ہم اور ہمارے سکھ دوست

قدرت کے ہاں دیر ہو سکتی ہے اندھیر نہیں ۔بھارت میں موجودہ واقعات کو دیکھ کر ایمان تازہ ہو جاتا ہے


Abdul Qadir Hassan September 07, 2017
[email protected]

سکھوں کے پانچ سو سال سے زائد پرانے مذہب کی عمر پر اگر آپ نظر دوڑائیں تو سکھوں نے اپنے مذہب کی پوری تاریخ کم وبیش مسلمانوں اور مسلمان حکمرانوں کے خلاف مسلح سر گرمیوں میں صرف کر دی اگرچہ انگریزوں کے دور میں سکھ بھی دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کی طرح غلامی کی زندگی بسر کرتے رہے لیکن آزادی ملتے ہی بلکہ آزادی کے اعلان کے ساتھ ہی انھوں نے مسلمانوں کے خلاف اپنی مسلح جدوجہد وہیں سے شروع کر دی جہاں سے انھیں انگریز راج کے قائم ہونے پر ختم کرنا پڑی تھی۔

جو لوگ آزادی کے فسادات میں مشرقی پنجاب سے گزر کر آئے تھے انھیں ''ست سری اکال'' کے نعرے کبھی بھول نہ سکیں گے۔ مسلمانوں کے بچوں ، عورتوں اور مردوں پر حملہ کرتے وقت اور انھیں تہہ تیغ کرنے اور ان کی آبرو لوٹنے کے لیے پہلے سکھ یہی نعرہ بلند کیا کرتے تھے اور اس طرح گویا وہ مسلمانوں سے انتقام لیا کرتے تھے ۔ سکھوں کی جانب سے آبروئیں لوٹنے کی تاریخ بھی ان کی طرح پرانی ہے اور وہ آج بھی اس پر کاربند نظر آتے ہیں ۔ ابھی چند دن پہلے ہی ان کے ایک گرو کی جانب سے بھی اسی قسم کی ایک واردات کا شہرہ رہا ہے جس کے منظر عام پر آنے کے بعد بھارت میں ہنگامے بھی ہوئے اور کئی لوگ جان سے بھی چلے گئے، اصل میں یہ وہ ذہنیت ہے جو کہ وقت کے ساتھ بدل نہیں سکی بلکہ اس میں مزید پختگی آئی ہے اور اب سکھ اپنے آزاد ملک میں آزادی کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے اس کو مزید جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن بے نقاب ہو رہے ہیں اور جب یہ معاملہ عدالت میںپہنچ گیا تو سکھ گرو زار و قطار رو رو کر معافی مانگنے لگا، یہ معافی وہ اپنے ان گناہوں کی مانگ رہاتھا جو کہ موجودہ حالات میں اس سے سرزد ہوئے تھے لیکن ان آبروؤں کی معافی کون مانگے گا جو کہ آزادی کے وقت لوٹی گئی تھیں اور ہماری ان گنت خواتین ان کے ظلم کا شکار بنیں اور زیادہ تر تو اس توہین کو برداشت نہ کرتے ہوئے جان سے بھی گزر گئیں۔

امرتسر کے دربار صاحب میں جو اکبر بادشاہ کی طرف سے سکھوں کو دی گئی جاگیر پر بنایا گیا ہے آج بھی آپ دیکھ سکتے ہیں کہ تصویروں کا ایک طویل سلسلہ آویزاں ہے جو سکھوںکو ان کے بقول مغل دور کے ''مظالم'' کی یاد دلاتا رہتا ہے اور سکھوں کو مسلمانوں کے خلاف ابھارتا رہتا ہے۔ آزادی کے بعد جب سکھوں کا آزاد اور حکمران ہندوؤں سے واسطہ پڑا اور مسلمانوں کی طرح ان کے ساتھ بھی بھارت کے حکمران ہندوؤں نے وہی سلوک کیا جو وہ ہر غیر مذہب حتیٰ کہ اپنے ہندوؤں کے نیچ ذات لوگوں کے ساتھ بھی کر رہے تھے اور کر رہے ہیں تو سکھوں کو کچھ ہوش آیا اور ان کی کرپان کا رخ مسلمانوں سے ہٹ کر ہندوؤں کی جانب ہو گیا اور انھیں اپنی نجات اس میں نظر آنے لگی کہ وہ بھارت سے علیحدہ ایک ملک بنائیں جہاں وہ مذہبی آزادی سے زندگی گزار سکیں ۔ اس سوچ کے بعد سکھوں نے آزاد خالصتان کا نعرہ لگایا کیونکہ وہ یہ دیکھ چکے تھے کہ مسلمانوں نے بھی ہندوؤں سے نجات کے لیے آزاد ملک پاکستان کی بنیاد رکھی اور وہ اس میں کامیاب بھی ہوگئے۔

