عابد کی ریاضت جوگی کی تپسّیا

علم حاصل کرو، خواہ اس کے لیے تمہیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے‘‘۔

S_afarooqi@yahoo.com

اس حدیث مبارک کا ذکر اکثر سننے میں آتا ہے جس کا مفہوم ہے کہ ''علم حاصل کرو، خواہ اس کے لیے تمہیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے''۔ جی ہاں، وہی چین جس کی سچی اور آزمائی ہوئی سدابہار دوستی پر ہمیں بڑا ناز اور فخر ہے۔ اس حوالے سے یہ خبر نہایت حوصلہ افزا اور خوش کن ہے کہ جامعہ کراچی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد قیصر نے جامعہ کراچی میں ''چینی لینگویج سینٹر'' کے قیام کا اعلان کیا ہے۔ چین کے ساتھ مسلسل اور تیزی کے ساتھ فروغ پاتے ہوئے تعلقات اور مستقبل میں ان میں مزید وسعت کے روشن امکانات کا تقاضا ہے کہ ہم اپنے انتہائی قریبی دوست ملک کی زبان کو زیادہ سے زیادہ سیکھیں اور عام کریں تاکہ آیندہ کے ربط و ضبط میں ہمیں زیادہ سے زیادہ آسانی اور سہولت میسر آئے، ویسے بھی زبانیں انسانوں کے درمیان رابطے کے لیے پل ہوا کرتی ہیں۔

اس حوالے سے سید حسن جاوید کی کتاب "Chinese Made Easy" کا تذکرہ کرنا برمحل ہوگا جو چینی بول چال سکھانے والے 100 اسباق پر مشتمل ہے۔ اس کتاب کا بنیادی مقصد ان لوگوں کی مدد و رہنمائی کرنا ہے جو چینی زبان سے اس حد تک واقفیت حاصل کرنے کے خواہاں ہیں کہ کسی چینی کی بات کو سمجھ سکیں اور اپنا مدعا اس سے بیان کرسکیں۔ چینی زبان سکھانے کا طریقہ کار یہ ہے کہ سب سے پہلے چینی الفاظ اصل حروف میں لکھے گئے ہیں، اس کے آگے ان کے تلفظ رومن میں تحریر کیے گئے ہیں اور اس کے آگے اس کے معنی بالترتیب انگریزی اور اردو میں دیے گئے ہیں اور پھر آخر میں چینی تلفظ اردو اور رومن اردو میں تحریر کیے گئے ہیں۔ ہمارے خیال میں اس سے بہتر طریقہ کار اور کوئی نہیں ہوسکتا تھا۔ چینی زبان سیکھنے کے خواہشمند اہل ذوق اس کتاب سے خاطرخواہ استفادہ کرسکتے ہیں۔

پاک چین دوستی کی جیتی جاگتی علامت کی صورت میں یہ کتاب فاضل مصنف سید جاوید حسن کا قابل قدر اور لائق تحسین کارنامہ ہے جن کا شمار پاکستان کے مایہ ناز سفارت کاروں میں ہوتا ہے، وہ آج کل سنگاپور میں پاکستان کے سفیر ہیں اور اس سے قبل مختلف ممالک میں اپنی سفارتی ذمے داریاں ادا کرنے کے علاوہ عوامی جمہوریہ چین میں بطور سفارت کار تقریباً ایک عشرہ طویل عرصہ گزار چکے ہیں۔ اس کتاب کو اگر پاک چین دوستی کے حوالے سے ایک سنگ میل کہا جائے تو کوئی مبالغہ نہ ہوگا۔ اس کتاب کا انتساب بھی پاک چین دوستی سے ہی پیوستہ ہے۔


اور اب تذکرہ دو خوبصورت کتابوں کا جن کا تعلق ملک و قوم کے مشہور اور منفرد نشریاتی ادارہ ریڈیو پاکستان سے ہے۔ ریڈیو پاکستان میں گزارے گئے شب و روز پر مشتمل ''بازگشت'' درحقیقت ہمارے رفیق دیرینہ اور نامور براڈ کاسٹر سبط اصغر بلگرامی، سابق ڈپٹی کنٹرولر، ریڈیو پاکستان کی ریڈیو بیتی ہے۔ یہ دل کی گہرائیوں سے بلند ہونے والی ایک ایسی اثر انگیز صدا کی بازگشت ہے جو ہماری سماعتوں میں ہمیشہ رس گھولتی رہے گی۔ سبط اصغر بلگرامی اور اس خاکسار کے درمیان دو قدریں مشترک ہیں۔ اجڑا دیار، دلی اور اجڑا ہوا ادارہ ریڈیو پاکستان۔ جی ہاں وہی ریڈیو پاکستان جو قومی خدمات کے حوالے سے ایک درخشاں ماضی رکھتا ہے اور جو اپنے نامساعد حالات کے باوجود آج بھی اپنی بساط سے بڑھ کر ملک وقوم کی خدمت میں پیش پیش ہے۔ عزیز بلگرامی کا شمار ریڈیو پاکستان کے ان پروگرامر میں ہوتا ہے جنہوں نے ریڈیو پاکستان کے مختلف اسٹیشنوں پر اپنی خداداد صلاحیتوں کے جوہر دکھائے اور ہر جگہ محبتوں کی لافانی خوشبوئیں بکھیریں، بس وہ جہاں بھی گئے داستان چھوڑ آئے۔ اگرچہ ریڈیو پاکستان کے حوالے سے اور بھی کئی کتابیں اس سے قبل منظر عام پر آچکی ہیں، لیکن اس کتاب کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں محمودوایاز بلاامتیاز ایک ہی صف میں کھڑے ہوئے نظر آتے ہیں، اس میں نامی گرامی شخصیات کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کا تذکرہ بھی اسی خلوص کے ساتھ کیا گیا ہے جنہیں اس عظیم الشان ادارے کا گم نام سپاہی کہا جاسکتا ہے۔ مثلاً ابو سعید فاروقی جنہیں مرحوم کہتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ موصوف کو اگر ہر فن مولا کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا۔ میوزک لائبریری کے انچارج بھی، ڈیوٹی آفیسر بھی۔ حد سے زیادہ فرض شناس اور انتہائی ملنسار۔ موصوف ریڈیو پاکستان کی ایکسٹرنل سروسز کے روح رواں تھے۔ اس کے علاوہ دو اور کردار عبدالرحمن اور التجا حسین، نائب قاصد صاحبان جو اپنی خدمات و خصوصیات کی نسبت سے ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ اس لحاظ سے بلگرامی صاحب کی ''بازگشت'' کا موازنہ بابائے اردو مولوی عبدالحق کی مشہور کتاب ''چند ہمعصر'' سے کیا جاسکتا ہے جس میں بڑے بڑوں کے علاوہ ''نام دیومالی'' بھی شامل ہے۔ اس کتاب کی ایک اور نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اس میں زیب داستان سے گریز کرتے ہوئے حقائق نگاری کو ترجیح دی گئی ہے جس میں شخصیات کی عکس نگاری کے علاوہ پاکستان کے اس قدیم ترین اور عظیم ترین ادارے کے نشیب و فراز کی تصویر کشی بھی کی گئی ہے۔ اس کتاب کو اگر ریڈیو پاکستان کی سوانح حیات کہا جائے تو شاید غلط نہ ہوگا۔

اور اب ''ریڈیو پاکستان کراچی کی پچاس سالہ علمی اور ادبی خدمات'' کے عنوان سے شایع ہونے والی ایک اور خوبصورت کتاب کا تذکرہ جس کے مصنف ہیں ڈاکٹر محمد اقبال خان اسدیؔ۔ جو غالبؔ شناس ہی نہیں، غالب کے اس حد تک طرف دار بھی ہیں کہ اسی نسبت سے خود کو اسدیؔ کہلوانا بھی پسند کرتے ہیں۔ اقبال اسدیؔ نے یہ کتاب لکھ کر ریڈیو پاکستان کراچی سے اپنی 32 سالہ طویل وابستگی کا نہ صرف حق ادا کیا ہے بلکہ اپنے عظیم ادارے کا حق نمک بھی ادا کردیا ہے۔ انھوں نے یہ مقالہ ڈاکٹر اسلم فرخی کی نگرانی میں تیار کیا تھا جن کا نام نامی کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔

یہ کتاب اقبال اسدیؔ کی علم دوستی، ریڈیو پاکستان سے وابستگی اور تحقیقی عرق ریزی کا شاہکار ہے، یہ گراں قدر معلومات کا ایسا ذخیرہ ہے جس کی قدر و قیمت بیان سے باہر ہے۔ مصنف نے اس کتاب کی تیاری میں جس جاں فشانی اور لگن سے دن رات کام کیا اسے اگر کسی عابد کی ریاضت اور جوگی کی تپسیّا کہا جائے تو شاید بے جانہ ہوگا۔ اس محققانہ کتاب میں ریڈیو کی ایجاد سے لے کر اس کے ارتقاء تک کی تاریخ نہایت عمدہ اور دلچسپ پیرایہ میں بیان کی گئی ہے۔ اس کی ایک جہت علمی وادبی ہے تو دوسری جہت صحافت کا احاطہ کرتی ہے۔ اس کے علاوہ اس میں ریڈیو پاکستان کے مختلف پروگراموں کا ہی نہیں بلکہ ان میں شامل ہونے والے فنکاروں، شعراء اور ادباء کا بھی تذکرہ شامل ہے جس نے کتاب کی افادیت اور جاذبیت کو دوچند کردیا ہے۔بلاشبہ یہ ایسی مصدقہ دستاویز ہے جس سے صحافت کے طلباء اور صحافت کے پیشے سے وابستہ عامل صحافی بھی بھرپور استفادہ کرسکتے ہیں۔ فاضل مصنف کے لیے ہمارا مخلصانہ مشورہ ہے کہ آیندہ نظرثانی شدہ ایڈیشن میں ریڈیو پاکستان سے وابستہ مزید شخصیات کے اضافے اور ریڈیو پاکستان کے بعض دیگر شعبوں کے تذکرے سے وہ اس کتاب کی اہمیت و افادیت کو دوآتشہ کرسکتے ہیں۔ تاہم اس کتاب کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اسے ایک ایسے شخص نے تحریر کیا ہے جس کا نشریات کا شعبے سے براہ راست تعلق نہیں تھا۔ ڈاکٹر محمد اقبال خان اسدیؔ ایک سیلف میڈ انسان تھے۔ ریڈیو پاکستان کی ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد وہ آج کل تدریس کے پیشے سے وابستہ ہیں اور علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے لیے بھی گاہے بگاہے خدمات انجام دیتے رہتے ہیں۔

اختتام کالم ایک خوبصورت شعری مجموعے کا تذکرہ جس کا عنوان ہے ''کبھی سوچا تھا؟'' پہلے شعری مجموعے بعنوان ''پیار کا پہلا دن'' کی اشاعت کے بعد یہ ان کی دوسری شاعرانہ کاوش ہے جو حسب سابق اور حسب روایت غزلوں اور نظموں پر مشتمل ہے۔ 188 صفحات پر محیط اس شعری مجموعے میں ضیاء الرحمن ضیاءؔ کی 48 غزلیں اور 24 نظمیں شامل ہیں۔ ضیاء الرحمن ضیاءؔ کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ وہ ایک ادیب، شاعر، صحافی، کالم نگار، مرید اور مصنف کی حیثیت سے اچھی شہرت کے حامل ہیں اور آج کل ایک معروف ایڈورٹائزنگ کے ادارے کے ساتھ جنرل منیجر کے طور پر وابستہ ہیں۔ صلے اور ستائش کی تمنا سے بے نیاز ضیاءؔ ایسے تخلیق کار ہیں جو محض تسکین ذوق کی خاطر لکھتے ہیں۔ ان کے یہاں آمد ہے، آورد نہیں۔ اپنی افتاد طبع کے اعتبار سے وہ خالصتاً رومانوی شاعر ہیں۔ ان کی شاعری انفرادیت اور تازہ احساس کی ترجمان ہے۔
Load Next Story