضائی مزاحمت سے یہاں بھارتی فوج کا خاصا نقصان ہوا۔ عبدالرحمان کہنے لگا کہ لاہور تو جانا ہی ہے، اُدھر امرتسر روڈ دیکھ کر ہی چلتے ہیں۔ میرے پاس ایک عدد ریڈیو تھا جس سے اعلانات ہو رہے تھے کہ یہاں کسی چیز کو ہاتھ نہیں لگانا کیونکہ وہ کسی بھی طرح کا کھلونا بم ہوسکتا ہے۔
امرتسر روڈ پر ہندوستانی فوج کے تباہ شدہ اور کچھ ٹھیک حالت میں ٹینک کھڑے تھے۔ ایک تباہ شدہ ٹینک کا ڈھکن لوگوں نے مل کر کھول دیا۔ میں اور عبدالرحمان بھی ٹینک پر چڑھ گئے، وہ پچاس سال پرانا منظر آج بھی آنکھوں میں گھوم جاتا ہے۔ طاقت ور گولے نے ٹینک کی موٹی چادر کو دونوں طرف سے پھاڑ دیا تھا۔ اندر ایک سکھ فوجی کی لاش پڑی تھی جس کے ہاتھ پر گڑ اور چنے رکھے ہوئے تھے اور تعفن اس قدر شدید تھا کہ اگلے کئی دن تک میں کھانا نہ کھا سکا۔ عبدالرحمان نے ٹینک کے ساتھ لگی سن ریز کی ٹیوب بطور نشانی اپنے پاس رکھ لی۔ اس کے بعد لاہور کےلیے روانہ ہو گئے۔
میں نے یہ جنگ عین عالم شباب میں دیکھی تھی۔ ہندوستان سے ہجرت کرتے وقت میں محض چند سال کا بچہ تھا۔ آج سول آدمی ہونے کے باوجود میں ہندوستانی فوج کی شکست کا حال دیکھنے بھارتی علاقے میں گھس گیا تھا۔ جس طرح پاکستانی قوم نے دفاع وطن میں اپنا حصہ ڈالا، وہ بیان بھی نہیں کیا جاسکتا۔ بے مثال جذبہ تھا اور دفاع وطن آج بھی جاری و ساری ہے۔
ہندوستان آج بھی پاکستان کے خلاف خوفناک سازشوں میں مصروف ہے۔ اندرونی اور بیرونی خطرات سر اُٹھا رہے ہیں۔ نوجوان نسل کو ان باتوں سے آگاہ رکھنا ہم بزرگوں کی ذمہ داری ہے۔ اللہ پاکستان کا حامی و ناصر ہو۔''
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز سمیت اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