ایک بڑے ملک کے چنگل سے نکل کر علیحدہ ملک بنانے کی تحریکیں صرف موثر بیرونی امداد سے ہی کامیاب ہوتی ہیں یا پھر اس بڑے ملک کے اندرونی انتشار اور کمزوریوں سے ان کو طاقت ملتی ہے اور بھارت میں یہ دونوں وجوہات اس وقت موجود نہیں ہیں اور سکھوں نے خالصتان کی جو تحریک شروع کی تھی وہ دم توڑ چکی ہے اور سکھوں کے خالصتان کے قیام کا بظاہر کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ ایک پاکستانی ہونے کے ناطے اب تک بھارت میں بسنے والی ان دونوں قوموں کے مابین جو کچھ ہوا ہے وہ یہ ہے کہ سکھ ہندوؤںکوپہچان گئے ہیں اور سکھ آج بھارت میں ایک بڑی اقلیت کے طور پر قیام پذیر ہیں اب جب بھی ان کی کرپان نکلے گی تو وہ ہندوؤں کے خلاف ہی نکلے گی کہ ان کی بقاء اسی میں ہے۔ ماضی میں بھارت کی ہندو حکومتوں نے ہندوؤں کو خوش کرنے کے لیے سکھوں اور مسلمانوں کے خفیہ اتحاد کا پراپیگنڈہ بھی خوب کیا اور دربار صاحب کی مشہور زمانہ شورش میں پاکستان کے ملوث ہونے کا الزام بھی لگایا۔

سکھوں کے مذہبی مقامات کا مرکز پاکستان ہے اور ہر سال دنیا بھر سے سکھ اپنی مذہبی رسومات کی ادائیگی کے لیے پاکستان کا رخ کرتے ہیں اور پاکستان کے مسلمان اپنی تاریخی فراخدلی کی وجہ سے سکھوں کو بھارت میں مظلوم دیکھ کر ان مظالم کو فراموش کر رہے ہیں اور دشمن کے دشمن کو اپنا دوست سمجھ رہے ہیں لیکن وہ واقعات کہاں جائیں گے جو مشرقی پنجاب سے ہجرت کر کے آنے والے مسلمان ہمیں سناتے چلے آئے ہیں اور ہم آج بھی اپنی نوجوان نسل کو یہ واقعات سناتے ہیں اور یہ دلخراش واقعات جن پر بیتے ہیں ان کی درد ناک داستانیں اتنی تلخ ہیں کہ آج سے ستر سال پہلے رونماء ہونے والے واقعات پر دل آج بھی خون کے آنسو روتا ہے کہ آزادی کی کتنی بڑی قیمت ہماری ماؤں بہنوں نے ادا کی جو کبھی فراموش نہیں کی جا سکتی۔

کہتے ہیں کہ قدرت کے ہاں دیر ہو سکتی ہے اندھیر نہیں ۔بھارت میں موجودہ واقعات کو دیکھ کر ایمان تازہ ہو جاتا ہے کہ ہمارے بڑوں نے سکھوں کے جو ظلم سہے تھے ان کا بدلہ سکھ اب پا رہے ہیں اور اپنے ملک میں ایک بڑی طاقت ہونے کے باوجود مظلوم بن چکے ہیں ۔ ہمیں بطور مسلمان ان سے ہمدردی ہے کہ بھارت کے ستم زدہ اور نسل کشی کا شکار مسلمانوں کا اب کوئی دوسرا ساتھی بھی بن گیا ہے اور اس تاریخی ظلم میں مسلمان اکیلے نہیں ہیں اگرچہ مسلمانوں کی مظلومیت کا کوئی حساب نہیں ہے اور یہ داستان بہت طویل ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں