مگر ہوچی منہ کہاں سے لائیں گے
میں چین کے بارے میں توکچھ نہیں کہوں گا کہ کچھ ممالک اور اقوام کے خلاف باتیں کرنا بعض دفعہ نقصان دہ بھی ہو سکتا ہے
جناب رضا ربانی صاحب چیئر مین سینیٹ!
جناب عالی! مودبانہ گزارش ہے کہ میں پچھلے کچھ عرصے سے امریکا کا صدر ہوں، مگر میری وجہ شہرت مختلف اسکینڈلز ہیں جن کی بدولت اگر میں امریکا کا صدر نہ بھی ہوتا تب بھی دنیا بھر میں اتنا ہی مشہور ہوتا جتنا امریکا کا صدر ہو سکتا ہے۔ دنیا بھر میں جنگ کو ہوا دینے، اسلحہ بیچنے کے لیے نت نئی منڈیاںتلاش کرنے، طاقتور ممالک کو جنوبی اور شمالی یا مشرقی اور مغربی حصوں میں تقسیم کرنے، مذہبی اور لسانی منافرت پھیلانے اور امداد کے بہانے غریب ممالک کو مقروض بنانے جیسے روایتی حربوں کی مصروفیت کے باوجود اگر میں آپ کو خط لکھ رہا ہوں تو اسے خط نہیں بلکہ تار سمجھیے گا۔
قابل احترام چیئر مین صاحب!
اتنی جلد بازی میں خط لکھنے کی وجہ یہ ہے کہ آپ نے چند دن قبل اپنے انتہائی سخت بیان میں ہمیں مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگرامریکہ نے ہمارے ملک میں اپنی فوجیں بھیجیں تو یہ دھرتی ویت نام اورکمبوڈیاکی طرح ان کا قبرستان بن جائے گی۔ میرے پیارے قانون دان! پاکستان کی کسی ذمے دار سیاسی شخصیت کی جانب سے دی جانے والی یہ دھمکی اس لیے قابل غور ہے کہ ہماری یاری کو اب پون صدی ہونے کو ہے، مگر آج تک آپ کے کسی ہم منصب،قومی اسمبلی کے ممبر، وزیر اعظم،اسپیکریا کسی سرکاری ادارے کے سربراہ کے منہ سے ہم نے اتنی تلخ بات نہیں سنی۔
جناب عالی!
تاریخ بتاتی ہے کہ داخلی طور پر بہت سارے گروہ،عوامی نمایندے اور بائیں بازو کی سیاسی پارٹیوں سے جڑے کچھ دانشور ماضی میں بھی ہمارے خلاف سخت بیان دینے کے ساتھ آپ کی تمام حکومتوں کو ہماری سیاسی چال بازیوں اور مختلف ممالک میں آزادی کی تحریکوں کو کچلنے کے علاوہ عراق، لیبیا اور افغانستان میں ہمارے ہاتھوں ہونے والی تباہ کاریوںکے بارے میں بھی آگاہ کرتے رہے، مگر آپ نے ان کی باتیں ایک کان سے سنیں اور دوسرے سے نکال دیںجو انتہائی قابل تحسین عمل تھا۔
آپ کے ملک میں جب بھی کوئی نئی حکومت آئی اس کے سربراہ نے ہماری قدم بوسی کے لیے سب سے پہلے ہمارے ملک کا ہی دورہ کیا اور ہم نے اسے اگلی ڈھائی، تین یا چار سالہ مدت (جو بھی ہم نے طے کی)کے لیے جو منصوبہ دیا اس نے اس منصوبے کو انتہائی سعادت مندی کے ساتھ پورا کیا، لیکن کچھ عرصے سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ آپ نے ہم سے آنکھیں پھیرنا شروع کر دی ہیں۔ ہمیں آپ کا یہ انداز دیکھ کر جہاں دکھ ہوا وہاں یہ سوچ کرتکلیف بھی ہوئی کہ آپ اپنے اہل کتاب بھائیوں کا دامن چھوڑ کران کمیونسٹوں اورکافروں کے ساتھ پینگیں بڑھانے لگے ہیں جنھیں تباہ کرنے کے لیے ماضی میں ہمارا اور آپ کا مشترکہ معاہدہ طے پایا تھا۔اس معاہدے سے ہمیں جومالی، جانی اور آپ کوجو مذہبی، ثقافتی، سیاسی اور علاقائی نقصان ہوا ہم دونوں اسے تسلیم تو نہیں کرتے اور نہ کریں گے، مگر دنیا کے منہ پر کون ہاتھ رکھ سکتا ہے۔
میرے قابل احترام رضا ربانی صاحب!
