خواجہ اظہار حملہ انصارالشریعہ کے سربراہ اور ملزمان کے والدین کے اہم انکشافات
گروپ میں شامل تمام لڑکے کراچی، این ای ڈی اور داؤد یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ ہیں، سربراہ انصارالشریعہ کا انکشاف
DUBLIN:
ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما خواجہ اظہار الحسن پر حملہ کرنے والی تنظیم انصارالشریعہ کے سربراہ اور ملزمان کے والدین نے دوران تفتیش اہم انکشافات کیے ہیں۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق انصارالشریعہ کے سربراہ ڈاکٹرعبداللہ ہاشمی نے دوران تفتیش انکشاف کیا ہے انصارالشریعہ نے 2015 کے آخر میں تنظیم کا آغاز کیا، تنظیم کے القاعدہ سے الحاق اور تعاون کے لئےعبداللہ بلوچ سے رابطہ کیا گیا۔ جس پر عبداللہ بلوچ نے اپنی مددآ پ کے تحت کام کرنے کو کہا، عبداللہ بلوچ 2012 تک کراچی میں تھا تاہم 2012 میں چھاپے کے دوران عبداللہ کے ٹھکانے سے اسلحہ اور بارود ملا تھا جس کے بعد عبداللہ بلوچ افغانستان فرارہوگیا تھا۔
اس خبر کو بھی پڑھیں : خواجہ اظہار پر حملے کا مرکزی ملزم فرار
ڈاکٹرعبداللہ ہاشمی نے مزید انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ اس کا گروپ اعلیٰ تعلیم یافتہ 10سے 12 لڑکوں پر مشتمل ہے، تمام لڑکے کراچی یونیورسٹی، این ای ڈی اور داؤد یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ ہیں، یہ لڑکے افغانستان کے علاقے شراوک سے تربیت لے کر آئے ہیں،کراچی میں اپنے آپ کومنوانے کے لیے پولیس کی ٹارگٹ کلنگ کی گئی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ خواجہ اظہار پر حملے کے مفرور مرکزی ملزم عبدالکریم عرف سروش کے والد سجاد صدیقی نے تحقیقاتی اداروں کو بتایا کہ سروش کی کئی مہینوں سے حرکات و سکنات مشکوک تھیں اور وہ زیادہ تر گم سم رہتا تھا، رات رات بھر جاگتا اور پوچھنے پر تسلی بخش جواب نہیں دیتا تھا۔ میرا بیٹا ایک سال کے دوران 2 مرتبہ ایک سے 2 ہفتوں کے لئے غائب ہوا تاہم بعد میں پتا چلا کہ سروش افغانستان گیا تھا، مجھے اس بات کا علم ہو گیا تھا کہ یہ کسی کالعدم تنظیم کے ساتھ کام کررہا ہے۔ مجھے اس بات کا علم تھا کہ یہ پولیس مخالف ہے، 2 سال پہلے ہماری گاڑی گلشن اقبال سے چوری ہوئی تھی اس کے بعد سروش پولیس سے اکثر الجھتا تھا۔ ایک سال قبل پتا چلا کہ سروش نے اسلحہ رکھا ہوا ہے، جب پولیس نے صبح چھاپا مارا تو میں نے اسے ہتھیار چلانے سے منع کیا اور سرینڈر کرنے کا کہا لیکن وہ نہیں مانا۔
اس خبر کو بھی پڑھیں : کوئٹہ ٹاؤن میں پولیس مقابلہ، 4 دہشت گرد ہلاک
خواجہ اظہار پر حملے میں مارے جانے والے دہشت گرد حسان کے اہل خانہ نے بھی اپنا بیان قلم بند کرادیا، ذرائع کے مطابق ہلاک ملزم حسان کے اہل خانہ نے انکشاف کیا کہ ہلاک ملزم حسان عرف ولید کی عمر27 سال تھی، گلزارہجری کا رہائشی اور الیکٹرونک انجینئر تھا۔ اہل خانہ کے مطابق حسان کے رویے میں پچھلے ایک سال تبدیلی آنا شروع ہوئی تھی، حسان کے کنیز فاطمہ سوسائٹی میں 2 یا 3 دوست رہتے تھے اور وہ انہی کے ساتھ رہتا تھا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ حسان کا چچا پولیس افسرہے جس سے پوچھ گچھ جاری ہے، تحقیقات کے دوران پمفلٹ کی تیاری میں استعمال لیپ ٹاپ بھی برآمد کرلیا گیا ہے جب کہ تحقیقات کے دوران اس بات کا انکشاف بھی سامنے آیا کہ حب میں لیویز اہلکار کے قتل اور کوئٹہ میں ایف سی کی گاڑی پر حملے کی بھی جھوٹی ذمہ داری قبول کی گئی۔
ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما خواجہ اظہار الحسن پر حملہ کرنے والی تنظیم انصارالشریعہ کے سربراہ اور ملزمان کے والدین نے دوران تفتیش اہم انکشافات کیے ہیں۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق انصارالشریعہ کے سربراہ ڈاکٹرعبداللہ ہاشمی نے دوران تفتیش انکشاف کیا ہے انصارالشریعہ نے 2015 کے آخر میں تنظیم کا آغاز کیا، تنظیم کے القاعدہ سے الحاق اور تعاون کے لئےعبداللہ بلوچ سے رابطہ کیا گیا۔ جس پر عبداللہ بلوچ نے اپنی مددآ پ کے تحت کام کرنے کو کہا، عبداللہ بلوچ 2012 تک کراچی میں تھا تاہم 2012 میں چھاپے کے دوران عبداللہ کے ٹھکانے سے اسلحہ اور بارود ملا تھا جس کے بعد عبداللہ بلوچ افغانستان فرارہوگیا تھا۔
اس خبر کو بھی پڑھیں : خواجہ اظہار پر حملے کا مرکزی ملزم فرار
ڈاکٹرعبداللہ ہاشمی نے مزید انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ اس کا گروپ اعلیٰ تعلیم یافتہ 10سے 12 لڑکوں پر مشتمل ہے، تمام لڑکے کراچی یونیورسٹی، این ای ڈی اور داؤد یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ ہیں، یہ لڑکے افغانستان کے علاقے شراوک سے تربیت لے کر آئے ہیں،کراچی میں اپنے آپ کومنوانے کے لیے پولیس کی ٹارگٹ کلنگ کی گئی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ خواجہ اظہار پر حملے کے مفرور مرکزی ملزم عبدالکریم عرف سروش کے والد سجاد صدیقی نے تحقیقاتی اداروں کو بتایا کہ سروش کی کئی مہینوں سے حرکات و سکنات مشکوک تھیں اور وہ زیادہ تر گم سم رہتا تھا، رات رات بھر جاگتا اور پوچھنے پر تسلی بخش جواب نہیں دیتا تھا۔ میرا بیٹا ایک سال کے دوران 2 مرتبہ ایک سے 2 ہفتوں کے لئے غائب ہوا تاہم بعد میں پتا چلا کہ سروش افغانستان گیا تھا، مجھے اس بات کا علم ہو گیا تھا کہ یہ کسی کالعدم تنظیم کے ساتھ کام کررہا ہے۔ مجھے اس بات کا علم تھا کہ یہ پولیس مخالف ہے، 2 سال پہلے ہماری گاڑی گلشن اقبال سے چوری ہوئی تھی اس کے بعد سروش پولیس سے اکثر الجھتا تھا۔ ایک سال قبل پتا چلا کہ سروش نے اسلحہ رکھا ہوا ہے، جب پولیس نے صبح چھاپا مارا تو میں نے اسے ہتھیار چلانے سے منع کیا اور سرینڈر کرنے کا کہا لیکن وہ نہیں مانا۔
اس خبر کو بھی پڑھیں : کوئٹہ ٹاؤن میں پولیس مقابلہ، 4 دہشت گرد ہلاک
خواجہ اظہار پر حملے میں مارے جانے والے دہشت گرد حسان کے اہل خانہ نے بھی اپنا بیان قلم بند کرادیا، ذرائع کے مطابق ہلاک ملزم حسان کے اہل خانہ نے انکشاف کیا کہ ہلاک ملزم حسان عرف ولید کی عمر27 سال تھی، گلزارہجری کا رہائشی اور الیکٹرونک انجینئر تھا۔ اہل خانہ کے مطابق حسان کے رویے میں پچھلے ایک سال تبدیلی آنا شروع ہوئی تھی، حسان کے کنیز فاطمہ سوسائٹی میں 2 یا 3 دوست رہتے تھے اور وہ انہی کے ساتھ رہتا تھا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ حسان کا چچا پولیس افسرہے جس سے پوچھ گچھ جاری ہے، تحقیقات کے دوران پمفلٹ کی تیاری میں استعمال لیپ ٹاپ بھی برآمد کرلیا گیا ہے جب کہ تحقیقات کے دوران اس بات کا انکشاف بھی سامنے آیا کہ حب میں لیویز اہلکار کے قتل اور کوئٹہ میں ایف سی کی گاڑی پر حملے کی بھی جھوٹی ذمہ داری قبول کی گئی۔