ایئر پاکٹ

آدمی کو قبرستان جاتے رہنا چاہیے؛ یاد دہانی رہتی ہے کہ ایک دن یہیں آنا ہے۔ اور جسے موت یاد رہتی ہے، اسے جینا آجاتا ہے۔

جہاز کے ایئرپاکٹ میں پھنستے ہی مسافروں کو آخرت یاد آگئی اور ہر طرف سے ذکر و اذکار کی صدائیں بلند ہونے لگیں۔ (فوٹو: فائل)

دبئی سے لاس اینجلس، امارات ایئرلائنز کی پرتعیش پرواز، بزنس کلاس اور بوئنگ طیارہ۔ کسی نے سوچا بھی نہ تھا کہ یہ ہوگا۔

عبداللہ اپنے دوست کے ساتھ ہلکی پھلکی باتوں میں مصروف تھا اور ساتھ میں بطلیموس کی قدیم کتاب ''المجسطی'' کا مطالعہ بھی کر رہا تھا۔ اس کے دوست اسلم نے اس کی توجہ اپنی جانب مبذول کروائی۔

یار عبداللہ! یہ دیکھ، کیا ہی زبردست جہاز ہے مگر یہاں بھی تولیہ جو دیا منہ صاف کرنے کو ہے، وہ ٹھنڈا نکلا اور کھانا بھی کوئی اتنا مزیدار یا چٹ پٹا نہیں تھا۔ اور دیکھ کتنی بار ریموٹ کا بٹن دبانا پڑتا ہے آواز بڑھانے کے لئے۔ اور سیٹ تو بالکل نیچے نہیں جاتی۔

اسلم کو ہر بار کی طرح اس بار بھی دنیا کی ہر چیز میں کوئی نہ کوئی پرابلم/ مسئلہ نظر آرہا تھا۔ عبداللہ نے جان چھڑانے کو کہا، یار چھوڑ دے۔ اتنی مزیدار کتاب ہے۔ بندے نے کئی سو سال پہلے کائنات کے نظام پر روشنی ڈالی ہے۔ کیا کہنے...

مگر اسلم نے بات کاٹ دی، ''کیا مصیبت ہے عبداللہ! ہر وقت پڑھتا ہی رہتا ہے کیا...''

ابھی اس کا جملہ پورا بھی نہیں ہوا تھا کہ جہاز نے زبردست جھٹکا کھایا۔ ایئرہوسٹس نے بھاگتے ہوئے سیٹ پکڑی۔ سیٹ بیلٹ کا نشان جل اُٹھا اور پائلٹ نے کہا کہ جہاز ''ایئر پاکٹ'' میں آگیا ہے، احتیاط سے بیٹھے رہیے۔

اسلم نے منہ کھولا، ''یہ ایئر پاکٹ کیا...'' مگر اس کا جملہ پورا ہونے سے پہلے ہی جہاز کسی مردہ پرندے کی طرح نیچے گرنے لگا۔ 32 ہزار فٹ سے 19 ہزار فٹ پر صرف 2 منٹ میں آگیا۔

جہاز میں ہر شخص نے کلمہ پڑھ لیا۔ جس نے سفر کی دعا نہیں پڑھی تھی، اب یاد کرکے پڑھنے لگا۔ مگر ایسے حالات میں کچھ یاد ہی کب آتا ہے؟


باقیوں کا تو حال کچھ زیادہ نہیں پتا مگر اسلم کی جان حلق میں آچکی تھی۔ وہ مسلسل دھاڑیں مار مار کر کسی 2 سالہ بچے کی طرح رو رہا تھا اور دعائیں مانگ رہا تھا کہ یااللہ! معاف کردے، ''آئندہ زندگی اچھی گزاروں گا۔ داڑھی بھی بس ابھی جہاز سے اُتر کر ہی رکھ لوں گا۔ نمازیں بھی پوری پڑھوں گا۔ حج بھی کرنے جاؤں گا۔ اوئی... آہ... بس اک واری فیر معاف کردے۔''

یہ دو منٹ قیامت سے کم نہ تھے۔ جب جہاز سنبھلا تو لوگوں کو ہوش و حواس میں واپس آنے تک کوئی 20 منٹ لگ ہی گئے۔

اسلم بہت کھسیانا ہورہا تھا۔ اس نے عبداللہ پر غصہ نکالتے ہوئے کہا: ''تو کیا یہ کتاب پڑھے جارہا ہے؟ کوئی کلمہ درود، توبہ شوبہ کرتے ہیں ایسے وقت پر!''

عبداللہ نے کہا، ''کتاب بڑی اچھی تھی۔ اگر موت کو آنا تھا تو میں اسے روک نہیں سکتا تھا؛ مگر کتاب ادھوری رہ جاتی تو موت کا مزہ بھی کرکرا ہو کر رہ جاتا۔ میں نے تو گھر کے باتھ روم میں بھی کچھ کتابیں رکھ چھوڑی ہیں کہ وہاں بیٹھے بیٹھے بھی وقت ضائع نہ ہو۔

اتنے میں ایئرہوسٹس نے لوگوں کو کافی پیش کردی۔ اسلم پھر چیخ پڑا، ''یار کافی پھر ٹھنڈی ہے!''

عبداللہ سوچنے لگا کہ ہم انسان بھی کیسے ہیں۔ دو منٹ پہلے تک تو دنیا کی ہر چیز جان کے بدلے نچھاور کرنے چلے تھے اور اب کافی بھی ٹھنڈی برداشت نہیں۔

صحیح کہا ہے کہ آدمی کو قبرستان جاتے رہنا چاہیے؛ یاد دہانی رہتی ہے کہ ایک دن یہیں آنا ہے۔ اور جسے موت یاد رہتی ہے، اسے جینا آجاتا ہے۔ یاد رکھنے کی بات ہے کہ جو شخص مرنے کے قابل نہیں ہوتا وہ جینے کے لائق بھی نہیں۔

آپ اس بات کو سمجھئے، میں ذرا ایک کتاب اور پڑھ لوں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔
Load Next Story