میں چین کے بارے میں توکچھ نہیں کہوں گا کہ کچھ ممالک اور اقوام کے خلاف باتیں کرنا بعض دفعہ نقصان دہ بھی ہو سکتا ہے، مگر روس، روسی قوم، ان کے صدر اور ان کے نظام حکومت کے بارے میں یہ ضرور کہوں گا کہ وہ انتہائی عجیب ملک ہے جہاں ایک ظالم قوم آباد ہے اور ایک خطرناک صدر ان پر حکومت کر رہا ہے۔ آپ تو جانتے ہی ہیں کہ ہم نے اس قوم، نظام، زبان اور عوام کے خلاف اربوں روپوں کی تشہیری مہم چلائی اور اس کے ذریعے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ اس نظام کو ماننے والے دہریے ہیں، مگر انتہائی دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ اب آپ نے چین کے بعد روس کے ساتھ بھی دوستی کی پینگیں بڑھانا شروع کر دی ہیں۔ اس میں ذرہ برابر شک نہیں کہ اگر صدر پیوٹن میرا ساتھ نہ دیتا تو آج میری جگہ ہیری کلنٹن آپ کو خط لکھ کر دھمکیوں کے بجائے نیک تمناؤں کا اظہارکر رہی ہوتی مگر ہر چیزکی ایک حد ہوتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اب آپ اپنے ملک کو ہمارے فوجیوں کا قبرستان بنانا شروع کردیں، مگر یہاں قبرستان بنانے کا کام تو آپ کی حکومتیں ہمارے ساتھ مل کر بہت پہلے سے کرتی چلی آ رہی ہیں۔ کیا آپ کو اپنے دیہاتوں میں گھومتے پھرتے وہ زندہ لاشے دکھائی نہیں دیتے جن میں شامل کسی بے بس کو مخاطب کرتے ہوئے ایک کمیونسٹ شاعر فیض احمد فیضؔ نے کہا تھا
جس کے ڈھوروں کو ظالم ہنکا لے گئے
جس کی بیٹی کو ڈاکو اٹھا لے گئے
ہاتھ بھر کھیت سے ایک انگشت پٹوار نے کاٹ لی
دوسری مالیے کے بہانے سے سرکار نے کاٹ لی
جس کی پگ زور والوں کے پاؤں تلے
دھجیاں ہو گئی
جناب رضا ربانی!
کسی بھی ملک میں ہمارے فوجیوں کا قبرستان بنانے کے لیے وہاں پر ایک قوم کا ہونا اور پھر اس قوم کا خود دار ہونا بھی ضروری ہے۔آپ نے ہمارا قبرستان بنانے کے لیے جس ملک یعنی ویت نام کا حوالہ دیا ہے اسے زیر کرنے کے لیے پہلے تو فرانس نے بھر پور کوشش کی، مگر اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ پھرہم نے اپنی عادت سے مجبور ہو کر اسے شمالی اور جنوبی حصوں میں تقسیم کیا، عوام میں پھوٹ ڈالنے کی کوشش کی، لاکھوں شہریوں کو قتل اور زخمی کیا، مگر اس کے باوجود اس قوم نے ہمیں ناکوں چنے چبوائے اور آخر کارہمیں ذلیل و خوار ہو کر بے سر وسامانی کے عالم میں وہاں سے بلا مشروط کوچ کرنا پڑا۔ ہماری شکست کی ذمے دار جہاں پوری ویت نامی قوم ہے وہاں اس قوم کو ہمارے ظلم و ستم سے نجات کا راستا دکھانے والا ایک ان تھک رہ نما ہوچی منہ بھی اس میں برابر کا شریک تھا۔ ہمیں شکست دینے کے لیے آپ کے پاس جو قوم موجود ہے وہ کسی طرح بھی کسی بہترین قوم سے کم نہیں، مگر ہم نے اسے عقیدے، رنگ و نسل اور فرقوں کی بنیادپر انتہائی خوب صورتی سے تقسیم کر رکھا ہے۔ ہمارا قبرستان بنانے کے لیے جہاں اس قوم کا متحد ہونا ضروری ہے وہاں آپ کو ہوچی منہ جیسا ایک لیڈر بھی توچاہیے ہو گا۔ کیا آپ کی کسی سیاسی جماعت میں ایسا کوئی لیڈر موجود ہے؟