کیا ہم بچ جائیں گے
امیدوں پر یہ قوم آج زندہ ہے کہ اس حکومت سے جان چھوٹے گی تو فلاح کی کوئی صورت نکلے گی۔
ہمارے اخبار کے صفحہ اول پر پہلی سرخی تھی، چیف الیکشن کمشنر کی یہ یاد دہانی کہ اگر ملک میں عام انتخابات وقت پر نہ ہوئے تو ملک کا کوئی مستقبل نہیں ہو گا۔ اسی دن کے اخبار کی ایک دوسری خبر جو شہ سرخی تھی ،کوئٹہ میں نوے میتوں کے ساتھ دھرنا اور فوجی آپریشن تک ان کی تدفین نہ کرنے کا اعلان۔ ایسی ہی تشویشناک اور حکومت کے لیے شرمناک خبریں چند اور بھی تھیں لیکن یہ دو خبریں اس ڈوبتے ملک کے لیے جیسے اس روایتی گرجدار سیٹی کی طرح تھیں جو ڈوبتے ہوئے کسی بحری جہاز سے بلند ہوتی ہے، آخری چیخ کے طور پر۔
پاکستان کے بدنیت سیاستدانوں کو چھوڑ کر ہر دانشور اور ملک کے پڑھے لکھے شہری کا یہ فیصلہ ہے کہ اس بحران عظیم سے کوئی فوجی حکمران نہیں صرف عوامی حکمران ہی ملک کو بچا سکتا ہے اور اس فیصلے کو پوری قوم تسلیم کرتی ہے، اسی لیے ہر وہ خبر جو عام انتخابات کے بروقت انعقاد کو مشکوک بناتی ہے، پوری قوم کے لیے ایک ناپسندیدہ خبر ہوتی ہے۔ گزشتہ دنوں ایک نیم پاکستانی کینیڈا سے پاکستان آیا اور نہ جانے کہاں سے ڈالروں کے ٹریلر بھر کر ساتھ لایا اور یہاں لاہور میں زبردست جلسہ کیا، پھر اسلام آباد میں زبردست دھرنا دیا اور آئین کا نام لے کر کئی ایسی شرائط پیش کیں جن پر فوری عمل کا صرف ایک ہی مطلب تھا اور وہ تھا الیکشن کا التواء چنانچہ اس دھوم دھڑکے اور پوری تام جھام کے باوجود قوم نے اسے اس کے منہ پر مسترد کر دیا جس سے وہ اب شدید غصے کے عالم میں کھلی دھمکیوں پر اتر آیا ہے بہر کیف عرض یہ ہے کہ الیکشن کو ملتوی کرانے کی یہ ناگہانی زور دار اور خطرناک کوشش تھی جو قوم کے اجتماعی شعور نے مسترد کر دی۔
الیکشن کے سلسلے میں ایک دوسری خطرناک خبر یا ایک پختہ اندیشہ یہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ حکومت وقت بھی الیکشن کو پسند نہیں کر رہی اور اس کی وجہ سمجھ میں آتی ہے کہ ایک تو حکمرانی بذات خود بڑی شکایات کا سبب بن جاتی ہے کیونکہ حکومت اور اختیار کے باوجود جب عوام کے سب کام نہیں ہوتے تو ان کے اندر شکایات جمع ہوتی رہتی ہیں جو الیکشن جیسے موقعوں پر ظاہر ہوتی ہیں۔ پھر جب عہد اقتدار بھی سراسر کرپشن پر چلتا رہا ہو اور ایک بدترین حکومت اور حکمرانی کا پتہ دیتا ہو تو ایسی حکومت کو ووٹ کون دیتا ہے۔ چنانچہ سمجھدار حکمرانوں کو اپنے کرتوتوں کا بھی بخوبی علم ہے اور عوام کی ناراضگی بھی ان پر واضح ہے، اس لیے ایسی حکومت کو الیکشن کسی طور بھی وارا نہیں کھاتے اور ان کا الیکشن ملتوی کرنے کی خواہش بالکل حقیقت پسندانہ اور عملی سیاست والی ہوتی ہے، یوں ایک طرف بیرونی اشارے پاکستان میں الیکشن کے خلاف ہوں کیونکہ الیکشن سے اس ملک کے بچ جانے کا امکان ہے، دوسری طرف اندرون ملک بھی با اثر حلقے الیکشن کو اپنی حکمرانی اور سیاست کے لیے خطرناک سمجھ رہے ہوں تو قدرتی طور پر الیکشن کے حامی حلقے اس خطرے کو بھانپ کر سرگرم ہو کر الیکشن ملتوی کرانے کے خلاف سامنے آتے ہیں اور سیاسی جماعتیں بھی الیکشن کے خلاف کسی کوشش پر سخت برہم ہو جاتی ہیں بلکہ اپوزیشن کی کئی بااثر جماعتیں تو ایسا عزم ظاہر کرتی ہیں کہ وہ الیکشن ملتوی نہیں ہونے دیں گی۔ چیف الیکشن کمشنر جو ہر لحاظ سے ایک غیر سیاسی شخصیت ہیں لیکن پاکستانی ہونے کے ناتے وہ بھی یہ تنبیہہ کرنے پر مجبور ہیں کہ الیکشن نہ ہوئے تو پھر ملک گیا۔ الیکشن کے بارے میںجتنی معلومات ان کی ہیں اور کسی کی نہیں چنانچہ وہ اپنی معلومات کی بنا پر ہی پریشان دکھائی دیتے ہیں۔
اس دن کی دوسری خبر کوئٹہ میں معصوم اور بے گناہ پاکستانیوں پر قاتلانہ حملے کی تھی۔ اگر میری قیاس آرائی اور اندیشہ غلط نہیں ہے تو کوئٹہ کی یہ تازہ واردات بھی الیکشن کو ملتوی کرنے کا ایک خوفناک اور دکھ دینے والا حیلہ ہے۔ بلوچستان کی صورت حال جس نے الیکشن کے انعقاد کو مشکوک بنا رکھا ہے ہماری حکومت کی ذمے داری ہے اور اس کے زندہ گواہ ہمارے وزیر داخلہ رحمن ملک ہیں جو شروع دن سے ان تشویشناک حالات کو کسی بیرونی ہاتھ کی کارستانی قرار دیتے چلے آ رہے ہیں لیکن حیرت اس بات پر ہے کہ انھوں نے اپنے طویل اقتدار میں اس مہلک اور قاتل ہاتھ کی نشاندہی تک ہی اپنے آپ کو محدود رکھا ہے آگے بڑھ کر اسے پکڑنے کی کوشش ہر گز نہیں کی آج نوے میتیں ان کی اسی پالیسی کا نتیجہ ہیں جب ان کے کسی بیرونی ہاتھ نے ان بے گناہ پاکستانیوں کو ختم کر دیا ہے۔ایک دلدوز لطیفہ یہ ہے کہ نہ تو غیر ملکی پاکستان کی پرواکرتے ہیں اور اس ملک کو سنجیدگی سے لیتے ہیں نہ خود ملک کے اپنے بھی اس ملک کے ساتھ کھیل کود والے رویے سے باز آتے ہیں۔ ایسے حالات میں پورا ملک شدید اضطراب کی کیفیت میں ہے اور اپنی نجات کی تمام امیدیں عام انتخابات سے لگائے بیٹھا ہے، جب نئے منتخب لوگ یقیناً بہتر ہوں گے۔ ان کے سامنے ملک کے حالات ہوں گے اور سابقہ حکمرانوں کے اعمال بھی امید ہے، وہ اس سے عبرت پکڑیں گے۔ بس ایسی ہی امیدوں پر یہ قوم آج زندہ ہے کہ اس حکومت سے جان چھوٹے گی تو فلاح کی کوئی صورت نکلے گی۔ اس سے نجات کا واحد راستہ الیکشن ہے، شکر ہے آج کی فوج اپنے آپ کو ممکن حد تک بچانے کی کوشش کر رہی ہے ورنہ ہم نے دیکھا کہ فوج ہمیشہ کسی بہانے کی تلاش میں ہی رہی۔ بہرکیف اللہ ہم پر فضل کرے اور ہم اس بحران سے بچ جائیں۔